نتھیا گلی کا دانتے اور نیو یارک کی نتاشہ

governors-lodge-at-nathiagali-khyber-pakhtunkhwa-pakistan

نتاشہ نیویارک یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھاتی تھی اورگرمیوں کی چھٹیاں گزارنے پاکستان آی ہوئی تھی. ماں باپ تو کب کے انتقال کر چکے تھے. بس خونی رشتوں کے نام پر ایک خالہ تھی جوراولپنڈی میں رہتی تھی. خالہ بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ تھی. اولاد تھی نہیں بس کالج کی بچیوں کو اپنا سمجھ کر پڑھاتی تھی. میاں سرکاری ہسپتال میں امراض قلب کے شعبے کے انچارج تھے. پاکستان کے چوٹی کے ماہرین میں شمار ہوتا تھا اور خوب پریکٹس چلتی تھی. کھاتے پیتے لوگ تھے لیکن دولت جمع کرنے سے زیادہ غریبوں کی خدمت پر زیادہ یقین رکھتے تھے. نتاشہ کو ہمیشہ ان دونوں سے ملنے سے ایک عجیب سی خوشی ملتی تھی 

وہ تقریباً اٹھتیس کی ہو چلی تھی مگر شادی ابھی تک نا ہوئی تھی. یہ بات ہرگز نہیں تھی کے شکل و صورت میں کوئی کمی تھی. اونچا لمبا قد، گورا مائل گندمی رنگ، لمبے سیاہی مائل گھنے بھورے بال جو زیادہ تر ایک اونچے جوڑے کی صورت میں سر کے اوپر جمے رہتے تھے، گہری کالی آنکھیں جو دیکھنے والوں کو ایسے کھینچتی تھیں جیسے لوہے کو مقناطیس، متناسب جسم اور باوقار چال.
میک اپ کی شوقین بالکل نہیں تھی مگر لباس اور زیورات کے معاملے میں ایک الگ ہی ذوق رکھتی تھی. عموماً گہرے رنگ کے مشرقی لباس پسند کرتی تھی: کالی اماوس کی رات کی طرح کالے، سمندروں کے گہرے پانیوں کی طرح نیلے، خط استواء کے پراسرار جنگلوں کی طرح سبز یا پھر دہکتے انگارہ ہوتے جذبات کی طرح سرخ. کس دن اور کس وقت کیا پہننا ہے، جذبات اور موڈ پر منحصرتھا. لیکن لباس دیکھنے میں سادے ہونے کے باوجود ہرگز سادے نا ہوتے تھے. غور سے دیکھنے پر پتا چلتا تھا کے ہر لباس باریک جالے کی طرح نقوش سے مذین ہے. کہیں چینی اژدہے بل کھاتے نظر آتے تو کہیں کسی قدیم متروک اور گم گشتہ زبان میں کچھ لکھا نظر آتا. کہیں مستطیل اور دائرے ہوتے تو کہیں لیونارڈو ڈاونچی کی بنائی اناٹومی کی ڈرائنگ. جانے کہاں سے ڈھونڈ کر لے آتی تھی مگر جو پہنتی تھی، سب سے الگ ہی ہوتا تھا

زیورات کے معاملے میں بھی یہ ہی حال تھا. عموماً کم پہنتی تھی. لیکن کانوں اور گلے میں ضرور کچھ نا کچھ لٹکا ہوتا تھا. کپڑوں کی طرح زیورات کا بھی قیمتی ہونا ضروری نہیں تھا مگر منفرد ہونا لازمی تھا. زیادہ تر چاندی اور ہاتھی دانت سے بنے مصری زیورات پسند کرتی تھی 

خدا پر یقین ضرور رکھتی تھی مگر روایتی مذہب سے کوئی دلچسپی وابستہ نہیں تھی. اور خدا کے بارے میں بھی عجیب و غریب نظریات رکھتی تھی جو پہلی دفعہ سننے میں انوکھے مگر غور کرنے پر نہایت پر عقل اور مناسب معلوم پڑتے تھے. فلسفے کو پتھر پر لکیر نہیں بلکہ قابل بحث سمجھتی تھی. شاید یہ ہی وجہ تھی کے اپنے طالبعلموں کی پسندیدہ پروفیسر تھی

شادی نا کرنے کی کوئی خاص وجہ تو نہ بتاتی تھی مگر شاید ابھی تک کوئی دل کو بھایا ہی نہیں تھا. عام مرد اس کو چچھورے لگتے تھے اور زہین مردوں کو ضرورت سے زیادہ مغرور گردانتی تھی. جانے کتنوں نے قریب ہونے کی کوشسش کی مگر منہ کی کھا کر پیچھے ہٹ گئے. اور دلچسپی کی بات یہ تھی کے ان میں پاکستانی مرد بہت کم اور غیر ملکی زیادہ شامل ہوتے تھے. زیادہ تر پاکستانی مرد تو اس کی بے پناہ خود اعتمادی سے ڈر جاتے تھے اور باقی اس کے علم اور ذہنی پختگی سے گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتے تھے. ہاں دوستوں کی کمی نہیں تھی مگران میں سے بھی کوئی ایک خاص حد سے زیادہ قریب آنے کی جرات نہیں کرتا تھا

پاکستان کبھی کبھی ہی آتی تھی. اس دفعہ جائداد کے کچھ مقدمات تھے جن کا حل اس کے واپس آے بغیر ممکن نہیں تھا. پھر خالہ خالو کی شکل دیکھے بغیربھی اک لمبا عرصہ گزر چکا تھا. لیکن جب مقدمات حل ہو گئے اور خالہ خالو سے گپ شپ کرتے بھی دل اکتا گیا تو سمجھ نہیں آتا تھا کے کیا کرے. یوں منہ اٹھا کرغیروں کی طرح واپس امریکا جانے کا بھی دل نہیں کرتا تھا کے خالہ کیا کہیں گی. گرمی بھی اسقدر زیادہ تھی کے سانس سینے میں الجھ کررہ جاتا تھا. آخر کار جب بوریت اور گرمی موڈ پر برے طریقے سے سوار ہونے لگی تو ایک دن بیگ میں دو چار جوڑے ڈالے، خالو کی پرانی رولزرائس فینٹم پکڑی، بوڑھے ڈرائیورکو ساتھ لیا اور مری کی طرف چل پڑی
ایکسپریس وے تک تو معاملات ٹھیک رہے مگر مری کی طرف چڑھتے ہی اپنی غلطی کا اندازہ ہوگیا. گاڑیوں کی ایک لمبی قطار تھی جو ہر پانچ منٹ کے بعد کچھ فٹ اگے رینگ کر رک جاتی تھی. کہیں کوئی گاڑی ڈھلوان کی وجہ سے گرم ہو کر رک جاتی اور پیچھے آنے والوں کا راستہ روک لیتی تو کہیں معمولی ٹکّرکے باعث لوگ گاڑیوں سے اتر کر جھگڑپڑتے. ایک عجیب طوفان بدتمیزی برپا تھا. وہ تو خوشقسمتی سے گاڑی سے مرعوب ہوکر ٹریفک وارڈنوں نے گاڑی مری کے رش سےنکال دی ورنہ شاید شام اسی رش میں ہوجاتی

.ولسن بابا! گاڑی واپس پنڈی لے چلو. اس رش سے میرا دل گھبرا گیا ہے.’ نتاشہ نے بوڑھے ڈرائیور سے مخاطب ہو کر کہا’
بیٹے مری کی طرف سے تو واپسی ممکن نہیں ہے. ایبٹ آباد کی طرف سے واپس جاتے بہت دیر ہوجاے گی. ایسا کرتے ہیں، میں گاڑی بھوربن لئے چلتا ہوں. وہاں بڑا ہوٹل ہے. تم وہاں رات ٹھہر جانا. کل صبح دل کرے گا تو واپس لے چلوں گا.’ ڈرائیورنے کچھ سوچتے ہوے کہا اور نتاشہ کے اثبات میں سر ہلانے پر گاڑی بھوربن کی طرف موڑ دی

شومئی قسمت کے بھوربن کے راستے کا بھی ٹریفک کی زیادتی کی وجہ سے برا حال تھا
ولسن بابا! آپ ایبٹ آباد کی طرف چلیں. دیرہوگئ تو دیکھی جائے گی.’ نتاشہ نے تنگ آ کرڈرائیور سے کہا اور سر نشست کی پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں

