Am I Good Enough for You? (A Mini Opera)

galatea_and_polyphemus_by_thesecondbus_d7y0cde-fullview-1

This is the final dialogue between the miserable and desperate Polyphemus, and the idealistic Galatea - the helpless lover and the arrogant nymph.

Myth says that once upon a time, even before the birth of time itself, the Cyclops Polyphemus saw Galatea, the nymph, and fell in love with her. But there was a dilemma as he was large and ugly, while she was a perfect beauty. No matter how much he loved Galatea and no matter what he sacrificed for her, she did not accept his love. Finally, doomed and cursed, Polyphemus threw rocks at Galatea and her lover. As a punishment, he was transformed into a river destined to flow amongst the wild mountains forever - alone and miserable.


‘With a heart filled with love and my words so true,

am I good enough for you?

With my mind fixed on you and my soul without a clue,

am I good enough for you?’

He asks Galatea while the shadows of doubt line his single dark eye.


‘No, I am afraid not!’ She smiles at him coldly, untouched by his bitter misery.

‘No matter how hard you try,

you may scream or you may cry

No matter how long you try,

you may bleed or you may die

You’ll never be good enough for me

No matter how high you fly,

you may kiss the earth or may reach the sky

No matter how sincerely you pry,

you may shout or you may sigh

You’ll never be good enough for me’


‘But what if I change, and what if I transform?

What if I become the sunlight after a storm?’

He pleads with eyes filled with all the sadness in the world.

‘No, still no!’ She replies adamantly with steely resolve gleaming in her blue eyes

‘Even if you change and even if you evolve,

from a thorn to a rose, you may transform

Even if you become godly,

and God Almighty Himself approves your form

You’ll never be good enough for me

Even if you evolve

to all my rules, you may conform

Even if you become Adonis,

and loving you becomes a norm

You’ll never be good enough for me’


‘And why is that so?

Why a strict adherence to status quo?’

Looking down, he asks, dejection underlining his desperate whisper.

‘Well that’s a good question.’ She looks at him with pity.

‘You don’t matter,

and you don’t matter at all

Whatever you may do,

either very big or just very small

You may bang your head,

against a high stone wall

You may bloody your fists,

you may stand or may even crawl

Whatever you do is useless,

and you will always fall’


‘Then what should I do?

For my love is so true!’

Polyphemus raises his arms and begs till he is hoarse.

‘That is but for you to decide!’ Galatea decrees with finality — her voice etched in stone.

‘You may die a lonely death,

or you may burn forever

You may fade with the harsh wind,

or you may pray to whomever

You may make great plans,

or you may do something clever

You may aspire big and grand,

or you may rise to whatever

Whatever you do is hopeless,

and I will be yours, oh never!’


‘Silence! You, the wretched lover!

Silence! Yo,u the arrogant queen!’

The skies go dark, and the voice of Zeus booms from above.

‘Quit this nonsense, let your arguing be done

Love is a godly trait, and not a race to be won

You are both mistaken, individually and as one

You are both misguided; logic is what you shun

The capability to love is what’s desired by everyone,

an unfulfilled dream, under the moon and the sun

Polyphemus! You can love, you will be a god in the long run

Galatea! For denying true love, my blessings for you are none’

 

سانتا آنا کا پادری

d9ec0c8-046600aa-73e4-4bb0-9874-0021d1b46782

 

 

 

 

 

 

یہ سخت گرمیوں کے دنوں کی بات ہے کہ جب سانتاآنا گاؤں کے اکلوتے گرجے کے، اکلوتے پادری کا، انتقال تو گرمیاں اپنے پورے عروج پر تھیں؛ اور پورا گاؤں نئے پادری کے آنے کا بےصبری سے انتظار کر رہا تھا

Read more: سانتا آنا کا پادری

بہت سے بچے پیدا ہوچکے تھے لیکن بپتسمہ نا دیئے جانے کی وجہ سے گمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے. بیشمار محبت کرنے والے جوڑے تھے، جو کہ شادی کے بندھن میں بندھنے کیلئے اتنے بیتاب تھے کہ ہر رات کا نیا چاند، نا چاہتے ہوئے بھی ان کے گناہوں کا گواہ بن جاتا تھا. لیکن گرجے میں پادری کی عدم موجودگی کے باعث ان کی شادی نہیں ہوسکتی تھی

