اظہار کرو، انتظار نا کرو

maxresdefault-1.jpg

دیکھئے صاحب! میں بالکل بھی پاگل نہیں ہوں. ہاں میرے الفاظ سننے میں پاگل پن ضرور لگتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے

دیکھئے آپ میری بات پر دھیان ضرور دیجئے. بیشک پاگل سمجھ کر پتھر مار دیں مگر ایک لمحے کو میری بات پر دھیان ضرور دیں

ایک بار میری کہانی سن لیں، یقین مانیں اس میں آپ کا ہی فائدہ ہے

کچھ سال پہلے کا ذکر ہے اور غالباً جنوری کے اوائل کی بات ہے. میں ملتان کے کمپنی باغ میں بیٹھا دھوپ تاپ رہا تھا. دوپہر کی سنہری دھوپ ڈھل رہی تھی اور پیروں میں زرد پتوں کا ایک قالین سا بچھا ہوا تھا. برگد کے بڑے بڑے اور بوڑھے درخت چاروں طرف، پرشفیق بزرگوں کی طرح ایستادہ تھے؛ اور دھوپ ان کے گھنے پتوں سے چھن چھن کر، سبز مخملی گھاس پر متحرک روشنی کے خوش نما نمونے بنا رہی تھی

ملتان کا کمپنی باغ ابھی تک سو سال پہلے کے دور میں سانس لے رہا ہے. آہنی گیٹ سے اندر داخل ہوتے ہی انسان موجودہ زمانے سے کٹ کر رہ جاتا ہے. ٹریفک کا شور باہر دور کہیں رہ جاتا ہے. اندر صرف باغ کا اپنا سنّاٹا ہوتا ہے یا پھر لاتعداد پرندوں کا شور. میرا جب بھی شہر کے ہنگاموں اور زندگی کے دکھوں سے جی اکتاتا تھا، میں اٹھ کر یہاں چلا آتا تھا

پر وہ شام کچھ الگ سی ہی تھی. میں بہت اداس تھا اسلئے کے میری پچھلی دو دہائیوں کی ساتھی اور میری جان سے پیاری بیوی، مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جدا ہونے کو تھی. ابھی عمر ہی کیا ہوئی تھی اس کی. مشکل سے چالیس کی تھی اور دیکھنے میں بتیس سے اوپر کی نہیں لگتی تھی. بہت برداشت اور ہمت والی تھی. آخر ہمت تھی تو میرے جیسے آدمی کے ساتھ بیس سال گزار دئے تھے. اور میں نے اسکو دیا ہی کیا تھا. ایک چھت بھی نہیں دے سکا جسکو وہ اپنا کہ سکتی. لیکن دیتا بھی کیسے؟ رشوت لیتا نہیں تھا اور کلرک کی تنخواہ میں مہینے بھر کا خرچہ ہی پورا ہوجاتا، بڑی بات تھی

مجھے ابھی تک یاد ہے جب میں سلمیٰ کو بیاہ کر لایا تھا. ایسا ہی سردیوں کا موسم تھا. میرا سسرال بہاولپور میں تھا. میری بارات بسوں پر گئ تھی اور میری ماں نے بڑے شوق سے، سلمیٰ کے سر پر ہاتھ پھیرکر اسے اپنی بیٹی بنایا تھا. میرے جیسے ہی انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے ایک کلرک کی بیٹی تھی؛ اور میرے سسر مرحوم، میری ہی طرح، “ہٰذا من فضل ربی!” پر کچھ زیادہ یقین نہیں رکھتے تھے. بہرحال پڑھی لکھی لڑکی تھی. اس کے بھی کچھ خواب ہوں گے. بچپن تکلیف میں گزرا تھا تو کیا ہوا، مجھے یقین ہے کہ اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرح اسے بھی خوابوں کے کسی شہزادے کا انتظار تھا

