
آؤ اب خود کو
فراموش کر دیں

تم اس ٹرین کے مسافر تھے
میں اس ٹرین کا مسافر تھا
تمہاری ٹرین مشرق کو
میری ٹرین مغرب کو
مدھم پڑتی کرنوں کی
پٹڑیوں کے جالے پر
بھاگتی تھیں دھڑ دھڑ وہ

ایتھے مٹی دے نے سارے
سوہنی سوہنی مورتاں وی
کالیاں پھکی صورتاں وی
اچے لمے شملے وی
ٹلھے ماٹھے کملے وی
مٹی دے سارے باوے نیں
کروڑ تے ہزار

میں جدوں وی گل کوئی کرنا واں
یا لفظ جدوں کجھ لکھنا واں
بھانویں اوکھے ہون یا سدھے ہون
کوڑے ہون یا مٹھے ہون
لوکی پٹھیاں اکھاں نال
مینوں ویکھ کے خفگی کردے نیں

!ہاسے لے لو ہاسے
میں جندڑی دی ریہڑی
دے پچھے چلدا
گلی گلی پھردا
واجاں مارنا واں
!ہاسے لے لو ہاسے

جب خوشیاں ہر سو مہکیں گی
اور روشن سارے پل ہوں گے
یا ہر تمنا پا کر تم
کھلکھلاتے ہنس دو گے
جب امید افق پر چمکے گی
اور کوئی اپنا بھی پاس ہو گا
یا تم قسمت کے دامن سے
خوشیاں ساری چن لو گے
میں اب بھی تمھارے ساتھ ہی ہوں
میں تب بھی تمھارے ساتھ ہوں گا

انجان دھول رستوں پر مدام چلنا
ہر نئے اٹھتے قدم پرخاک پھانکتے
آبلہ پا ہونا، خون رسنا، تلوے چپکنا
مگر پھر بھی مسلسل چلتے ہی جانا

آؤ ذرا کچھ دیر
ذرا کچھ بات کریں

آؤ! ذرا کچھ دیر
محبت کر کے دیکھتے ہیں
ساتھ چل کر دیکھتے ہیں

لا حاصل تمنا اور
ناممکن تعبیر کے درمیان
کہیں دور
ایک اندھیری وادی میں
درد کا آخری شہر
چپ چاپ سے بستا ہے