شہر کا آخری خواب فروش

‘چاچا جی؟’ میں نے کھنکار کر پوچھا. ‘آپ چپ کیوں ہوگئے؟’

.کہتے ہیں……….’ انہوں نے بدستور گردن جھکائے کہا’

‘جب دور کسی گھنے جنگل کے بیچوں بیچ، کوئی بوڑھا درخت ٹوٹ کر گرتا ہے تو کوئی آواز نہیں گونجتی’

‘کوئی آواز نہیں گونجتی؟’ میں نے حیرانگی سے پوچھا. ‘یہ کیسے ہوسکتا ہے؟’

.جب کوئی آواز سننے والا یا پرواہ کرنے والا نا ہو تو آوازیں نہیں گونجتی.’ انہوں نے میری آنکھوں میں جھانک کر جواب دیا’

.میں ہوں نا چاچا جی!’ میں نے محبت سے ان کے جھریوں بھرے کمزور ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’

‘میں ہوں نا سننے اور پرواہ کرنے والا’


Read more: شہر کا آخری خواب فروش

وہ سردیوں کی ایک دھندلکی سپہر تھی اور میں اپنا کیمرہ کندھے پر لٹکائے اندرون شہر کی گنجان آباد گلیوں میں چکر لگا رہا تھا. بہت سے خوبصورت چہرے بھی نظر آئے؛ بہت حسین نقش و نگار والے دروازوں پر بھی نظر پڑی؛ کچھ مسکراہٹوں نے دل موہ لینے کی کوشش بھی کی؛ اور کچھ آنسوؤں نے قدم بھی تھامے. لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی کہ میں اپنے کیمرے کا بٹن نہیں دبا سکا. دل پر عجیب اداسی چھائی ہوئی تھی

پھر موچی گیٹ کی بغل میں ایک نسبتاً تاریک اور تنگ سی گلی سے گزرتے ہوئے میری نظر اس بوڑھے کھلونا فروش پر پڑی. وہ ایک بند دروازے سے ٹیک لگائے نجانے کس گہری سوچ میں گم تھا

جس چیز نے مجھے زیادہ متوجوہ کیا وہ تھا اس بوڑھے کھلونا فروش کے پاس ہی دیوار سے ٹکا بانس سے بنا اسٹینڈ. ایک مرکزی عمودی بانس سے جڑے لکڑی کی کئ چھوٹی بڑی پھٹیاں تھیں جن سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے کھلونے لٹک رہے تھے

ایسے کھلونا فروش میں نے اپنے بچپن میں ہی دیکھے تھے. چھٹی والے دن اور خاص طور پر عید والے دنوں میں چکر لگاتے تھے. ان میں سے چاچا خیرو مجھے خوب یاد ہے جو مجھے پیار سے بیجو بابرا کہا کرتا تھا

.یہ تم ہر وقت کیا گنگناتے رہتے ہو کاکے؟’ ایک دن چاچا خیرو نے مجھ سے پوچھ ہی لیا’

مجھے دراصل بچپن ہی سے اپنے ہم عصروں سے مختلف نظر آنے کا شوق تھا. لہٰذا ان دنوں میں چھ سات سال کا ہونے کے باوجود کلاسیکی موسیقی میں دلچسپی لے رہا تھا

.جی راگ درگا چاچا جی.’ میں نے بے ساختہ جواب دیا تو وہ ایک دم ہنس پڑا’

‘راگ درگا؟ تم بچے ہو کہ بیجو بابرا؟’

اس دن سے میرا نام ہی چاچا خیرو نے بیجو بابرا رکھ دیا اور میں اس کا مستقل گاہک بن گیا. رنگ برنگی چیزیں ہوتی تھیں اس کے پاس. پلاسٹک کے باجے اور بانس کی پیپنیاں؛ ہلکی سی باریک باریک پہیوں والی چھوٹی چھوٹی گاڑیاں؛ سستی گڑیاں؛ پلاسٹک کے خوفناک ماسک؛ اور سفید سوتی ٹوپیاں جن کے ساتھ مصنوعی سفید داڑھی مونچھیں جڑی ہوتی تھیں. اب چاچا خیرو جیسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتے


میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا

.چاچا جی؟’ میں نے ہلکے سے ان کو مخاطب کیا’

‘ہاں……کون؟’ انہوں نے آنکھیں کھول کر حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور پھر مسکرا دیئے. ‘کہو بیٹے کیا چاہئے؟’

‘چاہئے تو کچھ نہیں….’ میں نے سر کھجاتے جواب دیا. ‘بس آپ پر نظر پڑی تو آپ سے بات کرنے کا دل کیا’

‘ضرور کرو بات بیٹے’

‘آپ کون ہیں چاچا جی؟’

.میں؟’ انہوں نے اپنے سینے کی طرف مسکرا کر انگلی سے اشارہ کیا’

‘میں ہوں اس شہر کا آخری خواب فروش’

.خواب فروش؟ آخری خواب فروش؟’ میں نے چونک کر پوچھا’

ہاں کھلونے خواب ہی تو ہوتے ہیں…چھوٹے چھوٹے معصوم اور رنگین خواب. میں یہ خواب بڑی محنت سے بنتا تھا اور پھر انہیں چاہنے والوں کے حوالے کر دیتا تھا

ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی یاسیت اتر آئ

.اب نا خواب دیکھنے والے رہے اور نا ان کھلونوں کو چاہنے والے.’ انہوں نے بےبسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا’

‘جب خواب دیکھنے والے خواب ہی نا دیکھنا چاہیں، خوابوں میں یقین ہی نا رکھنا چاہیں تو ان کے رنگ بے معںی ہو جاتے ہیں’

.لیکن خواب تو ہمیشہ اہم ہی رہتے ہیں.’ میں نے حیرت سے پوچھا’

.یقین خواب کی روح ہوتی ہے بیٹے.’ چاچا جی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا’

‘یقین چلا جائے تو خوابوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی’


ہم دونوں کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے. وہ گلی بڑی عجیب تھی. جب سے میں آ کر وہاں بیٹھا تھا ویران پڑی تھی. دھوپ کا گزر غالباً بالکل ہی نہیں ہوتا تھا وہاں. اسلئے عجیب سبزی مائل پیلا سا رنگ تھا ماحول کا جیسے میں کسی پرانی تصویر کے اندر زندہ تھا اور سانس لے رہا تھا. پھر گلی کے بیچوں بیچ ایک نالی ضرور بہ رہی تھی لیکن بدبو کا دور دور تک کوئی شائبہ تک نہیں تھا. بلکہ میرے نتھنوں میں تو لکڑی کے فرنیچر کی، پنسلوں کی اور مہنگے ربڑوں کی خوشبو مہک رہی تھی. یوں لگتا تھا کہ میں پھر سے اپنے بچھڑے بچپن کے کسی ایک ثانیے میں سانس لے رہا تھا. رنگ بھی وہ ہی تھے اور خوشبویئں بھی وہ ہی، بس ماحول مختلف تھا


.یہ جادو کی چھڑی یاد ہے تمھیں؟’ چاچا جی نے ایک پلاسٹک کی چھڑی میری طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا’

.نہیں.’ میں نے چھڑی دیکھ کر نفی میں سر ہلایا’

وہ سرخ رنگ کے پلاسٹک سے بنی تقریباً ایک فٹ لمبی چھڑی تھی جس کے ایک کونے پر چاندی رنگ کے پترے سے بنا پانچ کونوں والا ستارہ لگا ہوا تھا

.یاد کرو بیجو بابرا!’ چاچا جی نے مسکراتے ہوئے کہا’

