آیہ صوفیہ کی ؍عذرا اور حسین چوک کا اسرافیل

cropped-angel-moderne3

.ارے یہ کون نیا فقیر کھڑا ہوگیا یہاں آج؟’ میں نے اپنے آپ سے سوال کیا’

وہ نا صرف حسین چوک پر کھڑے فقیروں میں ایک نیا چہرہ تھا بلکہ ان سب سے بہت الگ بھی تھا

 

کالا لبادہ، ناٹا سا قد ، گندمی رنگ، ، گٹھا ہوا سر اور سر کے اطراف میں شانوں تک لٹکتی چاندی رنگ بالوں کی لٹیں. ایسے حلیے کے تو بہت فقیر پھرتے ہیں لیکن جن دو چیزوں نے مجھے اپنی طرف متوجوہ کیا، وہ تھیں اسکے گلے میں لٹکتا کانسی کا سنکھ اور ہاتھ میں پکڑی تختی جس پر جلی حروف میں تحریر تھا

‘صور پھونکنے کا وقت ابھی دور ہے’

 

میں نے چوک سے گاڑی گھمائ اور اپنے دفتر کیلئے، کیولری گراؤنڈ کے پل سے پہلے ہی بایئں مڑ گیا. مڑتے ہی فقیر تو میری نظر سے اوجھل ہوگیا مگر اس کا خیال میرے ذھن کے کسی گوشے میں محفوظ رہ گیا. بہت ہی عجیب وغریب شخصیت تھی اسکی

 

اصل میں اس طرح کے فقیر، یورپ اور امریکا میں جا بجا سڑکوں پر کھڑے نظر آتے ہیں جو تحریروں اور باتوں کے ذریعے لوگوں کو قیامت کی نشانیوں سے؛ اور قرب قیامت سے خبردار کرتے ہیں. وہاں عرف عام میں ان فقیروں کو ڈومز ڈے پروفٹ کہا جاتا ہے. یہ یا تو اکیلے مانگنے والے ہوتے ہیں یا پھر کسی نا کسی رایٹ ونگ مذہبی جماعت سے منسلک ہوتے ہیں جیسا کہ جیھوواز وٹنیسس. لیکن میری نظر سے ابھی تک پاکستان میں ایسا کوئی فقیر نہیں گزرا تھا

 

اس طرح کے فقیروں کے بارے میں سوچتے سوچتے مجھے ؍عذرا کا خیال آ گیا. ؍عذرا جو کہ بلا شبہ میری زندگی کا سب سے حیرت انگیز باب ہے

 

__________________________________________

؍عذرا سے میری ملاقات استنبول میں آیہ صوفیہ کے صدر دروازے کے پاس ہوئی تھی. بہت پررونق جگہ تھی. بھانت بھانت کے لوگ ہر طرف پھر رہے تھے

 

میں مسجد کے دروازے سے باہر نکلا تو میری نظر ایک پیاری سی بچی پر پڑی. اپنے باپ کی انگلی پکڑے اور سنہرے بالوں اور نیلی جگمگاتی آنکھوں کے ساتھ وہ بالکل ایک گڑیا جیسی دکھ رہی تھی. اس کو اس کے باپ نے گیس بھرے غبارے خرید کر دیے تھے. بیچارا باپ غباروں کے دھاگے کو اس بچی کی کلائی پر باندھنا چاہ رہا تھا مگر بچی مسلسل ضد کر رہی تھی کہ وہ دھاگے کو صرف اپنی انگلیوں میں پکڑے گی. آخر کار بچی کی مسلسل ضد سے تنگ آ کر باپ نے دھاگا اس کو تھما دیا

 

میں نے مسکرا کر ان دونوں کی طرف دیکھا اور پھر ادھر ادھر ماحول کا جائزہ لینے لگا. ؍عذرا بھی وہیں قریب ہی کھڑی تھی. اس کی شخصیت بھی کچھ کچھ حسین چوک کے فقیر سے ملتی جلتی تھی. لحیم شحیم، چاندی جیسے بال اور کالا لبادہ. لیکن سب سے انوکھی چیز تھے اس کے کندھوں کے پیچھے کسی اندیکھے فریم سے جڑے؛ اور دونوں اطراف میں خوب پھیلے ہوئے کالے سیاہ اور چمکتے ہوئے پر. میرے خیال میں ان پروں کا پھیلاؤ کم از کم پانچ سے چھ فٹ رہا ہوگا اور قریب سے بھی دیکھنے میں، بالکل اصل لگتے تھے. اس کے گلے میں ایک تختی لٹک رہی تھی جس پر ترکی زبان میں کچھ تحریر تھا

