
لا حاصل تمنا اور
ناممکن تعبیر کے درمیان
کہیں دور
ایک اندھیری وادی میں
درد کا آخری شہر
چپ چاپ سے بستا ہے

یہاں صرف اندھیرا ہے
چاروں سمت اندھیرا ہے

ہزار چہروں میں
وہ ایک چہرہ
وہ جسے
تلاش کرتی ہیں
تیری نظریں

اس شہر کے ہر گھر کی
سب کھڑکیاں خاموش ہیں
کھڑکیوں سے گونجتے
کھنکتے اور مہکتے
جگمگاتے سے، بہکتے
قہقہے بھی خاموش ہیں

خدا آخر کیوں خاموش ہے؟
کیا کبھی سوچا ہے تم نے؟
تم جو روز بلاتے ہو
بلبلاتے ہو، گڑگڑاتے ہو
پھر بھی وہ خاموش ہے
کیا کبھی سوچا ہے تم نے؟
کہ آخر وہ کیوں خاموش ہے؟

تیرے پچھے، ڈل جئے گئے نیں
اندروں باہروں، کھل جئے گئے نیں
ریشے توں ریشہ، بوٹی توں بوٹی
روح دے تاھگے، کھل جئے گئے نیں

ڈر سب مینڈکوں کو لگتا ہے
ڈر سب مینڈکوں کو لگتا ہے
کنویں کا مینڈک بھی ڈرتا ہے
باہر دنیا کا مینڈک بھی ڈرتا ہے

ہمارا اور تمہارا ساتھ
کتنا مشک بو تھا
مشک بو سی آرزو تھا
آرزو کی آرزو تھا
آرزو کی جستجو تھا

بارشوں کے موسم میں
بارشوں سے ڈرنا بھی
اک عذاب ہوتا ہے

کیا عرش کو خون سے دھودھوکر
جنّت کی چابی ملتی ہے؟
معصوم جانیں لینے سے
بخشش کا سامان ہوتا ہے؟