ٹوٹے کھلونوں کا المیہ
میرا نام ڈاکٹرعبدل رحمان ہے اور میں فلسطین کا رہنے والا ہوں. میں اپنے زمانے میں ایک ماہر سرجن جانا اور مانا جاتا تھا. لوگ دور دور سے میرے ہسپتال میں آپریشن کرانے آتے تھے. ان کو لگتا تھا کہ جیسے خدا نے میرے ہاتھ میں شفاء رکھی ہو
سانتا آنا کا پادری
یہ سخت گرمیوں کے دنوں کی بات ہے کہ جب سانتا آنا گاؤں کے اکلوتے گرجے کے، اکلوتے پادری کا، انتقال ہو چکا تھا؛ اور پورا گاؤں بےصبری سے، نئے پادری کا انتظار کر رہا تھا
آخری کنارہ
اسکی گاڑی رنگ روڈ کے ایک نسبتاً ویران ٹکڑے پر، سڑک کی ایک سائیڈ پر پارک تھی. وہ گاڑی کے بونٹ سے ٹیک لگا کر کھڑا تھا. داہنے ہاتھ کی انگلیوں میں ایک سگریٹ پتہ نہیں کتنی دیر سے سلگ رہا تھا کیونکہ اس کی راکھ ضرورت کے باوجود، ابھی تک جھاڑی نہیں گئ تھی
شمو اور مجید پیڑا
.شمو! تم میری ماں ہو؟’ مجید پیڑے نے شمو سے بڑی آس سے پوچھا’
دفع دور!’ شمو کے ہاتھ اچانک رک گئے اور اس نے رکھ کر مجید کی گردن پر بےدردی سے، جلتی ہوئی چپت لگائی
‘میں بھلا کیوں ماں ہونے لگی تیری؟’
.تو پھر تو میرا اتنا خیال کیوں رکھتی ہے؟’ مجید بیچارے نے آنسو پینے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے پوچھا’
اسلئے کہ ٹھیکیدار مجھے تیرا خیال رکھنے کے پیسے دیتا ہے.’ شمو نے مجید کے بالوں میں دوبارہ سے تیل چپڑتے ہوئے کہا
آخر کو تو ٹھیکیدار کا سب سے کماؤ فقیر ہے. تیرے لاڈ نہیں اٹھائے گا تو کیا میرے اٹھائے گا؟’ شمو نے حسرت سے دستی آینے میں اپنی چیچک کے داغوں بھری مدقوق شکل کا معائینہ کرتے ہوئے کہا
آغوش مہربانی
‘لوٹ کر آگئ ہو واپس؟’ فقیر نے مسکرا کر پوچھا’
ہاں!’ عایشہ نے سر جھکا کر اور سسک کرکہا. ‘آگئ ہوں مگر تمھیں ہماری محبت کا واسطہ، ہمارے درمیان کے خوبصورت تعلق کی قسم، اب مجھے لوٹ جانے کا نا کہنا. اب میں بہت تھک چکی ہوں
فقیر نے نرمی سے عایشہ کے جھریوں بھرے گالوں سے آنسو پونچھے اور اور نہایت پیارسے اس کے چاندی بالوں کو سہلایا
‘نہیں کہوں گا. اب آگئ ہو تو یہیں میرے پاس ہی رہ جاؤ’
لیکن وہ…….!’ عایشہ نے کچھ سوچ کر کہا. ‘وہاں….ٹرین کے اس طرف میرا بیٹا بیٹھا میرا انتظار کر رہا ہے. میں واپس نہیں جاؤں گی تو وہ بہت پریشان ہو گا
‘کچھ نہیں ہوگا.’ فقیر نے اپنے بازو پھیلائے. ‘آجاؤ شاباش! یہ پریشانی کا نہیں آرام کا وقت ہے’
عایشہ کچھ لمحے فقیر کی آنکھوں میں جھانکتی رہی. وہاں صرف محبت تھی. پھر اس نے قدم بڑھائے اور فقیر کے سینے سے لگ گئ. وہاں بہت سکون تھا. عایشہ کو لگا کہ جیسے وہ تپتے صحرا میں صدیوں چلنے کے بعد یکایک کسی مہربان درخت کی گھنی چھاؤں میں آن پہنچی ہو. اس نے سکون اور اطمینان کا ایک لمبا سانس بھرا اور ماں کی گود میں منہ چھپائے بچوں کی طرح، آنکھیں موند لیں
کلو حرامی اور پلیٹ فارم نمبر چار

محلے کے لوگ بتاتے ہیں کہ جس دن کلو حرامی کی ماں فوت ہوئی، اس کی آنکھوں سے ایک آنسو بھی نا نکل سکا. دیدے ایسے خشک پڑے تھے کہ جیسے، بارش کی بوندوں کے انتظار میں، تڑخی ہوئی اور باریک باریک دراڑوں والی سوکھی زمین. پڑوس کی ماسی بشیراں نے تو دونوں گال، تھپڑ مار مار کر لال سرخ بلکہ جامنی کر دیئے، مگر کلو نے تو جیسے قسم کھا رکھی تھی نا رونے کی. بس سرخ اینٹوں سے بنے چھوٹے سے صحن کے ایک کونے میں بیٹھا، لال لال آنکھوں سے گھورے جاتا تھا ہر آنے جانے والے کو
کبوتروں کا مزاروں سے کیا تعلق ہوتا ہے؟