خیر گھر پہنچنے کے بعد سے لیکر آج تک، اس الله کی بندی نے کبھی کوئی شکوہ شکایت نہیں کیا تھا. صبر شکر سے میرے ساتھ زندگی گزاری تھی. جب مل جاتا، کھا لیتی اور پہن لیتی. جب نا ملتا توبھی مسکرا کر چپ کر جاتی اور مجھے بھی صبر کی تلقین کرتی. اولاد کی نعمت سے الله نے ہمیں محروم ہی رکھا تھا. پہلے پانچ دس سال تو کسی بچے کی کمی محسوس ہوتی تھی مگر پھر تو عادت سی ہوگئ تھی

میں آپ کو سچ بتاؤں، مجھے شادی کے وقت سلمیٰ سے کوئی محبت نہیں تھی. اور سیدھی بات یہ کہ ہوتی بھی کیسے؟ میں نے تو نکاح سے قبل دیکھا بھی نہیں تھا اس الله کی بندی کو. لیکن پھر جیسے جیسے وقت گزرتا چلا گیا، مجھے سلمیٰ سے محبت ہوتی چلی گئ. جیسے قطرہ قطرہ پانی سے پتھر میں سوراخ ہوتا ہے، اس کی قطرہ قطرہ محبت نے بھی میرے دل میں جگہ بنا ہی لی. اور اب تو اس کے بغیر گزارا اس قدر ناممکن ہو چکا تھا کہ میں گھر کی بجائے، ہسپتال میں ہی رات بسر کرتا. وارڈ میں اس کے بیڈ کے پاس ہی لکڑی کی ایک سالخوردہ بنچ تھی. بس میں اس پر اپنا بستر بناتا اور باتیں کرتے کرتے ہم دونوں سو جاتے. یا پھر اس کو تکلیف زیادہ ہوتی تو باتیں کرتے کرتے رات گزر جاتی

ہاں تو میں آپ کو بتا رہا تھا کے یوں تو سلمیٰ بہت ہمت والی عورت تھی مگر کینسر نے اسکی کمر توڑ کر رکھ دی تھی. رحم کا کینسر تھا اس کو. اب بھلا آپ ہی بتائیے……جب اس بھلی لوک کے رحم سے کسی زندگی نے جنم ہی نہیں لیا تھا تو کیا ضرورت تھی خدا کو کینسر جیسا موذی مرض دینے کی. خیراتنا بھیانک مرض تھا کہ دنوں میں ہی اس کی، بڑی بڑی آنکھوں کے گرد، حلقے پڑ گئے؛ اور جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گیا. مزید ظلم کیموتھیراپی نے ڈھا دیا اور اس کے لمبے لمبے بال، سارے کے سارے جھڑ گئے

خیر مجھے تو وہ اب بھی ویسی ہی دکھتی تھی جیسی پہلی رات دکھتی تھی. لیکن بہت تکلیف میں تھی بیچاری اور مجھ سے اسکی تکلیف نہیں دیکھی جاتی تھی. کچھ نا کر سکنے کی خلش نے میرا دماغ ماؤف کر دیا تھا. اسکو بچانے کی کوشش میں میں نے عجیب و غریب حرکتیں شروع کر دیں تھیں

آپ یقین مانیں ایک دن میں وارڈ میں بنچ پر لیٹا ایک تاریخ کی کتاب پڑھ رہا تھا. نظر سے گزرا کے ایک دفعہ جب مغل بادشاہ بابر کا بیٹا ہمایوں، بہت بیمار ہوگیا اور جان کے لالے پڑ گئے تو، مجبور باپ نے بیٹے کے بستر کے گرد سات چکّر لگائے؛ اور بیٹے کی بیماری باپ کو لگ گئ

تھوڑی دیر تو میں اپنے آپ کو سمجھاتا رہا کے قصّے کہانیوں کی باتیں ہیں، اصل زندگی سے بھلا کیا تعلق. لیکن پھر جب میں نے غور سے سلمیٰ کا چہرہ دیکھا جو نیند میں بھی تکلیف سے مسخ ہورہا تھا تو، مجھ سے نہیں رہا گیا. میں اٹھا اور میں نے دیوانوں کی طرح اس کے بستر کے گرد چکّر لگانے شروع کر دئے. ہر چکّر کے بعد ہاتھ اٹھا کر خدا سے دعا مانگتا کے سلمیٰ کی بیماری مجھے لگ جائے. پتا نہیں کتنے چکّر لگائے. لیکن ہر دفعہ یا تو گننے میں غلطی ہوجاتی یا پھر میں حفظ ما تقدم کے طور پر کچھ مزید چکّر لگا لیتا. اگلے دن صبح جب بخار نے آن جکڑا تو مجھے یقین ہوگیا کے میرا پلان کامیاب ہو چکا تھا. مگر کہاں صاحب. وقتی بخار تھا اور میں پھر بھلا چنگا اور سلمیٰ بیچاری ویسے کی ویسے ہی

