دنیا میں چار اقسام کے افراد پائے جاتے ہیں شیدو.’ بابا ڈا ونچی نے اپنی لمبی سفید داڑھی ہلاتے ہوئے کہا. ‘پہلی قسم وہ زندہ رہنے کے باوجود اپنی زندگی نہیں جیتے. جیسے کہ وہ بدنصیب جو ساری زندگی پیسہ جمع کرنے میں لگا دیتے ہیں مگر ان کو پیسہ خرچنے کی یا صحیح معنوں میں پیسے سے لطف اندوز ہونے کی تمیز نہیں ہوتی
.یہ کیسے ہوسکتا ہے ڈاونچی بابا؟’ شیدو نے اپنی کالی کالی چمکتی آنکھوں سے پوچھا’
ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں، زیادہ تر لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے.’ بابا جی نے دایئں ہاتھ کی انگلیوں سے داڑھی میں کنگھی کرتے ہوئے کہا. ‘مزید پیسے کا لالچ ان کو مصروف رکھتا ہے اور اپنے پیچھے پیچھے بھگاتا رہتا ہے
‘ٹھیک!’ شیدو نے سعادت مندی سے سر ہلایا. ‘اور دوسری قسم؟’
دوسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنی پوری زندگی بھرپور طریقے سے جیتے ہیں، جیسا کہ عبدل الستار ایدھی یا پھر قائد اعظم
.یہ تو میں آسانی کے ساتھ سمجھ گیا.’ شیدو نے اعتماد کے ساتھ کہا’
زبردست!’ بابا ڈاونچی مسکرایا. ‘تیسری قسم کے وہ لوگ جو میری طرح کے ہوتے ہیں. ہم اپنی زندگی تو جیتے ہیں مگر زندگی کی حدود و قیود سے باہر بیٹھ کر
.باہر کیوں بابا جی؟’ شیدو نے معصومیت سے پوچھا’
بھائی باہر اسلئے کیونکہ باہر سے ہمیں زندگی کے تمام رخ نظر آتے ہیں. خوبصورت بھی اور بدصورت بھی. خوشی بھی اور غم بھی
.یہ میری سمجھ میں نہیں آیا بابا جی.’ شیدو نے سر کھجاتے ہوئے کہا’
آئے گا بھی نہیں. ابھی تیری عمر یہ سمجھنے کی ہے بھی نہیں.’ ڈاونچی بابا نے شفقت سے شیدو کے سر پر گھنے کالے بالوں کا چھتہ سہلاتے ہوئے کہا. ‘تم صرف چوتھی قسم کے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرو جو باقی تینوں اقسام سے تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں. یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں اور پھر اپنی تمام زندگی بس اس ایک لمحے یا کچھ لمحات میں جیتے ہیں، جس میں یا جن میں ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہیں
‘ہیں؟’ شیدو نے اشتیاق سے پوچھا. ‘یہ کیسے ہوسکتا ہے؟’
.ہو سکتا ہے میرے دوست، ضرور ہوسکتا ہے.’ بابا جی نے مسکراتے ہوئے شیدو کا کندھا دبایا’
شیدو کو بڑا اچھا لگتا تھا جب بابا ڈاونچی اس کو ‘میرے دوست’ کیہ کر بلاتا تھا. وہ اس وقت اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتا تھا
تمھیں رائٹ برادران کے بارے میں پتہ ہے؟’ بابا جی نے بھنویں اچکا کر شیدو سے پوچھا لیکن پھر اس کے چہرے پر الجھن کے آثار دیکھ کر خود ہی جواب دینے لگے. ‘دو بھائی تھے جنہوں نے دنیا کا پہلا ہوائی جہاز بنایا تھا. وہ دونوں اڑنے کا خواب دیکھتے تھے. سب لوگ سمجھتے تھے کہ یا تو ان کا جہاز اڑے گا نہیں یا پھر وہ آسمان سے گر کر مر جایئں گے. لیکن ان دونوں بھائیوں نے جہاز بنایا بھی اور اڑایا بھی، چاہے صرف کچھ سیکنڈوں کیلئے. اور وہ کچھ لمحات ایسے تھے جو ان کی پوری زندگی پر محیط تھے
