مون – دی گریٹ گٹار پلیئر

guitar-player-sketch

مون! تو الو کا پٹھا ہے اور الو کا پٹھا ہی رہے گا ہمیشہ.’ ابا جی نے غصے میں پھنپھناتے ہوئے کہا. مخاطب میں تھا – ان کا انیس سالہ بیٹا مون

‘اس گٹار بجانے میں کچھ نہیں رکھا. برباد ہو جائے گا اس کام میں. لاکھ دفعہ کہا ہے، اگر پڑھنے لکھنے کا دل نہیں کرتا، میرے ساتھ دوکان پر جا کر بیٹھا کر. چار پیسے کمانا سیکھ لے. مگر کہاں؟ تو بے غیرت کا بے غیرت. پتہ نہیں مر کیوں نہیں جاتا؟

میں سنی ان سنی کر کہ باہر نکلا تو اماں نے پکڑ لیا

کہاں جا رہا ہے کمبخت؟’ انہوں نے تقریباً چیختے ہوئے پوچھا اور پھر میرے کندھے پر رکھا گٹار رکھا دیکھ کر کہنے لگیں

کسی دن توڑ کر رکھ دینا ہے میں نے اس منحوس کو. سارا دن بیٹھا چھت پر بجاتا رہتا ہے. نا پڑھائی، نا لکھائی، نا کام، نا کاج. الله کرتا مر ہی جاتا پیدا ہوتے. پتہ نے مجھے میرے کن گناہوں کی سزا ملی ہے تیری شکل میں

اماں سے بچ بچنے کی کوشش میں نکلنے کی کوشش کی تو باجی مارگریٹ کے ہتھے چڑھ گیا

‘کہاں چلی ہے سواری خیر سے؟’

.جی وہ میں…..آرٹس کونسل جا رہا تھا.’ میں نے جینز اوپر چڑھاتے جواب دیا’

وہاں جانے سے بہتر ہے، خربوزے بیچ لے. گانے بجانے سے کچھ نہیں ملنا.’ باجی نے اپنی طرف سے بہت بڑا طنز کیا. ‘غضب خدا کا، ایک میری سہیلیوں کے بھائی ہیں. سب کماتے ہیں یا پھر پڑھتے ہیں. بہنوں کے سارے ارمان پورے کرتے ہیں. ایک میرا بھائی ہے، سالگرہ پر کچھ مانگو تو گٹار پر گلا سڑا کوئی گانا سنا کر چلتا بنتا ہے

میں گھر سے نکلا تو میرے کان اتنے بہت سے طعنے سن سن کر لال سرخ ہورہے تھے. شاید گھر والے کچھ کچھ ٹھیک کہتے تھے مگر مجھے ان کی باتیں بہت بری لگتی تھیں. جب وہ چیخ چیخ کر کوستے تھے تو میرا دل کرتا تھا کہ کوئی پستول اٹھا کر اپنے سر میں گولی مار لوں

میں نے ابھی حال میں ہی ایف اے کے امتحان دئے تھے اور پاس ہونے کی کوئی امید دور دور تک نہیں تھی. کیا کروں؟ پڑھائی میں جی ہی نہیں لگتا. یہ بات نہیں کے کند ذھن ہوں. مشکل سے مشکل دھن بھی مجھے چند منٹوں میں ازبر ہو جاتی ہے اور گٹار کی تاروں پر میری انگلیاں یوں چلتی ہیں جیسے کوئی ماہر بازیگر مہارت سے، تانے رسے پر کرتب دیکھا رہا ہو. لیکن کتاب کھلنے کی دیر ہوتی ہے اور میرے دماغ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں

گھر سے نکلا، چنگچی پر بیٹھا اور مال روڈ سے ہوتا ہوا سیدھا آرٹس کونسل پہنچ گیا. اپنے شوق کے باوجود، گٹار کی کلاس اٹینڈ کرنا بھی کوئی خاص خوش گوار تجربہ نہیں ہوتا تھا. مکھن پالش کی عادت تھی نہیں، لہٰذا ماسٹر جوناتھن کے ساتھ روز  جھڑپ ہوتی تھی. بلکہ جھڑپ کیا ہوتی تھی، وہ بولتا تھا اور میں سنتا تھا چپ کر کے. اور کر بھی کیا سکتا تھا؟ آرٹس کونسل میرے لئے بہشت کا دروازہ تھا. اس دروازے سے گزر کر میں نے کامیابی کی منزلیں طے کرنی تھیں