 

مجھے ابھی تک یاد ہے وہ گرمیوں کا دن تھا. دھوپ بھی بہت تیز تھی. لیکن اس عورت کے چہرے پر پسینے کا ایک بھی قطرہ نہیں تھا حالانکہ وہ نجانے کب سے ان بھاری پروں کا بوجھ اٹھائے وہاں کھڑی تھی. مجھے اس بیچاری پر ترس آ گیا. میں نے قریب کھڑے ایک خوانچہ فروش سے لیموں اور آب جو کے دو ٹھنڈے گلاس خریدے اور اس کی طرف چل پڑا

 

معاف کیجئے گا……!’ میں نے اس کو انگریزی میں مخاطب کیا تو وہ چونک سی گئ اور میری طرف دیکھنے لگی

 

میرے خدا! کیا نظریں تھی اسکی. بالکل خنک اور گہری سیاہ، جیسی صدیوں سے جمی برف ہوتی ہے جو کبھی نا پگھلنے کی وجہ سے کالی پڑ جاتی ہے. میری تو ایک دفعہ جھرجھری سی چھوٹ گئ

.یس….واٹ ڈو یو وانٹ؟’ اس نے اپنی نظروں ہی کی طرح سرد لہجے میں پوچھا’

گرمی بہت ہے …….’ میں نے کولڈ ڈرنک کا کاغذی گلاس اس کی جانب ایک مسکراہٹ کے ساتھ بڑھایا. ‘آپ کو یقیناً پیاس لگی ہوگی

 

وہ تھوڑی دیر کچھ نا بولی. بس چپ چاپ اپنی خنک آنکھوں سے میری آنکھوں میں جھانکتی رہی. مجھے بہت عجیب سا لگ رہا تھا. میرے خیال میں تو اس کو فوری طور پر میرا شکریہ ادا کر کے گلاس پکڑ لینا چاہئے تھا. مگر وہ تو بالکل خاموش تھی

 

میں ایک اور بھی عجیب سی بات محسوس کر رہا تھا. اگرآپ نے وہ جگہ اور علاقہ دیکھا ہے تو آپ اچھی طرح جانتے ہونگے کہ وہاں ہر وقت سیاحوں کا ایک ہجوم لگا رہتا ہے. بہت گہما گہمی اور شور ہوتا ہے. اس وقت بھی وہاں کچھ ایسا ہی ماحول تھا. لیکن جب اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورنا شروع کیا تو مجھے کچھ ایسا لگا کہ جیسے سب کچھ ساکت اور خاموش ہوگیا ہو. یہاں تک کہ زمین کی گردش بھی تھم گئ ہو. ہر طرف ایک گہرے سکوت کا راج تھا. یہ خیال آتے ہی میں نے چونک کر سر جھٹکا اور ادھر ادھر دیکھا تو جیسے کوئی طلسم ٹوٹ گیا. ہر چیز ویسی کی ویسی تھی. وہ ہی شور تھا اور وہ ہی رونق. وہ غالباً میرا وہم تھا

 

شکریہ!’ اس نے یکایک ہاتھ بڑھا کر گلاس پکڑا تو اسکی استخوانی انگلیاں میری ہتھیلی سے مس ہو گیئں. اس کی نظروں کی طرح اس کی انگلیاں بھی ایک برفیلا سا احساس لئے تھیں

 

اس نے بڑے بڑے گھونٹ بھرتے گلاس خالی کیا مگر اس دوران بھی اس کی نظریں میرے چہرے پر ہی جمی رہیں

 

کیا نام ہے آپ کا اور یہ آپ کے گلے میں لٹکتی تختی پر کیا تحریر ہے؟’ میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا’

مجھے بناتے ہوئے ؍عذرا کا نام دیا گیا تھا. اور یہ؟’ اس نے نیچے تختی کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھا. ‘اس پر لکھا ہے

‘محبت کی گرمی کو محسوس کرو کیونکہ موت کی ٹھنڈک بہت قریب ہے’

 

بالکل صحیح لکھا ہے.’ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا. ‘لیکن ہر کوئی محبت کی گرمی کو محسوس نہیں کر سکتا کیونکہ اس کیلئے ایک محبت بھرے دل کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسا دل ہر ایک کے پاس نہیں ہوتا

 

میں یہ کہ کر واپس جانے کیلئے مڑا لیکن اس کی آواز نے قدم روک لئے

‘محبت بھرا دل عذاب ہوتا ہے’

یہ کیسے کہ سکتی ہیں آپ؟’ میں نے مڑ کر پوچھا. ‘میرے خیال میں تو جن انسانوں کے سینوں میں محبت محسوس کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، وہ بہت بہتر انسان ہوتے ہیں