پھر بہت سے ایسے گناہ گار تھے جو اعتراف کے لئے بے چین تھے تاکہ صاف دل کے ساتھ، ایک دفعہ پھر سے گناہوں کے راستے پر چلا جا سکے. اور بہت سے ایسے لوگ تھے جو مر چکے تھے اور دفنائے بھی جا چکے تھے لیکن ان کی روحیں، اپنی آخری رسومات کے انتظار میں، زمین اور آسمان کے درمیان معلق تھیں

پھر ایک دوپہر، جب سورج عین سوا نیزے پر بےرحمی سے دہک رہا تھا تو گاؤں کی کچی فصیل کے ٹوٹے دروازے سے، ایک گھڑسوار اندر داخل ہوا. گھوڑا لاغرسا تھا اور تیز سنہری دھوپ اور بہتے پسینے سے اس کا کالا سیاہ جسم، چمک رہا تھا. گھڑسوار بھی کالے لباس میں ملبوس تھا اور اس کے سر پر چوڑے چھتے والے سیاہ ہیٹ کے نیچے، اس کے خدوخال، واضح نہیں تھے


سانتا آنا، قریبی شہر سے قریباً دو سو کلومیٹر دور اور صحرا کے بیچوں بیچ واقع، ایک چھوٹا سا اور نامعلوم غریب گاؤں تھا. بہت کم ہی کوئی بھولا بھٹکا مسافر، گاؤں میں قدم رنجہ فرماتا تھا. بلکہ مسافروں کی تعداد اس قدر کم تھی کہ بڑھے بوڑھے اب تک، گاؤں میں آنے والے تمام مسافروں کو، دو ہاتھوں کی انگلیوں پرباآسانی گن سکتے تھے؛ اور گننے کے بعد بھی دو ایک انگلیاں بچ رہتی تھیں


وہ نیا آنے والا گھڑ سوار کوئی مسافر نہیں بلکہ فادر آندرے بارتولو تھا – سانتاآنا گاؤں کے اکلوتے گرجے کا نیا پادری. گاؤں میں داخل ہوتے  ہی اس نے مرکزی چوک کے کنویں سے جی بھر کر پانی پیا اور کسی سے کوئی فالتو بات کئے بغیر، سیدھا گرجے گھر پر پہنچ کر، اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، گاؤں کے لوگوں کو احساس ہوتا چلا گیا کہ فادر آندرے کوئی معمولی پادری نہیں تھا بلکہ شاید انسان کے روپ میں کوئی فرشتہ یا پھر ولی تھا جو خداوند نے سانتا آنا گاؤں پر ترس کھا کر بھیجا تھا

پچھلا پادری کھانے پینے کا انتہائی شوقین تھا اور حد درجہ کا بلانوش بھی تھا. کئ دفعہ تو اتوار کے دن دعا کے موقعے پر، گرجے کی سستی وایئن کی بوتل بھی خالی ملتی تھی؛ اور پادری صاحب کے الفاظ اور قدم، دونوں ڈگمگا رہے ہوتے تھے

لوگ فادرآندرے کو فرشتہ یا ولی الله اسلئے سمجھتے تھے کیونکہ وہ پچھلے پادری کے برعکس صحیح معنوں میں ایک درویش صفت آدمی تھا. نا کھانے پینے کا شوق تھا اور نا ہی پینے پلانے کا. خواتین کی طرف تو دیکھنے سے بھی گریز کرتا تھا. تمام خواہشات سے پرہیز کرتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ جیسے خداوند نے اسے پیدا ہی پرہیزگاری کیلئے کیا تھا


حقیقت کیا تھی، وہ فادر آندرے سے زیادہ بہتر کوئی اور نہیں جانتا تھا. جب بھی لوگ اس کی پرہیزگاری سے متاثر ہو کر اس کے ہاتھ چومتے تھے تو وہ زیرلب ضرور مسکراتا تھا

دراصل بہت بچپن سے ہی فادرآندرے کو پادری بننے کا شوق تھا. اسلئے کہ یہ وہ واحد پیشہ تھا کہ جس میں لوگوں پر برتری پانے کیلئے، کسی دولت یا دنیاوی تعلقات کی ضرورت نہیں تھی. پھر اس کا یہ بھی دل چاہتا تھا کہ شاید اس کے مرنے کے بعد یا اس سے پہلے ہی لوگ اسے کوئی سینٹ سمجھیں اور فرط عقیدت سے اس کے ہاتھ چومتے رہیں اور آس پاس منڈلاتے رہیں

لیکن پادری بننے کے بعد اس کو احساس ہوا کہ پرہیزگاری کی راہ پر چلنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا. ہر قدم پر دل کو مارنا پڑتا تھا؛ اور یہ اس کیلئے بیحد مشکل ثابت ہورہا تھا

