فوجو چوہڑا اور مولوی عبدالغفور

matt-brandon-rajasthan-03-07-09-56-20_panor

مجھے اپنے محلے میں ہمیشہ سے، دو لوگ بہت پسند تھے. وہ تھے مولوی عبد الغفور اور فوجو چوہڑا. حیرت کی بات یہ تھی کے وہ دونوں ایک دوسرے کے نہایت گہرے دوست تھے اور ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے. اب آپ یقیناً سوچتے ہونگے کے کہاں ایک مومن مسلمان مولوی اور کہاں ایک غریب عیسائی خاکروب؟ بات تو بہت عجیب و غریب ہے، لیکن ہے حقیقت

یہ بات ہے ١٩٨٠ کی دھائی کے اوائل کی، جب اندرون لاہور کے خدو خال، ابھی کچھ کچھ، اپنی اصل شکل میں قائم تھے. میری عمر پانچ یا پھر چھ سال کے لگ بھگ تھی. ہم لوگ پرانی انارکلی کی پشت پر واقعہ، ایک چھوٹے سے محلے کاکے زیاں، میں رہائش پذیر تھے. محلے میں تقریباً پچاس گھر تھے. کچھ بڑے بڑے، حویلیوں کی طرز کے، کہ جن میں متمول طبقے کے خاندان رہتے تھے؛ اور کچھ چھوٹے چھوٹے، جن میں میرے والد کی طرح کے سفید پوش لوگ رہتے تھے

محلہ ایک طرف پرانی انار کلی روڈ اور دوسری جانب لاج روڈ سے جا لگتا تھا. پرانی انارکلی روڈ کی جانب سے داخل ہوتے ہوئے دائیں ہاتھ سب سے پہلے، ایک سفید رنگ کی چھوٹی سی مسجد تھی، جسے کسی زمانے میں مکی مسجد کا نام دیا گیا تھا. لاج روڈ کی جانب سے محلے میں آنے والوں کی پہلی نظر، بائیں جانب واقعہ، نور جنرل سٹور پر پڑتی تھی. وہ ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کو نور محمد نامی ایک عمر رسیدہ شخص چلاتا تھا اور بچوں کی ٹافیوں اور چورن کے پیکٹوں سے لیکر ڈبل روٹی اور انڈے، سب دستیاب ہوجاتے تھے. مذہب اور تجارت کی ان دونوں چوکیوں کے درمیان محلہ ختم ہوجاتا

پوری گلی میں پرانی اینٹوں کی چنائی ہوئی تھی اور دونوں اطراف کالے گاڑھے پانی سے بھری، کھلی نالیاں بہتی تھیں. بدبو یقیناً ہوتی ہوگی مگر ہمیں کبھی اس کا احساس نہیں ہوا تھا. محلے کے عین درمیان، قاضی صاحب کی حویلی کا صدر دروازہ تھا، جس کے دونوں اطراف، چھوٹے چھوٹے دو چبوترے بنے ہوئے تھے. یہ دونوں چبوترے ہمارے محلے کا کلب تھا. سردیاں ہوں یا گرمیاں، محلے کے بڑے بوڑھوں میں سے کچھ لوگ، یہاں دن کے وقت بیٹھ کر اخبار پڑھا کرتے تھے. محلے میں کوئی مسئلہ درپیش ہو یا پھر الیکشن کا زمانہ ہو، قاضی صاحب کی عدالت بھی یہیں لگتی تھی

اچھا زمانہ تھا اور شریف لوگ تھے، لہذا کبھی کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا تھا. زیادہ سے زیادہ کبھی کسی جوڑے میں لڑائی شدت اختیار کر جاتی یا پھر، پانچ دس سال میں کوئی محبت کی کہانی منظر عام پر آ جاتی، جس کا اختتام زیادہ تر پٹائی اور کبھی کبھار، محبت کرنے والوں کے، گھر سے بھاگ جانے پر ہوتا

مسجد کا انتظام و انصرام، مولوی عبدالجبار کے ہاتھ میں تھا. اذان سے لیکر رمضان کی تراویحاں؛ اور بچوں کو قران پڑھانے سے لیکر نکاح پڑھانے تک کے سارے کام، خود سر انجام دیتے تھے. البتہ صفائی ستھرائی کی ذمہ داری اور دوسرے چھوٹے چھوٹے کاموں کیلئے، ایک بوڑھا ملازم رکھ چھوڑا تھا

ہم نے تو ہوش سنبھالنے کے بعد ہی مولوی عبدالجبار کی زیارت کی تھی، مگر ابّا جی بتایا کرتے تھے کے مولوی صاحب انکی بھی پیدائش سے بہت پہلے، مسجد میں موجود تھے. بہت ضعیف آدمی تھے مگر ضعف قطعی طور پر، انکے مزاج کی سختی پر، اثر انداز نا ہوسکا تھا. بیحد جلالی شخصیت کے مالک تھے، لیکن یہ جلال محلے کے بچوں اور سفید پوشوں کی حد تک محدود تھا. قاضی صاحب جیسے معززین کیلئے، انکی شخصیت کا ایک حلیم اور منکسر المزاج پہلو مخصوص تھا