ہاں لیکن پھر بھی. کسی کو خدا سے محبت بھرا دل نہیں مانگنا چاہئے. ایسا دل فرائض کی انجام دہی میں بہت بڑی رکاوٹ ہوتا ہے

کیسی رکاوٹ؟ کونسے فرائض ایسے ہیں جن کیلئے بےرحمی کی ضرورت ہوتی ہے؟’ میں نے حیرانی سے پوچھا

‘فرائض؟’ اس نے کچھ سوچ کر جواب دیا. ‘جیسے کہ جان قبض کرنا’

.انسان انسان کی جان لے تو سکتا ہے مگر قبض نہیں کر سکتا.’ میں نے جواب دیا’

انسان تو یہ نہیں کر سکتا مگر موت کا فرشتہ ضرور جان قبض کر سکتا ہے.’ اس نے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا

میں کچھ نا بولا. بس یک ٹک اس کی ٹھنڈی برفیلی آنکھوں میں دیکھتا رہا

 

.ایک کہانی سنو گے؟’ کچھ لمحات بعد اس نے مجھ سے پوچھا’

.ہاں کیوں نہیں. ضرور سنوں گا.’ میں نے قریب ہی بنچ پر بیٹھتے ہوئے کہا’

 

ایک دفعہ کا ذکر ہے، عرش بریں پر خدا کا دربار سجا تھا. تخت الہی کے سامنے قطار اندر قطار فرشتے مودب کھڑے تھے. کہ اچانک تاریک سایوں کے بیچ موت نمودار ہوئی اور کورنش بجا کر کچھ کہنے کی اجازت چاہی

‘بولو عزرائیل!’ خدا نے اجازت دیتے ہوئے کہا. ‘کہو کیا کہناچاہتے ہو؟’

 میں نے لاکھوں سال آپ کی خدمت کی ہے، آپ کا ہر حکم بجا لایا ہوں.’ عزرائیل نے گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے کہا. ‘لیکن آج میں آپ سے کچھ پوچھنا اور مانگنا چاہتا ہوں

‘ہاں پوچھو’

موت تو برحق ہے یا خداوند. ہر ایک کو ایک نا ایک دن ضرور آنی ہے. مگر پھر کیا وجہ ہےکہ لوگ اپنے پیاروں کے مرنے پر غمزدہ ہوجاتے ہیں؟’ عزرائیل نے نہایت ادب سے پوچھا

میں نے انسان کے پتلے میں صرف اپنی روح نہیں پھونکی تھی. میں نے اس کو ایک دردمند دل بھی دیا تھا. یہ ہی دل محبت کرتا ہے اور محبت محسوس کرتا ہے. اور یہ ہی دل کسی محبوب کے مرنے پر غمزدہ بھی ہوجاتا ہے.’ خدا کی بارعب آواز عرش کے ستونوں سے ٹکراتی رہی اور اسکی بازگشت بہت دیر تک گونجتی رہی

پھر آپ نے اس نعمت سے ہمیں کیوں نہیں نوازا؟ ہم بھی تو آپ ہی کی مخلوق ہیں.’ عزرائیل نے عرض کیا

تمھاری تخلیق کا مقصد کچھ اور تھا، انسان کی تخلیق کا مقصد کچھ اور.’ خدا نے مسکراتے ہوئے کہا. ‘مجھے تمہارا امتحان مقصود نہیں تھا عزرائیل

کیا یہ………؟’ عزرائیل نے ہچکچاتے ہوئے عرض کی. ‘کیا یہ دل مجھے نہیں مل سکتا؟ میں بھی محبت کو محسوس کرنا چاہتا ہوں

تمھیں محبت بھرا دل نا دینے کے پیچھے ایک وجہ تھی عزرائیل.’ خدا نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا. ‘موت محبت کرے گی تو اپنا کام نہیں کر سکے گی

میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنا کام نہیں بھولوں گا.’ عزرائیل نے گڑگڑا کر عرض کی. ‘میں صرف کچھ دیر کیلئے محبت کی گرمی کو محسوس کرنا چاہتا ہوں

ٹھیک ہے اگر تم یہ چاہتے ہو تو یہ لو.’ خدا نے اشارہ کیا اور ایک سنہرا محبت بھرا دل، موت کے سینے میں دھڑکنے لگا. ‘لیکن یاد رکھنا! اگر تم فرض بھول گئے تو سزا ضرور ملے گی

 

‘موت اور دل….’ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا. ‘کوئی جوڑ نہیں بنتا ان دونوں چیزوں کا’