‘ڈاونچی بابا وہ تو پھر بہت بہادر تھے. ان کو تو بالکل بھی ڈر نہیں لگتا ہوگا؟’
بہادری کا مطلب ڈر یا خوف کی غیر موجودگی نہیں ہوتی شیدو. یہ دونوں چیزیں اگر نا ہوں تو انسان بیوقوف ہوتا ہے، بہادر نہیں
.تو پھر بہادری کیا ہوتی ہے ڈاونچی بابا؟’ شیدو نے حیرت سے پوچھا’
بہادری کا مطلب ہوتا ہے ڈر یا خوف کو سمجھنا اور پھر اس پر قابو پانا.’ بابا جی نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا
تمھیں پتہ ہے تقسیم کے وقت ہمارے محلے میں جیکب نامی ایک خاکروب رہتا تھا؟ بہت معمولی آدمی تھا. اتنا معمولی کہ زیادہ تر لوگوں کو تو اس کا نام بھی پتہ نہیں تھا. بس چوہڑا کیہ کر پکارتے تھے. اس کی ساری زندگی دوسروں کی غلاظت اٹھاتی گزری تھی. اس کا پورے کا پورا چہرہ اس بری طرح سے جلا ہوا تھا کہ دیکھنے سے خوف آتا تھا. پتہ نہیں کیسے جلا تھا لیکن اس کو آگ سے ڈر بہت لگتا تھا. لیکن جب ہنگامے شروع ہوئے اور لاہور کے بہادر مسلمانوں نے کافر ہندؤں کو ختم کرنے کیلئے شاہ عالمی کو آگ لگائی؛ تو جیکب نے جلتی آگ میں کود کر کچھ ہندؤں کی جان بچا لی. اس نے اپنے خوف پر قابو پایا اور یوں اپنی ساری زندگی ان چند لمحات میں گزار لی
_______________________________________________
شیدو بارہ سال کا ایک یتیم بچہ تھا. نا ماں کا پتہ تھا نا باپ کا. ٹکسالی گیٹ کی بغل میں، ایک کوڑے کے ڈھیر پر بھنبھناتی مکھیوں کے بیچ، چند دنوں کا پڑا بلکتا تھا کہ بابا ڈاونچی کی نظر پڑ گئ اور وہ اٹھا کر اپنے کوارٹر میں لے گئے. بہت ہی محبت اور دھیان سے پالا پوسا اور پڑھا لکھا کر بڑا کیا. لوگ مزاق اڑاتے تھے مگر بابے نے کسی کی پرواہ نہیں کی. وہ غالباً شیدو کو اپنی زندگی کا آخری مشن سمجھتے تھے اور مشن کو سرانجام دینے میں کوئی کوتاہی برتنے کو تیار نہیں تھے
بابا ڈاونچی خود بھی ایک بہت ہی دلچسپ شخصیت تھے. لوگ کہتے تھے کہ کسی زمانے میں بابا جی گورنمنٹ کالج لاہور میں طبیعات کے پروفیسر تھے. مگر پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ دماغ پھر گیا اور وہ نوکری پر لات مار کر کہیں نکل گئے. کافی سالوں بعد واپس آئے اور پھر بادامی باغ اڈے سے اندرون شہر تانگہ چلانے لگے. پتہ نہیں اس کہانی میں صداقت کتنی تھی مگر ان کا کوارٹر بھانت بھانت کی کتابوں سے بھرا پڑا تھا
بابا ڈاونچی کا اصل نام یہ نہیں تھا. اصل تو خیر جو بھی تھا، بابا ڈاونچی انکو شیدو نے کہنا شروع کیا تھا. شیدو چونکہ ہوش سنبھالنے سے بہت پہلے سے کتابوں کو دیکھ رہا تھا اسلئے اس کو ان کتابوں سے بہت محبت اور پیار تھا. خاص طور پر اس کو لیونارڈو ڈاونچی کے بارے میں ایک لمبی چوڑی اور نرم سرخ چمڑے کی جلد والی کتاب بہت پسند تھی جس پر سنہرے نقش و نگار بنے تھے؛ اور جو اس اطالوی سائنسدان اور مصور کی ایجادات کی تصاویر سے بھری پڑی تھی