مولوی صاحب رہتے تو لاہور میں تھے مگر شخصیت بکل دیہاتی تھی. گٹھے ہوئے سر پر گلابی اور سفید چار خانوں والا رومال بندھ رہتا، پیشانی پر کالے سیاہ رنگ کا محراب کا نشان، میچی ہوئی آنکھوں پر موٹے موٹے شیشوں والی، کالے پلاسٹک فریم والی عینک، جس کے پیچھے الاسٹک بندھا ہوتا. منہ میں زیادہ اوقات ایک مسواک دبی ہوتی جو ہر دو منٹ کے بعد، دائیں سے بائیں گردش کرتی. ہلکی ہلکی مونچھیں اور ترشی ہوئی اور مہندی رنگی نارنجی داڑھی. زیادہ تر پیلے بوسکی کا کرتا اور سفید سوتی تہمند زیب تن کیا ہوتا تھا

ہم بچوں کی خاص طور پر، مولوی صاحب سے جان جاتی تھی. گلی میں آمنا سامنا ہونے کا امکان ہوتا، تو ہم ادھر ادھر ہوجاتے، مگر قران مجید پڑھنے کے دوران ایسا ممکن نہیں تھا. وہ شام کا ایک گھنٹہ، ہم بچوں پر ایسے گزرتا کہ روز قیامت، ہر دن پچاس ہزار سال کا ہوگا، اس پر ہمارا یقین گہرا ہوتا جاتا

بچوں سے بات چیت کا، مولوی صاحب کا ایک مخصوص طریقہ کار تھا، جو انکے سرخ بید کی ضرب سے شروع ہوتا اور اسی بید کی ضرب پر، ختم ہوجاتا. بیچ میں کیا ہوتا تھا، یا کیا پڑھا جاتا تھا، خدا ہی بہتر جانتا ہے. ہماری ساری توجوہ تو، کمر اور ہاتھوں پر جلتے انگارے ٹھنڈے کرنے پر مرکوز ہوتی تھی. لیکن یہ ضرور بتاتا چلوں کے بڑوں کی طرح بچوں میں بھی، ایک طبقاتی تفریق نمایاں تھی. مثلاً قاضی صاحب کے بچوں کی، کبھی بید سے تواضح نہیں ہوئی تھی. بہت بڑی غلطی بھی کر جاتے تو زیادہ سے زیادہ، مولوی صاحب سرخ سرخ آنکھوں سے ذرا سا گھور لیتے اور بس. لیکن ہم جیسوں کا، بید سے ملاقّت کیلئے غلطی کرنا بھی ضروری نہیں تھا

_____________________________________________
اب آتے ہیں فوجو کی طرف. فوجو چوہڑا ہمارے محلے میں، کمیٹی کی طرف سے تعینات اکلوتا جمعدار تھا. اس کی بیوی کا نام مائی جیواں تھا اور وہ بھی محلے کے گھروں میں، صفائی ستھرائی کا کام کرتی تھی. ڈھیر سارے بچے تھے، جن میں سے رضیہ سب سے چھوٹی تھی. جس طرح جنوں کی جان کسی طوطے یا بلبل میں ہوتی ہے، فوجو کی جان رضیہ میں تھی

بہت مزے کا آدمی تھا فوجو بھی. ناٹے سے قد کا کالا سیاہ اور پکّی عمر کا آدمی تھا. آنکھوں میں سرمہ لگا کر رکھتا تھا اور ہر وقت کم از کم تین سے چار دن کی بڑھی سفید شیو، چہرے پر سجی ہوتی تھی. سنا تھا گنجا تھا، لیکن ہمیں کبھی اسکا چمکتا سر، نظر نہیں آ سکا تھا کیونکہ ہر وقت سر پر ایک گہرے سرخ رنگ کا، سوتی رومال باندھے رکھتا تھا. پھٹی ہوئی دھوتی اور اوپر میلی سی بنیان، مذہب کا عیسائی تھا لیکن گلے سے نجانے کونسے تعویذ لٹکے رہتے تھے. بچوں سے بہت پیار کرتا تھا اور آتے جاتے زبردستی، ہمارے سروں پر شفقت سے ہاتھ پھیر جاتا. ہم ٹھہرے بدتمیز، ساتھ ہی اسکو سنا دیتے
‘یہ کیا کیا فوجو چاچا؟ سارا ناپاک کر دیا. اب گھر جا کر نہانا پڑے گا’
لیکن وہ کبھی برا نہیں مناتا تھا. بس ہنستا جاتا تھا

مجھے ابھی تک یاد ہے، وہ گرمیوں کی ایک شام تھی. مجھے نیا نیا، بڑوں کو سلام کرنے کا جنون چڑھا تھا. آتے جاتوں کو سلام کرتا. بڑے جواب دیتے تو لگتا، کے جیسے میں خود بڑا ہو گیا ہوں. میں گلی میں اکیلا ہی کھیل رہا تھا. اچانک فوجو پاس سے گزرا تو پتا نہیں کیوں، میں نے اونچی آواز میں، اسے بھی سلام کر دیا. اس غریب کی تو جیسے عید ہی ہوگئ