ہاں! تم یقیناً یہ سوچ اور سمجھ سکتے ہو.’ ؍عذرا نے نرمی سے کہا. ‘کیونکہ تم انسان ہو اور شعور رکھتے ہو. فرشتے شعور نہیں رکھتے. وہ صرف حکم کی تعمیل کرنا جانتے ہیں. لیکن پھر بھی چونکہ خدا کی تخلیق ہیں تو خواہش ضرور رکھتے ہیں

خواہش کا بغیر شعور کے کیا فائدہ ہے؟’ میں نے الجھ کر پوچھا’

 

؍عذرا کچھ نا بولی. اس کی نگاہیں کسی خاص منظر پر مرکوز تھیں. میں نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کرنے کی کوشش کی تو مجھے وہ ہی گڑیا جیسی بچی اور اس کا باپ دکھائی دئے

پھر کیا بنا عزرائیل………؟ میں نے واپس ؍عذرا کی طرف دیکھ کر پوچھنے کی کوشش کی. اس نے جواب میں اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور دوبارہ ان باپ بچی کی طرف دیکھنے لگی

 

ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے اس بچی کی انگلیوں سے دھاگہ پھسلا اور غبارے اس کی گرفت سے آزاد ہو کر فضاء میں بلند ہوگئے. بچی نے پہلے تو اچھل کر دھاگہ پکڑنے کی کوشش کی مگر ناکام ہو کر باپ کی ٹانگوں سے لپٹ گئ اور رونا شروع کر دیا. اس نے فوراً بچی کو گود میں اٹھا کر آنسو پونچھے اور پھر اس کو اور غبارے خرید دئے

 

دیکھا تم نے؟’ ؍عذرا نے مجھ سے پوچھا. ‘بچی کی خواہش تھی مگر اس کے پاس شعور نہیں تھا، مگر پھر بھی باپ نے اس کی خواہش پوری کر دی

مگر باپ کو اس سے کیا فائدہ ہوا؟’ میں نے پوچھا’

باپ کو بچی کا رونا اور اپنی ٹانگوں سے لپٹنا پسند آیا.’ ؍عذرا کے باریک سیاہ مائل لبوں پر ایک موہوم سی مسکراہٹ نمودار ہوئی.  ‘وہ ناراض نہیں ہوا بلکہ اس نے بچی کو پیار کیا اور پھر دوبارہ سے غبارے خرید دئے. یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ بچی دوبارہ غلطی کرے گی. آخر ہم سب بھی تو خدا کے بچے ہی ہیں اور وہ ہم سب سے محبت کرتا ہے. لہٰذا شعور ہو یا نا ہو، ہماری خواہشیں پوری کردیتا ہے

مجھے اس کا اس طرح سے سمجھانا بہت اچھا لگا

 

ہاں تو پھر عزرائیل اپنا محبت بھرا دل لئے زمین پر نکل گیا.’ ؍عذرا نے دوبارہ سے اپنی کہانی کا آغاز کرتے ہوئے کہا

اس نے پہلے ایک عورت کی جان قبض کرنی تھی لہٰذا وہ اس کے گھر پہنچا. لیکن جب اس نے چھت کی منڈیر پر سے جھانک کر دیکھا تو وہ عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی اور بچے کے گال نرمی سے سہلاتے ہوئے، اس کے مستقبل کے بارے میں روشن خواب بن رہی تھی. موت نے اپنے دل کو، اس کے خوابوں کی سنہری روشنی سے بھرتے ہوئے محسوس کیا اور بہت کوشش کے باوجود اس عورت کی جان نہیں قبض کر سکی

 

اگلی باری ایک غریب کسان کی تھی. لیکن جب موت اسکے کھلیان تک پہنچی تو دیکھا کہ وہ کسان اپنی چار سال کی بچی کے ساتھ کھیلتے ہوئے، اس کو فضاء میں اچھال رہا تھا. بچی کے چہرے پر گرنے کے ڈر کی پریشانی کی بجائے خوشی رقصاں تھی. موت نے اپنے دل سے اس بچی کے باپ پر بھروسے کو محسوس کیا اور بہت کوشش کے باوجود اس کسان کی جان نہیں قبض کر سکی

 

پھر عزرائیل ایک جوان خوبرو حسینہ کی جان قبض کرنے اس کے محل پر پہنچا. دیکھا تو وہ اپنے بچھڑے محبوب کو غمزدہ دل کے ساتھ خط لکھ رہی تھی مگر گرتے آنسوؤں سے لفظوں کی سیاہی پھیل رہی تھی. وہ بیچاری صفحہ پھاڑتی اور نئے سرے سے خط لکھنا شروع کر دیتی مگر آنسو تھے کہ رکنے کا نام نہیں لیتے تھے. موت نے اپنے دل پر اس کے آنسوؤں کو گرتا محسوس کیا اور بہت کوشش کے باوجود اس حسینہ کی جان نہیں قبض کر سکی