آ گیا شہزادہ؟’ ماسٹر جوناتھن نے اپنے مخصوص چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا. ‘اٹھ کر استقبال کرو بھائی سب، پرنس مون نے ہمیں اپنے دیدار کا شرف بخشا ہے

میں کچھ نہیں بولا. خاموشی سے اپنی جگہ سنبھالی اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا

‘ادھر آ بے!’ کچھ دیر بعد ماسٹر جی نے مجھے بلا لیا. ‘سنا تو کیا ریاض کیا ہے’

میں خاموشی سے اس کے سامنے سٹول پر بیٹھ گیا. گٹار گود میں رکھا اور کچھ لمحے سوچنے کے بعد، اپنی ایک کمپوزیشن بجانی شروع کی. بہت محنت سے ترتیب دی تھی. بنیادی سر، جل بینڈ کے ایک مشہور گانے سے ماخوذ تھے

.یہ کیا بکواس بجا رہا ہے؟’ ماسٹر جوناتھن نے تیوری چڑھا کر پوچھا’

.میری اپنی کمپوزیشن ہے ماسٹر صاحب. سن تو لیں.’ میں نے للجا کر کہا’

اپنی کمپوزیشن؟’ ماسٹر نے ٹھٹھا لگا کر پوچھا. ‘پہلے زمین سے اگ تو جا. پھر پھل پھول دینے کی بات کرنا. مون میاں! کان میں بالی پہن لینے سے، بال لمبے کرنے سے اور گٹار کو سٹائل سے اٹھانے سے، بندہ موسیقار نہیں بن جاتا

‘جی ماسٹر صاحب!’ میں نے تابعداری سے سر جھکا کر عرض کیا. ‘لیکن میں نے محنت بہت کی تھی’

ہنہ!’ ماسٹر صاحب نے طنزیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھا. ‘میری مان، یہ گٹار شٹار کو بھول جا. یہ تیرے بس کا کام نہیں. جا کر اپنے باپ کے ساتھ دوکان پر بیٹھا کر. جا دفعہ ہو جا یہاں سے. میرے سامنے نا آیا کر

میں آھستہ آہستہ کلاس سے نکلا اور جا کر آرٹس کونسل کی سیڑھیوں پر خاموشی سے بیٹھ گیا. جون کی گرم شام تھی مگر ہلکی سی آندھی چلنے کی وجہ سے سارا ماحول سنہری سا ہورہا تھا. لیکن شام کی خوبصورتی میں بھی مجھے کڑواہٹ گھلی محسوس ہورہی تھی. مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میں مس فٹ ہوں اور اس پوری دنیا میں میرے لئے کہیں کوئی جائے پناہ نہیں تھی

وہاں بیٹھے بیٹھے مجھے استاد الله رکھا مرحوم کی یاد آئ. استاد وہیں آرٹس کونسل میں مصوری کی کلاسیں دیتے تھے. اچھے آدمی تھے. ہمیشہ پیار اور خلوص سے بات کرتے تھے

کبھی کبھی مجھے بہت غمگین دیکھتے تو کہا کرتے تھے: ‘زندگی مشکل چیز ہے مون بیٹے. لیکن جس طرح سے ہم لوگ اس دنیا کی تکلیفوں کو سہتے ہیں، غم برداشت کرتے ہیں اور تمام مشکلات کے باوجود چلتے رہتے ہیں، وہ قابل ستائش ہے

.مجھے تو زندگی میں کچھ بھی تعریف کے قابل نہیں نظر آتا استاد جی.’ میں مایوسی سے جواب دیتا’

زندگی تعریف کے قابل نہیں بیٹے. زندگی گزارنا تعریف کے قابل ہے.’ استاد کہتے. ‘کبھی کبھی، زندگی اور مستقبل  دیکھنے میں تاریک ضرور  نظر آتے ہیں مگرپھر امید کی کوئی کرن زندگی کو روشن کر دیتی ہے