‘اوے وعلیکم السلام سرکاراں! وعلیکم السلام! جیوندا رایں! وسدا روئیں! خداواند سرکاراں نوں، وڈا افسر بنائے’
وہ بیچارا ایک ہی سانس میں، پتا نہیں کتنی دعاءیں دے گیا. میں ابھی شرم سے لال سرخ ہو ہی رہا تھا، کے بجلی کی طرح کڑکتی آواز، کان میں پڑی
‘شرم نہیں آتی تمھیں؟ اس کرنٹے کو سلام کر رہے ہو؟’
میں نے بوکھلا کر دیکھا تو، مولوی عبدالجبار غصّے میں لال پیلے ہوتے، کھڑے نظر آے
‘ایک مسلمان کو کسی کافر کو سلام کرنا جائز نہیں’
میں نے جواب میں، وہاں سے رفو چکّر ہونے میں ہی، اپنی عافیت سمجھی

فوجو کو گانے کا بھی بہت شوق تھا اور آواز میں، سوز بھی تھا. صفائی کرتے وقت یا گلی میں آتے جاتے، گاتا رہتا
مایے نی مایے
میرے گیتاں دے نیناں وچ
برھوں دی ریڑھک پوے

کبھی کبھی تو گاتے گاتے آنکھوں میں آنسو بھی آ جاتے. لوگ مزاق کرتے رہتے. کبھی پوچھتے
‘تجھے اس عمر میں کونسا غم لگ گیا ہے فوجو؟’
وہ بیچارا کرتے کے میلے دامن سے آنسو پونچھتے کہتا
‘زندگی سے بڑا غم کیا ہوگا سرکاراں؟’

__________________________________________
مولوی عبد الجبار کی فوجو سے کوئی خاص ہی دشمنی تھی. باقی سارا محلہ، فوجو کو اسکے نام یا چاچا کہ کر بلاتا، مگر مولوی صاحب اسے ‘اوئے کافر!’ ہی کہ کر آواز دیتے
کبھی فوجو سے پوچھتے: ‘تو مسلمان کیوں نہیں ہوجاتا؟
.اس سے کیا ہوگا مولبی صاب؟’ وہ ہنستے ہوئے پوچھتا’
.اس سے تیری پلیدگی ختم ہوجائے گی. اور کیا ہونا ہے؟’ مولوی صاحب داڑھی پر ہاتھ پھیرتے کہتے’
فوجو مسکراتا ہوا کہتا: ‘پلیدگی کیسے ختم ہوگی سرکاراں؟ رہوں گا تو ذات کا مصلّی ہی. صفائی ہی کرنی ہے تو، یسوع مسیح کو کیوں ناراض کروں؟
.تو نہیں سمجھتا. تو مسلمان ہوگیا نا، تو بخشا جائے گا. جنت ملے گی، جنت.’ مولوی صاحب اصرار کرتے’
جنت میں جاؤں گا تو کونسا تخت پر بیٹھا دو گے مولبی صاب؟ وہاں بھی لیٹرینیں ہی صاف کراؤ گے مجھ سے. یا پھر خود شرابیں پیو گے اور بوتلیں، مجھ سے اٹھواؤ گے. اورمیری بیوی حوروں کی ٹانگیں ہی دباتی رہے گی.’ فوجو بدستور خوش مزاجی سے جواب دیتا

ایک دن یہ ہی بحث چل رہی تھی کے فوجو تنگ آ کر کہنے لگا
‘میں اپنے پورے خاندان سمیت مسلمان ہونے کو تیار ہوں مولبی صاب. لیکن میری ایک شرط ہے’
.ہاں ہاں کہو، ضرور کہو.’ مولوی صاحب کی آنکھیں، شکار کو پھنستا دیکھ کر، چمکنا شروع ہوگیئں’
شرط یہ ہے کے، مسلمان ہونے کے بعد، میرے تینوں بیٹوں کی شادیاں، آپ خود کریں گے، اسی مسلمانوں کے محلے میں
ولاحولا ولاقوة! ولاحولا ولاقوة!’ مولوی صاحب غصے سے بڑبڑاتے ہوئے، وہاں سے اٹھ گئے اور دوبارہ کبھی، فوجو کو دعوت اسلام نہیں دی

_______________________________________
ایک دن صبح سویرے ہی، شور سے، ہم بچوں کی آنکھ کھل گئ. باہر نکلے تو، مسجد کے ارد گرد، ایک ہجوم اکٹھا تھا. بڑوں کی ٹانگوں کے بیچ میں سے ہوتے ہوئے، آگے پوہنچے تو پتہ لگا کے پچھلی رات، مولوی عبد الجبار کا انتقال ہوگیا تھا. بتا نہیں سکتا کے، روح کتنی سرشار ہوئی یہ سن کر. مولوی عبد الجبار کے مرنے کا مطلب تھا، ظلم و جبر کے قدیم سلسلے کا اختتام. انکے انتقال کا، ہم بچوں کو بہت فائدہ ہوا. وہ یوں کے، قاضی صاحب سمیت محلے کے دوسرے معززین کی سب توجوہ، مسجد کے انتظام و انصرام اور مولوی صاحب کے جنازے کی طرف، مبذول ہوگئ. ہم بچوں کو نا کوئی روکنے والا، نا کوئی ٹوکنے والا