‘جب تم چھوٹے تھے تو تمھیں یقین تھا کہ چھڑی کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہلانے سے تم کچھ بھی کر سکتے ہو’

.بیجو بابرا….؟’ میں بری طرح سے چونک گیا’

.گھبراؤ نہیں…’ بوڑھے خواب فروش نے میرا ہاتھ شفقت سے تھپتھپایا’

ہم خواب فروشوں کا اپنا قبیلہ ہے اور اس قبیلے کی یادیں اور خواب مشترک ہوتے ہیں. خیردین اور میں، ہم دونوں اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں

‘ہاں شاید …..’ میں نے سر جھٹکتے ہوئے کہا. ‘اس وقت مجھے یقین تھا کہ یہ جادو کی چھڑی ہے’

لیکن اب اس خواب میں تمھیں یقین نہیں ہے نا. لہٰذا اب نا خواب بننے کی ضرورت رہی نا بیچنے کی. اب مجھے چلے ہی جانا چاہئے

چاچا جی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا تو میں بےچین ہوگیا

.نہیں چاچا جی، میں اب بھی خواب دیکھتا ہوں.’ میں نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا’

مجھے اب بھی اپنے خوابوں میں یقین ہے. اور میرے خوابوں کی ابتداء انہی کھلونوں سے تو ہوئی تھی. اگر آپ نے خواب فروشی چھوڑ دی تو میری تو خوابوں کی اساس ہی ختم ہوجائے گی

مگر چاچا جی کا ہاتھ میری مٹھی سے ریت کی طرح بہ گیا. میں نے آنسو پونچھتے ہوئے ان کی طرف دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا

میں گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا. سامنے دو برقعہ پوش عورتیں کھڑی میری ہی طرف سہم کر دیکھ رہی تھیں. میں شرمندہ ہوا اور اپنے تخیّل کو کوستا کیمرہ اٹھانے کیلئے جھکا اور پھر ٹھٹھک کر رک گیا. وہاں جہاں تھوڑی دیر پہلے شہر کا آخری خواب فروش بیٹھا تھا، وہیں اسی جگہ، سرخ پلاسٹک کی جادو کی چھڑی پڑی میرا منہ چڑا رہی تھی

#Urdu #story #fiction #dream #imagination #toys #oldcity #Lahore #street #nostalgia #memories #past #magic

شیدو اور لیونارڈو ڈاونچی کا اڑن کھٹولہ

.دنیا میں چار اقسام کے افراد پائے جاتے ہیں شیدو.’ بابا ڈا ونچی نے اپنی لمبی سفید داڑھی ہلاتے ہوئے کہا

پہلی قسم وہ جو زندہ ہونے کے باوجود اپنی زندگی نہیں جیتے. جیسے کہ وہ بدنصیب جو ساری زندگی پیسہ جمع کرنے میں لگا دیتے ہیں مگر ان کو پیسہ خرچنے کی یا پیسے سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہونے کی تمیز نہیں ہوتی

یہ کیسے ہوسکتا ہے ڈاونچی بابا؟’ شیدو نے اپنی کالی کالی چمکتی آنکھیں جھپکاتے ہوئے پوچھا

ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں، زیادہ تر لوگوں کا یہی حال ہوتا ہے.’ بابا جی نے دایئں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی لمبی سفید داڑھی میں کنگھی کرتے ہوئے جواب دیا

Read more: شیدو اور لیونارڈو ڈاونچی کا اڑن کھٹولہ

‘مزید پیسے کا لالچ ان بیوقوفوں کو مصروف رکھتا ہے اور اپنے پیچھے پیچھے بھگاتا رہتا ہے’

‘ٹھیک ہوگیا!’ شیدو نے سعادت مندی سے سر ہلایا. ‘اور دوسری قسم؟’

دوسری قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنی پوری زندگی بھرپور طریقے سے جیتے ہیں، جیسا کہ عبدل الستار ایدھی یا پھر قائد اعظم جیسے لوگ

یہ بات تو میں بہت آسانی کے ساتھ سمجھ گیا.’ شیدو نے اعتماد کے ساتھ کہا

زبردست!’ بابا ڈاونچی مسکرایا

تیسری قسم کے وہ لوگ جو میری طرح کے ہوتے ہیں. ہم اپنی زندگی تو جیتے ہیں مگر زندگی کی حدود و قیود سے باہر بیٹھ کر

باہر کیوں بابا جی؟’ شیدو نے معصومیت سے پوچھا

بھائی باہر اسلئے کیونکہ باہر سے ہمیں زندگی کے تمام رخ نظر آتے ہیں. خوبصورت بھی اور بدصورت بھی. اچھے بھی اور برے بھی

یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئ بابا جی.’ شیدو نے سر کھجاتے ہوئے کہا

آئے گی بھی نہیں. ابھی تیری عمر یہ باتیں سمجھنے کی ہے بھی نہیں.’ ڈاونچی بابا نے شفقت سے شیدو کے سر پر گھنے کالے بالوں کا چھتہ سہلاتے ہوئے کہا

تم صرف چوتھی قسم کے لوگوں کو سمجھنے کی کوشش کرو جو باقی تینوں اقسام کی نسبت تعداد میں بہت کم ہوتے ہیں. یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خواب دیکھتے ہیں اور پھر اپنی تمام زندگی بس ان خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش میں گزار دیتے ہیں

‘ہیں؟’ شیدو نے اشتیاق سے پوچھا. ‘یہ کیسے ہوسکتا ہے؟’

ہو سکتا ہے میرے دوست، ضرور ہوسکتا ہے.’ بابا جی نے مسکراتے ہوئے شیدو کا کندھا دبایا

شیدو کو بڑا اچھا لگتا تھا جب بابا ڈاونچی اس کو ‘میرے دوست’ کیہ کر بلاتا تھا. وہ اس وقت اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھتا تھا

تمھیں رائٹ برادران کے بارے میں پتہ ہے؟’ بابا جی نے بھنویں اچکا کر شیدو سے پوچھا لیکن پھر اس کے چہرے پر الجھن کے آثار دیکھ کر خود ہی جواب دینے لگے

دو انگریز بھائی تھے جنہوں نے دنیا کا پہلا ہوائی جہاز بنایا تھا. وہ دونوں اڑنے کا خواب دیکھتے تھے. سب لوگ سمجھتے تھے کہ یا تو ان کا جہاز اڑے گا نہیں یا پھر وہ آسمان سے گر کر مر جایئں گے. لیکن ان دونوں بھائیوں نے جہاز بنایا بھی اور اڑایا بھی، چاہے صرف کچھ لمحوں کیلئے ہی سہی. اور وہ کچھ لمحات ایسے تھے جو ان کی پوری زندگی پر محیط تھے

‘ڈاونچی بابا وہ تو پھر بہت بہادر لوگ تھے. ان کو تو بالکل بھی ڈر نہیں لگتا ہوگا؟’

بہادری کا مطلب ڈر یا خوف کی عدم موجودگی نہیں ہوتی شیدو. ڈر اور خوف اگر نا ہوں تو انسان بیوقوف ضرور ہوتا ہے لیکن بہادر نہیں

تو پھر بہادری کیا ہوتی ہے ڈاونچی بابا؟’ شیدو نے حیرت سے پوچھا

بہادری کا مطلب ہوتا ہے اپنے ڈر یا خوف کو سمجھنا اور پھر اس پر قابو پانا.’ بابا جی نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا

تمھیں پتہ ہے تقسیم کے وقت ہمارے محلے میں جیکب نامی ایک خاکروب رہتا تھا؟ بہت معمولی آدمی تھا. اتنا معمولی کہ زیادہ تر لوگوں کو تو اس کا نام بھی پتہ نہیں تھا. بس چوہڑا کیہ کر پکارتے تھے. اس کی ساری زندگی دوسروں کی غلاظت اٹھاتی گزری تھی. اس کا پورے کا پورا چہرہ اس بری طرح سے جلا ہوا تھا کہ دیکھنے سے خوف آتا تھا. پتہ نہیں کیسے جلا تھا لیکن اس کو آگ سے ڈر بہت لگتا تھا. لیکن جب ہنگامے شروع ہوئے اور لاہور کے بہادر مسلمانوں نے کافر ہندؤں کو ختم کرنے کیلئے شاہ عالمی کو آگ لگائی؛ تو جیکب نے جلتی آگ میں کود کر کچھ ہندؤں کی جان بچا لی. اس نے اپنے خوف پر قابو پایا اور یوں اپنی ساری زندگی ان چند لمحات میں گزار لی


شیدو بارہ سال کا ایک یتیم بچہ تھا. نا ماں کا پتہ تھا نا باپ کا. ٹکسالی گیٹ کی بغل میں، ایک کوڑے کے ڈھیر پر بھنبھناتی مکھیوں کے بیچ،  چند دنوں کا پڑا بلکتا تھا کہ بابا ڈاونچی کی نظر پڑ گئ اور وہ اٹھا کر اپنے کوارٹر میں لے گئے. بہت ہی محبت اور دھیان سے پالا پوسا اور پڑھا لکھا کر بڑا کیا. لوگ مزاق اڑاتے تھے مگر بابے نے کسی کی پرواہ نہیں کی. وہ غالباً شیدو کو اپنی زندگی کا آخری مشن سمجھتے تھے اور مشن کو سرانجام دینے میں کوئی کوتاہی برتنے کو تیار نہیں تھے

بابا ڈاونچی خود بھی ایک بہت ہی دلچسپ شخصیت تھے. لوگ کہتے تھے کہ کسی زمانے میں بابا جی گورنمنٹ کالج لاہور میں طبیعات کے پروفیسر تھے. مگر پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ دماغ پھر گیا اور وہ نوکری پر لات مار کر کہیں نکل گئے. کافی سالوں بعد واپس آئے اور پھر بادامی باغ اڈے سے اندرون شہر تانگہ چلانے لگے. پتہ نہیں اس کہانی میں صداقت کتنی تھی مگر ان کا کوارٹر بھانت بھانت کی کتابوں سے بھرا پڑا تھا

بابا ڈاونچی کا اصل نام ڈاونچی نہیں تھا. اصل نام تو خیر جو بھی تھا، بابا ڈاونچی انکو شیدو نے کہنا شروع کیا تھا. شیدو چونکہ ہوش سنبھالنے سے بہت پہلے سے کتابوں کو دیکھ رہا تھا اسلئے اس کو ان کتابوں سے بہت محبت اور پیار تھا. خاص طور پر اس کو لیونارڈو ڈاونچی کے بارے میں لکھی گئ ایک لمبی چوڑی اور نرم سرخ چمڑے کی جلد والی کتاب بہت پسند تھی جس پر سنہرے نقش و نگار بنے تھے؛ اور جو اس اطالوی سائنسدان اور مصور کی ایجادات کی تصاویر سے بھری پڑی تھی

بابا جی!’ ایک دن شیدو نے اس کتاب کے دبیز صفحے پلٹتے ہوئے کہا. ‘آپ کو پتہ ہے آپ کی شکل لیونارڈو ڈاونچی سے بہت ملتی ہے؟ وہ ہی لمبی سفید داڑھی اور سر سے غائب بال

‘ہاہاہا!’ بابا جی نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا. ‘ہاں بالکل! کسی زمانے میں میرے شاگرد بھی یہی کہا کرتے تھے’

بس پھر آج سے میں آپ کو ڈاونچی بابا کہا کروں گا.’ شیدو نے مچل کر کہا

اس دن سے بابا جی کا نام ڈاونچی بابا پڑ گیا اور اتنا مشہور ہوگیا کہ آس پاس اور پڑوس میں سب ان کو اسی نام سے پکارنے لگے


شیدو جب کچھ اور بڑا ہوا تو اس کو بعض دفعہ یہ سن کر بہت حیرت ہوتی تھی کہ ڈاونچی بابا ایک زمانے میں کالج میں پروفیسر تھے. ایک دن اس نے جرات مجتمع کر کے بابا جی سے پوچھ ہی لیا

‘ڈاونچی بابا! یہ لوگ آپ کے بارے میں ٹھیک کہتے ہیں؟’

‘لوگ تو میرے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں بیٹے.’ بابا جی نے مسکرا کر جواب دیا. ‘تمہارا اشارہ کس طرف ہے؟’

‘یہ ہی کہ آپ کسی زمانے میں لاہور کے ایک بہت بڑے کالج میں پروفیسر تھے؟’

‘ہاں! ٹھیک کہتے ہیں. میں گورنمنٹ کالج میں بچوں کو طبیعات پڑھاتا تھا’

‘تو پھر……….؟’

تو پھر کیا؟’ بابا جی بدستور مسکرا رہے تھے. ان کی مسکراہٹ دیکھ کر شیدو کو کچھ حوصلہ ہوا

‘تو پھر اب آپ یہ تانگہ کیوں چلاتے ہیں؟ کالج میں کیوں نہیں پڑھاتے؟’

ہوں!’ بابا جی تھوڑی دیر تو کچھ سوچتے رہے اور پھر بولے

ہر انسان کی کوئی نا کوئی کالنگ ہوتی ہے بیٹے. یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی کالنگ کو سمجھیں اور پھر اس کے حصول میں مگن ہوجایئں

یہ کالنگ کیا ہوتی ہے بابا؟’ شیدو نے الجھ کر پوچھا

‘کالنگ کا مطلب ہوتا ہے مقصد حیات….زندگی کا مقصد’

‘یہ تانگہ چلانا کیسا مقصد ہوا؟’

میرا مقصد دنیا کو دیکھنا ہے بیٹے. دنیا کو سمجھنا ہے.’ بابا جی نے شیدو کی چمکتی آنکھوں میں جھانک کر کہا. ‘بس میں تانگہ چلاتا ہوں اور دنیا دیکھتا ہوں

میری کالنگ کیا ہے ڈاونچی بابا؟’ شیدو نے اشتیاق سے پوچھا

‘بھائی یہ تم اپنے آپ سے پوچھو.’ بابا جی ہنس پڑے

‘میرے خیال میں…..’ شیدو نے کچھ سوچ کر کہا. ‘میرے خیال میں میری کالنگ اڑنا ہے’

‘ہاں ضرور! خوب پڑھو لکھو اور ایک دن پڑھ لکھ کر پائلٹ بن جانا اور جہاز اڑانا’

ڈاونچی بابا! آپ نے لیونارڈو ڈاونچی کے اڑن کھٹولے کی تصویر دیکھی ہے؟’ شیدو دوڑ کر اپنی پسندیدہ کتاب اٹھا لایا

‘میرا دل چاہتا ہے میں یہ اڑن کھٹولہ بناؤں اور پھر اس کو خوب اونچا اڑاؤں’

ہوں….!’ بابا جی ایک لمبا ہنکارا بھر کر خاموش ہوگئے اور کچھ نا بولے

‘آپ اس کو بنانے میں میری مدد کریں گے؟’

ڈاونچی بابا نے شفقت سے شیدو کو دیکھا جس کی آنکھیں شوق سے جگمگ جگمگ کر رہی تھیں. وہ خوابوں کی اہمیت سے اچھی طرح سے واقف تھے. وہ خوب جانتے تھے کہ خواب اگر بچپن میں ہی کچل دئے جایئں تو وہ کبھی حقیقت نہیں بنتے