خیر اب آپ کو کیا بتاؤں میں اپنی خواری کی کہانی. ملتان کے سب مزاروں پر حاضری دے ڈالی تو پھر گردو نواح کا رخ کیا. ہر آستانہ، ہر تکیہ، ہر قبر، ہر درگاہ پر حاضری دے ڈالی. پتہ نہیں تعویز گنڈوں پر کتنا پیسہ برباد ہوگیا مگر مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی. جی چاہتا تھا کہ یا تو سلمیٰ ٹھیک ہوجائے اور یا پھر پوری کی پوری دنیا تباہ و برباد ہوجائے. قریب تھا کہ میں اپنے ابّا کا چھوڑا، دو کمروں کا کوارٹر بھی بیچ ڈالتا، مگر پھر میری بوڑھی ماں میرے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئ؛ اور اپنے دودھ کا واسطہ دے کر ہوش و حواس کی دنیا میں واپس لے آئ. اب ماں صبح سے شام ہسپتال میں رہتی اور میں دفتر سے فارغ ہو کر ہسپتال پہنچ جاتا

اس دن میرا دل بہت اداس تھا اور پھر وہ شام بھی سنہری دھندلکوں میں لپٹی کوئی لٹی پٹی دلھن دکھائی دے رہی تھی. میں ایک برگد کے پیڑ کے نیچے رکھے بنچ پر بیٹھ گیا؛ اور دل کے بھاری پن سے تنگ آ کر آنکھیں موندیں؛ اور پھر اسی پیڑ سے باتیں کرنے لگ گیا. اس دن ابّا جی مرحوم بھی بہت یاد آرہے تھے. مجھے لگا جیسے بوڑھا پیڑ نا ہو، میرا شفیق باپ ہو. بس جب آنسو آئے تو پھر برسات ہی شروع ہوگئ. پتا نہیں کیا کچھ کہ ڈالا. وہ سب کچھ بھی جو میں اپنے باپ سے کہنا چاہتا تھا اور وہ سب کچھ بھی جو میں، خدا کو سنانا چاہتا تھا

پھر اچانک میرے کان میں ہارمونیم بجنے اور گانے کی آواز آئ. نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک فقیر نما بوڑھا شخص، گلے میں ہارمونیم لٹکائے، درد بھرے سروں میں گاتا میری طرف ہی چلا آ رہا تھا

“اظہار کرو، انتظار نا کرو”

بس یہ ہی دو چھوٹے چھوٹے فقرے گا رہا تھا. “کرو” کو لمبا کھینچ کر تان توڑتا تو غضب ہوجاتا. سیدھا دل پر جا کر اس کی آواز لگ رہی تھی. میں نے آنسو پونچھے اور جیب سے سگریٹ نکال کر جلانے لگا

.بابو! ماچس ملے گی؟’ اس فقیر نے قریب پہنچ کر گانا بند کیا اور مجھے مخاطب کیا تو میں چونک گیا’

عجیب و غریب حلیہ تھا اس فقیر کا. میلے الجھے اور شانوں تک لمبے چاندی کی بیشمار چمک لئے بال؛ گھنی بھنووں تلے چمکتی گہری کالی آنکھیں؛ گلے میں انگنت رنگین منکوں سے بھری مالایئں. یہاں تک تو سب کچھ ٹھیک تھا مگر اس نے ایک پھٹا پرانا اوور کوٹ بھی پہن رکھا تھا جس سے اسکا حلیہ ملتان میں پھرنے والے باقی ملنگوں سے کچھ مختلف تھا

