وہ دسمبر کی ایک کالی برفیلی رات تھی، جب میں نے کامران کی بارہ دری کے سامنے ایک ریڈ انڈین حسینہ کو، بھڑکتی آگ کے الاؤ کے گرد ناچتے دیکھا. ذرا سوچئے، ہر طرف چھایا رات کا گھپ، کہرے سے ٹھٹرتا اندھیرا؛ راوی کے گدلے پانی پر ناچتے دھند کے گہرے بادل، کامران کی بارہ دری کا پر آسیب ماحول اور ویرانے کا بوجھل سناٹا
ایسے میں چلتے چلتے اچانک آپ کی نظر، دور بھڑکتی آگ پر پڑتی ہے. کپکپاتے ہاتھ اور حرارت کی خواہش آپ کو، آگ کے قریب لئے جاتے ہیں. لیکن تھوڑا دور ہی سےآپ کو، آگ کے گرد ایک سایہ ناچتا دکھائی دیتا ہے. ساتھ ہی کسی اجنبی زبان اور لوچ سے بھرپور نسوانی لہجے میں، گانے کی آواز آتی ہے. آپ اور قریب جاتے ہیں تو سائے کے خد و خال نمایاں ہونے شروع ہوجاتے ہیں. آپ اپنی آنکھیں ملتے ہیں، بازوؤں پر چٹکیاں لیتے ہیں، لیکن وہ خواب نہیں حقیقت ہے. دریاۓ راوی کے کنارے واقعی ایک ریڈ انڈین حسینہ ناچ رہی ہے
میرا نام کامران اسماعیل ہے. تقریباً پینتالیس سال عمر ہے. پیدا پاکستان میں ہوا لیکن بچپن اور جوانی ساری امریکا میں گزری. ہمیشہ سے ہی نفسیات میں دلچسپی رہی. لہٰذا سائیکالوجی میں ہی ماسٹرز اور ڈاکٹریٹ کیا. پھر مزید دل کیا تو سائکو انالیسس یعنی تحلیل نفسی میں مہارت حاصل کی اور لگے ہاتھوں ایک ماسٹر، کرمینالوجی میں بھی کر لیا. پہلے ٹیکساس کے ایک مشہور سائیکالوجسٹ ڈاکٹر گراہم کے ساتھ پریکٹس کرتا رہا. پھر اپنا کلینک کھول لیا. جب دو چار اچھے رسالوں میں میرے مقالے شائع ہوے تو امریکن جسٹس ڈیپارٹمنٹ نے مجھے اپنے ایک اسپیشل یونٹ کے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی جو میں نے فوراً قبول کر لی
.امّاں؟’ ہتھیلی پر رکھی افشاں کو پھونک مار کر اڑاتے، رانی نے پوچھا’
.جی، امّاں کی جان……اب کیا ہے؟’ عایشہ نے مسکراتے ہوئے، رانی کی طرف دیکھ کر پوچھا’
امّاں میرا دل کرتا ہے، اتنی ڈھیر ساری افشاں ہو میرے آس پاس.’ رانی نے دونوں ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا. ‘اتنی افشاں ہو، اتنی افشاں ہو کے ہر طرف بکھری پڑی ہو اور میں اس میں، دوڑتی چلی جاؤں. میرے پاؤں کے نیچے افشاں، دھول کی طرح اڑتی جائے اور ہر طرف پھیل جائے
تم بھی عجیب لڑکی ہو رانی.’ عایشہ نے ہنس کر رانی کی پیشانی چومتے ہوئے کہا. ‘بھلا افشاں بھی کوئی کھیلنے کی چیز ہے؟
نہیں امّاں، مجھے بس ہوا میں اڑتی چمکتی، افشاں اچھی لگتی ہے. ایسا لگتا ہے کے میں خواب دیکھ رہی ہوں.’ رانی نے احتیاط سے افشاں کی شیشی، اپنی گڑیا کے چھوٹے سے صندوقچے میں رکھتے ہوئے کہا
اچھا پھر ایسا کرو، تم جلدی سے نندیا پور چلی جاؤ. وہاں افشاں ہی افشاں ہوگی. آسمان پر، زمین پر، ہر جگہ. وہاں خوب کھیلنا اور صبح سویرے، میرے پاس واپس آ جانا.’ عایشہ نے رانی کے بالوں میں کنگھی پھیرتے ہوئے کہا
واقعی امّاں، نندیا پور میں اتنی ڈھیر ساری افشاں ہوگی؟’ رانی نے معصومیت سے پوچھا اور پھر ماں کے اثبات میں سر ہلانے پر پوچھنے لگی: ‘کیسے جاتے ہیں نندیا پور؟ مجھے بھی بھیج دو نا ماں
بہت آسان ہے نندیا پور جانا.’ عایشہ نے بستر پر رانی کو پیار سے لٹاتے ہوئے کہا. ‘بس اب میری گڑیا آنکھیں بند کر لے. تھوڑی دیر میں نندیا پور پہنچ جائے گی
یہ سننا تھا کے رانی نے جھٹ سے آنکھیں بند کر لیں. مگر تھوڑی دیر بعد ہی، بند آنکھوں کے ساتھ کہنے لگی
‘امّاں، کیا ابّو بھی نندیا پور میں ہوں گے؟’
تھوڑی دیر تو عایشہ، ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ، بستر پر لیٹی رانی کی طرف دیکھتی رہی