‘ہاں ضرور! تم بنانا شروع کرو. میں تمھارے ساتھ ہوں’


یوں اس دن سے ڈاونچی بابا اور شیدو کے چھوٹے سے کوارٹر کے محدود صحن میں، لیونارڈو ڈاونچی کا اڑن کھٹولا بننا شروع ہوگیا

پتہ نہیں کہاں کہاں سے بانس اکٹھے کئے گئے اور ان کو آپس میں لوہے کی مضبوط تاروں سے باندھ کر مشین کا ڈھانچہ کھڑا کیا گیا. کباڑئے کے پاس سے پرانی سائکل کے پیڈل اور گراریاں اور کسی ایکسیڈنٹ زدہ رکشے کے پہیے لائے گئے

سب سے بڑا مسلہء پروں کا تھا. لیونارڈو کے اپنے ڈیزائن کے مطابق چمگاڈر کے پروں کی شکل جیسے پر ریشمی کپڑے کے تھے. اب ریشمی کپڑا خریدنا بابا جی کی استطاعت سے باہر تھا. لیکن جہاں لگن ہو وہاں کوئی نا کوئی حل نکل ہی آتا ہے. چوک پر ایک کیٹرنگ کمپنی کا دفتر تھا جس کا مالک اپنے پرانے شامیانے اور ریشمی چادریں وغیرہ فروخت کرنے کے چکروں میں تھا. کچھ پیسے شیدو نے جیب خرچ سے اکٹھے کئے اور باقی کا بندوبست بابا جی نے کیا. اور یوں دس گز ریشمی کپڑا خرید کر پروں کے ڈھانچے پر چڑھا دیا گیا

جب مشین تقریباً مکمل ہوگئ تو شیدو کو خیال آیا کہ اتنے بڑے پروں کے ساتھ وہ کوارٹر کے صحن سے نکالی نہیں جا سکے گی. لہٰذا پورے ڈھانچے کو کھولا گیا اور نئے سرے سے اس طرح بنایا گیا کہ وہ آرام سے ٹکڑوں میں نکالا جا سکے اور پھر کہیں کھلی جگہ لے جا کر جوڑا جا سکے

پھر ایک نیا مسلہء کھڑا ہوگیا

بابا میری سمجھ میں ایک بات نہیں آتی.’ شیدو نے ڈھانچے کے نٹ ٹائٹ کرتے ہوئے کہا

وہ کیا؟’ بابا جی نے پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا

‘جب لیونارڈو ڈاونچی نے اڑن کھٹولہ بنا ہی لیا تھا تو اس نے اس کو اڑایا کیوں نہیں؟’

میری معلومات کے مطابق اس کی ایک بنیادی وجہ تھی.’ بابا جی نے سوچتے ہوئے کہا. ‘اس مشین کو بنانے کے بعد لیونارڈو کو اندازہ ہوا کہ کسی بھی انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ محض پیڈل مار کر اس مشین کو اڑا سکے

ہاں یہ بات تو صحیح لگتی ہے.’ شیدو نے اڑن کھٹولے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے کہا. ‘لیکن وہ یہ بھی تو کر سکتا تھا کہ کسی اونچی جگہ سے اس مشین کو اڑاتا

ہاں بالکل! لیکن میرا خیال میں لیونارڈو کو گر کر مرنے سے ڈر لگتا ہوگا.’ بابا جی نے مسکرا کر کہا

لیکن اگر وہ اپنے ڈر پر قابو پا لیتا تو آج رائٹ برادران کی جگہ دنیا اس کو یاد کرتی.’ شیدو نے عقلمندی سے کہا

ہاں شاید!’ بابا جی نے سر ہلایا. ‘تم فکر نہ کرو. پیسے جمع کر کے ایک دن ہم اس مشین کو پہاڑوں میں لے چلیں گے اور وہاں اس کو اڑانے کی کوشش کریں گے

شیدو نے اس وقت تو خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دیا مگر اس کے ننھے سے دماغ کی گراریاں گھومتی رہیں


اڑن کھٹولہ بنانے میں شیدو اس قدر مگن ہوگیا تھا کہ کھانا پینا سب بھول گیا تھا. اسکول سے آتا، جلدی جلدی ہوم ورک کرتا، بے دلی سے کچھ لقمے زہر مار کرتا اور پھر پیچ کس اور پلاس لیکر مشین پر کام میں لگ جاتا. اس کا دھیان بٹانے کیلئے ڈاونچی بابا چھٹی والے دن اس کو منٹو پارک کی سیر پر لے گئے

مینار پاکستان کو دیکھتے ہی شیدو کی آنکھیں چمکنے لگیں

بابا! وہ دیکھو.’ اس نے ڈاونچی بابا کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا

‘ہاں بھائی! مینار پاکستان ہے. یہیں پر قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی تئیس مارچ کو’

نہیں!’ شیدو نے کہا

‘نہیں؟’ بابا نے چونک کر شیدو کی طرف دیکھا. ‘نہیں ہوئی تھی منظور؟’

ہوئی تھی. ضرور ہوئی ہوگی مگر میرے ذھن میں ایک آئیڈیا آیا ہے.’ شیدو نے جوش سے کہا. ‘کیوں نا ہم مینار کے اوپر سے اس مشین کو اڑانے کی کوشش کریں

‘نہیں بیٹے ایسے نہیں ہوسکتا.’ بابا نے گھبرا کر کہا. ‘اگر مشین نا اڑی تو؟’

‘کیوں نہیں اڑے گی؟’ شیدو نے نہایت اعتماد سے کہا. ‘آخر ہم نے لیونارڈو کے ڈیزائن کے عین مطابق بنائی ہے’

‘نہیں بیٹے! گرنے کا خطرہ تو بہرحال ہے. اور میں تمھیں اس کی اجازت نہیں دے سکتا’

اچھا!’ شیدو نے کہا اور مایوسی سے سر جھکا لیا


تھوڑی دیر بعد وہ دونوں وہیں پارک میں گھوم پھر رہے تھے تو شیدو کو بچوں کا ایک گروپ نظر آیا. صاف ستھرے مگر پرانے کپڑوں میں ملبوس تھے. تقریباً بیس پچیس بچے تھے جو ایک شیروانی میں ملبوس بوڑھے شخص کے ساتھ پارک کی سیر کر رہے تھے. اس بچوں میں کوئی نا کوئی ایسی بات ضرور تھی جو باقی بچوں سے الگ تھی

شیدو نے تھوڑا غور سے ان کا جائزہ لیا تو اس کو احساس ہوا کہ ان بچوں کی مسکراہٹ باقی بچوں سے بہت الگ تھی. وہ ہنس بول تو ضرور رہے تھے مگر ان کی مسکراہٹیں صرف ان کے ہونٹوں تک محدود تھیں. ان کی آنکھیں خالی خالی تھیں جیسے ان کے سارے کے سارے خواب کوئی چھین کر یا چرا کر لے گیا ہو

یہ بچے کون ہیں ڈاونچی بابا؟’ شیدو نے بابا جی کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور ان بچوں کے گروپ کی طرف اشارہ کیا

دار الاکرام یتیم خانے کے بچے ہیں.’ بابا جی نے عینک سیدھی کرتے ہوئےاور بچوں کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا. ‘ساتھ میں مہربان علی بھی ہے. میرا بہت پرانا واقف ہے’

چلتے چلتے وہ دونوں اس گروپ کے قریب پہنچے تو ڈاونچی بابا اور مہربان علی میں دعا سلام ہوئی

‘کہو مہربان علی کیسے ہو؟ یتیم خانہ کیسا جا رہا ہے؟’