صرف ماچس کیوں؟ سگریٹ بھی لے لیں بابا جی!’ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سگریٹ کی ڈبی آگے بڑھائی

.نہیں یار! تمباکو میں اپنا پیتا ہوں.’ یہ کہ کر اس نے کوٹ کی جیب سے ایک چمڑے کی تھیلی نکالی’

میں انتظار میں تھا کہ بابا جیب سے سستے سگریٹ یا بیڑی نکالے گا. لیکن اس نے تھیلی سے ایک چمکتا دمکتا اور بھاری بھرکم پائپ نکالا تو میں چونک گیا. وہ تقریباً تقریباً ویسا ہی پائپ تھا جیسا کچھ صاحب لوگ پیتے ہیں. میرے کلکٹر صاحب بھی پیتے تھے. مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ میرے صاحب کا پائپ، اس فقیر کے پائپ کے مقابلے میں، سستا اور گھٹیا لگ رہا تھا. اس فقیر کا پائپ بہت خوبصورت تھا. کسی پرانی بھوری لکڑی سے تراشیدہ اور سنہرے نقش و نگار سے سجا. پائپ نکالنے کے بعد اس نے اسی تھیلی میں سے، ایک خوشبودار تمباکو کا پیکٹ نکالا. احتیاط سے اور چٹکی چٹکی کر کے پائپ کو آدھ بھرا اور پھر، میری دی ہوئی ماچس سے اسے سلگایا تو فضاء میں ایک خوشگوار مہک پھل گئ

میں دم سادھے اس فقیر کی حرکتیں دیکھ رہا تھا. ایسا فقیر تو نا کبھی دیکھا نا کبھی سنا

پائپ سلگانے کے بعد وہ میرے ساتھ ہی بنچ پر بیٹھ گیا، ہارمونیم ایک سائیڈ پر احتیاط سے رکھا؛ اور ماچس میری طرف بڑھاتے ہوئے مسکرا کر آنکھ ماری

‘کیا دیکھ رہے ہو؟’

‘کچھ نہیں!’ میں نے کچھ گڑبڑا کر کہا. ‘کون ہو تم؟’

‘میں؟’ اس نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا. ‘میں ہوں انتظار پچھتاوا’

.انتظار پچھتاوا؟ یہ کیسا نام ہوا.’ میں نے حیرت سے پوچھا’

.بس جیسا کام ویسا نام.’ اس نے بدستور مسکراتے ہوئے جواب دیا’

.اور کیا کام ہے تمہارا؟ پچھتانا؟’ میں نے دلچسپی سے پوچھا’

 ہاں بالکل! اور کیا؟ بس اپنے انتظار پر پچھتاتا ہوں اور گاتا ہوں. اور جس بات پر پچھتاتا ہوں، وہ ہی گاتا ہوں….اظہار کر، انتظار نا کر

.کیا مطلب؟ مجھے کچھ سمجھ نہیں آئ تمھاری بات کی.’ میں نے سٹپٹا کر پوچھا’

وہ جواب میں تھوڑی دیر کچھ نہیں بولا. مجھ سے ماچس دوبارہ پکڑی اور پائپ دوبارہ سے سلگانے لگا. تھوڑی ہی دیر میں فضاء میں پھر خوشبودار دھوئیں  کے مرغولے چکر لگانے لگے. مجھے احساس ہوا کے اس کے بدن سے بھی بدبو کی بجائے ایک ہلکی سی خوشبو پھوٹ رہی تھی. بچپن میں امّاں کے پاس ایک صندل کے دانوں کی تسبیح ہوا کرتی تھی. کسی رشتہ دار نے مکّے شریف سے لا کر دی تھی. اس فقیر کے وجود سے بالکل اس تسبیح جیسی خوشبو پھوٹ رہی تھی

کسی زمانے میں، میں پولیس میں ایک اعلی افسر ہوا کرتا تھا.’ اس نے اچانک کہا تو میں پہلے چونکا اور پھر میں نے ایک قہقہہ لگایا

‘کون کیا ہوا کرتا تھا؟’

میں….ایک پولیس افسر….. ہوا کرتا تھا.’ اس نے نرمی سے اپنی بات دہرائ. ‘از دیئر اینی باڈی ایلس سٹنگ ہیئر ود اس؟