______________________________________
یہ مولوی عبد الجبار کے انتقال کے کچھ ہفتے بعد کا قصّہ ہے. ہم بچے باہر گلی میں کنچے کھیل رہے تھے. نئے مولوی کا انتظام نہیں ہوسکا تھا، لہذا ہم بچے شام کو آزاد ہوتے تھے. اچانک گلی میں ایک تانگہ داخل ہوا اور ٹخ ٹخ کرتا، مسجد کے سامنے آ کر رک گیا. ہم سب نے کنچے کھیلنے بند کئے اور غور سے دیکھنے لگے، کہ مسجد میں کون آیا ہے

خداخدا کر کے، تانگے سے ایک نورانی شکل و صورت کے بزرگ اترے اور تانگے والے کو، جیب سے کچھ پیسے نکل کر دئے. اتنے میں مسجد کا ملازم بھی، باہر نکل آیا. بڑھ کر بزرگ کا استقبال کیا اور تانگے سے ایک جستی ٹرنک اتار کر، مسجد میں لے گیا. تانگہ چلا گیا تو بزرگ نے ادھر ادھر دیکھا. پھر ہمیں دیکھ کر انکے چہرے پر، ایک شفیق مسکراہٹ دوڑ گئ. تھوڑی دیر تو، دور ہی کھڑے دیکھتے رہے، پھر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے قریب آ گئے

السلام و علیکم مولوی صاحب!’ ہم سب نے ڈرتے ڈرتے سلام کیا. کچھ کچھ اندازہ ہوچکا تھا کے بزرگ مسجد کے نئے مولوی صاحب تھے
وعلیکم السلام میرے بچو!’ مولوی صاحب نے بدستور قائم شفیق مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور پیار سے آگے کھڑے دو تین بچوں کے سر پر ہاتھ پھیرا جن میں میں بھی شامل تھا. مشک کی دلفریب خوشبو نے ہم سب کو اپنے گھیرے میں لے لیا

میں نے غور سے مولوی صاحب کا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا. غالباً ستر کے پیٹے میں قدم رکھ چکے تھے. دھان پان سا اکہرا بدن تھا. سر پر ایک قراقلی ٹوپی تھی، جس کے کناروں سے سلیقے سے کٹے بال، جھانک رہے تھے. اونچی کشادہ پیشانی اور گھنی سفید بھنووں کے نیچے اور نازک سنہری فریم کے پیچھے سے، جھانکتی، دو نرم گرم اور روشن آنکھیں. مغربی کہانیوں کے بابے کرسمس کی طرح کی، سفید داڑھی مونچھوں کے پیچھے سے، صاف ستھرا گندمی رنگ جھلک رہا تھا. سفید کرتے پاجامے پر بادامی رنگ کی اچکن پہنی ہوئی تھی، جس کے ایک طرف، جیبی گھڑی کی سنہری زنجیر لٹک رہی تھی

.کیا ہورہا ہے میرے بچو؟’ مولوی صاحب نے پوچھا’
جی وہ کنچے کھیل رہے تھے.’ میں نے ڈرتے ڈرتے بتایا، کیونکہ مولوی عبد الجبار مرحوم، کنچوں سے شدید نفرت فرماتے تھے
ارے واہ! دکھاؤ تو ذرا کیسے ہیں تم لوگوں کے کنچے؟’ مولوی صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا، تو ہم سب کی جان میں جان آئ. سب بچوں نے جیبوں سے کنچے نکال کر، دکھانے شروع کر دئے
ہوں…….!’ مولوی صاحب نے ہتھیلی پر رکھ کر، باری باری، تمام کنچوں کا بغور معائینہ کیا. ‘اچھے ہیں، لیکن اتنے اچھے نہیں، جتنے میرے پاس ہیں
یہ کہ کر مولوی صاحب نے ہماری طرف دیکھا، تو ہم سب کے منہ حیرت سے کھلے دیکھ کر، بے اختیار ہنس پڑے
کیوں بھائی؟ میرے پاس کنچے نہیں ہوسکتے کیا؟ چلو کل سے شام کو، عصر کے بعد، قران پڑھنے آنا. میں دکھاؤں گا.’ یہ کہ کر مولوی صاحب تو مسجد کے صحن سے متصل، اپنے کوارٹر میں چلے گئے، لیکن ہم سب بچوں کو اگلی شام کے انتظار میں، بےچین چھوڑ گئے. وہ پہلا موقعہ تھا کے جب، محلے کے بچوں نے، مسجد جانے کیلئے بے صبری کا مظاہرہ کیا