 

عزرائیل کی لسٹ پر آخری نام ایک بوڑھے شخص کا تھا. اس کو یقین تھا کہ وہ اس دفعہ یقیناً اس کی جان قبض کرنے میں کامیاب ہوگا. مگر جب موت اس بوڑھے  شخص کے حجرے میں پہنچی تو دیکھا کہ وہ سجدے میں گرا اپنے مہربان خدا کی تعریف میں مگن تھا. موت نے اپنے دل کو خدا کے رحم سے نرم ہوتا محسوس کیا اور اس بوڑھے شخص کی جان قبض کئے بغیر واپس لوٹ گئ

 

بہت ہی دلچسپ کہانی ہے.’ میں نے لکڑی کے بنچ سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا. ‘لیکن پھر کیا ہوا؟ پھر موت نے خدا کو کیا جواب دیا؟

‘پھر……؟’ ؍عذرا نے میری طرف دیکھے بغیر کہا. ‘پھر عزرائیل دوبارہ خدا کے دربار میں حاضر ہوا’

 

‘کہو عزرائیل!’ خدا نے پوچھا. ‘سینے میں دل دھڑکتا کیسا محسوس  ہوا؟’

یا خداوند!’ موت نے گڑگڑاتے ہوئے عرض کیا. ‘مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئ. میں نے وہ چیز مانگ لی جو میرے لئے تھی ہی نہیں

اس دل نے مجھے تخیل اور خوابوں کی لذت سے آشنا کیا

اس دل نے مجھے بھروسے کی طاقت سے متعارف کرایا. اس دل نے مجھے غم کی شدت محسوس کرنے کی طاقت دی

اور اس دل نے مجھے مہربان بنا دیا

 

جب تھوڑی دیر تک عزرائیل کی باتوں کا کوئی جواب نہیں ملا تو اس نے ڈرتے ڈرتے نگاہ بلند کی. اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خدا کے لبوں پر ایک افسردہ مسکراہٹ رقصاں تھی

بیشک……..!’ خدا کی گونجتی ہوئی آواز بلند ہوئی’

بیشک میری رحمت ہے ان سب پر جو خواب دیکھتے ہیں کیونکہ خواب امید ہیں

بیشک میری رحمت ہے ان سب پر جو ڈرتے ہیں کیونکہ ڈر ان کے ایمان کو مضبوط کرتا ہے

بیشک میری رحمت ہے ان سب پر جو دردمند ہیں کیونکہ دردمندی ایک راستہ ہے جو مجھ پر ختم ہوتا ہے

بیشک میری رحمت ہے ان سب پر جو مہربان ہیں کیوںکہ کیا میں سب سے بڑا مہربان نہیں؟

اور بیشک میری رحمت ہے میری ساری مخلوق پر کیونکہ میں ان سب سے محبت کرتا ہوں

 

تھوڑی دیر تک ہم دونوں کچھ نہیں بولے. میں چپ چاپ بیٹھا کہانی کے بارے میں سوچتا رہا. پھر میں نے ؍عذرا سے پوچھا

‘خدا نے عزرائیل کو کیا سزا دی اپنے فرائض سے کوتاہی کی؟’

خدا نے سزا کے طور پر موت کو زمین پر اسی دردمند دل کے ساتھ بھیج دیا. اب وہ دن رات انسان کی جان قبض کرتی ہے. مگر اس کے ساتھ ساتھ انسان کا دکھ بھی دیکھتی ہے اور اس کو محسوس کرتی ہے اور دکھ کے نشتر کے ہر چرکے سے اس کی روح گھائل ہوتی رہتی رہتی ہے مگر وہ بےبس ہے.’ ؍عذرا نے بیچارگی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا

کیا یہ سزا ہمیشہ کیلئے ہے؟’ میں نے بوجھل دل کے ساتھ پوچھا’

نہیں!’ ؍عذرا سر جھکا کر بولی. ‘اس کی سزا تب تک کیلئے ہے کہ جب تک کوئی انسان اس کی حالت سمجھ کر اس پر رحم نا کھائے

 

تھی تو وہ کہانی مگر ایک ؍عذرا کے سنانے کا انداز اور دوسرا میرا سننے کا شوق. میرے دل پر واقعی بہت گہرا اثر ہوا تھا. اتنا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے آنسو پھسلتے محسوس کئے

