.ارے یہ کون نیا فقیر کھڑا ہوگیا یہاں آج؟’ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا’
وہ نا صرف حسین چوک پر کھڑے فقیروں میں ایک نیا چہرہ تھا بلکہ ان سب سے بہت الگ بھی تھا
کالا لبادہ، ناٹا سا قد ، گندمی رنگ، ، گٹھا ہوا سر اور سر کے اطراف میں شانوں تک لٹکتی چاندی رنگ بالوں کی لٹیں. ایسے حلیے کے تو بہت فقیر پھرتے ہیں لیکن جن دو چیزوں نے مجھے اپنی طرف متوجوہ کیا، وہ تھیں اسکے گلے میں لٹکتا کانسی کا سنکھ اور ہاتھ میں پکڑی تختی جس پر جلی حروف میں تحریر تھا
‘صور پھونکنے کا وقت ابھی دور ہے’
میں نے چوک سے گاڑی گھمائ اور اپنے دفتر کیلئے، کیولری گراؤنڈ کے پل سے پہلے ہی بایئں مڑ گیا. مڑتے ہی فقیر تو میری نظر سے اوجھل ہوگیا مگر اس کا خیال میرے ذھن کے کسی گوشے میں محفوظ رہ گیا. بہت ہی عجیب وغریب شخصیت تھی اسکی
اصل میں اس طرح کے فقیر، یورپ اور امریکا میں جا بجا سڑکوں پر کھڑے نظر آتے ہیں جو تحریروں اور باتوں کے ذریعے لوگوں کو قیامت کی نشانیوں سے؛ اور قرب قیامت سے خبردار کرتے ہیں. وہاں عرف عام میں ان فقیروں کو ڈومز ڈے پروفٹ کہا جاتا ہے. یہ یا تو اکیلے مانگنے والے ہوتے ہیں یا پھر کسی نا کسی رایٹ ونگ مذہبی جماعت سے منسلک ہوتے ہیں جیسا کہ جیھوواز وٹنیسس. لیکن میری نظر سے ابھی تک پاکستان میں ایسا کوئی فقیر نہیں گزرا تھا
اس طرح کے فقیروں کے بارے میں سوچتے سوچتے مجھے ؍عذرا کا خیال آ گیا. ؍عذرا جو کہ بلا شبہ میری زندگی کا سب سے حیرت انگیز باب ہے
__________________________________________
؍عذرا سے میری ملاقات استنبول میں آیہ صوفیہ کے صدر دروازے کے پاس ہوئی تھی. بہت پررونق جگہ تھی. بھانت بھانت کے لوگ ہر طرف پھر رہے تھے
میں مسجد کے دروازے سے باہر نکلا تو میری نظر ایک پیاری سی بچی پر پڑی. اپنے باپ کی انگلی پکڑے اور سنہرے بالوں اور نیلی جگمگاتی آنکھوں کے ساتھ وہ بالکل ایک گڑیا جیسی دکھ رہی تھی. اس کو اس کے باپ نے گیس بھرے غبارے خرید کر دیے تھے. بیچارا باپ غباروں کے دھاگے کو اس بچی کی کلائی پر باندھنا چاہ رہا تھا مگر بچی مسلسل ضد کر رہی تھی کہ وہ دھاگے کو صرف اپنی انگلیوں میں پکڑے گی. آخر کار بچی کی مسلسل ضد سے تنگ آ کر باپ نے دھاگا اس کو تھما دیا
میں نے مسکرا کر ان دونوں کی طرف دیکھا اور پھر ادھر ادھر ماحول کا جائزہ لینے لگا. ؍عذرا بھی وہیں قریب ہی کھڑی تھی. اس کی شخصیت بھی کچھ کچھ حسین چوک کے فقیر سے ملتی جلتی تھی. لحیم شحیم، چاندی جیسے بال اور کالا لبادہ. لیکن سب سے انوکھی چیز تھے اس کے کندھوں کے پیچھے کسی اندیکھے فریم سے جڑے؛ اور دونوں اطراف میں خوب پھیلے ہوئے کالے سیاہ اور چمکتے ہوئے پر. میرے خیال میں ان پروں کا پھیلاؤ کم از کم پانچ سے چھ فٹ رہا ہوگا اور قریب سے بھی دیکھنے میں، بالکل اصل لگتے تھے. اس کے گلے میں ایک تختی لٹک رہی تھی جس پر ترکی زبان میں کچھ تحریر تھا
مجھے ابھی تک یاد ہے وہ گرمیوں کا دن تھا. دھوپ بھی بہت تیز تھی. لیکن اس عورت کے چہرے پر پسینے کا ایک بھی قطرہ نہیں تھا حالانکہ وہ نجانے کب سے ان بھاری پروں کا بوجھ اٹھائے وہاں کھڑی تھی. مجھے اس بیچاری پر ترس آ گیا. میں نے قریب کھڑے ایک خوانچہ فروش سے لیموں اور آب جو کے دو ٹھنڈے گلاس خریدے اور اس کی طرف چل پڑا
معاف کیجئے گا……!’ میں نے اس کو انگریزی میں مخاطب کیا تو وہ چونک سی گئ اور میری طرف دیکھنے لگی
میرے خدا! کیا نظریں تھی اسکی. بالکل خنک اور گہری سیاہ، جیسی صدیوں سے جمی برف ہوتی ہے جو کبھی نا پگھلنے کی وجہ سے کالی پڑ جاتی ہے. میری تو ایک دفعہ جھرجھری سی چھوٹ گئ
.یس….واٹ ڈو یو وانٹ؟’ اس نے اپنی نظروں ہی کی طرح سرد لہجے میں پوچھا’
گرمی بہت ہے …….’ میں نے کولڈ ڈرنک کا کاغذی گلاس اس کی جانب ایک مسکراہٹ کے ساتھ بڑھایا. ‘آپ کو یقیناً پیاس لگی ہوگی
وہ تھوڑی دیر کچھ نا بولی. بس چپ چاپ اپنی خنک آنکھوں سے میری آنکھوں میں جھانکتی رہی. مجھے بہت عجیب سا لگ رہا تھا. میرے خیال میں تو اس کو فوری طور پر میرا شکریہ ادا کر کے گلاس پکڑ لینا چاہئے تھا. مگر وہ تو بالکل خاموش تھی