____________________________________
اگلی شام مسجد پوہنچے تو حیرت کے کئ سلسلے، ہمارے منتظر تھے. پہلا خوش گوار دھچکا تو یہ پوہنچا کے، مسجد میں مولوی صاحب، ڈھیر ساری ٹافیوں اور چاکلیٹوں کے ساتھ، ہمارے منتظر تھے. اس کے بعد انہوں نے اپنا کنچوں کا ذخیرہ ہمیں دکھایا. ذخیرہ کیا تھا، پورا خزانہ تھا. سنہرے، روپہلی، نیلے، پیلے، لال، سبز، غرضیکہ، ہر رنگ و نسل کا، اور ہر سائز کا کنچا، مولوی صاحب کے پاس موجود تھا. ہم انگلیوں میں گھما گھما کر ترستے ہی رہے

اتنے خوبصورت کنچے چھوڑ کر، گھر جانے کا دل، کس کافر کا کرتا تھا، مگر مغرب کی اذان کا وقت ہوچلا تھا. دل پر پتھر رکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے. اچانک مولوی صاحب نے کہا
‘یہ سب کنچے تم لوگوں کے ہیں’
.ہیں؟ مولوی صاحب کا دماغ چل تو نہیں گیا؟’ یہ سوال ہم سب کے ذھن میں، گردش کر رہا تھا’
یہ کنچے تمھارے ہیں.’ مولوی صاحب نے دوبارہ کہا: ‘تم جب چاہے، ان سے کھیل سکتے ہو. شرط صرف اتنی ہے کے، کھیل کر واپس، یہیں مسجد میں رکھ جاؤ گے

ہم سب کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا. اس دن کے بعد، ہم روز ظہر کے بعد، مسجد کے ہال میں، سپاروں کے برابر رکھے گتے کے ڈبے سے کنچے نکالتے، خوب کھیلتے اور پھر واپس وہیں رکھ دیتے. کبھی کوئی کنچا گم ہوجاتا تو مولوی صاحب کو بتا دیتے. اگلے دن، ڈبے میں کنچے پھر سے، تعداد میں پورے ہوتے. ہم سب کو یقین تھا کے مولوی صاحب کا کنچوں کا ڈبہ، جادو کا ڈبہ تھا

_________________________________
مولوی عبد الغفار، واقعی بہت مختلف اور عجیب و غریب انسان تھے. صرف کنچوں یا چاکلیٹوں یا ٹافیوں کی حد تک نہیں، بلکہ اس سے بہت آگے. اس بات کا اندازہ مجھے اس دن ہوا، جس دن میں نے ان کو، فوجو کی بیٹی رضیہ کے، لاڈ اٹھاتے دیکھا. اس دن، حسب معمول ہم بچے گلی میں کھیل رہے تھے اور مولوی صاحب، مسجد کے صدر دروازے کی محراب کے نیچے، سیڑھیوں پر بیٹھے، ہمیں دیکھ دیکھ کر، مسکرا رہے تھے. اتنے میں فوجو بھی، اپنی بیٹی کو گود میں اٹھائے، وہاں سے گزرا اور مولوی صاحب کو سلام کیا
.وعلیکم السلام میاں فوج دین. کہو مزاج کیسے ہیں؟’ مولوی صاحب اٹھ کر کھڑے ہوگئے’
.ہیں فوج دین؟ یہ فوج دین کون ہے؟’ ہم سب نے ایک دوسرے کی طرف، سوالیہ نظروں سے دیکھا’
ارے واہ! آج تو ہماری بیٹی بھی آئ ہے.’ مولوی صاحب کی نظر، فوجو کی گود میں چڑھی رضیہ پر پڑ گئ. اور انہوں نے بڑھ کر، اس کو اپنی گود میں لے لیا
ارے کیا کرتے ہیں مولبی صاب؟’ فوجو بوکھلا کر بولا. ‘آپ کے کپڑے ناپاک ہوجاءیں گے. پھر اس کی آج ناک بھی، بہت بری طرح بہ رہی ہے
نہیں بھائی، یہ تو فرشتہ ہے. یہ کیسے کپڑے ناپاک کر سکتی ہے؟’ مولوی صاحب نے رضیہ کی پیشانی چومتے ہوئے پوچھا. ‘رہ گیا بہتی ناک کا مسلہء، تو حل کئے دیتے ہیں

مولوی صاحب رضیہ کو مسجد میں لے گئے اور وضو والا نلکا کھول کر، اپنی انگلیوں سے، اس کی بہتی ناک صاف کرنے لگ گئے. ہم سب بچے اور فوجو، مسجد کے دروازے پر کھڑے، پھٹی پھٹی آنکھوں سے، مولوی صاحب اور رضیہ کو، دیکھ رہے تھے. رضیہ کو بھی مولوی صاحب غالباً بہت اچھے لگے تھے، کیونکہ وہ گھبرانے یا رونے کی بجائے، مولوی صاحب کی داڑھی پر، پانی کے چھینٹے اڑا رہی تھی
یہ لو میاں، سنبھالو اپنی امانت.’ مولوی صاحب نے جیب سے کچھ ٹافیاں نکالیں اور رضیہ کے ہاتھ میں تھما کر، اسے واپس، فوجو کی گود میں دے دیا. ‘اور کبھی کبھی، اسکو مجھ سے ملوانے، لے آیا کرو
فوجو بیچارا کیا کہتا. چپ چاپ آنکھیں ملتا رضیہ کو لیکر چلا گیا