گاڑی کب اور کیسے جھیکا گلی اور ڈونگا گلی سے ہوتی نتھیا گلی پہنچ گئ، پتا ہی نہیں چلا
.بیٹی! نتاشہ بیٹی! اٹھو.’ بوڑھے ڈرائیورنے مڑکر نتاشہ کو آواز دی تو وہ اٹھ گئ’
.کیا ہوا بابا؟ کہاں پہنچے ہیں؟’ نتاشہ نے آنکھیں ملتے ہوئے پوچھا’
نتھیا گلی آ گیا ہے اور آگے ایبٹ آباد کا راستہ لینڈ سلائیڈ کی وجہ سے بند ہے. مجبوری ہے، رات نتھیا گلی میں ہی گزارنی پڑے گی.’ ڈرائیور نے ڈرتے ڈرتے اسے آگاہ کیا 

نتاشہ نے کھڑکی سے باہر نظر کی تو منظر بالکل بدلا پایا. موسلا دھار بارش ہورہی تھی. پورا ماحول دھندلا ہوا پڑا تھا. کچھ غنوندگی، کچھ ماحول کی خوبصورتی اور کچھ شاید نتاشہ کی بارش سے محبت. سب نے مل جل کرنتاشہ کی طبیعت بہلا دی
.کوئی بات نہیں ولسن بابا. کوئی اچھا سا ہوٹل ڈھونڈ لیں پھر.’ نتاشہ نے بال سمیٹ کرجوڑا بناتے ہوئے کہا’
یہاں قریب ہی ڈاکٹر صاحب کے ایک دوست کا ہوٹل ہے. چھوٹا سا ہے مگرجب میں پانچ سال قبل ڈاکٹر صاحب اور بیگم صاحبہ کو لے کر یہاں آیا تو وہ وہیں ٹھہرے تھے.’ ولسن نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا
.ٹھیک ہے وہیں لے چلیں’. نتاشہ نے رضامندی ظاہر کی اور پھر سے ماحول کا جائزہ لینے لگی’ 

ڈرائیور نے گاڑی گھمائ اور نتھیا گلی کے خوبصورت گرجے کے سامنے سے ہوتا ایک چھوٹی سی بغلی سڑک پر مڑ گیا. کچھ دور سفرکرنے کے بعد گاڑی چیڑ کے قد آور درختوں کے درمیان گھومتی گھماتی، ایک پہاڑ کے دامن میں ایک دو منزلہ لکڑی سے بنی سیاہ مائل عمارت کے سامنے آ کررک گئ

گاڑی سےباہرقدم نکالا تو نتاشہ کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئ. عجیب پراسرار اور حسین جگہ تھی. پیچھے کا پہاڑگھنے سبز درختوں سے ڈھکا پڑا تھا اور اس کی چوٹی کالے سرمئی بادلوں میں گھرے ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آ رہی تھی. ارد گرد اور کوئی عمارت یا آبادی نظر نہیں آ رہی تھی. ہوٹل گورے کے وقتوں کا بنا تھا. پورے کا پورا لکڑی سے تعمیر شدہ تھا. نیچے اور اوپر، دونوں منزلوں پر کمروں کے دروازے تھے اور سامنے ایک کونے سے دوسرے تک لکڑی کے ستونوں والے برآمدے. لکڑی پرانی ہونے کے سبب سیاہ پڑچکی تھی مگر سب کچھ صاف ستھرا تھا. لیکن کوئی زی روح دکھ نہیں اور اوپرچھت پر ایک چمنی سے دھواں اٹھ رہا تھا.  نتاشہ کو بالکل ایسا لگا جیسے وہ ٹالکین کے لکھے لارڈ آف دی رنگز کی بونوں کی دنیا میں پہنچ گئ ہو. وہ ہی حسین و پراسرار ماحول

اچانک نتاشہ کو احساس ہوا کے فضاء میں ایک عجیب سی اداس موسیقی کی لہریں بکھری پڑی تھیں. عجیب دل کھینچ لینے والی لے تھی. بربط اور شہنائی کی ملی جلی لے. کبھی وائلن کے دکھی سرسنائی دیتے تھے تو کبھی پیانو کے. نا چاہتے ہوئے بھی نتاشہ کی آنکھوں سے آنسوبہنا شروع ہوگے 
.کیا ہوا بیٹی؟’ بوڑھے ڈرائیور نے نتاشہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر پریشان ہوتے ہوے پوچھا’
کچھ نہیں بابا. آپ گاڑی سے سامان نکالیں. میں ہوٹل کے عملے میں سے کسی کو ڈھونڈتی ہوں.’ نتاشہ نے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے آنسو پونچھے اور ہوٹل کی سمت چل پڑی

چونکے موسیقی کی آواز اوپری منزل سے آتی سنائی دے رہی تھی تو نتاشہ کے قدم بھی نچلے برآمدے کے کونے میں واقع لکڑی کی سالخوردہ سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئے. اوپر کے برآمدے میں صرف درمیان کا ایک دروازہ کھلا تھا. موسیقی کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی 

دروازے کی دہلیز پر رکتے نتاشہ نے کمرے میں جھانکا تو یوں لگا جیسے دہلیز کے پار نہیں بلکہ وقت کی سرحدوں کے آر پار جھانک رہی ہے. بڑا سا اور کشادہ ہال کمرہ تھا. چھت لکڑی کے تختوں سے بنی تھی اور اونچا ہونے اور کمرے کے ملگجے ماحول کے سبب ٹھیک طرح سے دکھائی نا دے رہی تھی. دیواروں پر کہیں مخملی پردے اور کہیں روغنی تصاویر لٹک رہی تھیں. تصاویر کے رنگوں اور فریموں کے بھاری پن اور خوبصورتی سے نتاشہ نے اندازہ لگایا کے اصلی آئل پینٹنگز تھیں اور یورپین مصوروں کی بنائی تھیں. ایک طرف آتشدان میں آگ بھڑک رہی تھی اور اس کے زرد شعلے موسیقی کے سروں کے ساتھ بلند ہوتے اور گرتے محسوس ہورہے تھے. موسیقی کا ماخذ ایک چھوٹی سی آبنوسی تپائی پر رکھا گراموفون تھا جس کا پیتل سے بنا بھونپوایسےچمک رہا تھا جیسے کل ہی خریدا گیا ہو. چمڑے کے کچھ پرانے صوفے تھے جن کے درمیان لکڑی کے فرش پر ہاتھ سے بنا ایک افغانی قالین بچھا تھا. کمرے میں اور بھی لکڑی کی بیشمار تپائیاں لگی رکھی تھیں جن کے اوپر شیشے اور دھات سے بنی عجیب و غریب اشیاء پڑی تھیں. کمرہ کیا تھا، عجائب گھر تھا پورا 

سامنے ایک بہت وسیع و عریض کھڑکی تھی جس میں سے سامنے کا پہاڑ دکھائی دے رہا تھا. اور کھڑکی کے سامنے، نتاشہ کی جانب پشت کئے کمرے کا واحد مکین کھڑا تھا. درمیانہ قد، شانوں تک بکھرے لمبے سیاہ بال جن میں جگہ جگہ چاندی جھلک رہی تھی. اس نے کھلی آستینوں والا ایک ریشمی سنہرا گاؤن پہن رکھا تھا جس پر جگہ جگہ سرخ ڈریگن پر پھیلاے کشیدہ تھے. دونوں بازو دائیں اور بایئں پھیلے ہوئے تھے اور اوپر نیچے ایسے حرکت کر رہے تھے جیسے وہ گراموفون پربجتے آرکسٹرا کا کنڈکٹر ہو. ایک ہاتھ میں ایک چھوٹی سی سیاہ چھڑی تھی اور دوسرے ہاتھ میں ایک جلتا ہوا تمباکو نوشی کا پائپ تھا جس میں سے اٹھتے دھویں کے مرغولے ہاتھوں کی مستقل جنبش کے بائث بکھرتے چلے جا رہے تھے. پورے کمرے میں اعلی قسم کے تمباکو کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی. تھوڑی دیر غور سے دیکھتی رہی تو نتاشہ کو یوں لگنے لگا کے جیسے آرکسٹرا اسی کے بازوؤں اور ہاتھوں کی جنبش سے ہدایت لیتا بج رہا ہو 