بس کیا بتاؤں؟ بہت برے حالات ہیں.’ مہربان علی نے گھاس پر بیٹھتے ہوئے کہا

کیوں کیا ہوا؟ خیر تو ہے؟’ بابا جی نے گھبرا کر پوچھا

اس برسات نے یتیم خانے کی پوری عمارت کا بیڑا غرق کر دیا ہے.’ مہربان علی نے رومال سے چہرہ پونچھتے ہوئے کہا

پہلے ہی انگریزوں کے وقت کی تھی. ان بارشوں کے بعد تو بالکل رہنے کے قابل نہیں رہی. چھتیں کسی بھی وقت گر سکتی ہیں. مرمت ممکن نہیں اور نئی عمارت بنوانے کے پیسے نہیں

پھر اب ان بچوں کا کیا ہوگا؟’ ڈاونچی بابا نے ہلکی آواز میں پوچھا

کیا ہونا ہے؟’ مہربان علی نے افسردگی سے بچوں کی طرف دیکھ کر کہا

ایدھی والوں سے بات ہوئی ہے. وہ ان بچوں کو لے جایئں گے اور پورے پنجاب میں اپنے یتیم خانوں میں تقسیم کر دیں گے. بچوں کا بندوبست تو ہو جائے گا لیکن یہ سب ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہیں. پھر نئےلوگ اور نئی جگہوں کے اپنے اپنے مسائل ہوتے ہیں

ہوں…….!’ ڈاونچی بابا نے مسلہء سمجھ کر سر ہلایا

شیدو چپ چاپ بیٹھا دونوں کی باتیں سن رہا تھا. اس نے بچوں کی طرف دیکھا. وہ سب ایک طرف تمیز سے بیٹھے تھے. چھوٹے بچے کچھ مچل ضرور رہے تھے مگر دو تین بڑے بچے ان کا مسلسل خیال رکھ رہے تھے. شیدو نے ان بچوں کی طرف دیکھا اور پھر مینار پاکستان کی طرف. یکایک اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا

‘ڈاونچی بابا’

ہاں کہو بیٹے.’ بابا جی نے شفقت سے اس کی طرف دیکھا

اگر ہم…….’ شیدو نے مینار کی طرف دیکھا. ‘اگر ہم اس چودہ اگست پر، کسی طرح سے اڑن کھٹولا مینار کی سب سے اوپر والی منزل پر لے جا کر باندھ دیں. اور پبلک کے سامنے نمائش کریں تو تو مجھے لگتا ہے کہ ان بچوں کی مدد کیلئے کچھ پیسے ضرور اکٹھے ہو جایئں گے

اڑن کھٹولہ؟’ مہربان علی نے حیرت سے پوچھا تو ڈاونچی بابا نے اسے مشین کے بارے میں بتایا

آئیڈیا تو زبردست ہے.’ مہربان علی نے سن کر کہا

ہاں لیکن اس مشین کو مینار کی سب سے اوپر والی منزل پر لے جانے کون دے گا؟’ ڈاونچی بابا نے پریشانی سے کہا

تم اس کی فکر مت کرو.’ مہربان علی نے کچھ سوچ کر کہا. ‘مینار کا چوکیدار میری مرحوم بیوی کا رشتہ دار ہے. تم لوگ یہیں بیٹھو. میں اس سے بات کر کے دیکھتا ہوں


جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، جہاں لگن ہو حل نکل ہی آتا ہے. یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا. مینار کا چوکیدار، آدمی تو تھوڑا سخت تھا مگر یتیم بچوں کا سن کر اس کا دل پگھل گیا. اس نے نا صرف یہ وعدہ کیا کہ چودہ اگست کے دن مشین، لفٹ کے ذریعے مینار کی سب سے اوپر والی منزل پر چڑھانے میں مدد کرے گا؛ بلکہ یہ بھی وعدہ کیا کہ اس دن وہ اوپر والی منزل کو عام پبلک کیلئے بند رکھے گا


شیدو بہت خوش تھا. اس کو یقین تھا کہ اڑن کھٹولے کی نمائش سے اتنے پیسے ضرور اکٹھے ہو جایئں گے کہ یتیم خانے کے بچوں کی مدد ہو سکے. ڈاونچی بابا بھی پرجوش نظر آ رہے تھے. اب تک تو وہ مشین کو صرف شیدو کا معصوم خواب سمجھتے آ رہے تھے. لیکن اب ان کو بھی لگ رہا تھا کہ وہ معصوم خواب یتیم بچوں کے خوابوں کو یقین میں بدل سکتا تھا

شیدو اور ڈاونچی بابا اسی دن سے تیاریوں میں لگ گئے. اڑن کھٹولے کو دیدہ زیب سفید اور سبز رنگ سے رنگا گیا. پاکستان کی جھنڈیوں سے سجایا گیا اور پھر بابا جی نے بیٹری اور کچھ لائٹیں بھی لگا دیں تاکہ شام کو اندھیرے میں بھی مشین نظر آ سکے


شیدو کی شدید بےچینی اور جوش کے باوجود چودہ اگست اپنے وقت پر ہی آئ. صبح فجر کے فوری بعد، ڈاونچی بابا نے شیدو کی مدد سے مشین کے مختلف حصوں کو تانگے میں لوڈ کیا اور منٹو پارک لے گئے. وہاں چوکیدار ان ہی کا منتظر تھا. اس نے جلدی جلدی لفٹ آن کی اور دو تین چکروں میں پورے کا پورا اڑن کھٹولہ مینار پاکستان کی سب سے اوپر والی منزل پر پہنچ چکا تھا

ڈاونچی بابا، چوکیدار اور شیدو نے مل کر نایلون کی مضبوط رسیوں سے مشین کو منڈیر سے ایسے لٹکایا کہ اس کے پر صبح کی ٹھنڈی ہوا میں کسی مغرور پرندے کی طرح پھیل گئے. جب مشین کو نصب کر کے نیچے پہنچے تو وہاں سے بھی دیکھ کر ایسے لگتا تھا کہ جیسے کوئی عقاب مینار کے اوپر سے ہوا میں ڈبکی لگانے کو تیار ہو

دس بجے تک مہربان علی بھی یتیم خانے کے بچوں کو لیکر وہاں پہنچ گیا اور آہستہ آہستہ کافی عوام کا ہجوم بھی اکٹھا ہوگیا. سب لوگ اوپر اڑن کھٹولے کی طرف ہی دیکھ کر اشارے کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو بتا رہے تھے. شیدو یہ دیکھ کر بہت خوش تھا. آخر کو وہ اڑن کھٹولہ اس کا اپنا آئیڈیا اور خواب تھا

ڈاونچی بابا اور مہربان علی نے رش جمع ہوتے دیکھ کر ٹکٹ بیچنے کیلئے میگا فون پکڑا اور آواز لگانا  شروع کی

آئے صاحبان، دیکھیئے نیا عجوبہ

لیونارڈو ڈاونچی کا اڑن کھٹولہ

آپ کے دس روپئے کے ٹکٹ سے

ہوگا یتیم بچوں کا بھلا

آپ کی مہربانی سے ملے گی

یتیم بچوں کو رہنے کی جگہ

ان دونوں بزرگوں کو آواز لگاتے دیکھ کر لوگ اکٹھے ہونا شروع ہوگئے. لیکن ان لوگوں کی باتیں سن کر شیدو کو اندازہ ہوا کہ ساری دنیا دل کی اچھی نہیں ہوتی اور ساری دنیا کا دل یتیمم بچوں کے درد سے نہیں پگھلتا

‘کیوں بھائی کیوں خریدیں ٹکٹ؟ عجوبہ تو ویسے بھی نظر آ رہا ہے’