.مولوی صاحب یہ آپ نے کیا کیا؟ یہ لوگ تو ناپاک ہوتے ہیں.’ میں نے آگے بڑھ کر کہا’
کوئی ناپاک نہیں ہوتا بیٹے. سب ایک خدا کی مخلوق ہیں. میں بھی، فوج دین بھی اور تم بھی، رضیہ بھی.’ مولوی صاحب نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا. ‘محبت کی عینک لگا کر دیکھو گے تو سب کو، پاک ہی پاؤ گے
.لیکن مولوی عبد الجبار تو کہتے تھے کے، فوجو کافر ہے اور سیدھا جہنّم میں جائے گا.’ میں نے پوچھا’
کون جنّت میں جائے گا اور کون جہنّم میں؟ یہ کون بتا سکتا ہے سوائے اس ذات کے، جس نے ہم سب کو پیدا کیا.’ مولوی صاحب نے مسکراتے ہوئے انگلی اوپر اٹھائی اور پھر کہنے لگے
دیکھو بچو! اس محلے میں سب رہتے ہیں. اچھے بھی اور برے بھی. گناہگار بھی اور نیک بھی. اور ان سب کی گندگی اور غلاظت، فوج دین اٹھاتا ہے. صفائی نصف ایمان ہے، تو ہم سب کے اس نصف ایمان کو، فوج دین پورا کرتا ہے. مجھے تو لگتا ہے، جنت میں سب سے پہلے فوج دین ہی داخل ہوگا
لیکن فوج دین عیسائی ہے مولوی صاحب. وہ جنّت میں نہیں جا سکتا.’ میں مولوی صاحب کی بات سمجھ نہیں پایا تھا
دیکھو بیٹے. ہم سب ایک خدا کی جانب چل رہے ہیں. راستے الگ الگ ہیں تو کیا، منزل تو ایک ہے نا سب کی.’ مولوی صاحب نے بدستور شفقت سے کہا اور مسجد میں اذان دینے چلے گئے

بدقسمتی سے ایسا صرف مولوی صاحب سمجھتے تھے. شاید صرف ان کے دل میں، الله کی مخلوق کیلئے محبت تھی. محلے کے باقی لوگوں کے دل، پتھر کی طرح سخت تھے. اس بات کا یقین مجھے اس دن ہوا، جس دن قاضی صاحب نے رضیہ بیچاری کو، بہت بیدردی سے مارا

ہوا کچھ یوں کے، ایک دن، مولوی صاحب شام کو کسی حکیم کے ہاں گئے ہوئے تھے. پیچھے کہیں رضیہ کھیلتی ہوئی آئ تو، مولوی صاحب کو ڈھونڈتی، مسجد میں چلی گئ. قاضی صاحب نماز پڑھ کر باہر نکل رہے تھے. انہوں نے یوں فوجو کی بیٹی کو دندناتے، مسجد میں گھستے دیکھا تو، پاؤں میں پہننے کیلئے پکڑی، موٹے سول کی جوتی، کھینچ کر اس بیچاری کو دے ماری. جوتی جا کر اسکی کنپٹی کے پاس لگی اور وہاں سے خون بہنے لگا. بیچاری وہیں فرش پر بیٹھ کر، دھاڑیں مار مار کر رونے لگی اور مولوی صاحب کو پکارتی رہی. جب قاضی صاحب کے بہت گالیاں دینے اور چیخنے کے باوجود، مسجد سے نہیں نکلی تو انکو اور غصّہ چڑھ گیا. آؤ دیکھا نا تاؤ، رضیہ بیچاری کو بالوں سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے، مسجد کے دروازے سے باہر کھینچ لائے

مت ماریں قاضی صاحب. میری بچی کو معاف کر دیں.’ فوجو بیچارے نے دور سے رضیہ کی درگت بنتے دیکھی، تو روتا بھاگتا آیا اور قاضی صاحب کے پاؤں پکڑ لئے
ہوں! حرکتیں دیکھی ہیں تم نے اس چڑیل کی؟ مسجد میں گھس کر، الله کے گھر کو، ناپاک کر رہی تھی.’ قاضی صاحب کے نتھنوں سے، ارنے بھینسے کی طرح، دھواں نکل رہا تھا: ‘آئندہ میں نے اسکو، مسجد میں دیکھا تو، جان سے مار دوں گا

کیوں بھائی قاضی صاحب، کیا روز قیامت آ گیا ہےکہ ننھی سی جان کو، مارنے پر تلے کھڑے ہیں؟’ میں نے مڑ کر دیکھا تو مولوی عبد الغفار بھی موقعہ پر پوہنچ چکے تھے. ان کی آنکھوں سے، رضیہ کی حالت دیکھ کر، آنسو بہ رہے تھے اور ہاتھ جذبات کی وجہ سے، کانپ رہے تھے. رضیہ کو بھی پتا نہیں کیا سوجھی کے باپ کو بھول کر، مولوی صاحب کے گھٹنوں سے آ لپٹی
چلو میاں فوج دین، میرے ساتھ آؤ. میں بھی دیکھوں کہ خدا کی مخلوق، خدا ہی کی مخلوق کو، خدا کے گھر سے، کیسے نکالتی ہے؟’ مولوی صاحب نے فوجو کو کندھے سے پکڑا، رضیہ کا خون اپنے رومال سے صاف کیا، اور مسجد کے صحن سے گزرتے، دونوں کو، اپنے حجرے میں لے گئے