نتاشہ نے کمرے کے مکین کو متوجوہ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور ریکارڈ ختم ہونے کا انتظار کرنے لگی. تقریباً پانچ سات منٹ میں ریکارڈ ختم ہوگیا. مکین نے پائپ کا ایک گہرا کش لگایا اور ریکارڈ تبدیل کرنے کے لئے مڑا ہی تھا کے اسکی نظر نتاشہ پر پڑی. عام سے نقوش والا تقریباً پینتالیس سال کا ادمی تھا. کلین شیو تھا. پوری شخصیت میں اگر کوئی متاثر کن چیز تھی تو اس کی آنکھیں. گہری کالی آنکھیں جن میں بہت گہرائی میں کہیں کوئی موہوم سی مسکراہٹ پوشیدہ تھی. بھنویں قدرتی تھیں مگر بناوٹ اتنی تیکھی تھی کے جیسے بنائی گئ ہوں. ہونٹوں کی بناوٹ اداسی کی نشاندہی کر رہی تھی اور آنکھوں اور پیشانی پر لکیریں تجربے کا غماز تھیں. اس نے استفساریہ نگاہوں سے نتاشہ کی طرف دیکھا اور ہلکا سا کھنکھارا تو نتاشہ گویا ہوش و حواس کی دنیا میں واپس آ گئ

یہ آپ کیا سن رہے تھے؟’ نتاشہ کے منہ سے سوال نکلا تو وہ خود ہی پوچھ کر شرمندہ ہوگئ. نا تعارف نا اتا پتا. یہ بھی بھلا اس وقت کوئی پوچھنے کی بات تھی

.چیکووسکی کا کمپوز کیا گیا سوان لیک ہے. آپ کو پسند آیا؟’ آنکھوں میں چھپی مسکراہٹ اس اجنبی کے لبوں تک ان پہنچی تھی

.جی بہت خوبصورت ہے. مگر بہت اداس کر دینے والا.’ نتاشہ نے اپنی شرمندگی پر قابوپاتے ہوے کہا’

محبت کی کہانیاں ہمیشہ اداس ہوتی ہیں. یہ ایک شہزادی کی کہانی ہے جس کو ایک جادوگر ہنس میں تبدیل کر دیتا ہے اور وہ صرف سورج ڈھلنے سے طلوع ہونے تک انسان کے روپ میں رہ سکتی ہے. دوبارہ انسان کے روپ میں آنے کے لئے ضروری ہے کے اس سے ایک انسان سچی محبت کرے. آخر ایک شہزادےکو اس سے محبت ہوجاتی ہے لیکن پھر وہ دغا کر جاتا ہے.’ اس نے پائپ کا ایک گہرا کش لے کر دھویں کا ایک مرغولا ہوا میں چھوڑتے ہوئے جواب دیا 
. محبت کی کہانیاں ہمیشہ اداس کیوں ہوتی ہیں؟’ نتاشہ نے دلچسپی سے پوچھا’
دیکھئے محبت کی شدّت کا ادراک انسان کو زیادہ تر اس وقت ہوتا ہے جب وہ محبت کھو بیٹھتا ہے. پچھتاوا محبت کو اداس کر دیتا ہے.’ اس نے پائپ کی راکھ ایک طرف احتیاط سے جھاڑتے ہوئے کہا اور پھر اچانک یوں چونک کرنتاشہ کی طرف دیکھا کے جیسے پہلی دفعہ دیکھ رہا ہو
.معاف کیجیے گا. میں نے اپنا تعارف نہیں کرایا. مجھے دانتے کہتے ہیں اور یہ میرا چھوٹا سا مہمان خانہ ہے’ 

دانتے؟ ڈیواین کامیڈی والا دانتے؟’ نتاشہ نے بالوں کی لٹ کان کے پیچھے اڑستے ہوئے پوچھا اور پھر اس کے اثبات میں سر ہلانے پر بےاختیار بولی
‘عجیب نام ہے. میں نے کبھی کسی پاکستانی کا نام دانتے نہیں سنا’
دانتے ہلکے سے مسکرایا تونتاشہ شرمندہ سی ہوگئ
‘معاف کیجیے گا، میں کچھ بےتکلفی سے بول گئ’
جی بالکل معذرت کی ضرورت نہیں ہے. میرا اصل نام ارسلان ہے. لیکن مجھے کالج کے زمانے سے ہی دانتے سے اور اسکی جہنم سے بیحد دلچسپی ہے. دوست احباب نے مزاق سے دانتے کہنا شروع کیا تو نام ہی یہ پڑ گیا. اب ارسلان کیہ کر کوئی نہیں بلاتا. سب دوست دانتے کہتے ہیں.’ دانتے کی مسکراہٹ بدستور قائم تھی 

.اور آپ کو آپ کے دوست کیا کہ کر بلاتے ہیں؟’ دانتے نے پوچھا تو نتاشہ مزید شرمندہ ہوگئ’
میرا نام نتاشہ ہے اور میں ڈاکٹر صدیقی کی بھانجی ہوں. نیو یارک یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھاتی ہوں. سیر کیلئے نکلی تھی لیکن راستہ بند ہونے کی وجہ سے نتھیا گلی میں رکنا پڑا.’ وہ بغیر رکے بولتی چلی گئ 
بہت اچھا کیا آپ نے کے رک گیئں. خوش آمدید!’ دانتے نے ہاتھ مصاہفے کیلئے بڑھایا تو نتاشہ نے اس کے ہاتھ میں بلا جھجک ہاتھ تھما دیا. اس نے محسوس کر لیا تھا کے دانتے ان چند خالصتا گرم جوش لوگوں میں شامل تھا جن کی ذات سردیوں میں چمکتے سورج کی طرح حرارت دیتی ہے.

آئیے میں آپ کو کمرہ دکھا دوں. پسند نا آے تو کوئی اور دیکھ لیجئے. سب خالی ہیں.’ دانتے نے سیڑھیوں کی جانب بڑھتے اور اس کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا 
سب خالی کیوں؟ اتنا خوبصورت ہوٹل ہے آپ کا. اس موسم میں تو کھچا کھچ بھرا ہونا چاہیے.’ نتاشہ نے دانتے کےپیچھے پیچھے سیڑھیاں اترتے پوچھا
ارے ہوٹل نہیں ہے یہ نتاشہ. مہمان خانہ ہے. یہاں صرف وہ لوگ ٹھہرتے ہیں جو مجھے پسند ہوتے ہیں.’ دانتے نے اشارے سے دور گیٹ پڑ کھڑے ولسن بابا کو گاڑی اندر لانے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا 
.آپ اپنے پسندیدہ لوگوں سے کرایہ کیسے لیتے ہیں؟’ نتاشہ نے شرارت سے پوچھا’
.نہیں لیتا. پسندیدگی کے مشروب میں مادیّت ملا دی جائے تو ترش ہوجاتا ہے.’ دانتے نے ایک کمرے کا تالا کھولتے ہوئے کہا’ 
.پھر ہوٹل بلکہ مہمان خانہ کیسے چلتا ہے؟’ نتاشہ نے حیرت سے پوچھا’ 
میری کافی جائداد ہے. اس سے بہت آمدنی ہوجاتی ہے. یہ جگہ میں گرمیوں میں رہائش کیلئے استعمال کرتا ہوں.’ تالا شاید جام ہوچکا تھا جو آسانی سے نہیں کھل رہا تھا 
اور سردیوں میں کہاں جاتے ہیں؟’ نتاشہ کو اپنے تجسّس پر غصّہ بھی چڑھ رہا تھا لیکن دانتے کی شخصیت اسقدر دلچسپ تھی کے پوچھے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں تھا 