‘ٹکٹ خریدیں گے تو سیر بھی کراؤ گے اس میں؟’

‘معصوم لوگوں کو لوٹنے کے بہانے ہیں بھائی’

بھانت بھانت کی باتیں سن کر شیدو کی آنکھوں میں آنسو آ گئے

پھر کسی کی آواز آئ

‘ٹکٹ تو تب خریدیں گے جب وہ اڑن کھٹولہ اڑا کر دکھانے کا وعدہ کرو گے’

آہستہ آہستہ باقی لوگوں نے بھی یہی مطالبہ کرنا شروع کر دیا

‘باتیں نا کرو. ہمیں اڑا کر دکھاؤ’

‘ہاں ہاں اڑانے کی بات کرو گے تو ٹکٹ خریدیں گے’

دیکھیں آپ میری بات سمجھنے کی کوشش کریں.’ ڈاونچی بابا نے لوگوں کی طرف دیکھ کر عاجزی سے کہا. ‘یہ اڑ نہیں سکتا. یہ صرف دیکھنے کیلئے ہے

فراڈ ہو تم لوگ.’ ایک بھاری بھرکم مونچھوں والے آدمی نے آگے بڑھ کر ڈاونچی بابا کا گریبان دبوچ لیا

انہوں نے گھبرا کر شیدو کی طرف دیکھا مگر وہ وہاں نہیں تھا

یہ شیدو کہاں چلا گیا؟’ بابا نے بصد مشکل گریبان چھڑا کر مہربان علی سے پوچھا.

‘پتہ نہیں. ابھی تو یہیں تھا’


ابھی ڈاونچی بابا لوگوں کے ہجوم میں شیدو کو ڈھونڈ ہی رہے تھے کہ لوگوں کی آوازیں آنی شروع ہوگیئں

‘وہ دیکھو. اوپر دیکھو’

‘وہ دیکھو بچہ کیا کر رہا ہے’

ڈاونچی بابا نے اوپر دیکھا تو ان کے حواس گم ہوگئے. شیدو میگا فون ہاتھ میں پکڑا، مینار کی سب سے اوپروالی منزل پراڑن کھٹولے کی بغل میں کھڑا تھا. آہستہ آہستہ لوگ خاموش ہوتے گئے

کیا آپ سب اس اڑن کھٹولے کو اڑتے دیکھنا چاہتے ہیں؟’ شیدو نے میگا فون میں چیخ کر پوچھا

ہاں! ہاں! اڑا کر دکھاؤ.’ مجمع میں سے لوگوں نے پکارا

نہیں بیٹے!’ ڈاونچی بابا نے اونچا بولنے کی کوشش کی مگر آنسوؤں سے ان کا گلہ رندھ گیا

پھر آپ سب ٹکٹ خریدیں. ہر ٹکٹ سو روپے کا ہوگا. جب سب ٹکٹ بک جایئں گے تو میں اسے اڑا کر دکھاؤں گا.’ شیدو نے پھر میگا فون میں اعلان کیا

فراڈ لگتے ہیں. پیسے لیکر بھی نا اڑایا تو؟’ مجمع میں سے کسی نے کہا

 نا اڑایا تو پیسے واپس لے لیں گے.’ اسی مونچھوں والے آدمی نے کہا

آہستہ آہستہ لوگوں نے ٹکٹ خریدنے شروع کر دئے

مہربان علی ٹکٹ نہیں بیچنا چاہتا تھا مگر لوگوں نے زبردستی اس کے ہاتھ میں پیسے تھما کر ٹکٹ کھینچنا شروع کر دئے

ڈاونچی بابا روتے ہوئے لوگوں کی منتیں کرتے رہے

‘ٹکٹ نا خریدو بھائی. میرا بچہ مر جائے گا’

مگر لوگوں کو کسی بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی. ان کو صرف تماشا دیکھنے سے غرض تھی. تھوڑی دیر کے تماشے سے کسی کی جان جاتی تھی تو ان کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی

مہربان چاچا! سب ٹکٹ بک گئے؟’ اوپر سے شیدو نے پکار کر پوچھا تو مہربان علی نے بیچارگی سے خالی ہاتھ اس کو دکھائے اور پھر شرمندگی سے سر جھکا لیا. ڈاونچی بابا نے شیدو کی طرف دیکھ کر دونوں ہاتھ جوڑ دئے مگر شیدو نے نظریں پھیر لیں


وہاں مینار پاکستان کی سب سے اوپر والی منزل پر شیدو، لیونارڈو ڈاونچی کے اڑن کھٹولے اور اپنے خوابوں کے ساتھ بالکل اکیلا تھا. اس نے ارد گرد نظریں دوڑایئں. اگست کے تیز سورج کی سنہری روشنی میں پورا لاہور شہر چمک رہا تھا. اس نے بادشاہی مسجد کے میناروں پر نظر ڈالی اور پھر دور راوی کے لشکارے مارتے پانی کو دیکھا

شیدو نے نیچے دیکھا. اس کو یتیم خانے کے بچے دکھائی دئے جن کی آنکھوں میں خواب روشن تھے. اس نے لوگوں پر نظر ڈالی جن کے چہروں پر ایک حیوانی خواہش چمک رہی تھی. اور پھر اس کی نظر ڈاونچی بابا پر پڑی جو اس کی طرف ہی دیکھ رہے تھے اور ان کے آنسو ان کی لمبی سفید داڑھی میں جزب ہوتے جا رہے تھے

آپ فکر نا کرو بابا. مشین ضرور اڑے گی.’ اس نے میگا فون میں بابا کو مخاطب کیا

شیدو نے میگا فون احتیاط سے ایک طرف رکھا اور پھر منڈیر پر چڑھ کر اڑن کھٹولے میں لگی سائیکل کی سیٹ پر بیٹھ گیا اور پیڈلوں پر پاؤں جما لئے

اس کو نیچے دیکھنے سے ڈر لگ رہا تھا

بہادری کا مطلب ہوتا ہے ڈر یا خوف کو سمجھنا اور پھر اس پر قابو پانا.’ اس کے کانوں میں ڈاونچی بابا کی آواز گونجی

اس نے آنکھیں کھولیں، نیچے دیکھ کر مسکرایا اور پھر رسی کی گرہ کھول دی


اڑن کھٹولہ رسیوں کے چنگل سے آزاد ہو کر پہلے تھوڑا سا ڈگمگایا. لیکن پھر اچانک ہوا کے ایک تیز جھونکے سے اس کے پر ہوا میں پوری طرح سے پھیل گئے. شیدو نے پیڈل پر پاؤں مارے تو مشین پہیوں پر سرکتی منڈیر کے کونے تک جا پہنچی اور پھر اس نے نیچے کی طرف ڈبکی لگائی

شیدو نے آنکھیں بند نہیں کیں. وہ جانتا تھا کہ وہ اس کی زندگی کے سب سے قیمتی لمحات تھے. بلکہ وہ چند لمحات اسکی پوری زندگی پر محیط تھے. وہ چند لمحات اس کے خواب کی تعبیر تھے. وہ آنکھیں بند کر کے ان لمحات کو ضایع نہیں کرنا چاہتا تھا

پورا مجمع دم سادھے سب دیکھ رہا تھا. ڈاونچی بابا نے مشین کو ڈبکی لگاتے ہوئے دیکھا تو ایک لمحے کو ان کا دل رک گیا. پھر تھوڑی دیر کیلئے مشین سیدھی ہوئی اور یوں لگا کہ جیسے واقعی وہ پرواز کرے گی. مگر پھر مشین کے پر، خود مشین اور شیدو کے بوجھ کو برداشت نا کر سکے. پہلے ایک پر ٹوٹا اور پھر دوسرا. لیونارڈو ڈاونچی کا اڑن کھٹولہ کسی ٹوٹے پھوٹے کھلونے کی طرح مینار سے ٹکراتا نیچے کی طرف گرنے لگا اور پھر آخر کار نیچے لوگوں کے ہجوم کے درمیان چبوترے پر ڈھیر ہو گیا


