گھنگرو، شاہ حسین اور بابا غمگسار
وہاں جہاں شاہ حسین چپ چاپ لیٹا محبت کے خواب دیکھا رہا ہے، میلے چیکٹ چراغوں کی روشنی اور گاڑھے سیاہ دھوئیں کے ڈولتے سایوں کے بیچ، ڈھول بج رہے تھے، سنکھ پھونکے جا رہے تھے اور بابا غمگسار ناچ رہا تھا
رفیق پریمی اور شہناز انجان
لاہور میں ماڈل ٹاؤن کچہری کے باہر، فیروز پور روڈ انڈر پاس کے نیچے، سڑک کنارے فٹ پاتھ پر، کچھ عرضی نویس کرسیاں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں. ذرا غور سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان سب کے درمیان ایک جگہ خالی ہے. یہاں کل تک رفیق پریمی کی کرسی میز لگی ہوتی تھی
نظر بٹو کا عشق
.مولوی صاحب!’ نظر بٹو نے ڈرتے ڈرتے مولوی مشتاق کو اپنی طرف متوجوہ کیا’
.ہاں! ہاں! کہو بیٹے، کیا بات ہے؟’ مولوی صاحب نے مسکراتے ہوئے پوچھا’
‘مولوی صاحب’
ہاں! ہاں! بولو شاباش، کیا مسلہء ہے؟’ مولوی صاحب نے اس غریب کو ہچکچاتے دیکھ کر شفقت سے پوچھا
.مولوی صاحب! کوئی دم درود تو تجویز کریں.’ نظر بٹو نے شرماتے ہوئے کہا’
‘دم درود؟ وہ کس لئے بھائی؟’
وہ…..میرے قد کیلئے. کوئی ایسا وظیفہ بتایئں کہ میرا قد لمبا ہوجاۓ.’ اس نے بدستور شرماتے ہوئے اور سر جھکا کر کہا
.لاحول ولا قواتہ! قران نا ہوگیا جادو ٹونہ ہوگیا.’ مولوی مشتاق نے جلال میں آ کر کانوں کو ہاتھ لگایا’
آپ تو ناراض ہوگئے مولوی صاحب!’ بیچارے نظر بٹو کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے گالوں پر لڑھک گئے. ‘آپ میری آخری امید تھے. میں بڑا مان لے کر آیا تھا
ہوں….!’ مولوی صاحب نے نظر بٹو کو گھورتے ہوئے ایک لمبا ہنکارا بھرا. پھر انکو اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر ترس آگیا
‘دیکھو میاں جلال الدین’
.نظر بٹو نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا
.بھائی تمہارا نام جلال الدین نہیں ہے؟’ مولوی صاحب نے جھنجلا کر پوچھا’
تھوڑی دیر تو نظر بٹو خالی خالی آنکھوں سے مولوی صاحب کو دیکھتا رہا. پھر اچانک اسکی کالی معصوم آنکھوں میں چراغ سے جل اٹھے
مون – دی گریٹ گٹار پلیئر
مون! تو الو کا پٹھا ہے اور الو کا پٹھا ہی رہے گا ہمیشہ.’ ابا جی نے غصے میں پھنپھناتے ہوئے کہا. مخاطب میں تھا – ان کا انیس سالہ بیٹا مون
‘اس گٹار بجانے میں کچھ نہیں رکھا. برباد ہو جائے گا اس کام میں. لاکھ دفعہ کہا ہے، اگر پڑھنے لکھنے کا دل نہیں کرتا، میرے ساتھ دوکان پر جا کر بیٹھا کر. چار پیسے کمانا سیکھ لے. مگر کہاں؟ تو بے غیرت کا بے غیرت. پتہ نہیں مر کیوں نہیں جاتا؟
اظہار کرو، انتظار نا کرو
دیکھئے صاحب! میں بالکل بھی پاگل نہیں ہوں. ہاں میرے الفاظ سننے میں پاگل پن ضرور لگتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے
دیکھئے آپ میری بات پر دھیان ضرور دیجئے. بیشک پاگل سمجھ کر پتھر مار دیں مگر ایک لمحے کو میری بات پر دھیان ضرور دیں
ایک بار میری کہانی سن لیں، یقین مانیں اس میں آپ کا ہی فائدہ ہے
لارنس گارڈن، سائبیریا اور عشق
عایشہ کے ساتھ کامران کی پہلی ملاقات ایک کانفرنس میں ہوئی. دیکھنے میں عام سی لڑکی تھی. کھلتا ہوا گندمی رنگ، سرو قد، متناسب جسم، کالی گہری آنکھیں، لمبی لمبی مخروطی انگلیاں، سر پر سکارف، ایک کلائی میں پتلی پتلی سونے کی دو چوڑیاں اور سادہ سا ہلکے سے رنگ کا شلوار قمیض. شرمیلی بہت تھی اور اتنے سارے مردوں میں اکیلی لڑکی ہونے کے باعث بالکل اپنے آپ میں سمٹی جا رہی تھی
سنہری دروازوں والی مسجد اور چیکو سلواکیہ کی اینا
دبئی ایئر پورٹ شاید دنیا کا وہ واحد ائیرپورٹ ہے جہاں ہر قومیت، ہر رنگ، ہر نسل اور ہر زبان بولتا شخص نظر آتا ہے. میں اس بہت بڑے ایئر پورٹ پر پچھلے ایک گھنٹے سے مارا مارا پھر رہا تھا
جی نہیں، مجھے کسی مخصوص فلائٹ کیلئے کسی خاص گیٹ کی تلاش نہیں تھی
مجھے کسی مخصوص ایئر لائن کے ٹکٹ کاؤنٹر یا ہیلپ ڈیسک کی بھی تلاش نہیں تھی
مجھے تلاش تھی ایک عدد سموکنگ لاؤنج کی کیونکہ تہذیب یافتہ ملکوں میں ہر جگہ سگریٹ پینے کی اجازت نہیں ہوتی. یقیناً بہت اچھی بات ہے لیکن میرے جیسے تمباکو کے عاشقوں کیلئے بہت ہی عذاب کا بائث ہے
کتوں والی سرکار اور سین زوخت
تمھیں یاد ہے، کچھ عرصہ قبل، تم نے مجھ سے ایک سوال پوچھا تھا اور میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا؟’ بابا جی نے اچانک پوچھا
‘ہاں….!’ میں نے سوچتے ہوئے کہا. ‘آپ کسی عجیب سے لفظ کے بارے میں بتا رہے تھے’
.سین زوخت……..یعنی “خواہشوں کا تعاقب”.’ باباجی نے نرمی سے مسکراتے ہوئے کہا’
‘میں نے کہا تھا کہ ابھی اس لفظ کا مطلب سمجھنے کا وقت نہیں آیا’
ہاں…..!’ میں نے اثبات میں سر ہلایا. مجھے بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن بابا جی کا دل رکھنے کو میں نے کہ دیا
.وقت آ گیا ہے بیٹے.’ بابا جی اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور میرے پاس آ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا’
ہم سب قاتل ہیں
ابّا! اس دفعہ نا، چودہ اگست پر میں، سفید رنگ کی نئی شلوار قمیض پہنوں گا.’ آٹھ سالہ ثاقب نے اپنے باپ کی گود میں گھستے ہوئے کہا
.اور کیا لے گا میرا بیٹا؟’ اللہ بخش نے پیار سے اس کے بال بگاڑتے ہوئے پوچھا’
.اور؟ اور…………ڈھیر ساری جھنڈیاں. سبز اور سفید.’ ثاقب نے کچھ سوچتے ہوئے کہا’