پہلے تو سردیوں میں ایک خانہ بدوشوں کے قبیلے کے ساتھ سفر کرتا تھا. اس کا مکھیا میرا بہت پرانا دوست ہے. اچھا وقت گزر جاتا تھا. لیکن اب چند سالوں سے میں ایک سرکس کے ساتھ پھرتا رہتا ہوں.’ تالا اب بھی کھلنے پر راضی نہیں تھا
.خانہ بدوش؟ سرکس؟ یا خدا یہ کس قسم کا انسان ہے؟’ نتاشہ نے دل ہی دل میں سوچا اور پھر پوچھ ہی بیٹھی’
‘سرکس کے ساتھ آپ کیا کرتے ہیں؟’
جی میں موت کے کنویں میں موٹرسائکل چلاتا ہوں.’ دانتے نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا مگر پھر نتاشہ کا منہ حیرت سے کھلا دیکھ کر سنجیدگی قائم نا رکھ سکا اور ہنس پڑا
میں مزاق کر رہا تھا. میں سرکس والوں کی زندگی پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں. لہذا ریسرچ کی نیت سے ان کے ساتھ ساتھ پھرتا رہتا ہوں’

تالا بھی کھل گیا اور ولسن بھی سامان لیکر پوھنچ گیا. نتاشہ دانتے کے پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوئی. صاف ستھرا اور پرتعیّش کمرہ تھا اور معیار میں کسی بھی فائیو سٹار ہوٹل سے کم نہیں تھا. دیواریں اور چھت بالکل دانتے کے کمرے جیسے تھے. لکڑی سے بنے اور تصویروں سے سجے. ایک کونے میں چمڑے کا صوفہ کچھ آرائشی میزوں کے ساتھ رکھا تھا اور دوسرے کونے میں پرانے زمانے کا چار ستونوں والا اور جالی نما نفیس کپڑے کی چھولداری میں چھپا وکٹورین عہد کا پلنگ تھا. ایک جانب کھلے دروازے سے غسل خانہ نظر آ رہا تھا اور جتنا دکھائی دے رہا تھا، صاف معلوم پڑتا تھا کے جدید دور کی تمام آسائشیں موجود ہیں.

معاف کیجئے گا نتاشہ، کمرہ کچھ ٹھنڈا ہے. میں آتش دان میں آگ جلاے دیتا ہوں. ابھی کچھ ہی دیر میں گرم ہوجاے گا.’ نتاشہ کو اپنے کندھوں کے گرد شال درست کرتے دیکھ کر دانتے نے کا اور آتش دان کی طرف بڑھ گیا
تھوڑی دیر ہی میں کمرہ گرم ہوگیا. دانتے نے نتاشہ کا سامان اٹھا کر ایک طرف رکھنا شروع کیا تو وہ چونک گئ
‘ارے آپ تکلیف نا کریں. کوئی ملازم نہیں ہے؟’
جی بالکل ہے. بازار تک گیا ہے. آتا ہی ہوگا. آپ منہ ہاتھ دھو لیجئے. تب تک میں چاے کا انتظام کراتا ہوں.’ دانتے نے ولسن کو پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور اسے لیکر کمرے سے نکل گیا 

نتاشہ غسل خانے سے باہر نکلی تو شیشے کی خوبصورت کیتلی میں چاے تیار تھی. چاے کا خوبصورت سنہرا رنگ اور شیشے کی ہی نازک پیالی دیکھ کر اس کا دودھ ملانے کا دل نہیں چاہا. کوئی انوکھی پتی تھی. پہلا گھونٹ بھرتے ہی پورا وجود خوشبو اور سرشاری سے بھر گیا. چاے پی کر دو منٹ بستر پر پاؤں سیدھے کرنے لگی تو کب آنکھ لگ گئ، خبر نا ہوئی

آنکھ کھلی تو رات کے گیارہ بج چکے تھے اور بھوک کے مارے برا حال تھا. نتاشہ کو خیال آیا کےصبح معمولی سے ناشتے کے بعد سے لیکر صرف چاے کا ایک کپ ہی تو پیا تھا. کندھوں پر شال اوڑھ کرباہر نکلی تو دروازے کے سامنے ہی ایک بوڑھے شخص کو کرسی ڈالے بیٹھا دیکھا. چوہتر پچہتر کا سن، چاندی بالوں سے ڈھکا سر، سفید شلوار قمیض پر کالی واسکٹ، اور ہونٹوں میں دبی حقے کی نال. نتاشہ کو دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا
.سلام بیٹی! اٹھ گئ خیر سے؟’ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا’ 
.جی بابا! آپ………؟’ اس نے استفساریہ انداز میں بوڑھے کی طرف دیکھا’
.میں کوچی ہوں. مہمان خانے کا خادم. جب آپ پوھنچیں تھیں تو میں بازار گیا ہوا تھا.’ بوڑھے نے مسکراتے ہوئے کہا’
.اوہ اچھا! ارسلان صاحب نے ذکر کیا تھا.’ نتاشہ نے مسکراتے ہوئے کہا’
.ارسلان صاحب کون؟ اوہ ہو ہو….اچھا دانتے صاحب کی بات کر رہی ہیں.’ بوڑھے نے سر کھجاتے ہوئے کہا’
اچھا بیٹی یہ بتایں، بھوک لگی ہے؟ ویسے تو دانتے صاحب نے بھی نہیں کھایا. کہ رہے تھے آپ اٹھ جائیں گی اور اگر مناسب سمجھیں گی تو اکٹھے کھا لیں گے
.جی بابا بالکل، میں دانتے صاحب کے ساتھ ہی کھا لوں گی.’ نتاشہ کی نظریں تو پہلے ہی دانتے کو ڈھونڈ رہیں تھیں’ 
چلو ٹھیک ہوگیا پھر. آپ دانتے صاحب کے پاس اوپر جائیں. میں تھوڑی دیر میں کھانا لیکر آتا ہوں’. کوچی نے کہا اور کندھے پر رومال ڈالے ایک طرف کو بڑھ گیا 

نتاشہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پوھنچی تو دیکھا کے دانتے برآمدے میں ہی ایک آرام کرسی پر بیٹھا پائپ پی رہا تھا. نتاشہ کو دیکھ کر مسکرایا اور اٹھ کر دوسری کرسی بھی پاس ہی گھسیٹ لی. اس نے ماحول کا جائزہ لیا. بادل کب کے چھٹ چکے تھے اور آسمان پر تارے جگمگا رہے تھے. اتنے چمکدار ستارے اور کہکشاں کی نمایاں پٹی نتاشہ نے بہت عرصے بعد دیکھے تھے. حسب معمول موسیقی کی آواز گونج رہی تھی. کوئی مشرقی زبان تھی. شاید فارسی یا پھر بلوچی. بہت میٹھے سر تھے اور اداس بھی
.اب یہ آپ کیا سن رہے ہیں؟’ نتاشہ نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے پوچھا’ 
یہ ایک سیستانی دوشیزہ کا گیت ہے. اس کا محبوب اس سے دور ہے مگر اس سے ملنے کے لئے دور دراز سے سفر کرتا آ رہا ہے. وہ ریگستان کے خدا سے دعا مانگ رہی ہے کے آسمان پر چھاے بادل چھٹ جایئں تاکہ اس کا محبوب آسمان پر ستارے دیکھ کر اپنا راستہ ڈھونڈ لے.’ دانتے نے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
.عجیب لڑکی ہے. صحرا کے لوگ تو بادلوں کی دعا کرتے ہیں. اور وہ بادل چھٹنےکی دعا کر رہی ہے.’ نتاشہ نے مسکراتے ہوئے کہا’
جی محبت کرنے والے عجیب ہی ہوتے ہیں. ان کی دعائیں وقت، حالات اور موسم سے متعلق نہیں ہوتیں. صرف اپنے محبوب سے متعلق ہوتی ہیں.’ دانتے نے پائپ صاف کرتے ہوئے جواب دیا