قاضی صاحب کچھ دیر تو سکتے میں کھڑے دیکھتے رہے اور پھر، بڑبڑاتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلے گئے

____________________________________
وقت کا پہیہ گھومتا رہا. مولوی عبدالغفار ضعیف سے ضعیف تر ہوتے چلے گئے اور ہم تھوڑے سے بڑے ہوگئے

وہ دسمبر کے اوائل کی بات تھی. دوپہر کی سنہری دھوپ پھیلی تھی. میں گلی میں، اپنی نئی سائکل چلانا سیکھ رہا تھا. مسجد کی داخلی سیڑھیوں پر، مولوی عبد الغفار بیٹھے تھے اور اپنے ہاتھوں سے مالٹے کاٹ کاٹ کر، فوجو اور رضیہ کو پیش کر رہے تھے

ہاں بھئی، ہماری بیٹی کی تو عید آ رہی ہے. کرسمس آئے گا تو خوب مزے ہوں گے.’ مولوی صاحب نے مسکراتے ہوئے رضیہ سے کہا
کونسی عید؟ کہاں کا کرسمس مولبی صاب؟ ہم غریبوں کے تو سب دن ایک سے ہوتے ہیں.’ فوجو نے حسرت سے کہا
کیوں بھئی رضیہ، تم بتاؤ. اس دفعہ سانتا کلاز تمھارے لئے، کرسمس پر، کیا لا رہا ہے؟’ مولوی صاحب نے رضیہ سے پوچھا
میں تو گڑیا لوں گی مولبی صاب. پھر اس کی شادی کروں گی.’ رضیہ نے لاڈ سے، مولوی صاحب کا گھٹنا پکڑ کر کہا
کیا بات کرتے ہیں مولبی صاب؟’ فوجو نے ہنستے ہوئے کہا. ‘یہ پاکستان ہے، ولایت نہیں ہے. یہاں کوئی سانتا کلاز نہیں آتا
.ہوں!’ مولوی صاحب نے ایک لمبا ہنکارا بھرا اور کسی گہری سوچ میں پڑ گئے. خیر، بات آئ گئ ہوگئ’

٢٤دسمبر کو میں قران پڑھنے گیا تو مولوی صاحب نے، مسجد میں ہی روک لیا. پھر میرے والد سے اجازت لیکر، مجھے انار کالی بازار لے گئے. ڈھیر سارے بچوں کے کپڑے، کھلونے، پنسلیں، کاپیاں اور پتا نہیں کیا الا بلا خرید لیا

.یہ سب کیا ہے مولوی صاحب؟’ میں نے حیرت سے پوچھا’
بس تم دیکھتے جاؤ. آج بہت سارے بچوں کو خوش کرنا ہے.’ مولوی صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا. ‘کل عیسائی بچوں کی عید ہے. یہ سب ان کیلئے ہے
.تو آپ نے سانتا کلاز بننے کی پوری تیاری کر لی ہے؟’ میں نے شرارت سے پوچھا’
.ہاں یہ ہی سمجھ لو بیٹے.’ مولوی صاحب نے میرا کندھا دباتے ہوئے کہا’
اتنے پیسے کہاں سے آئے آپ کے پاس؟’ میں نے ان کے نیفے میں اڑسی، نوٹوں کی گڈّی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، پوچھا
یہ حج کیلئے رکھے تھے. لیکن مجھے نہیں لگتا کے، حج کیلئے مہلت ملے گی.’ مولوی صاحب نے کچھ اداسی سے کہا. ‘خیر بچوں کو خوش کرنا شاید، حج سے بہتر ہے

لیکن میں مولوی صاحب کے جوش و خروش کو دیکھ کر کچھ پریشان تھا. وہ بہت بوڑھے ہو چکے تھے. اور اس دن تو کچھ زیادہ ہی کھانس رہے تھے. شاید سردی سے سینہ پکڑا گیا تھا. میں نے بہت بار انکو واپس چلنے کیلئے کہا، لیکن وہ ہر بار، جیب سے ایک لسٹ نکال کر دیکھتے اور ‘بس تھوڑی سی دیر اور!’ کہ کر، پھر سے خریداری میں لگ جاتے

واپس آنے تک مولوی صاحب کی صحت بہت بگڑ چکی تھی. لیکن اس کے باوجود انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور عیسائیوں کی کالونی میں، گھر گھر جا کر، بچوں میں تحائف تقسیم کئے. مجھے آج بھی رضیہ کے چہرے پر پھیلی، خوشی کی روشنی نہیں بھولتی، جب اس نے پیکٹ سے اپنی گڑیا نکال کر دیکھی. وہ بے اختیار مولوی صاحب کے گلے لگ گئ. رضیہ کو سینے سے لگائے، دو میلے سے آنسو، مولوی صاحب کی آنکھوں سے نکلے اور انکی سفید داڑھی میں جذب ہوگئے