چونکہ فادر آندرے کا تعلق ایک بہت غریب خاندان سے تھا اور بچپن بہت محرومی اور بھوک میں گزرا تھا تو جب بھی کسی دعوت میں شریک ہوتا، تو ہاتھ اور منہ روکنا مشکل ہوجاتا. اور پھر کون صحیح الدماغ انسان اچھی سرخ وایئن کو ٹھکرا سکتا تھا. جب پیٹ مرغن غذاؤں اور شراب سے بھرجاتا تو پھر نظر حسین چہروں اور صحت مند نسوانی جسموں پر بھٹکنا شروع کر دیتی

آہستہ آہستہ ان حرکات کی وجہ سے اس کا مزاق اڑنا شروع ہوگیا. یہاں تک کہ مَیکسکن چرچ کی طرف سے دو تین انتباہی مراسلے بھی موصول ہوگئے تو فادرآندرے کو اپنے مقدس خواب مٹی میں ملتے نظر آئے. لیکن باوجود بھرپور کوشش کے وہ اپنی خواہشات پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا


پھر ایک شام شیطان فادر آندرے بارتولو سے ملنے چلا آیا اور اسے ایک ایسی پیشکش کی کہ فادرآندرے اسے قبول کرنے پر مجبور ہوگیا

‘مرنے کے بعد اپنی روح مجھے سونپ دینے کا وعدہ کرو تو میں تمھاری سب خواہشات ایک پل میں پوری کر دوں گا.’ شیطان نے مسکراتے ہوئے کہا

یہ ہی تو سارا مسلہء ہے.’ فادر آندرے نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا. ‘میں اپنی تمام نفسانی خواہشات سے ہی تو جان چھڑانا چاہتا ہوں

‘ہیں؟’ شیطان چونک کر کھڑا ہوگیا. ‘یہ کیسی خواہش ہے؟’

بس یہ ہی میری خواہش ہے’، نوجوان پادری نے کہا. ‘میں چاہتا ہوں کہ میری ساری خواہشات ختم ہو جایئں، میرا نفس مر جائے اور میں اپنی زندگی میں ہی سینٹ کا رتبہ پا جاؤں

‘ٹھیک ہوگیا!’ شیطان نے جیب سے معاہدہ نکالتے ہوئے کہا. ‘اس پر اپنے خون سے دستخط کر دو’

فادرآندرے شیطان کے ساتھ معاہدہ کر کے بہت خوش تھا. اس کو پوری امید تھی کہ چونکہ وہ خواہشات سے جان چھڑا چکا ہے تو روزمحشر وہ کوئی گناہ نا ہونے کے بائث سیدھا جنت میں جائے گا اور شیطان کچھ بھی نہیں کر سکے گا


وقت گزرتا چلا گیا. سانتا آنا گاؤں میں دس سال بتانے کے بعد، فادرآندرے پہلے بشپ اور پھر کارڈینل بن گیا. تھوڑے عرصے میں ہی اس کی پرہیزگاری سے متاثر ہو کر لوگوں نے اسے سینٹ کا درجہ دے دیا اور دور دور سے اس کی زیارت کو آنے لگے

پھر ایک دن وہ مر گیا اور فرشتوں نے اس کی روح کو لے جا کر بارگاہ الہی میں پیش کر دیا

‘اس کو گھسیٹ کر لے جو اور سیدھا جہنم کی دہکتی آگ میں لے جا کر پھینک دو.’ خداوند نے حکم دیا

رحم خداوند! رحم! کیا مجھے اسلئے جہنم میں پھینکا جا رہا ہے کیونکہ میں نے شیطان سے معاہدہ کیا تھا؟’ فادرآندرے نے گڑگڑا کر پوچھا

‘نہیں!’ خداوند نے بے اعتنائی سے جواب دیا’

تمھیں اسلئے جہنم میں پھینکا جا رہا ہے کیونکہ تم نے خواہشات سے انکار کیا. کیونکہ تم یہ بھول گئے کہ خواہشات بھی میں نے کسی مقصد سے بنائی ہیں. انسان خواہش کرتا ہے؛ پھر گناہ کرتا ہے؛ پھر گناہ پر پچھتاتا ہے؛ اور پھر توبہ کر کہ پرہیزگاری کے رستے پر چلتا ہے. جب تم نے خواہش سے ہی انکار کر دیا تو پھر پرہیزگاری کیسی؟

#Urdu #story #fiction #God #devil #church #saint #desires #denial #contract #sensuality #selfcontrol