.اچھا ایک بات پوچھوں؟ آپ برا تو نہیں منائیں گے؟’ نتاشہ نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا’
جی ضرور پوچھیں. برا بھلا کیوں مناؤں گا؟ آپ میری مہمان ہیں. اس رشتے سے تمام حقوق آپ کے اور فرائض میرے.’ دانتے نے تمباکو کی تھیلی ٹٹولی
.اچھا تو پھر یہ بتائیں، آپ کو کبھی محبت وغیرہ ہوئی ہے؟ کبھی عشق ہوا ہو؟ کوئی پسند آ گیا ہو بہت؟’ نتاشہ نے دلچسپی سے پوچھا’
.ارے یہ تو آپ نے ایک ہی سوال میں تین سوال پوچھ لئے.’ دانتے نے ہنستے ہوئے کہا’ 
.تین کیسے؟ ایک ہی چیز تو ہیں نہ عشق، محبت اور پسسندیدگی. آپ ایسا نہیں سمجھتے؟’ نتاشہ نے حیرت سے پوچھا’
دانتے نے تھوڑی دیر کوئی جواب نہیں دیا. خاموشی کے ساتھ پائپ بھرتا رہا. پھر ماچس کی تیلی سلگائی اور تمباکو کو شعلہ دکھایا. ایک لمحے کو روشنی ہوئی تو نتاشہ کو دانتے کی آنکھوں میں انگارے سے دہکتے محسوس ہوے 

دیکھئے نتاشہ، جب ہمیں کوئی پہلی نظر میں اچھا لگتا ہے تو وہ صرف پسند ہوتی ہے. پسند کی ہانڈی جب وقت کے چولہے پر چڑھی پکتی رہتی ہے، کھول کھاتی رہتی ہے، تو آھستہ آھستہ محبت میں تبدیل ہوتی جاتی ہے. پھر محبت پکتی رہتی ہے اور کھول کھاتی رہتی ہے اور گاڑھی ہوتی جاتی ہے.’ دانتے نے گہری نظر سے نتاشہ کی آنکھوں میں جھانکا تو اس کو لگا کے جیسے وہ اس کی روح ٹٹول رہا ہو. عجیب سا احساس تھا 
.محبت گاڑھی ہو کر عشق نہیں بنتی؟’ نتاشہ نے نظریں چراتے ہوئے پوچھا’ 

ارے نہیں! عشق صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جن کو صرف فنا ہونے کا شوق ہوتا ہے. یاد رکھئے عشق صرف انا پسند لوگوں کو ہوتا ہے. ان کی انا اتنی شدید ہوتی ہے کے وہ صرف ذات کی قربانی مانتی ہے. میری نظر میں عشق صرف پاگل پن ہے. اس کا محبت جیسی حساس چیز سے کوئی تعلق نہیں.’ دانتے نے دھیمے سے مسکراتے ہوئے کہا

اچھا ٹھیک ہے. لیکن آپ نے میرے سوال کا جواب ابھی تک نہیں دیا. آپ کو کبھی محبت ہوئی ہے یا پھر کبھی کوئی پسند آیا ہو؟’ نتاشہ نے اپنا سوال دوہرایا
جی بہت دفعہ بہت لوگ پسند بھی آتے ہیں. کبھی کبھار پسندیدگی لمبی ہوجاے تو محبت بھی ہوجاتی تھی.’ دانتے نے دھویں کا ایک گہرا مرغولہ فضاء میں چھوڑتے جواب دیا
تو پھر اب تو آپ کے دامن میں صرف پچھتاوے ہی رہ گئے ہوں گے؟’ نتاشہ نے دوپہر کی بات کا حوالہ دیا تو دانتے اس کی یاداشت پر ہنس پڑا 
جی ہاں یہ ممکن تھا مگر ایسا ہوا نہیں. اصل میں پچھتاوا ماضی کی محبت کا صرف ایک پہلو ہوتا ہے. میں دوسرے پہلو میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہوں

دوسرا پہلو کونسا ہوتا ہے؟ محبت لا حاصل کی یاد صرف درد اور پچھتاوا ہی تو دے سکتی ہے.’ نتاشہ نے دانتے کو کریدنے کی کوشش کی 
جی نہیں، میں یہاں آپ سے اختلاف کرنے کی جسارت کروں گا. محبت کا ایک پہلو اور بھی ہوتا ہے. دیکھئے محبت کا تجربہ اسقدر شدید ہوتا ہے کے جاتے جاتےانسان کی شخصیت اور روح پر گہرے زخم چھوڑ جاتا ہے. اتنا تکلیفدہ ہونے کے سبب محبت انسان کو بہتر انسان بنا دیتی ہے.’ دانتے نے اسے سمجھانے کی کوشش کی
محبت نے آپ کو کیسے بہتر انسان بنایا ہے؟’ نتاشہ نے پوچھا تو دانتے کچھ دیر کو خاموش ہوگیا اور نیچے فرش کی طرف دیکھتا رہا. پھر اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور نتاشہ کا ہاتھ پکڑ کر بےتکلفی سے بولا
‘میرے ساتھ آؤ. میں تمھیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں’

دانتے نتاشہ کو لئے کمرے میں داخل ہوا اور پھر ایک اندرونی دروازے پر سے پردہ سرکاتے ہوئے اسے لیکر اپنی خواب گاہ میں داخل ہوگیا. دیکھنے میں کمرہ بالکل نتاشہ کے کمرے جیسا تھا. صرف روشنی کم ہونے اور پردوں کے گہرے رنگ کی وجہ سے ماحول پر ایک سرخی سی چھائی تھی. دانتے نتاشہ کو لئے ایک دیوار کے سامنے کھڑا ہوگیا. نتاشہ نے غور کیا تو دیوار پر بیشمار فریم ٹنگے تھے. تمام کی تمام بچوں کی تصویریں تھیں. کچھ چھوٹے، کچھ تھوڑے بڑے، کچھ بچے اور کچھ بچیاں. گو کے تمام نے اچھے کپڑے یا اسکول کی صاف ستھری یونیفارم پہنی تھیں مگر شکل و صورت پر غور کرنے سے بھوک اور افلاس کے مدھوم ہوتے سایے صاف نظر آتے تھے
.یہ سب کون ہیں؟’ نتاشہ نے حیرت سے پوچھا’
یہ سب میرے بچے ہیں. میری جنت کے فرشتے’. دانتے نے پیار سے فریموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ‘میں ایک نہایت بےپرواہ انسان تھا اور مجھے دوسرے لوگوں کی تکلیف کا بہت کم احساس ہوتا تھا. پھر محبت اور اس کے ٹوٹنے نے مجھے بہتر انسان بنا دیا. دل اور روح پر لگے ہر زخم، ہر چرکے نے روشنی کے لئے کھڑکی کا کام کیا. اور اس روشنی سے میرے دل کی تاریکی آہستہ آہستہ چھٹتی چلی گئ. روشنی بڑھی تو مجھے لوگوں کی تکلیف بھی نظر آنا شروع ہوگئ
.اور یہ بچے………؟’ نتاشہ نے اپنا سوال ادھورا ہی چھوڑ دیا’
.یہ بچے سب یتیم ہیں. میں ان کی تعلیم اور نگہداشت کا ذمہ دار ہوں.’ دانتے نے شفقت سے فریم سہلاے’ 
.بہت اچھی بات ہے لیکن تم نے ان بچوں کو اپنی جنّت کے فرشتے کیوں کہا؟’ نتاشہ کو دانتے کہیں سے مذہبی نہیں لگ رہا تھا’ 

میں مرنے کے بعد جنّت یا جہنّم پر یقین نہیں رکھتا. لیکن میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کے ہم سب اسی دنیا میں اپنی اپنی جنّت اور جہنّم اٹھاے پھرتے ہیں. جہنّم ہمارے گناہوں سے بنتی ہے اور ہمارا پچھتاوا اس میں جلتی آگ کے شعلوں کو مزید بھڑکاتا ہے. اور جنّت ہماری نیکیوں سے بنتی ہے. ہماری ہر نیکی ایک فرشتہ بن جاتی ہے جو اپنے پروں سے ہماری جہنّم ٹھنڈی کرتے ہیں.’ دانتے نے یہ کہتے ہوئے نتاشہ کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسوؤں کی چمک نمایاں تھی 
.دانتے صاحب……….کھانا کہاں لگاؤں؟ برآمدے میں یا کمرے میں؟’ کوچی کی آواز آی تو دونوں چونک گئے’ 
کھانا کھاتے کھاتے بہت دیر ہوگئ اور نتاشہ کی آنکھوں میں سرخی دیکھ کر دانتے زبردستی اس کو اسکے کمرے تک چھوڑ آیا 