 

تم رو رہے ہو؟’ ؍عذرا نے حیرت سے پوچھا’

ہاں شاید!’ میں نے شرمندگی سے آنکھیں ملتے جواب دیا. ‘میرے خیال میں اس سے بڑی سزا نہیں ہوسکتی کہ کوئی دنیا میں ہونے والی ہر موت کا نا صرف ذمہ دار ہو بلکہ اس کا دکھ بھی محسوس کرے

؍عذرا نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا. بس میرا ہاتھ تھپتھپا کر ایک ٹھنڈی آہ بھری جیسے کوئی بڑی لمبی مسافت طہ کر کے اپنی منزل پر پہنچ گئ ہو

 

آپ خاموش کیوں ہیں؟’ میں نے تھوڑی دیر بعد پوچھا مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا’

میں نے ہاتھ بڑھا کر اس کا کندھا چھوا. مگر میرا ہاتھ لگنے کی دیر تھی کہ اس کا پورا وجود راکھ بن کر وہیں بنچ پر ڈھیر ہوگیا

 

میں حیرت سے اچھل کر کھڑا ہوگیا. مجھے اپنی نظروں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک جیتا جاگتا وجود یوں میری نظروں کے سامنے راکھ کا ڈھیر بن چکا تھا. میں نے گھبراہٹ کے عالم میں ادھر ادھر دیکھا تو کچھ فاصلے پر ایک پولیس والا دکھائی دیا. میں نے اس کو آواز دی تو وہ میری طرف چل پڑا. مگر اس کے مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی تیز ہوا کا ایک جھونکا راکھ کو اڑا کر لے گیا

 

اس کے بعد کیا ہوا؟ مجھے بالکل علم نہیں. مجھے ہوش آیا تو میں استنبول کے ایک سرکاری ہسپتال میں پڑا تھا اور میرا جسم تیز بخار کی حدت سے دہک رہا تھا. میں ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا ہوں کہ وہ ایک خواب تھا یا حقیقت

 

____________________________________________

خیر کہانی کی طرف واپس آتے ہیں. میں آپ کو حسین چوک پر کھڑے اس نئے فقیر کے بارے میں بتا رہا تھا. اصل میں ان دنوں اکتوبر کا آخری عشرہ چل رہا تھا. دن تیزی کے ساتھ مختصر ہوتے چلے جا رہے تھے. چونکہ ہر ملازم کو گھر جانے کی جلدی ہوتی تھی لہٰذا میری کوشش بھی یہی ہوتی تھی کہ دفتر کے اوقات میں زیادہ سے زیادہ کام ختم کر کے ان کو چھٹی دے دی جائے. شام تک وقت کیسے گزرا پتہ ہی نہیں چلا

 

دفتر بند کر کہ میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور گھر جانے کیلئے نکل پڑا، لیکن ایم ایم عالم روڈ پر حسین چوک تک اور اس کے بعد بھی ٹریفک بری طرح سے جام تھا. گاڑی سرکتی سرکتی حسین چوک کے قریب پہنچی تو میری نظر پھر اس فقیر پر پڑی. باقی کے سب فقیر تو گاڑیوں کے آس پاس منڈلا رہے تھے. ٹریفک جام کمائی کا بہت عمدہ موقع ہوتا ہے. لیکن وہ چپ چاپ ایک طرف پارک لین ہوٹل کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا

 

اشارہ کھلا تو میں نے کچھ سوچ کر گاڑی ایک طرف کر کہ سڑک کنارے پارک کی اور پیدل چلتا اس فقیر کے پاس جا پہنچا. وہ ایک بوری کے ٹکڑے پر بیٹھا تھا. مجھے قریب کھڑے دیکھا تو میری طرف دیکھ کر ہلکے سے مسکرایا اور پھر سرک کر ایک طرف ہوا جیسا کہ میرے لئے جگہ بنائی ہو. میرے دل میں پتہ نہیں کیا آیا. میں بھی ہر احتیاط اور لحاظ بالائے طاق رکھ کر، وہیں اس کے ساتھ لگ کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا

 

کیا نام ہے آپ کا بابا جی؟’ میں نے ادب اور نرمی سے پوچھا’

،فضول سوال ہے.’ اس فقیر نے بدستور مسکراتے جواب دیا’

‘وہ کیوں بھلا؟’ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا. ‘نام تو سب کا ہوتا ہے’

‘میرے گلے میں لٹکا سنکھ نظر آ رہا ہے؟’

‘جی’

‘یہ بھی معلوم ہوگا کہ صور پھونکنا کس کا کام ہے’