بابا جی!’ ایک دن شیدو نے اس کتاب کے دبیز صفحے پلٹتے ہوئے کہا. ‘آپ کو پتہ ہے آپ کی شکل لیونارڈو ڈاونچی سے بہت ملتی ہے؟ وہ ہی لمبی سفید داڑھی اور سر سے غائب بال
ہاہاہا!’ بابا جی نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا. ‘ہاں بالکل! کسی زمانے میں میرے شاگرد بھی یہی کہا کرتے تھے
.بس پھر آج سے میں آپ کو ڈاونچی بابا کہا کروں گا.’ شیدو نے مچل کر کہا’
اس دن سے بابا جی کا نام ڈاونچی بابا پڑ گیا اور اتنا مشہور ہوگیا کہ آس پاس اور پڑوس میں سب ان کو اسی نام سے پکارنے لگے
_______________________________________
شیدو جب کچھ بڑا ہوا تو اس کو بعض دفعہ یہ سن کر بہت حیرت ہوتی تھی یہ سن کر کہ ڈاونچی بابا ایک زمانے میں کالج میں پروفیسر تھے. ایک دن اس نے جرات مجتمع کر کے بابا جی سے پوچھ ہی لیا
‘ڈاونچی بابا! یہ لوگ آپ کے بارے میں ٹھیک کہتے ہیں؟’
لوگ تو میرے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں بیٹے.’ بابا جی نے مسکرا کر جواب دیا. ‘تمہارا اشارہ کس طرف ہے؟
‘یہ ہی کہ کسی زمانے میں لاہور کے ایک بہت بڑے کالج میں پروفیسر تھے؟’
‘ہاں! ٹھیک کہتے ہیں. میں گورنمنٹ کالج میں بچوں کو سائنس پڑھاتا تھا’
‘تو پھر……….؟’
تو پھر کیا…………؟’ بابا جی بدستور مسکرا رہے تھے. ان کی مسکراہٹ دیکھ کر شیدو کو کچھ حوصلہ ہوا.
‘تو پھر اب آپ یہ تانگہ کیوں چلاتے ہیں؟ کالج میں کیوں نہیں پڑھاتے؟’
:ہوں……!’ بابا جی تھوڑی دیر تو کچھ سوچتے رہے اور پھر بولے’
ہر انسان کی کوئی نا کوئی کالنگ ہوتی ہے بیٹے. یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی کالنگ کو سمجھیں اور پھر اس کے حصول میں مگن ہوجایئں
.یہ کالنگ کیا ہوتی ہے بابا؟’ شیدو نے الجھ کر پوچھا’
‘کالنگ کا مطلب ہوتا ہے مقصد حیات….زندگی کا مقصد’
‘یہ تانگہ چلانا کیسا زندگی کا مقصد ہوا؟’
میرا مقصد دنیا کو دیکھنا ہے بیٹے. دنیا کو سمجھنا ہے.’ بابا جی نے شیدو کی چمکتی آنکھوں میں جھانک کر کہا. ‘بس میں تانگہ چلاتا ہوں اور دنیا دیکھتا ہوں
.میری کالنگ کیا ہے ڈاونچی بابا؟’ شیدو نے اشتیاق سے پوچھا’
.بھائی یہ تم اپنے آپ سے پوچھو.’ بابا جی ہنس پڑے’
‘میرے خیال میں…..’ شیدو نے کچھ سوچ کر کہا. ‘میرے خیال میں میری کالنگ اڑنا ہے’
‘ہاں ضرور! خوب پڑھو لکھو اور ایک دن پڑھ لکھ کر پائلٹ بن جانا اور جہاز اڑانا’
ڈاونچی بابا! آپ نے لیونارڈو ڈاونچی کے اڑن کھٹولے کی تصویر دیکھی ہے؟’ شیدو دوڑ کر اپنی پسندیدہ کتاب اٹھا لایا
‘میرا دل چاہتا ہے میں یہ اڑن کھٹولہ بناؤں اور پھر اس کو خوب اونچا اڑاؤں’
.ہوں….!’ بابا جی ایک لمبا ہنکارا بھر کر خاموش ہوگئے اور کچھ نا بولے.