صبح نتاشہ کی آنکھ کھلی تو نو بج رہے تھے. منہ ہاتھ دھو کر تیّار ہو کرباہر نکلی تو میز پر گرم گرم ناشتہ تیار سجا تھا. چاے کے کپ سے آخری چسکیاں لے ہی رہی تھی کے باہر سے کسی بچے کے کھلکھلانے کی آواز سن کر چونک گئ. باہر نکلی تو باغیچے کا منظر دیکھ کر اپنی ہنسی نا روک سکی. ایک چھوٹی سی بچی، غالباً چار یا پانچ سال کی عمر ہوگی، دانتے کے کندھوں پر سوار تھی. دونوں ہاتھ سے اسکے لمبے بال مضبوطی سے تھام رکھے تھے اور ایڑیاں دانتے کے سینے پر مار مار کر اسے گھوڑے کی طرح ادھر سے ادھر دوڑا رہی تھی. دوڑتے دوڑتے دانتے اچانک رک جاتا تو بچی پہلے ڈرکر چیخ مارتی اور پھر دانتے کے فوراً سنبھال لینے پر کھکھلا کر ہنسنے لگتی 
بی بی! یہ میری پوتی ہے مہر بانو. شمالی وزیرستان پرجب دہشت گردوں نے قبضہ کیا تو اس کے ماں باپ ایک ڈرون حملے میں مارے گئے. میں بڑی مشکل سے اس کو لے کر نکلا’. کوچی بابا نے نتاشہ کو کھڑے دیکھا تو پاس آ گیا 
.تو اب آپ ہی اس کا خیال رکھتے ہیں بابا؟’ نتاشہ نے ہمدردی سے پوچھا’
ارے نہیں بی بی، مجھ بوڑھے میں اتنی ہمّت کہاں؟ دو ہی مہینے ہوے، اسے لیکر آیا تھا. تب ہی سے دانتے صاحب نے اسے اپنی بیٹی بنا لیا ہے. اس کے کپڑوں کا، کھانے پینے کا اور پڑھائی لکھائی کا وہ خود ہی خیال رکھتے ہیں. الله ان کو جزاء دے. بہت نیک آدمی ہیں.’ بوڑھے کوچی نے ہاتھ اٹھا کر دانتے کو دعا دیتے ہوے کہا

یہ مہر بانو ہیں اور میں ان کا گھوڑا ہوں.’ نتاشہ کو کھڑا کوچی سے باتیں کرتے دیکھ کر دانتے بھی پاس آ کھڑا ہوا اور بچی کو پیار سے اپنے کندھوں سے نیچے اتار دیا
مہر بانو سلام کرو آنٹی کو.’ دانتے نے بچی کا سر شفقت سے سہلاتے ہوے کہا تو اس نے دانتے کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہوے آہستگی سے نتاشہ کو سلام کیا اور کوچی کی انگلی تھامے باورچی خانے کی طرف چلی گئ
.مہر بانوکوچی کی پوتی ہے.’ دانتے نے اپنے لمبے بال ایک چمڑے کے تسمے سے باندھتے ہوئے کہا’ 
.جی مجھے معلوم ہے. پوتی کوچی کی ہے اور بیٹی آپ کی.’ نتاشہ نے مسکراتے ہوئے کہا’
جی ہاں، یہ محبت کا دوسرا رخ ہے.’ دانتے نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا اور جاتی مہر بانو کو دیکھنے لگا. موقع سے فائدہ اٹھا کر نتاشہ نے سر سے پاؤں تک دانتے کا جائزہ لینا شروع کر دیا

دانتے نے ایک بدرنگ اور بوسیدہ جینز کے اوپر کالے رنگ کی لیتھر جیکٹ پہنی تھی. گلے میں ایک سیاہ اور سفید دھاروں والا رومال بندھا ہوا تھا. پاؤں میں بھورے رنگ کے ٹخنے تک بڑے جوتے پہنے تھے. نتاشہ کی نظریں جوتوں سے دوبارہ چہرے کی طرف گئ تو دانتے اسی کی طرف ایک مسکراہٹ لئے دیکھ رہا تھا
‘اگرمیرا حلیہ پسند آ گیا ہواور موڈ ہو تو آپ کو کہیں باہر لے چلوں؟’
.جی جی ضرور، کیوں نہیں.’ نتاشہ نے کچھ شرمندہ ہوتے ہوئے کہا’
چلئے آیئے پھر.’ دانتے نے نتاشہ کو پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور احاطے کے ایک کونے میں گیراج کا شٹر اٹھا دیا. اندر ایک کالے رنگ کی پرانی مگر طاقتور کھلی چھت کی جیپ کھڑی تھی اور ساتھ ہی کالے ہی رنگ کا ایک بھاری بھرکم موٹر سائکل 
.کیا پسند کریں گی؟’ دانتے نے جیپ اور موٹر سائکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا’ 
میں ایڈونچر پسند کروں گی.’ نتاشہ نے موٹر سائکل کی چمڑے کی گدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا. دانتے نے اس کے چناؤ کو خاموش مسکراہٹ سے داد دی، موٹر سائکل کو چابی گھما کر سٹارٹ کیا اور باہر لے آیا

بیٹھئے!’ دانتے نے موٹر سائکل کو ہلکی سی ریس دیتے ہوئے کہا تو نتاشہ دانتے کی طرح اچک  کر بیٹھ گئ. چونکہ اس نے بھی گھٹنوں تک لمبی جرسی تلے جینز پہن رکھی تھی تو کوئی دشواری نہیں ہوئی. لیکن موٹر سائکل حرکت میں آتے ہی اس کو احساس ہوا کے شاید غلطی کر بیٹھی تھی. موٹر سائکل نارمل نہیں تھی. غالباً ہارلے ڈیوڈسن کا کوئی پرانا ماڈل تھا جس کا انجن انتہائی طاقتور تھا. اس نے مضبوطی سے دانتے کی کمر کو تھام لیا

نتھیا گلی کے مرکزی چوراہے سے دانتے نے موٹر سائکل دائیں طرف ڈونگا گلی کی طرف گھما دی. سڑک پر بے انتہاء رش تھا مگر موٹر سائکل کے طاقتور انجن کی آواز سن کر اور کچھ دانتے کا جارحانہ انداز دیکھ کر لوگ سائیڈ پر ہوتے چلے گئے. کچھ نے تو نتاشہ کو پیچھے لڑکوں کی طرح بیٹھے دیکھ کرآوازیں بھی کسیں مگر جلد ہی موٹر سائکل ان آوازوں کی دسترس سے دور نکل گئ
ڈونگا گلی تک کا سفر لمحوں میں تہ ہوگیا مگر چھوٹے سے قصبہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی دانتے نے موٹر سائکل بایئں طرف ایک کانکریٹ سے بنے رستے پر چڑھا دی. تھوڑی سی چڑھائی چڑھنے کے بعد راستے کا اختتام کسی ریسٹ ہاؤس کے گیٹ پر ہوا. غالباً چوکیدار دانتے کو اچھی طرح جانتا تھا. اس نے موٹر سائکل دیکھتے ہی گیٹ کھول دیا اور دانتے نے موٹر سائکل اندر لے جا کرایک طرف روک دی

موٹر سائکل سے اتر کر نتاشہ نے جگہ کا جائزہ لیا. ریسٹ ہاؤس کی سفید رنگ کی پتھر اور لکڑی سے بنی عمارت گوروں کے وقت کی تھی اور اس کے سامنے ایک وسیع و عریض اور سر سبز لان تھا. لان کے ایک طرف پانی کی دو بڑی بڑی ٹنکیاں تھیں 
یہ محکمہ آبپاشی کا ریسٹ ہاؤس ہے. کسی زمانے میں ایک پائپ لائن کے ذریعے پینے کا پانی یہاں سے مری بھیجا جاتا تھا.’ دانتے نے موٹر سائکل اسٹینڈ پر ٹکاتے ہوئے کہا اور نتاشہ کا ہاتھ پکڑ کر ریسٹ ہاؤس کے ایک طرف ایک پگڈنڈی پر چل پڑا جو ایک پرانی اور زنگ خوردہ پائپ لائن کے ساتھ ساتھ چل رہی تھی
کسی زمانے میں یہ پائپ لائن اور اس کے ساتھ چلتی پگڈنڈی شیروں اور چیتوں کے لئے مشهور تھی.’ دانتے نے پائپ لائن کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا
.تو کہاں گئے وہ شیر اور چیتے؟’ نتاشہ نے تھوڑا گھبراتے اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا’
وہیں جہاں دنیا کی تمام خوبصورت چیزیں کھو جاتی ہیں.’ دانتے نے دلچسپی سے نتاشہ کی گھبراہٹ کا جائزہ لیتے ہوئے کہا. ‘تاریخ کے اوراق میں