‘جی بالکل!’ میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا. ‘اسرافیل کا’

‘تو بس پھر فضول سوال کیوں پوچھتے ہو یار؟’

تو آپ کا نام اسرافیل ہے؟’ میں نے سر کھجاتے ہوئے پوچھا’

نہیں میرا نام اسرافیل نہیں ہے. میں خود اسرافیل ہوں.’ بابا جی نے کمال بے اعتنائی سے جواب دیا’

آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ آپ اسرافیل فرشتے ہیں؟’ مجھے پورا یقین ہو چلا تھا کے بابا جی کے دماغ کا کوئی کلیدی پرزہ یقیناً ڈھیلا تھا. ‘اور اسرافیل یہاں حسین چوک پر بیٹھا صور پھونکنے کے انتظار میں بیٹھا ہے؟

‘کیوں؟’ اس نے ہنس کر کہا. ‘کیا صور پھونکنے کیلئے عرش پر بیٹھنا ضروری ہے؟’

لیکن پھر بھی؟’ میں بس اٹھنے کی تیاری میں ہی تھا’

مجھے خدا نے حکم دیا تھا کہ دنیا میں نکل جاؤں اور جب محسوس کروں کہ یہ دنیا تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے تو صور پھونک دوں

میرے خیال میں تو صور پھونکنے وقت آن پہنچا ہے.’ میں نے کچھ سوچ کر جواب دیا. ‘انسان انسان کا دشمن ہو چکا ہے. مذہب محبت کے پیغام کی بجائے، نفرت کا ہتھیار بن چکا ہے. ہم سب ایک خدا کی عبادت تو ضرور کرتے ہیں مگر دل میں اپنے آپ کو اپنے سے نیچے والوں کا خدا سمجھتے ہیں. ہم درد مندی کی قابلیت کھو چکے ہیں اور لوگوں کا دکھ بانٹنے کی بجائے ان کی تکلیفوں میں اضافہ کرتے ہیں

 

اس فقیر نے تھوڑی دیر میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش بیٹھا گاڑیوں کی قطاروں کی طرف دیکھتا رہا

وہ دیکھو بیٹے!’ اس نے ایک طرف اشارہ کیا’

میں نے دیکھا تو ایک خواجہ سرا ایک قیمتی گاڑی کے ساتھ جھکا، اس کے شیشے کو انگلی سے کھٹکھٹا رہا تھا

گاڑی والے نے شیشہ نیچے سرکایا تو خواجہ سرا نے کہا

‘بابو! پانی تو پلا دو. قسم خدا کی بڑی پیاس لگی ہے’

مجھے پوری توقوہ تھی کہ گاڑی میں بیٹھا سوٹڈ بوٹڈ نوجوان اس کو دھتکار دے گا. مگر وہ دھیمے سے مسکرایا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی پانی کی بوتل خواجہ سرا کو پکڑا دی

‘الله تجھے سلامت رکھے. الله تجھے اور بہت کچھ دے’

 

یہ…..!’ میں نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو فقیر نے ایک طرف اور اشارہ کیا’

‘پہلے یہ دیکھو، پھر بولنا’

میں نے دیکھا کہ وہ ہی خواجہ سرا ایک طرف جا کر بیٹھ گیا تھا. اس نے جیب سے ایک تڑا مڑا سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور اس کو کھول کر اس کا جائزہ لینے لگا. آخر کار ڈبی سے آخری سگریٹ نکالا اور ڈبی ایک طرف پھینک کر سلگانے لگا. ابھی سگریٹ سلگا ہی تھا کہ ایک لکڑی کے ٹھیلے سے آئسکریم بیچنے والے نے، اس خواجہ سرا سے سگریٹ مانگ لی. اس بیچارے نے کچھ دیر سوچا، پھر ایک کش لگایا اور مسکرا کر اپنی آخری سگریٹ اس ٹھیلے والے کے حوالے کر دی

 

اتنے میں ایک سائیکل اس ٹھیلے والے کے پاس آ کر رکی جس پر ایک چھوٹی سی بچی غالباً اپنے باپ کے آگے بیٹھی تھی. ٹھیلہ دیکھ کر اس بیچاری کے منہ میں پانی بھر آیا اور اس نے باپ کے کان میں کچھ کہا. باپ نے جیبوں کی تلاشی لی مگر شاید اس کی جیب بالکل خالی تھی. اس نے افسردگی سے انکار میں سر ہلایا اور پیڈل مار کر آگے جانے کو ہی تھا کہ ٹھیلے والے نے اشارے سے روک لیا اور سائیکل والے کے نا نا کرنے پر بھی ایک آئسکریم نکال کر بچی کے ہاتھ میں تھما دی. اس سے پہلے کے سائیکل والا احتجاج کرتا، ٹھیلے والے نے بچی کا سر شفقت سے تھپتھپایا اور آگے نکل گیا