میں نے اسکی انگریزی سنی اور سمجھ گیا کے وہ کوئی بہت اونچا فراڈیا تھا. خیر آدمی دلچسپ معلوم ہوتا تھا لہٰذا میں نے صرف مسکرا کر سر ہلا دیا

بہت شان و شوکت تھی. گاڑیاں، وردی، بنگلہ، نوکر چاکر، رعب و دبدبہ. لیکن پھر ایک دن…..’ اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر پائپ کے کش لگانے شروع کر دیے. شاید تمباکو سرد ہو چلا تھا

.پھر ایک دن کیا؟’ میں نے پوچھا’

‘پھر ایک دن مجھے محبّت ہو گئ. ایک لڑکی سے’

میں کچھ نہیں بولا اور صرف اثبات میں سر ہلا دیا

اس کو بھی مجھ سے محبت تھی. غریب گھر کی لڑکی تھی. میں اسکی ہر ضرورت کا خیال رکھتا تھا. اس کو کیا چاہئے تھا، کس وقت چاہئے تھا، میں سب اس کے کہے بغیر پورا کرتا تھا.’ فقیر نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا اور پھر خاموش ہوگیا

.پھر کیا ہوا؟’ میں نے تھوڑی دیر بعد خاموشی سے تنگ آ کر کہا’

‘عجیب لڑکی تھی وہ یار’

اس نے کہا تو میں نے اسکی آنکھوں میں دیکھا. وہاں تعجب کی بجائے ایک عجیب سا غرور چمک رہا تھا

.عجیب کیسے؟’ میں نے پوچھا’.

معمولی نوکری کرتی تھی. کوئی آگے پیچھے نہیں تھا. میں نے کئی دفعہ کہا کے چھوڑ دو. اس نے نہیں چھوڑی نوکری. پیسہ پیسہ جوڑتی اور پھر جو کچھ میں نے اس پر خرچ کیا ہوتا، لوٹا دیتی. مجھ سے کبھی پیسے مانگتی تو قرض کہ کر لیتی اور پھر واپس بھی ذمہ داری سے دے دیتی. مجھے بہت غصہ چڑھتا تھا. لیکن وہ میری اس معاملے میں ایک بھی نہیں سنتی تھی. شہزادی تھی شہزادی

اس نے ہنس کر کہا لیکن میں نے اس کی ہنسی میں رندھے گلے کا درد محسوس کر لیا

‘کہتی تھی کہ اگر دے کر واپس نہیں لینا تو شادی کر لو. میں اپنا حق سمجھ کر لوں گی’

تو تم شادی کیوں نہیں کرتے تھے اس سے؟’ میں نے تھوڑا برہمی سے پوچھا تو اس نے چونک کر میری طرف دیکھا

نا! نا!…غصّہ نہیں کرتے. دوسروں کی غیر ذمہ دار حرکتوں پر، ان کے گناہوں پر، ان کے پچھتاووں پر غصّہ نہیں کرتے. لوگ بہت مجبور ہوتے ہیں یار.’ اس نے ایک نرم مسکراہٹ کے ساتھ کہا

.تمھاری کیا مجبوری تھی؟’ میں نے بدستور اسی لہجے میں پوچھا’

کوئی خاص نہیں تھی. میں اس سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن مجھے شاید اپنی آزادی بہت عزیز تھی. پھر مجھے ایک دن احساس ہوا کہ وہ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز تھی. میری آزادی سے بھی زیادہ، میری روح کی، میرے وجود کی ہر خواہش سے زیادہ عزیز تھی

.تو پھر تم نے شادی کر لی اس سے؟’ میں نے دلچسپی سے پوچھا’

ضرور کر لیتا لیکن یہ احساس بھی بڑی کمبخت چیز ہے. ہمیشہ دیر سے ہی آتا ہے. جب مجھے احساس ہوا تو وہ مجھے چھوڑ کر جا چکی تھی

.کہاں؟’ میں نے پوچھا’