تھوڑی چڑھائی چڑھنے اور درختوں کے ایک گھنے جھنڈ سے گزرنے کے بعد وہ ایک صاف ستھرے مگر چھوٹے سے مخملی گھاس سے ڈھکے قطعہ زمین پر پوھنچ گئے. نتاشہ نے تھوڑا آگے ہو کر دیکھا تو سامنے اچانک پہاڑ ختم ہورہا تھا اور نیچے بہت نیچے گہرائی میں ایک خوبصورت وادی نظر آ رہی تھی. بہت دلنشیں نظارہ تھا. پہاڑ گھنے بادلوں میں ڈھکے تھے اور ہوا میں ایک خوش گوارسی ٹھنڈک تھی. نتاشہ نے گہرا سانس لیا تو چیڑ کی کونپولوں کی دلنواز خوشبو نے اس کا استقبال کیا. اس نے دانتے کی طرف دیکھا تو وہ ایک بڑے سے پتھر سے ٹیک لگاے اسی کی طرف گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا
‘کیسی لگی یہ جگہ تمھیں؟’
بہت خوبصورت. اگر میرا جنّت پر ایمان ہوتا تو میں اس جگہ کو جنّت سے تشبیہ دیتی.’ نتاشہ نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے جواب دیا
.ہوں! ………’ دانتے نے ہنکارا بھرا اور جیب سے تمباکو کی تھیلی نکال کر پائپ بھرنے لگا’
‘یہ میری پسندیدہ جگہ ہے. میں اکثر یہاں آ کر بیٹھتا ہوں’
.کبھی دل نہیں کیا کے ساتھ کوئی اور بھی ہو؟’ نتاشہ نے شرارت آمیز لہجے میں پوچھا’
عقل ہمیشہ تو دل پر قابونہیں کرسکتی اور تنہائی بھی ایک خاص حد تک ہی اچھی لگتی ہے.’ دانتے کی توجوہ ابھی بھی پائپ ہی پر مرکوز تھی

.ایک بات بتاؤ دانتے.’ نتاشہ نے اچانک کہا تو دانتے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا’
‘تم نے شادی کیوں نہیں کی؟’
.تم نے منیر نیازی کی وہ نظم سنی ہے؟ ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں؟’ دانتے نے نتاشہ کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا’
.ہاں بالکل.’ وہ نظم نتاشہ کی پسندیدہ نظموں میں سے ایک تھی’
بس پھر. ووہی حال ہے میرا. میں نے بھی ہمیشہ دیر کی. پسندیدگی کا اظہار کرنے میں. اپنانے میں. اور اب جبکہ اس عادت کا احساس ہوا ہے تو سوچتا ہوں بہت وقت گزر چکا ہے.’ دانتے نے جینز پر ہاتھ ملتے جواب دیا اور پھر نتاشہ کو چپ دیکھ کر بولتا چلا گیا
.میری ایک نصیحت مانو گی؟’ دانتے نے پوچھا تو نتاشہ نے اثبات میں سر ہلایا’
‘کبھی دیر مت کرنا. کوئی پسند آ جائے تو بلا جھجک اظہار کر دینا’
.تو تم چاہتے ہو کے میں تمہاری یہ نصیحت مان لوں؟’ نتاشہ نے ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا’
.ہاں بالکل اگر دل کو میری بات لگتی ہو تو.’ دانتے نے بھی مسکرا کر جواب دیا’
‘ٹھیک ہے……….’ نتاشہ نے کچھ قدم آگے لئے اور وادی کی گہرایوں میں جھانکنے لگی. ‘مجھے تم پسند ہو’

پیچھے بالکل خاموشی تھی. کچھ دیر وادی کی طرف دیکھتے رہنے کے بعد اور اپنے کہے کے اصل معنے محسوس کرنے کے بعد نتاشہ نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو دانتے کے چہرے پر ایک افسردہ مسکراہٹ تھی
‘مجھے بھی تم بہت اچھی لگی ہو نتاشہ. بہت منفرد. لیکن دو مشکلات ہیں’
.مشکلات؟ وہ کیا؟’ نتاشہ نے حیرت سے پوچھا’
ایک تو میں محسوس کرتا ہوں کے اب مجھ میں محبت کرنے کی ہمّت نہیں ہے. شاید میں اندر سے خالی ہوچکا ہوں. اسی لئے محبت کرنے سے ڈرتا ہوں کے کہیں نا نبھا پایا تو دوسرے کے ساتھ ناانصافی ہوگی.’ دانتے نے نیچے اپنے جوتوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
.اور دوسری مشکل؟’ نتاشہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا’
دوسری یہ کے بیشک میں اکیلا ہوں. لیکن میری تنہائی میری آزادی ہے. جہاں دل کرتا ہے چلا جاتا ہوں. جو دل چاہے کرتا ہوں. کوئی میرا انتظار نہیں کرتا اور میں کسی کا منتظر نہیں رہتا. اور مجھے میری آزادی بہت محبوب ہے.’ دانتے نے درختوں کے اوپر آسمان کی طرف دیکھتے ہوے کہا 

.محبت قید نہیں ہوتی دانتے.’ نتاشہ نے بے چین سا ہوتے ہوئے کہا’

عورت کی محبت ہمیشہ قید ہوتی ہے. عورت صرف مرد سے محبت نہیں کرتی، بلکہ اسکو اپنی محبت کی زنجیر میں جکڑ لیتی ہے. اس کو ہلنے نہیں دیتی. سانس نہیں لینے دیتی. عورت کے لئے محبت قید کا دوسرا نام ہے

.ہاں شاید سہی کہتے ہو. لیکن کیا سپردگی یا محبت کی قید بری چیز ہے؟’ نتاشہ نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا

محبت بری چیز نہیں ہوتی مگر جب قید بن جاتی ہے تو مرد کی شناخت ختم کر دیتی ہے. وہ اپنی صلاحیتیں کھو بیٹھتا ہے. اور پھر ان صلاحیتوں کو کھونے کے بائث عورت کو ووہی مرد برا لگنا شروع ہوجاتا ہے.’ دانتے نے نتاشہ کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

اور اگر میں یہ کہوں کے میں تمھیں قید کرنا نہیں چاہتی. میں صرف تمھاری ذات سے جڑنا چاہتی ہوں. تمھاری تنہائیوں کا ساتھی بننا چاہتی ہوں. میں صرف یہ چاہتی ہوں کے جب کبھی تنہا تاریک سمندروں میں سفر کرتے ڈر لگنے لگے تو ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے روشنی کے مینار کا کام کریں. ایک دوسرے کی روشنی سے حرارت حاصل کریں. ایک دوسرے کا ساحل بن جائیں.’ نتاشہ نے دل گرفتہ ہوتے ہوئے پوچھا

ضرور کہو مگر ایسے فیصلے کرنے کے لئے کچھ دیر سوچنا ضروری ہے.’ دانتے نے نتاشہ کے بالوں کو پیار سے انگلیوں سے سنوارا

یکایک بادل گرجے تو دونوں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا. جانے کب آسمان پر کالے گھنے بادل چھا چکے تھے اور ہلکی ہلکی بارش شروع تھی
.چلو واپس چلیں. بارش تیز ہوگئ تو بھیگ جاؤ گی.’ دانتے نے نتاشہ کا ہاتھ پکڑا اور پگڈنڈی کی طرف تیزی سے چل پڑا’