‘آپ اس کو بنانے میں میری مدد کریں گے؟’
ڈاونچی بابا نے شفقت سے شیدو کو دیکھا جس کی آنکھیں شوق سے جگمگ جگمگ کر رہی تھیں. وہ خوابوں کی اہمیت سے اچھی طرح سے واقف تھے. وہ خوب جانتے تھے کہ خواب اگر بچپن میں ہی کچل دئے جایئں تو وہ کبھی حقیقت نہیں بنتے
‘ہاں ضرور! تم بنانا شروع کرو. میں تمھارے ساتھ ہوں’
_______________________________________________
یوں اس دن سے ڈاونچی بابا اور شیدو کے چھوٹے سے کوارٹر کے محدود صحن میں، لیونارڈو ڈاونچی کا اڑن کھٹولا بننا شروع ہوگیا
پتہ نہیں کہاں کہاں سے بانس اکٹھے کئے گئے اور ان کو آپس میں لوہے کی مضبوط تاروں سے باندھ کر مشین کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا. کباڑیے کے پاس سے پرانی سائکل کے پیڈل اور گراریاں اور کسی ایکسیڈنٹ زدہ رکشے کے پہیے لائے گئے
سب سے بڑا مسلہء پروں کا تھا. لیونارڈو کے اپنے ڈیزائن کے مطابق چمگاڈر کے پروں کی طرح کے مشین کے پر ریشمی کپڑے کے تھے. اب ریشمی کپڑا خریدنا بابا جی کی استطاعت سے باہر تھا. لیکن جہاں لگن ہو حل نکل ہی آتا ہے. چوک پر ایک کیٹرنگ کمپنی کا دفتر تھا جس کا مالک اپنے پرانے شامیانے ریشمی چادر سمیت فروخت کرنے کے چکروں میں تھا. کچھ پیسے شیدو نے جیب خرچ سے اکٹھے کئے اور باقی کا بندوبست بابا جی نے کیا. اور یوں دس گز ریشمی کپڑا خرید کر پروں کے ڈھانچے پر چڑھا دیا گیا
جب مشین تقریباً مکمل ہوگئ تو شیدو کو خیال آیا کہ اتنے بڑے پروں کے ساتھ وہ کوارٹر کے صحن سے نکالی نہیں جا سکے گی. لہٰذا پورے ڈھانچے کو کھولا گیا اور نئے سرے سے اس طرح بنایا گیا کہ وہ آرام سے نکالا اور کہیں لے جا کر جوڑا جا سکے
پھر ایک نیا مسلہء کھڑا ہوگیا
.بابا میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی.’ شیدو نے ڈھانچے کے نٹ ٹائٹ کرتے ہوئے کہا’
.وہ کیا؟’ بابا جی نے پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا’
‘جب لیونارڈو ڈاونچی نے اڑن کھٹولہ بنا ہی لیا تھا تو اس نے اس کو اڑایا کیوں نہیں؟’
میری معلومات کے مطابق اس کی ایک بنیادی وجہ تھی.’ بابا جی نے سوچتے ہوئے کہا. ‘اس مشین کو بنانے کے بعد لیونارڈو کو اندازہ ہوا کہ کسی بھی انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ محض پیڈل مار کر اس مشین کو اڑا سکے
ہاں یہ تو صحیح ہے.’ شیدو نے بغور اڑن کھٹولے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا. ‘لیکن وہ یہ بھی تو کر سکتا تھا کہ کسی اونچی جگہ سے اس مشین کو اڑاتا
.ہاں بالکل! لیکن میرا خیال میں لیونارڈو کو گر کر مرنے سے ڈر لگتا ہوگا.’ بابا جی نے مسکرا کر کہا’
لیکن اگر وہ اپنے ڈر پر قابو پا لیتا تو آج رائٹ برادران کی جگہ دنیا اس کو یاد کرتی.’ شیدو نے عقلمندی سے کہا
ہاں شاید!’ بابا جی نے سر ہلایا. ‘تم فکر نہ کرو. پیسے جمع کر کہ ایک دن ہم اس مشین کو پہاڑوں میں لے چلیں گے اور وہاں اس کو اڑانے کی کوشش کریں گے
شیدو نے اس وقت تو خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دیا مگر اس کے ننھے سے دماغ میں گراریاں گھومتی رہیں
________________________________________________
اڑن کھٹولہ بنانے میں شیدو اس قدر مگن ہوگیا تھا کہ کھانا پینا سب بھول گیا تھا. اسکول سے آتا، جلدی جلدی ہوم ورک کرتا، بے دلی سے کچھ لقمے زہر مار کرتا اور پھر پیچ کس اور پلاس لیکر مشین پر کام میں لگ جاتا. اس کا دھیان بٹانے کو ڈاونچی بابا چھٹی والے دن اس کو منٹو پارک کی سیر پر لے گئے
مینار پاکستان کو دیکھتے ہی شیدو کی آنکھیں چمکنے لگیں
.بابا! وہ دیکھو.’ اس نے ڈاونچی بابا کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا’
ہاں بھائی! مینار پاکستان ہے. یہیں پر قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی تئیس مارچ کو’
