نتھیا گلی کا دانتے اور نیو یارک کی نتاشہ

governors-lodge-at-nathiagali-khyber-pakhtunkhwa-pakistan

نتاشہ نیویارک یونیورسٹی میں فلسفہ پڑھاتی تھی اورگرمیوں کی چھٹیاں گزارنے پاکستان آی ہوئی تھی. ماں باپ تو کب کے انتقال کر چکے تھے. بس خونی رشتوں کے نام پر ایک خالہ تھی جوراولپنڈی میں رہتی تھی. خالہ بھی شعبہ تعلیم سے وابستہ تھی. اولاد تھی نہیں بس کالج کی بچیوں کو اپنا سمجھ کر پڑھاتی تھی. میاں سرکاری ہسپتال میں امراض قلب کے شعبے کے انچارج تھے. پاکستان کے چوٹی کے ماہرین میں شمار ہوتا تھا اور خوب پریکٹس چلتی تھی. کھاتے پیتے لوگ تھے لیکن دولت جمع کرنے سے زیادہ غریبوں کی خدمت پر زیادہ یقین رکھتے تھے. نتاشہ کو ہمیشہ ان دونوں سے ملنے سے ایک عجیب سی خوشی ملتی تھی 

Continue reading

محبت، انتظار اور سرخ گلاب

33fc3b2ef4a48f5311be5b43b0e06db2

میں محبت کے لئے قربانی نہیں دے رہا ڈاکٹر صاحب.’ ثاقب اپنی جگہ سے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہا، ‘میں صرف محبت کر رہا ہوں، صرف محبت. قربانی انا کے پجاری دیا کرتے ہیں، محبت کرنے والے نہیں. اور انتظار تو خدا صرف خشقسمتوں کو نصیب کرتا ہے.’ ثاقب نے نم آنکھوں مگر ایک نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور برآمدے کی سیڑھیاں اتر کر بارش بھری رات میں جذب ہوگیا

Continue reading

شبانہ کھسرا

6143216851_3a709011c6_m

جب ہم چند اکیلے ویران لوگ شبانہ کو دفن کر رہے تھے تو اچانک بارش شروع ہو گیئ.  نا بادل گرجے نا بجلی کڑکی، بس یک دم ہلکی ہلکی پھوار پڑنی شروع ہو گیئ. مجھے پتا بھی نہیں چلا کے کب بارش ختم ہوئی اور کب میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوے. ہوش تب آیا جب قبر کی مٹی کو پیار سے سہلاتے میرے ہاتھ کیچڑ سے لت پت ہوگئے. سب بہت دیر ہوئی چلے گئے تھے. میں قبرستان میں اکیلا تھا. میں نے اپنے ہاتھوں پر جمے کیچڑ کو غور سے دیکھا. سوکھتے کیچڑ میں دراڑیں پڑ رہی تھیں، ٹوٹی پھوٹی، شکستہ، بالکل ویسی جیسی شبانہ کے میلے ہاتھوں پر لکیریں تھیں. یوں لگتا تھا کے جیسے قسمت کی دیوی لکیریں کھینچتی کھینچتی دم توڑ گیئ ہو. مجھے خود کبھی ہاتھ کی لکیروں کی بتائی داستانوں پر یقین نہیں آیا مگر شبانہ کی زندگی دیکھ کر لگتا تھا کے شاید قسمت کی لکیروں میں  کچھ نا کچھ سچ ضرور ہے. اچانک جاتے بادلوں نے کڑک کر الوداع کہا تو تو مجھے یوں لگا کے قبر کی ٹنوں مٹی تلے دبی شبانہ نے آہستہ سے سسکی بھری ہو

Continue reading

خدا کی محبت اور ہیرا منڈی

59098188e1455

مجھے یہ کہنے میں کوئی آر نہیں کے لڑکپن کے دور میں مجھے گناہ سے بہت لگاؤ تھا. نیکی مجھے بوجھ سی لگتی تھی

ایک بزرگ کی وجہ سے مسجد جانا شروع کیا. کچھ عرصہ پانچ وقت نماز باقاعدگی سے باجماعت پڑھی. شروع میں بہت مزا آیا. پھر سمجھ آیا کے مزہ خدا سے نزدیکی کا نہیں بلکہ مخلوق خدا پر برتری کا تھا. مسجد آتے جاتے اپنے کاموں میں مصروف لوگوں کو حقارت سے دیکھتا.

‘بیوقوف لوگ. یہ کیا جانیں قرب خدا کی لذّت؟’

اپنا قد بہت لمبا ہوتا محسوس کرنے لگا. پھر ایک دن میری نظر اپنے اسی قدر لمبے ہوتے سائے پر پڑی تو سمجھ آئ کے قد لمبا ہونے کے ساتھ ساتھ، دل کی تاریکی بھی بہت بڑھ چکی تھی. اتنی سمجھ تو تھی نہیں کے اپنی ذات کا اندھیرا دور کر سکتا لہذا صرف نماز چھوڑ دی

تھوڑا اور جوان ہوا تو گناہ کو سمجھنے کا ارادہ کیا. سوچا جب تک اندھیرے سے واقفیت نہیں ہوگی، نور سے شناسائی مشکل

Continue reading

موسیٰ خان فرام ماسکو

Exhausted witnesses to a century old romance (2)

 

میں جنوری کی اس خنک اور اداس دوپہر کو جب کوئٹہ ائیرپورٹ پر اترا، تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کے بلوچستان کا وہ سفر، مجھ پر آگہی کے نۓ دروازے کھول دے گا. ائیرپورٹ پر مجھے لینے کے لئے گاڑی موجود تھی. بوڑھے ڈرائیور سے میں واقف تو نہیں تھا مگر، جھریوں سے جھانکتی مسکراہٹ نے مجھے، اجنبیت کا احساس نا ھونے دیا

Continue reading