میں ایک اور بھی عجیب سی بات محسوس کر رہا تھا. اگرآپ نے وہ جگہ اور علاقہ دیکھا ہے تو آپ اچھی طرح جانتے ہونگے کہ وہاں ہر وقت سیاحوں کا ایک ہجوم لگا رہتا ہے. بہت گہما گہمی اور شور ہوتا ہے. اس وقت بھی وہاں کچھ ایسا ہی ماحول تھا. لیکن جب اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورنا شروع کیا تو مجھے کچھ ایسا لگا کہ جیسے سب کچھ ساکت اور خاموش ہوگیا ہو. یہاں تک کہ زمین کی گردش بھی تھم گئ ہو. ہر طرف ایک گہرے سکوت کا راج تھا. یہ خیال آتے ہی میں نے چونک کر سر جھٹکا اور ادھر ادھر دیکھا تو جیسے کوئی طلسم ٹوٹ گیا. ہر چیز ویسی کی ویسی تھی. وہ ہی شور تھا اور وہ ہی رونق. وہ غالباً میرا وہم تھا
شکریہ!’ اس نے یکایک ہاتھ بڑھا کر گلاس پکڑا تو اسکی استخوانی انگلیاں میری ہتھیلی سے مس ہو گیئں. اس کی نظروں کی طرح اس کی انگلیاں بھی ایک برفیلا سا احساس لئے تھیں
اس نے بڑے بڑے گھونٹ بھرتے گلاس خالی کیا مگر اس دوران بھی اس کی نظریں میرے چہرے پر ہی جمی رہیں
کیا نام ہے آپ کا اور یہ آپ کے گلے میں لٹکتی تختی پر کیا تحریر ہے؟’ میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا’
مجھے بناتے ہوئے ؍عذرا کا نام دیا گیا تھا. اور یہ؟’ اس نے نیچے تختی کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھا. ‘اس پر لکھا ہے
‘محبت کی گرمی کو محسوس کرو کیونکہ موت کی ٹھنڈک بہت قریب ہے’
بالکل صحیح لکھا ہے.’ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا. ‘لیکن ہر کوئی محبت کی گرمی کو محسوس نہیں کر سکتا کیونکہ اس کیلئے ایک محبت بھرے دل کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا دل ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا
میں یہ کہ کر واپس جانے کیلئے مڑا لیکن اس کی آواز نے قدم روک لئے
‘محبت بھرا دل عذاب ہوتا ہے’
یہ کیسے کہ سکتی ہیں آپ؟’ میں نے مڑ کر پوچھا. ‘میرے خیال میں تو جن انسانوں کے سینوں میں محبت محسوس کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ بہت بہتر انسان ہوتے ہیں
ہاں لیکن پھر بھی. کسی کو خدا سے محبت بھرا دل نہیں مانگنا چاہئے. ایسا دل فرائض کی انجام دہی میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتا ہے
کیسی رکاوٹ؟ کونسے فرائض ایسے ہیں جن کیلئے بےرحمی کی ضرورت ہوتی ہے؟’ میں نے حیرانی سے پوچھا
‘فرائض؟’ اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا. ‘جیسے کہ جان قبض کرنا’
.انسان انسان کی جان لے تو سکتا ہے مگر قبض نہیں کر سکتا.’ میں نے جواب دیا’
انسان تو یہ نہیں کر سکتا مگر موت کا فرشتہ ضرور جان قبض کر سکتا ہے.’ اس نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
میں کچھ نا بولا. بس یک ٹک اس کی ٹھنڈی برفیلی آنکھوں میں دیکھتا رہا
.ایک کہانی سنو گے؟’ کچھ لمحات بعد اس نے مجھ سے پوچھا’
.ہاں کیوں نہیں. ضرور سنوں گا.’ میں نے قریب ہی بنچ پر بیٹھتے ہوئے کہا’
جب آپ کی ملاقات چیکوسلاویہ کی اینا سے ہو سکتی ہے تو اسرافیل سے کیوں نہیں؟ سریل ازم کی پینٹنگز تو بہت دیکھیں ہیں پر اردو میں کہانی کہنا آپ کا ہی خاصہ ہے۔بچی کی غبارہ ہاتھوں پر باندھنےکی ضد انسانی فطرت کی خوب عکاسی ہے۔ کہانی پڑھ کربچپن میں پڑھی ہانس کریسچین کی کہانیاں یاد آ گئیں ۔ درد مند دل کا فلسفہ آسمانوں سے خوب لائے حسین چوک تک ۔لکھتے رہیے سلامت رہئیے۔۔۔
LikeLiked by 2 people
Bayhadd nawazish. Very kind of you
LikeLike
Something beyond excellence The word excellent itself has to see upwards finding for more appropriate term for this piece of creation.
LikeLiked by 1 person
You are exceptionally kind. I am not as good a writer as my kind friends make me believe
LikeLike
ااور اللہ کی رحمت ان پر جو لوگوں کو مہربانی ، رحمت اور امید کا سبق یاد دلاتے ہیں۔
اس تحریرکے بعد اللہ آپ سے یقینا بہت خوش ہونگے۔
LikeLiked by 1 person
بہت نوازش ایسی مہربان بات کرنے کیلئے
LikeLike