کرنیں سورج سے پھوٹتی ہیں استاد جی.’ میں سر جھکا کر کہتا. ‘اور میری زندگی میں کوئی سورج نہیں ہے

استاد کچھ نا بولتے. بس میرے کندھے کو شفقت سے تھپتھپاتے رہتے. میں نے ادھر ادھر استاد کا مشفق وجود تلاش کرنے کی کوشش کی. مگر آس پاس کوئی نہیں تھا. استاد ایک سال پہلے ہی الله کو پیارے ہو گئے تھے

آرٹس کونسل کے باہر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد میں اٹھا، مرے مرے قدموں سے مال روڈ کراس کی اور لارنس گارڈن میں جا کر، جناح لائبریری کے پاس ہی، پہاڑی کے نیچے، ایک اکیلی بنچ پر بیٹھ گیا. اور کچھ نہیں سوجھی تو گٹار نکالا اور آنکھیں بند کر کے بے مقصد تاروں پر انگلیاں پھیرنے لگا

.موسیقی حرام ہے.’ چابک کی طرح یہ الفاظ میری سماعت سے ٹکرائے تو میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا’

چار باریش نوجوان مجھے گھیرے کھڑے تھے. شانوں پر چار خانے رومال اور ٹخنوں تک اونچی شلواروں سے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کا تعلق کسی مذہبی جماعت سے تھا

یہ شیطانی آلہ سیدھا تمھیں جہنم تک لے جائے گا.’ ان میں سے ایک نے گٹار پر ہاتھ رکھ کر بجاتے ہوئے کہا

‘جی میں…….’ میں نے گڑبڑا کر کہا. ‘میں مسلمان نہیں ہوں، کرسچین ہوں’

پھر یہاں بیٹھے مسلمانوں کا ایمان کیوں خراب کر رہے ہو؟’ دوسرے نے خونخوار لہجے میں پوچھا تو میں دبک کر بیٹھ گیا

‘دوبارہ یہاں گٹار بجاتے نظر آئے تو چمڑی ادیھڑ کر کسی درخت کے ساتھ ٹانک دیں گے، کافر کے بچے’

انہوں نے دھمکی دی اور وہاں سے چلتے بنے

میں کچھ دیر بیٹھا سوچتا رہا

یہ دنیا واقعی میرے لئے نہیں تھی. نا گھر میں سکون تھا، نا گھر سے باہر. ہر جگہ یا تو طعنے تھے، یا بے عزتی تھی اور یا پھر دھمکیاں تھیں

.تو آخر مر کیوں نہیں جاتا؟’ ابا جی کی آواز گونجی’

.الله کرتا تو مر ہی جاتا مردود.’ اماں کی آواز گونجی’

میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور خواب آور گولیوں کی شیشی نکال لی. پچھلے مہینے جب سر کے درد کی وجہ سے ساری ساری رات نیند نہیں آتی تھی تو میرے جگری دوست اسلم نے اپنے باپ کے میڈیکل اسٹور سے چوری چھپے لا کر دی تھی

دیکھنا ایک ہی کھانا. پوری شیشی نا چٹ کر جانا. تیرا جنازہ اٹینڈ کرنے کا کوئی موڈ نہیں ہے میرا.’ اسلم نے ہنس کر نصیحت کی تھی

میں نے شیشی کو انگلیوں میں گھما کر دیکھا. ننھی ننھی سفید گولیاں تھیں. اس وقت وہ شیشی مجھے اپنے تمام غموں کا علاج نظر آ رہی تھی

میں نے چائے والے لڑکے کو آواز دے کر بلایا اور پچاس کا نوٹ دے کر پانی کی بوتل لانے کیلئے کہا اور دوبارہ آنکھیں بند کر کے تاروں پر انگلیاں پھیرنے لگا

ہم یہاں بیٹھ سکتے ہیں تمھارے پاس تھوڑی دیر کیلئے؟’ کسی نے بہت پیار سے پوچھا تو میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا

میرے پاس درمیانی عمر کا ایک جوڑا کھڑا تھا. کپڑوں سے متمول لوگ نظر آ رہے تھے. لیکن کچھ عجیب سی بات تھی دونوں میں. ان کے چہروں پر ایک خاص طرح کی آزادی کی روشنی تھی جو آج کل لوگوں کے چہروں پر نظر نہیں آتی. یوں لگتا تھا کے جیسے وہ دونوں ہر فکر اور پریشانی سے آزاد ہوں. پھر ان کے چہروں اور آنکھوں سے محبت جھلک رہی تھی. مجھے ان کو دیکھ کر اپنے اندر ایک ساتھ، زندگی کی حرارت دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی اور ساتھ ہی ایسے لگا کے جیسے دھوپ میں چلتا چلتا کسی گھنی چھاؤں بھرے درخت کے نیچے پہنچ گیا ہوں

.جی ضرور بیٹھیں.’ میں نے کھسک کر جگہ خالی کی’

ہماری دخل اندازی کا برا نا منانا.’ مرد نے مسکرا کر کہا. ‘ھم نے دور سے تمھیں دیکھا. اور تم یوں گٹار پکڑے بیٹھے اور سوچتے ہمیں بہت اچھے لگے. سوچا چل کر تمھارے پاس بیٹھتے ہیں

میں کچھ نا بولا. بس شرما کر چپ رہ گیا

.کسی کو یاد کر کے بجا رہے ہو؟’ مرد نے مسکراتے ہوئے پوچھا’

.جی نہیں! اپنے لئے بجا رہا ہوں.’ میں نے گڑبڑا کر کہا’

.کچھ سناؤ گے نہیں ہمیں؟’ خاتون نے شفقت سے پوچھا’

.جی ضرور!’ میں نے کہا اور گٹار پر ایک دھن بجانے لگا’

‘بہت اچھا بجاتا ہے’

‘بہت صفائی اور مہارت ہے اس کے ہاتھ میں’

‘ایک دن یقیناً بہت بڑا موسیقار بنے گا’

میں بجاتا جا رہا تھا اور ان کی دھیمی دھیمی تعریفیں میرے کانوں میں پڑ رہیں تھیں. میرا تو خون سیروں کے حساب سے بڑھ گیا

میں نے ڈرتے ڈرتے اپنی کمپوزیشن بجانا شروع کی تو وہ دونوں چونک کر سیدھے ہوگئے

واہ! واہ! کیا بات ہے.’ مرد کی آواز گونجی. ‘یوں لگتا ہے کے فلاں کی ترتیب دی گئ ہو.’ اس نے کسی مغربی بینڈ کا نام لیا جو میرے اوپر سے گزر گیا

ہاں بالکل اور کتنی خوبصورت دھن ہے.’ خاتون نے کہا. ‘دل چاہتا ہے کے یہ بجاتا جائے اور میں سنتی جاؤں

وہ دونوں تھوڑی دیر وہیں بیٹھے مجھے سنتے رہے اور سر دھنتے رہے. پھر جانے کیلئے اٹھ کر کھڑے ہوگئے

.کیا نام ہے تمہارا بیٹے؟’ خاتون نے محبت سے پوچھا’

‘جی مون’

‘بہت پیارا نام ہے’

.مون – دی گریٹ گٹار پلیئر.’ مرد نے مسکرا کر کہا’

میں تھوڑی دیر انکو جاتا دیکھتا رہا. میں نے جیب سے خواب آور گولیوں کی شیشی نکالی اور تھوڑی دیر اسے گھورتا رہا

‘مون – دی گریٹ گٹار پلیئر’

میرے کانوں میں اس مرد کے الفاظ گونجے. میں نے مسکرا کر بازو گھمایا اور شیشی دور گھنی جھاڑیوں میں پھینک دی

Image borrowed from: Tee Barnett (AA)

           

  

            

    

      

7 thoughts on “مون – دی گریٹ گٹار پلیئر

  1. شہریار ماشاءاللہ آپ نے بہت خوبصورتی سے کہانی لکھی ۔لگتا نہیں تھا میں کوئی کہانی پڑھ رہا ہوں ۔اسے لگتا تھا کوئی منظر میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہا ہے ۔۔ماشاءاللہ بہت خوبصورتی سے لکھتے ہیں آپ۔ اور اس کہانی کو پڑھ کر اقبال رح کا شعر یاد آریا ہے ۔(نکمی نہیں کوئی چیز قدرت کے کارخانے میں )۔۔والا

    Liked by 2 people

Leave a comment