.ارے! آپ رو رہے ہیں مولوی صاحب؟’ میں نے چونک کر پوچھا’
ارے نہیں بیٹے. ویسے ہی، ٹھنڈی ہوا سے آنکھوں میں پانی سا آ گیا ہے.’ مولوی صاحب نے رومال سے آنکھیں پونچھتے ہوئے کہا

رات گئے میں نے، مولوی صاحب کو انکے حجرے کے دروازے تک لا کر خدا حافظ کہا. لیکن انکی حالت بہت خراب تھی. میں نے ڈاکٹر کو بلانے کو کہا، لیکن وہ بضد تھے کے اگلی صبح دیکھا جائے گا. لیکن مجھے لاشعوری طور پر احساس ہو چلا تھا کہ وہ مولوی صاحب سے میری، آخری ملاقات تھی

اگلی صبح ہلکی ہلکی بارش اور شدید سردی کے باوجود، مولوی صاحب کا جنازہ بہت دھوم سے نکلا. لیکن بڑا عجیب و غریب جنازہ تھا. آگے آگے محلے کے بڑے، جنازے کی چارپائی اٹھائے اور کلمہ شہادت کا ورد کرتے، چل رہے تھے. پیچھے پیچھے محلے کے چھوٹے بڑے تمام بچے، خاموشی سے چلے جا رہے تھے. اور سب سے پیچھے، سینکڑوں کی تعداد میں، عیسائی کالونی کے مکین، فوجو کی سربراہی میں سر جھکائے چل رہے تھے

مذہب اور عمر کے فرق سے بالا تر، ایک قدر ہم سب میں مشترک تھی. وہ یہ کے ہم سب کی آنکھیں، آنسوؤں سے تر تھیں

مولوی عبد الغفور کا جنازہ، صرف ایک مسلمان کا جنازہ نہیں تھا

مولوی عبد الغفور کا جنازہ، ایک بہت بڑے انسان کا جنازہ بھی تھا

 

35 thoughts on “فوجو چوہڑا اور مولوی عبدالغفور

  1. Love if present does bring people together. Love is the only force capable of melting hearts and bridging distances. It is the only force that binds God with man. Unconditional love with his creations bring his love too. Which is only possible if you think of yourself lowerer that the lowest once. Which is an entirely other story…

    Liked by 1 person

  2. …جب ”بخت“ ساتھ نا دے تو سچ ہے کے ہم غریب دیوانوں کے تو سب دن ایک سے ہوتے ہیں

    درست فرمایا سرکاراں۔۔۔ ‘زندگی سے بڑا غم کیا ہوگا ؟’

    Liked by 2 people

  3. Another great story, Simply amazing. Really loved it. A true depiction of love for mankind. Expressing the true spirit of religion and humanity. Please keep Writing and provide us the opportunity to read about life, it’s challenges & blessings.

    Liked by 1 person

  4. اچھا ، بلکہ پہت اچھا لکھا ۔ ہمارے لئے انتہاِئی اہم لوگ ہمیشہ ہم لوگوں کے ہاتھوں ہی دُھتدکارے جاتے ہیں۔ ہم جیسے پڑے لوگ ان جیسے چھوٹے لوگوں سےتضحیک امیز رویہ اپنا حق سمجحتے ہں۔ انسانیت اور پرابری کا وہ خوبصورت سبق جو ہمارا مزب ہمیں دیتا ہے اُسے آپ نے بہت پیارے انداز مں بیان کیا ہے۔

    Liked by 1 person

  5. اگر یہ تحریر کسی کاغذ پر لکھی ہوتی تو میرے آنسووں میں بہہ گیا ہوتا، آپ کو دل کی سبھی تاروں کا پتہ ہے، بہت خوبصورت، بہت اچھا لگا پڑھ کر، اور آپ کے لئے بے پناہ محبت محسوس ہوئی ۔

    Liked by 1 person

  6. Puranay waqt k saath saath aisay loug bhi ab haath nahi atay… We can hardly see such hearts of gold around us anymore… It makes me feel so nostalgic and feel bad for kids today who hardly see this beauty of natural goodness around them. Today’s child is a prisoner of Artificial intelligence and it’s so unfortunate.

    Like

  7. great sir, this literally make me cry. i have no words to explain my feelings
    some great words
    .تو نہیں سمجھتا. تو مسلمان ہوگیا نا، تو بخشا جائے گا. جنت ملے گی، جنت.’ مولوی صاحب اصرار کرتے’
    جنت میں جاؤں گا تو کونسا تخت پر بیٹھا دو گے مولبی صاب؟ وہاں بھی لیٹرینیں ہی صاف کراؤ گے مجھ سے. یا پھر خود شرابیں پیو گے اور بوتلیں، مجھ سے اٹھواؤ گے. اورمیری بیوی حوروں کی ٹانگیں ہی دباتی رہے گی.’ فوجو بدستور خوش مزاجی سے جواب دیتا

    Liked by 1 person

Leave a comment