پتہ نہیں. میں نے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا اسکو. پھر ایک دن کال آئ اسکی. اسی دن شادی تھی اسکی. میں بہت رویا، بہت چیخا، اس کو ڈانٹا، اس کی منت کی. مگر وہ نہیں مانی

‘کیوں نہیں مانی؟ اس کو بھی تو تم سے محبت تھی’

ہاں تھی لیکن میں نے اسکی قدر نہیں کی. اس کی محبت کی قدر نہیں کی. میں نے کبھی اس کو یہ نہیں بتایا کہ مجھے اس سے کس قدر شدید محبت تھی. جب کبھی وہ رات کو سو رہی ہوتی اور میری آنکھ کھل جاتی تو میں گھنٹوں بیٹھا اس کے معصوم چہرے کو تکتا رہتا. کبھی آہستگی سے اس کے بال سنوارتا. وہ کوئی برا سپنا دیکھ کر کسمساتی تو پیار سے اسکی پیشانی سہلاتا جب تک کہ اسکی بے چینی دور نہیں ہو جاتی

میں چپ چاپ بیٹھا اس بوڑھے فقیر کو دیکھتا رہا. مجھے اس سے نفرت بھی محسوس ہورہی تھی اور اس سے ہمدردی بھی محسوس ہورہی تھی

تمھیں پتا ہے؟’ اس نے گیلی آنکھیں ملتے ہوئے کہا. ‘محبت میں یہ بہت ضروری ہوتا ہے کے جس سے محبت ہو، اس کو بتایا جائے، بار بار بتایا جائے کہ تمھیں اس سے محبت ہے. تمھیں اس کی قربانیوں کا احساس ہے. تم اس کی قربانیوں کی عزت کرتے ہو. اگر نہیں بتاؤ گے تو آھستہ آہستہ محبت کی جگہ ایک تاریک خنک اور برفیلا خلا لے لیتا ہے

‘کیس قربانیاں؟’ میں نے زہریلے لہجے میں پوچھا. ‘تمھاری شیطانی خواھشات کیلئے اپنے جسم کی قربانی؟ اپنی عزت کی قربانی؟ اپنی عزت نفس کی قربانی؟

ہاں بالکل! قربانیاں تو صرف قربانیاں ہوتی ہیں. ان کا کسی اخلاقی ضابطے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا. کسی گناہ سے، کسی ثواب سے منسلک نہیں ہوتیں. اور پھر مجھے اس سے واقعی بہت محبت تھی. میں اسکی ضرورت اسکی آنکھوں سے سمجھ جایا کرتا تھا. اور ایک بات…..ہم ساتھ ساتھ ضرور رہتے تھے مگر جس دن اسکی شادی ہوئی، وہ کنواری تھی

.بکواس کرتے ہو تم. یہ کیسے ممکن ہے.’ میں نے اسکی بات پر یقین نا کرتے ہوئے کہا’

ممکن ہے میرے دوست…بالکل ممکن ہے، جب محبت خواہش پر غالب ہوتی ہے تو سب کچھ ممکن ہوتا ہے.’

.تمھیں یقیناً وہ خود روک لیتی ہوگی.’ میں نے پوچھا’

نہیں! اس نے مجھے کبھی نہیں روکا. لیکن میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ تب ہاتھ لگاؤں گا جب وہ قانونی طور پر میری ہوگی. اور میں اسے اپنانا چاہتا تھا. اپنی بیوی بنانا چاہتا تھا. لیکن نجانے میں کس لمحے کا انتظار کرتا رہا اور کیوں انتظار کرتا رہا؟

وہ پھر سے خاموش ہوگیا اور جیب سے رومال نکال کر آنکھیں پونچھنے لگا. پتا نہیں اسکے آنسوؤں میں کیا تھا کے آہستہ آہستہ میری نفرت کہیں غایب ہوگئ. مجھے وہ ایک معصوم بچہ دکھائی دے رہا تھا جو اپنا پسندیدہ کھلونا کھو بیٹھا تھا