مشین کے چبوترے پر گرنے کی دیر تھی کہ لوگوں کا ایک جم غفیر اس کے ارد گرد جمع ہوگیا. مہربان علی نے ڈاونچی بابا کی بغل میں ہاتھ ڈال کر سہارا دیا اور ان کو کھینچتے ہوئے اور لوگوں کو ادھر ادھر دھکیلتے مشین کے ٹوٹے پھوٹے ڈھانچے تک پہنچ گئے

اڑن کھٹولہ اس بری طرح ٹوٹ پھوٹ گیا تھا کہ پہچانا نہیں جا رہا تھا. شیدو کہیں نظر نہیں آ رہا تھا. ڈاونچی بابا نے زمین پر بیٹھ کر ریشمی پر ایک طرف سرکایا تو شیدو کا وجود نظر آیا. اس کے جسم کی غالباً تمام ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں اور سر پر گھنگریالے کالے بال خون سے بھر چکے تھے. بابا نے احتیاط سے شیدو کا بےجان سر اپنی گود میں رکھا اور پیار سے سہلانے لگے

مجھے بہت افسوس ہے بابا!’ مہربان علی نے آہستگی سے بابا کے کندھے پر ہاتھ رکھا

ڈاونچی بابا نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دئے

میرا بچہ چلا گیا. میری زندگی ختم ہوگئ مہربان علی. مگر مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ وہ ان چند افراد میں شامل ہوگیا جو اپنی پوری زندگی چند لمحات میں ہی جی لیتے ہیں

#Urdu #story #fiction #leonardo #davinchi #Pakistan #dreams #flyingmachine #kindness #ambition #determination #fear #courage #flying

رفیق پریمی اور شہناز انجان

لاہور میں ماڈل ٹاؤن کچہری کے باہر، فیروز پور روڈ کے نیچے، سڑک کنارے فٹ پاتھ پر، کچھ عرضی نویس کرسیاں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں. ذرا غور سے دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان سب کے درمیان ایک جگہ خالی ہے. یہاں کل تک رفیق پریمی کی کرسی میز لگی ہوتی تھی

رفیق پریمی کون تھا؟ یہ بڑا معمولی سا سوال ہے کیونکہ وہ ایک بالکل معمولی سا انسان تھا. اتنا معمولی کہ نا دنیا کو اس کے آنے کی خبر ہوئی اور نا جانے کی. شاید پیدائش پر خوشیاں ضرور منائی گئ ہوں گی لیکن اس کی موت پر کسی کی آنکھ سے ایک آنسو تک نا گر سکا

دیکھنے میں بھی بالکل معمولی سا انسان تھا. صاف گندمی رنگ، درمیانہ قد، اکہرا جسم اور چھدری داڑھی. ہر وقت ہلکے رنگ کا صاف ستھرا شلوار قمیض پہنے رکھتا تھا. غرضیکہ رفیق کی پوری شخصیت میں کہیں بھی اور کچھ بھی غیر معمولی نہیں تھا

رفیق کب پیدا ہوا؟ کیسے بڑا ہوا؟ اس کے ماں باپ کون تھے؟ ان سب سوالوں سے اس کہانی کا کوئی سروکار نہیں. ہاں یہ میں آپ سب کو ضرور بتانا چاہوں گا کہ اس کے نام کے ساتھ لفظ ‘پریمی’ کا اضافہ کیوں اور کیسے ہوا


Read more: رفیق پریمی اور شہناز انجان

ہم سب کو مختلف قسم کی عادتیں ہوتی ہیں. کسی کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے تو کسی کو سچ بولنے کی. کسی کو بسیار خوری کی عادت ہوتی ہے تو کسی کو بھوکا رہنے کی. کسی کو چوری کی عادت ہوتی ہے تو کسی کو ایمان داری کی. تو ہم سب کی طرح رفیق کو بھی ایک عادت تھی. اور وہ محبت کرنے کی عادت تھی

رفیق سب سے محبت کرتا تھا. وہ اپنی بوڑھی ماں سے محبت کرتا تھا. وہ محلے والوں سے بھی محبت کرتا تھا. وہ جانوروں سے بھی محبت کرتا تھا. اس کو اپنے ارد گرد کے سب لوگ، کسی بھی خاص وجہ کے بغیر، اچھے لگتے تھے. حسین چہرے تو سب ہی کو اچھے لگتے ہیں لیکن رفیق کا معاملہ کچھ الگ سا تھا. اس کو چہروں کے حسن سے کوئی خاص مطلب نہیں تھا. بلکہ اس کو کسی بھی چیز سے کوئی مطلب نہیں تھا

میرے خیال میں رفیق کا خمیر محبت سے اٹھایا گیا تھا. خدا نے اس کو محبت کرنے کی طاقت سے نوازا تھا اور وہ اس طاقت کا حق ادا کرنے کی کوشش بھی کرتا رہتا تھا. ویسے بھی ہر انسان میں محبت کرنے کی قابلیت نہیں ہوتی. زیادہ تر انسانوں میں دل لگانے کی قابلیت ہوتی ہے یا پھر اپنی ہوس پوری کرنے کی خواہش ہوتی ہے. بےلوث محبت کرنے کی قابلیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے. اور رفیق ایسا ہی ایک انسان تھا

رفیق کی سب سے محبت کرنے کی عادت کی وجہ سے دوستوں یاروں نے اسے ازراہ مزاق، پریمی کے نام سے بلانا شروع کر دیا. آہستہ آہستہ یہ ہی اس کا نام پڑ گیا. بلکہ اس نے اسی نام کو اپنی میز پر پڑی تختی پر بھی لکھوا لیا تھا

لیکن آخر کو رفیق انسان تھا اور پھر جوان بھی تھا. کبھی کبھی اس کا بھی دل چاہتا تھا کہ وہ کسی ایک کو ٹوٹ کر چاہے. اتنا چاہے، اتنی محبت کرے کہ محبت کا حق ادا ہوجائے. وہ ایسی محبت کے حصول کیلئے اپنی ذات کی نفی کیلئے بھی تیار تھا. لیکن ابھی تک رفیق کو ایسا کوئی نہیں مل سکا تھا


رفیق کا باپ تو بہت بچپن میں ہی مر گیا تھا. ماں نے پرورش کر کے بڑا کیا تھا اور اس کو رفیق کی شادی کا بہت ارمان تھا. لیکن رفیق نہیں مانتا تھا

رفیق تو کیوں نہیں مانتا بوڑھی ماں کی بات؟ مان جا. شادی کر لے میری بہن کی بیٹی سے. لڑکی بھی اچھی ہے اور اس کی ماں کو تجھ سے پیار بھی بہت ہے.’ ماں رفیق کو واسطے دیتی کہتی

.اماں! زینب بہت اچھی لڑکی ہے. لیکن…..’ رفیق سر کھجاتا کہتا رک جاتا’

.لیکن کیا؟’ ماں پوچھتی’

.لیکن مجھے اس سے محبت نہیں ہے ماں.’ رفیق مسکراتا جملہ مکمل کرتا’

میں تو اس سے ہی شادی کروں گا جس سے مجھے محبت ہوگی.میرا دل کہتا ہے کہ ایک نا ایک دن مجھے ایسی لڑکی ضرور ملے گی