اگلے چار پانچ دن کیسے دانتے کے ساتھ گزرے، نتاشہ کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا. احساس تھا تو صرف اس بات کا کے وہ زندگی میں پہلی دفعہ بہت خوش تھی. دانتے ہر لحاظ سے اسکو پسند آیا تھا. زہین، حساس، اچھے ذوق کا مالک اور محبت کرنے والا. جانے کا دن سر پر آیا تو نتاشہ کو ایسا لگا کے جیسے اپنے آپ سے بچھڑ رہی ہو. وہ بہت سوچ بچار کے بعد ایک فیصلے پر پوھنچ چکی تھی. اور وہ فیصلہ دانتے کو اپنانے کا تھا
تو پھر تم نے جانے کا فیصلہ کر ہی لیا ہے؟’ دانتے اور نتاشہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے باغیچے میں پھیلی دھند میں چہل قدمی کر رہے تھے
میں امریکا واپس نہیں جا رہی. صرف راولپنڈی تک جا رہی ہوں. ایک تو خالہ خالو کچھ پریشان ہیں اور پھر اپنی ٹکٹ بھی کینسل کروانی ہے. دو تین دنوں میں واپس آ جاؤں گی.’ نتاشہ نے دانتے کا ہاتھ نرمی سے دبا کر کہا
جن لوگوں سے محبت ہوتی ہے، وہ دور جانے کے باوجود کبھی آپ سے دور نہیں جا سکتے. تو تم یہیں رہو گی، میرے آس پاس.’ دانتے نے مسکراتے ہوئے کہا 

راولپنڈی واپس پوھنچ کر نتاشہ نے اپنی ٹکٹ کینسل کروائی اور پھر ایک رات خالہ خالو سے کھل کر دانتے کے بارے میں بات کی. ڈاکٹر صدیقی کے دوست کا بیٹا تھا. وہ دانتے کو اچھی طرح جانتے تھے. پھر دونوں میاں بیوی کے لئے خوشی کی بات یہ تھی کے نتاشہ شادی پر تیار ہوگئ تھی. لہذا دونوں کو دانتے پر کوئی اعتراض نہیں تھا 

خالہ سے اجازت لیکر، ضرورت کی دو چار چیزیں اور دانتے کا پسندیدہ تمباکو خرید کر نتاشہ واپس نتھیا گلی کی طرف چل پڑی. دانتے کے پاس پوھنچنے کی اتنی جلدی تھی کے ولسن بابا کو راستے میں کہیں گاڑی نا روکنے دی. لیکن گاڑی تیز بھگانے کے باوجود تین گھنٹے کا سفر بلا وجہ طول کھینچ رہا تھا 

گاڑی نتھیا گلی کی حدود میں داخل ہوئی تو سب کچھ پہلے جیسا ہونے کے باوجود نتاشہ کو انوکھا سا دکھائی دے رہا تھا. ہر بچے کے چہرے پر مسکراہٹ اور ہر رنگ دمکتا نظر آ رہا تھا 

ولسن بابا نے گاڑی مین روڈ سے نیچے اتاری ہی تھی کے نتاشہ کو کسی گڑبڑ کا احساس ہونے لگا. درختوں کے پیچھے سے، دانتے کے مہمان خانے کی طرف سے گہرا کالا دھواں اٹھ رہا تھا. گاڑی مہمان خانے کی عمارت کے سامنے پوھنچی تو سامنے کا منظر دیکھ کر نتاشہ نے گھبراہٹ کے مارے چلتی گاڑی سے اترنے کی کوشش کی اور گرتے گرتے بچی
عمارت بری طرح جل چکی تھی. کہیں کہیں سے چھت بیٹھ رہی تھی اور لکڑی کی کڑیاں حرارت کے سبب تڑخ چکی تھیں. گیٹ کے سامنے بہت سی پولیس اور فائر برگیڈ کی گاڑیاں کھڑی تھیں 
.یہاں کیا ہوا ہے؟ اور دانتے کہاں ہے؟’ نتاشہ نے ایک پولیس والے کو متواجوہ کرتے ہوئے کہا’
بلڈنگ میں کل رات کسی وقت آگ لگ گئ تھی میڈم. سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا.’ پولیس والے نے اپنے پتلون اوپر کھینچتے ہوئے جواب دیا
.اور دانتے کہاں ہے؟ وہ خیریت سے ہے؟’ نتاشہ نے بے تاب ہوکر پوچھا’
مجھے افسوس ہے کے دانتے صاحب اور ان کا ملازم دونوں کا انتقال ہوگیا ہے. ابھی آپ کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے ہی دونوں کی باڈیز مردہ خانے بھجوائیں ہیں.’ پولیس والے نے افسوس کے ساتھ بتایا
.لیکن کیسے؟’ نتاشہ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آ رہا تھا’ 
جب آگ لگی تو دانتے صاحب یہاں نہیں تھے. شہر گئے ہوئے تھے. جب واپس آے تو آگ بہت زیادہ بھڑک چکی تھی. غالباً کسی چھوٹی بچی کو بچانے آگ میں گھس گئے. بچی کو تو بچا لیا لیکن خود کو نا بچا سکے.’ پولیس والے کو خاموش دیکھ کر ایک مقامی آدمی نے اگے بڑھ کر بتایا

نتاشہ سے اور برداشت نا ہوسکا تو وہیں ایک سائیڈ پر زمین پر بیٹھ گئ اور بلک بلک کر رونے لگی. ولسن بابا بھی وہیں ساتھ بیٹھ گیا اور شفقت سے نتاشہ کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا 
.اس بچی کا کیا کرنا ہے؟ کہاں لے کر جائیں؟’ نتاشہ کے کانوں میں پولیس والے کی آواز پڑی تو اس نے چونک کر اوپر دیکھا’
مہر بانو پولیس والے کے ساتھ سہمی کھڑی تھی. اس کی خالی آنکھوں سے صاف پتا چل رہا تھا کے اس کو ابھی تک اپنے اوپر گزرنے والی قیامت کا سہی طور سے احساس نہیں ہوا تھا
ایدھی والوں کو خبر کر دو. وہ آ کر لے جائیں گے بیچاری کو.’ مقامی آدمی نے پولیس والے کو مشورہ دیا تو یکایک نتاشہ کھڑی ہوگئ:
‘بچی میرے ساتھ جائے گی. میں اسکو پالوں گی’
بیٹی یہ کیا کہ رہی ہو؟ ٹھیک ہے کے یہ دانتے صاحب کی بیٹیوں کی طرح تھی لیکن تم اسکو کہاں لیکر جاؤ گی؟’ ولسن بابا نے نتاشہ کو سمجھانے کی کوشش کی

آپ نہیں سمجھ سکتے بابا. یہ صرف دانتے کی نشانی نہیں ہے، میری محبت کا دوسرا رخ بھی ہے.’ نتاشہ نے مہر بانو کو پیار سے گود میں اٹھایا اور گاڑی میں بیٹھ گئ

17 thoughts on “نتھیا گلی کا دانتے اور نیو یارک کی نتاشہ

  1. Beautiful Fantastically created world. I wish there was a Dante and a Natasha. And they would have loved and lived hapily ever after in this world, as not every story ends in a Greek tragedy. However it would have made into a long Marriage and not a beautiful short story 🙂 Happy writing and wishing you a life full of creativity.
    Your old friend

    Liked by 1 person

  2. it took me a week to read it bit by bit because of my hectic work load , everynight before i go to bed i read this story and have just finished reading it .
    a complete satisfied reader it could nt be any more better , i will give you 4.5 out of 5 well done, pls let me know if there are other stories you write , i will buy the books from you and also if u do in english i would like to but it for her , because she is my lighthose in the sea when i am afraid of darkess, pls let me knowthanks

    Like

  3. ek orr khobsorat izafa. lekin ek aitraz .Dante jaisey log khod tu farishton ki khidmat per mamor ho kar apney liye janat ko wajib kar lity hain, magar onka naee sochty jo unky mazi ka hisa hoty hain orr unki chahat k baad kisi orr sy mohabat naee kar paty orr samjhoty ky rishty nibhaty nibhaty zinda-dargor ho jaty hain.

    Liked by 1 person

  4. جناب میں بھی نتھیا گلی سے تعلق رکھتا ہوں اور کافی عرصہ سے گاؤں نہیں گلیا ہوں آج آپ کی تحریر پڑھتا گیا اور اپنے گاؤں کی سیر کرتا گیا
    جب میں اپنی خوشی کی انتہا پر گیا تو آپ نے تو قسم سے رلا دیا “کمال کی تحریر تھی۔۔

    Liked by 1 person

Leave a comment