اور پھر میرے دل میں سلمیٰ کا خیال آ گیا. اس بیچاری نے میرے لئے اتنی قربانیاں دیں. اپنے خوابوں کی قربانیاں، اپنی خواہشوں کی قربانیاں. اس کو اچھی طرح معلوم تھا کے میں کبھی باپ نہیں بن سکتا. لیکن اس کے باوجود وہ کبھی شکایت کا ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لائ. بلکہ جس دن میری میڈیکل رپورٹ ملی، اس دن کے بعد اس نے کبھی بچوں کا لفظ منہ سے نہیں نکالا. لیکن پھر بھی میں نے کبھی اسکو یہ نہیں بتایا تھا کے مجھے اس سے کتنی محبت تھی

.پھر کیا ہوا؟’ میں نے اسکے کندھے پر ہمدردی سے ہاتھ رکھ کر پوچھا’

بس پھر میرا دل کسی چیز میں نہیں لگا. میں نے نوکری چھوڑ دی. بھرا پرا گھر بار چھوڑ دیا. فقیر ہوگیا میں. پھر ایک دن یہ مجھے مل گیا.’ اس نے پیار سے ہارمونیم پر ہاتھ پھیرا

میں نے غور سے ہارمونیم کا جائزہ لیا. کسی کالی پڑتی چمکدار لکڑی سے بنا تھا. سامنے کی طرف ایک سٹیل کی چھوٹی سی پلیٹ لگی تھی جس پر ‘انتظار پچھتاوا’ کھدا ہوا لکھا تھا

 .انتظار….تم نے یہ کہانی مجھے کیوں سنائی ہے؟’ میں نے آہستگی سے اس سے پوچھا’

پتہ نہیں.’ اس نے جھکا ہوا سر اٹھا کر کہا. ‘بس دل کیا تو سنا دی. لیکن یقیناً کوئی نا کوئی مقصد ہوگا اس کے پیچھے

.کیسا مقصد؟ کس کا مقصد؟’ میں نے حیرت سے پوچھا’

رب کا مقصد یار. اور کس کا ہوگا. سب مقصد اسی کے ہیں. سب کچھ وہ کرتا پھرتا ہے. ملا دیتا ہے. الگ کر دیتا ہے. پچھتاوے دیتا ہے. انتظار دیتا ہے. اس کی وہ خود ہی جانے

انتظار! تم یہاں کب کے آئے ہو؟’ بابا غلام محمّد کمپنی باغ کا سب سے بوڑھا مالی تھا. غالباً انتظار کو جانتا تھا اور دور سے دیکھ کر آ گیا تھا

.بہت دیر ہوگئی شاید.’ انتظار نے کہا اور پھر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا’

‘اب تم جاؤ. کہیں تمھیں بھی دیر نا ہوجائے اور تم بھی انتظار ہی نا کرتے رہ جاؤ’

میں نے مسکرا کر اسکی طرف دیکھا اور پھر اٹھ کر چل پڑا

میں نے دل ہی دل میں ارادہ کر لیا تھا کے آج سلمیٰ کو سب کچھ بتا دوں گا. اس کو بتا دوں گا کہ مجھے اس سے کتنی محبت ہے. اس کو بتا دوں گا کے وہ میرے لئے کس قدر ضروری ہے. میرا خیال تھا کہ شاید میرا ایسا کہنا اسکی بیماری کو ختم کر دے. اس کو موت کے منہ سے واپس کھینچ لائے

شام گہری ہوتی جا رہی تھی. میں نے سائیکل وہیں قریب صدر میں ایک دوست کی دوکان میں کھڑی کی اور رکشہ لیکر نشتر ہسپتال چل پڑا

جب میں پہنچا تو سلمیٰ کا بستر خالی پڑا تھا اور امّاں بنچ پر دہری ہوئی پڑی سسک رہی تھی. دو چار اورتین قریب بیٹھی تھیں

.کیا ہوا امّاں؟ سلمیٰ کدھر ہے؟’ میں نے ڈوبتے دل کے ساتھ پوچھا’

.لے گئے تیری سلمیٰ کو وہ.’ امّاں نے سر پیٹ کر کہا’

.کہاں لے گئے؟ کون لے گئے امّاں؟’ میں نے تقریباً روتے ہوئے پوچھا’