‘بتاؤ نا امّاں، کیا میں نندیا پور میں، ابّو سے بھی ملوں گی؟’
‘ہاں، تمھارے ابّو بھی وہیں کہیں ہونگے. بس ان کے کندھوں پر بیٹھ کر، افشاں کا میلہ دیکھتی رہنا’
میں تمام نیک روحوں کا مربی اور سرپرست ہوں. میاں فرہاد مصطفیٰ کی روح کا، عائشہ بیگم کی روح کا اور تمھاری روح کا بھی زینب.’ اس کے چہرے پر بدستور وہ شفیق مسکراہٹ رقصاں تھی
میں ایک دفعہ تو کانپ ہی اٹھی
‘آپ موت کا فرشتہ ہیں؟ روح قبض کرنے آتے ہیں یہاں؟’
اس کی مسکراہٹ کچھ اور نمایاں ہوگئ
نہیں زینب میں موت کا فرشتہ نہیں ہوں، میں روحیں قبض نہیں کرتا. میں روحوں کی مسیحائی کرتا ہوں. لیکن صرف نیک روحوں کی مسیحائی
زندگی کے پیچیدہ اور کانٹوں بھرے راستوں پر مسلسل سفر کرتے، عینی کے لہو لہان پیر کب کے تھک چکے تھے. کچی قبرکی تہہ میں رکھا، سفید کفن میں لپٹا اسکا نازک وجود، اس تکان کی گواہی دے رہا تھا. گورکن نے سیمنٹ کی پہلی سلیب اٹھائی ہی تھی، کے میں نے اسے روک دیا. بغل میں دبائی سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی گڑیا نکالی اور نیچے اتر کر عینی کے پہلو میں احتیاط کے ساتھ، رکھ دی
خدا حافظ عینی!’ میں نے اس کے پھول سے وجود کو بھاری دل کے ساتھ الوداع کہا اور کفن کے اوپر سے ہی، اس کی پیشانی چوم لی
مجھے اپنے محلے میں ہمیشہ سے، دو لوگ بہت پسند تھے. وہ تھے مولوی عبد الغفور اور فوجو چوہڑا. حیرت کی بات یہ تھی کے وہ دونوں ایک دوسرے کے نہایت گہرے دوست تھے اور ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے تھے. اب آپ یقیناً سوچتے ہونگے کے کہاں ایک مومن مسلمان مولوی اور کہاں ایک غریب عیسائی خاکروب؟ بات تو بہت عجیب و غریب ہے، لیکن ہے حقیقت
دیوسائی کے برف پوش میدانوں میں شیوسر نامی ایک جھیل ہے. اس جھیل کے پاس، ایک اکیلے پہاڑ کی چوٹی پر، بدھ بھکشوؤں کی ایک قدیم اور ویران خانقاہ ہے. سنا ہے کے کچھ سال پہلے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر دنیا سے تنگ آ کر وہاں جا کر بس گیا تھا. وہ شاید تمھارے سوالات کے جواب دے سکے.’ بوڑھے غبارے والے نے میری طرف دیکھے بغیر کہا اور پھر ایک غبارہ سلنڈر کی نوزل پر چڑھا کر گیس بھرنے لگا
سورج سوا نیزے پر کھڑا دہک رہا تھا. نیلے شفاف آسمان پر کہیں کہیں آوارہ بادلوں کے ٹکڑے رینگ رہے تھے اور اتنی آہستگی سے اپنی شکل تبدیل کر رہے تھے کے دیکھنے والوں کو احساس تک نا ہوتا تھا. گرم ہوا کے تھپیڑے منہ پر پڑتے تو یوں معلوم ہوتا تھا کے جیسے تندور کے دہانے پر جھکے اندر جھانک رہے ہوں. دور حد نگاہ تک زمین سے ابھرے ریت اور مٹی کے ٹیلے دیکھ کر یوں لگتا تھا کے جیسے وہ جنوبی بلوچستان کا صحرائی علاقہ نا ہو بلکہ غریب جنوں کا کوئی قبرستان ہو
وہ غالباً دسمبر کی ایک سرد شام تھی جب میری ملاقات پہلی دفعہ غلام حسین سے ہوئی. وہ ایک گمنام مگر بیمثال گائیک تھا اور پیشے کے لحاظ سے باٹا کا سیلزمین تھا. مجھے اپنی پسندیدہ ساخت کے جوتے خریدنے تھے مگر بہت ڈھونڈنے پر بھی اور پورا ملتان چھان ڈالنے پر بھی نا ملے. آخر خدا بھلا کرے ایک صدر میں واقعہ جوتوں کی دوکان والے کا کہ جس نے مجھے پرانے قلعہ کے قرب میں واقعہ، باٹا کی ایک شاخ کا پتہ بتایا. میں نے اپنے آٹھ سالہ بیٹے کو گاڑی میں ساتھ بٹھایا اور چل پڑا
ابّا میاں! میری ناقص رائے میں، اچھا شاعر بننے کی دو اہم شرائط ہیں. پہلی شراب اور دوسرا طوائف سے عشق.’ بنے میاں نے سنہرے رنگ کے مشروب کی ایک چسکی لیتے اور نیم باز آنکھوں سے، مرزا عبدلودود کیطرف دیکھتے ہوئے، کمال دانشمندی سے عرض کیا