.نہیں!’ شیدو نے کہا’
‘نہیں؟’ بابا نے چونک کر شیدو کی طرف دیکھا. ‘نہیں ہوئی تھی منظور؟’
ہوئی تھی. ضرور ہوئی ہوگی مگر میرے ذھن میں ایک آئیڈیا آیا ہے.’ شیدو نے جوش سے کہا. ‘کیوں نا ہم مینار کے اوپر سے اس مشین کو اڑانے کی کوشش کریں
‘نہیں بیٹے ایسے نہیں ہوسکتا.’ بابا نے گھبرا کر کہا. ‘اگر مشین نا اڑی تو؟’
کیوں نہیں اڑے گی؟’ شیدو نے نہایت اعتماد سے کہا. ‘آخر ہم نے لیونارڈو کے ڈیزائن کے عین مطابق بنائی ہے
‘نہیں بیٹے! گرنے کا خطرہ تو بہرحال ہے. اور میں تمھیں اس کی اجازت نہیں دے سکتا’
.اچھا!’ شیدو نے کہا اور مایوسی سے سر جھکا لیا’
________________________________________________
“یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں اور پھر اپنی تمام زندگی بس اس ایک لمحے یا کچھ لمحات میں جیتے ہیں، جس میں یا جن میں ان کے خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہیں”
جانے کیوں یہ احساس ہو رہا ہے کہ یہ طرزِ زندگی جانی پہچانی سی ہے ۔
LikeLiked by 1 person
Bilkul janab, I was sure you were going to say that
LikeLike
Hmm 😒
LikeLiked by 1 person
Yes, the passion that drives a person towards a goal separates him from ordinary, however as someone wise said and I quote “Allah nay yeh Dil laganay kay liay dia hay, ab Insaan ki Marzi hay kay kis cheese may lagaye”
We all are driven by this, some more so than others…
However the story was great as always , as it combined the best elements of your genre: Compassion, love, wonder, and a very sad ending. Who, can not, love it and remember it for a long time. My only fear is that the continuous theme of sad endings will make your collection un film able into a Drama series, which is the right medium I imagine for your great story telling.
Maybe after 30 years it will be ..
LikeLiked by 1 person
I agree and I am so grateful for your ever kind patronage and affectionate comments
LikeLike
https://www.bbc.com/urdu/world-45158988
Story of an American Sheedoo
LikeLiked by 1 person
Dreams are common to all human beings
LikeLike
The story is not just an episode of the weird, unconventional lives of sheedu and baba Da Vinci but a classical setire on how hard it to strive for your dreams in an unjust society.
On one scale it seems like a simple story of not letting the curse of the routine life on nurturing of your dreams and on another it unleashes this inner sheedu in all of us to let us live that one crazy moment in our subconscious which gives us a glimpse of who we really can be… That’s what all good writers are able to do for us and you are one of them Shehryar Khawar sahab…
LikeLiked by 1 person
I am so grateful for your understanding and kind appreciation
LikeLike
Reblogged this on The world around us.
LikeLiked by 1 person
I am both grateful and honoured Ali sahab
LikeLike
صدیاں جی کر بھی ، کچھ بے نام رہے
کچھ امر ہوگئَے ہیں لمحوں میں
آپ نے پڑی سادکی کے ساتھ مقصدزنگی کے فلسفے کی وضاحت کی ہے۔ مْ
LikeLiked by 1 person
Bohat nawazish
LikeLike
SORRY INCOMPLETE MSG DUE TO SOME PROBLEM IN KEYBOARD. 😦
LikeLiked by 1 person
Wow that’s such heart wrenching story. Ano amazing piece of writing
LikeLiked by 1 person
Thank you so much
LikeLike