لیکن میرا رونا میرے کسی کام نہیں آیا. سلمیٰ بہت دور جا چکی تھی. اتنی دور کہ اس کو میرے رونے کی آواز بھی نہیں آ رہی تھی

پھر یہ ہوا میرے دوست کہ میں نے اگلے دن سلمیٰ کو دفنایا اور چل پڑا کمپنی باغ کی طرف. مجھے بہت غصّہ تھا انتظار پچھتاوا پر. مجھے لگ رہا تھا کہ وہ سب کچھ جانتا تھا. مگر وہاں وہ نہیں تھا. صرف اس بنچ پر اسکا ہارمونیم پڑا تھا

میں نے بابا مالی غلام محمّد کو ڈھونڈا

.بابا وہ کدھر ہے انتظار پچھتاوا؟’ میں نے پوچھا تو وہ غریب گھبرا گیا’

کل رات وہ ادھر باغ میں ہی سو گیا تھا. میں نے منع بھی کیا مگر کہنے لگا کہ میں صبح چلا جاؤں گا. میرا ہارمونیم اختر کلرک کو دے دینا

.پھر وہ چلا گیا صبح؟’ میں نے بے چینی سے پوچھا’

‘ہاں! صبح اس کی اکڑی لاش پڑی تھی بنچ پر. ایدھی والے اٹھا کر لے گئے’

پھر کیا پوچھتے ہو صاحب کہ کیا ہوا. میں نے ہارمونیم اٹھایا اور چل پڑا اپنے کندھے پر اپنے پچھتاوے کا بوجھ اٹھا کر

پھر اختر کلرک انتظار پچھتاوا بن گیا

اب میں بھی گاتا پھرتا ہوں. لوگوں کو بتاتا پھرتا ہوں. پتہ نہیں کسی کو احساس ہوتا ہے کہ نہیں مگر میں اپنی ذمہ داری ضرور نبھاتا ہوں

اظہار کر، انتظار نا کر

7 thoughts on “اظہار کرو، انتظار نا کرو

  1. A very relatable story…
    Taking one down memory lane…

    جناب نے “اظہار، انتظار اور پچھتاوے” کا ذِکر کیا۔۔۔
    تھنکنگ اوف اٹ۔۔۔
    حا حا حا۔۔۔ ویری فنّی۔۔!! 🙄

    اظہار کس منہ سے، اور کیونکر کرے کوئی۔۔؟؟
    سن کون رہا ہے۔۔؟؟
    کون سا حق اور رشتا کیسا۔۔۔
    انتظار کاہے کا۔۔؟؟
    جہاں تک پچھتاوے کی بات ٹھہری۔۔۔
    تو۔۔۔
    کس کس بات پر اب پچھتاوا کی جۓ گا حضور۔۔؟؟
    زندگی چھوٹی پڑ جائے گی۔۔۔ ⁦☹️⁩

    Liked by 2 people

  2. ضروری بات کہنی ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
    اُسے آواز دینی ہو، اُسے واپس بلانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
    بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
    کسی کو یاد رکھنا ہو، کسی کو بھول جانا ہو
    کسی کو موت سے پہلے کیس غم سے بچانا ہو
    حقیقت اور تھی کچھ، اُسکو جا کے یہ بتانا ہو
    ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ۔۔۔
    منیر نیازیصاحب کی شاعری کو اآب نے نثر میں بڑی خوبصورتی سے ڈھالا۔
    انسانی احساسات کی خوبصورت ترجمانی ۔۔۔

    Liked by 2 people

  3. Earthly love is sent by Him to those, He wishes to love and prepare their tender hearts for His Love, through suffering, pain and misery of a shadow of Real Love, However for the ultimate Love between the Creator and creation, to which your stories always hint, but never cross the threshold, taking the reader till that point and never beyond, because to sense and experience it, you , yourself, the esteemed writer, need to Walk the Path, explore it, sit in the company of people well on the way, and guided by a wise old man who has crossed both the threshold and walked the path of Love. And can guide others too on it. It’s a rarity and a matter of luck, more than anything to find such a guide, for which I can only pray for you, myself just walking the path and still lost, but sure of the Goal and of Guide both.

    Liked by 2 people

Leave a comment