 

ابھی وہ بچی بہت رغبت کے ساتھ آئسکریم چاٹ ہی رہی تھی کہ پاس ایک فقیر بچہ آ کر کھڑا ہوگیا اور حریص نگاہوں سے آئسکریم کی طرف دیکھنے لگا. اس بچی نے ایک دفعہ اس بچے کی نگاہوں کی طرف دیکھا اور پھر آئسکریم کی طرف دیکھا. پھر بیچاری نے ایک آخری دفعہ آئسکریم چاٹی اور اس بچے کی طرف بڑھا دی. اس سے پہلے کہ بچی کا باپ کچھ کہتا یا کرتا، وہ فقیر بچہ آئسکریم پکڑ کے یہ جا اور وہ جا. تھوڑی دیر تک تو وہ کچھ سوچتا رہا پھر مسکرا کر جھکا اوراپنی بچی کا سر چوم لیا

 

دیکھا تم نے بیٹے!’ بابا جی کی آواز میرے کانوں میں پڑی تو میں چونک گیا’

‘ہاں لیکن….’

لیکن یہ بیٹے کہ ابھی صور پھونکنے کا وقت نہیں آیا. محبت کا، شفقت کا اور درد مندی کا سفر ابھی جاری و ساری ہے. لوگ ابھی تک دوسروں کو دل سے سلامتی کی دعائیں دیتے ہیں. اور بیشک خدا کو محبت بہت پسند ہے اور وہ اپنے تمام بندوں سے محبت کرتا ہے. بس جب تک دنیا میں محبت باقی ہے، میں صور نہیں پھونکوں گا اور قیامت نہیں آئے گی

 

میں نے بابا جی کا ہاتھ نرمی سے دبایا، جیب سے ایک سو کا نوٹ نکال کر ان کی مٹھی میں دبایا اور گھر جانے کو اٹھ کھڑا ہوگیا. شام بہت ہو چکی تھی

 

_______________________________________

 

میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور دایئں کا اشارہ دے کر پل پر چڑھنے والی ٹریفک میں ملنے کی کوشش کرنے لگا. ابھی اسی کوشش میں تھا کہ مجھے اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا اور میں خود پر ہنس پڑا

بہت خوب! اسرافیل حسین چوک کے فٹ پاتھ پر بیٹھا تھا اور مجھے صور نا پھونکنے کی وجوہات سمجھا رہا تھا اور میں احمقوں کی طرح سن رہا تھا

ابھی مسکراہٹ میرے لبوں سے معدوم نہیں ہوئی تھی کہ کسی نے میری سرکتی گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹا کر میری تواجوہ مبذول کی

 

میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو اسرافیل گاڑی کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا. میں نے شیشہ نیچے سرکایا

کیوں؟’ اس نے اپنی گہری کالی آنکھوں سے مجھے گھورا. ‘جب تمھاری ملاقات آیہ صوفیہ کے باہر عزرائیل سے ہو سکتی ہے تو حسین چوک پر اسرافیل سے نہیں ہوسکتی؟

یہ کہ کر اس نے سو کا نوٹ میری گود میں پھینکا اور تیز تیز قدموں سے الٹی سمت میں چلتا میری نظروں سے اوجھل ہوگیا

 

 

      

6 thoughts on “آیہ صوفیہ کی ؍عذرا اور حسین چوک کا اسرافیل

  1. جب آپ کی ملاقات چیکوسلاویہ کی اینا سے ہو سکتی ہے تو اسرافیل سے کیوں نہیں؟ سریل ازم کی پینٹنگز تو بہت دیکھیں ہیں پر اردو میں کہانی کہنا آپ کا ہی خاصہ ہے۔بچی کی غبارہ ہاتھوں پر باندھنےکی ضد انسانی فطرت کی خوب عکاسی ہے۔ کہانی پڑھ کربچپن میں پڑھی ہانس کریسچین کی کہانیاں یاد آ گئیں ۔ درد مند دل کا فلسفہ آسمانوں سے خوب لائے حسین چوک تک ۔لکھتے رہیے سلامت رہئیے۔۔۔

    Liked by 2 people

  2. ااور اللہ کی رحمت ان پر جو لوگوں کو مہربانی ، رحمت اور امید کا سبق یاد دلاتے ہیں۔
    اس تحریرکے بعد اللہ آپ سے یقینا بہت خوش ہونگے۔

    Liked by 1 person

Leave a comment