.الله کرے جلد مل جائے.’ ماں دعا کیلئے ہاتھ اٹھا دیتی اور بات ختم ہوجاتی’

رفیق کی منتیں اور دعایئں کرتی اس کی ماں ایک دن الله کو پیاری ہوگئ. لیکن رفیق کے سر پر سہرا نہیں دیکھ سکی. ماں مر گئ تو رشتے داروں سے تعلق واسطہ بالکل ہی ختم ہوگیا. اور پھر دنیا میں کسی کو بھی رفیق کی شادی کی فکر نے نا ستایا


پھر ایک دن رفیق کو شہناز سے محبت ہوگئ. شہناز کچہری کے ہی ایک وکیل کے دفتر میں ملازمت کرتی تھی اور روز رفیق کی کرسی کے عین سامنے کھڑے ہو کر، ویگن کا انتظار کرتی تھی. شاید گھر کہیں قریب ہی تھا کیونکہ جس دن ویگن نہ ملتی، وہ پیدل ہی چلی جاتی

رفیق کی طرح شہناز بھی ایک معمولی سی لڑکی تھی. معمولی سے مگر صاف کپڑے پہنتی تھی اور معمولی اور قبول صورت نقش و نگار کی مالک تھی. لیکن اس کی شخصیت میں ایک چیز ایسی تھی جس نے رفیق کا دل کھینچ لیا. وہ چیز تھی شہناز کی آنکھیں. بڑی بڑی خوفزدہ سی دکھتی، کٹورا آنکھیں تھیں. ان آنکھوں کو دیکھ کر رفیق کا دل چاہتا تھا کہ وہ شہناز کو دنیا کی بھوکی نظروں سے دور، کہیں چھپا کر رکھ لے

شہناز روز بس اسٹاپ پر آ کر کھڑی ہوتی تھی مگر رفیق میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ اس کو مخاطب کرسکتا یا پھر اپنے دل کا حال بیان کرسکتا. بس ٹکٹکی باندھے اس کو دیکھتا رہتا جب تک کہ وہ ویگن میں بیٹھ کر چلی نا جاتی. جس دن ویگن نا ملتی اور شہناز پیدل چل پڑتی تو رفیق سب کام بھول کر اس کے پیچھے چل پڑتا اور اس کو گھر پہنچا کر ہی واپس آتا. شہناز کو کبھی پتہ بھی نہیں چلا تھا کہ رفیق اس کے پیچھے پیچھے چلتا تھا

شہناز کے پیچھے جانے سے رفیق کے کام کا بہت حرج ہوتا تھا. کیونکہ وہ دل کی ڈیوٹی کے پیچھے کسی گاہک کی بھی پرواہ نہیں کرتا تھا. لوگ منتیں کرتے، گالیاں دیتے مگر رفیق روبوٹ کی طرح اٹھتا اور شہناز کے پیچھے چل پڑتا. شہناز کا گھر پاس ہی پیکو روڈ پر واقع بوستان کالونی میں تھا. وہ سلامتی کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوتی تو رفیق بھی مڑ کر واپس کچہری چلا جاتا

پھر ایک دن جب اسی طرح شہناز پیدل گھر جا رہی تھی اور رفیق اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا تو اچانک ایک لڑکے نے شہناز کا پرس چھینا اور دوڑ لگا دی. رفیق نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور اس لڑکے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا. نجانے کن کن گلیوں اور بازاروں سے گزر کر آخر ایک ویران سی گلی میں رفیق نے اس لڑکے کو پکڑ ہی لیا

لڑکے نے پہلے تو زور لگا کر جان چھڑانے کی کوشش کی مگر رفیق کہاں جانے دیتا تھا. آخر کو معاملہ محبوبہ کے پرس کا تھا جو کہ رفیق کو جان سے بھی زیادہ عزیز تھا. جب طاقت سے کام نہیں نکلا تو پرس چھیننے والے لڑکے نے جیب سے پستول نکالا اور فائر کر دیا. گولی رفیق کی ران میں لگی. لیکن گولی کھانے کے بعد بھی اس نے پرس پر اپنی گرفت ہلکی نا ہونے دی

گولی کی آواز سن کر پاس پڑوس کے لوگ باہر نکلنے لگے تو لڑکا پرس چھوڑ کر فرار ہوگیا اور لوگ رفیق کو اٹھا کر ہسپتال لے گئے. خدا کا شکر یہ ہوا کے گولی ہڈی میں نہیں لگی تھی اور گوشت کے آر پار ہوگئ تھی. لہٰذا تیسرے دن شام کو رفیق کو ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا

وہ بیچارا ہسپتال سے رکشہ کرا کے اور پرس واپس کرنے کی نیّت سے سیدھا شہناز کے گھر کے پاس اترا اور لنگڑاتا ہوا اس کے دروازے کے پاس پہنچا. دروازہ کھٹکھٹانے ہی لگا تھا کے اندر سے باتوں کی آواز سن کر رک گیا

شہناز آخر تو سلیم کو سمجھاتی کیوں نہیں؟ اس کو تجھ سے اتنی محبت ہے تو اپنی ماں کو کیوں نہیں کہتا کہ ضد چھوڑ دے.’ آواز غالباً شہناز کی ماں کی تھی

.اماں سلیم بہت ہی اچھا لڑکا ہے.’ شہناز کی آواز رفیق کے کان میں پڑی’

‘لیکن اپنی ماں کے سامنے اس کی ایک نہیں چلتی’

ہنہ! خاک اچھا لڑکا ہے. مجھے تو لگتا ہے کہ یہ سب ماں بیٹے کی ملی جلی سازش ہے. ماں کہتی ہے کہ بیٹے کو جہیز میں موٹر سائکل دینے کا وعدہ کرو گے تو میں تاریخ مقرر کروں گی. بیٹا کچھ نہیں بولتا.’ شہناز کی ماں کی آواز آئ

‘میں تو کہتی ہوں، سلیم کا کھیڑا چھوڑ دے. میں کہیں اور تیرے رشتے کی بات چلاتی ہوں’

.خبردار اماں!’ شہناز نے کڑک کر کہا’

سلیم کی جگہ کسی اور کا نام لیا تو میں زہر کھا کر مر جاؤں گی. پھر تو شوق سے میری میّت کسی اور کے ساتھ رخصت کر دینا’

.اتنی محبت ہے سلیم سے تو پھر اس کو سمجھا کہ ماں سے بات کرے کے موٹر سائکل کی ضد نا کرے.’ ماں نے جل کر جواب دیا


محبوبہ کی زبان سے کسی اور کا نام سن کر رفیق کی تو دنیا ہی اندھیر ہوگئ. بیچارا جن پاؤں آیا تھا، خاموشی سے انہی پاؤں لوٹ گیا. ساری رات کروٹیں بدلتا رہا اور سوچتا رہا. صبح فجر کی اذان ہوئی تو رفیق کی سوچ ایک فیصلے پر پہنچ چکی تھی. ماں نے اس کی شادی کیلئے تھوڑا بہت زیور جمع کیا تھا. وہ اٹھایا، بازار میں بیچا اور جتنی رقم تھی، شہناز کے پرس میں ڈال کر، اگلی رات اس کے گھر میں پھینک آیا.ساتھ ہی ایک رقعہ بھی ڈال دیا جس پر صرف اتنا لکھا تھا کہ

شہناز کے جہیز کیلئے، ایک ہمدرد کی طرف سے

میرے خیال میں چھنا گیا پرس دیکھ کر اور پھر اس میں ڈھیر ساری رقم پا کر شہناز اور اسکے گھر والے پریشان تو ضرور ہوئے ہوں گے لیکن پھر اسے معجزہ سمجھ کر خوش ہو گئے ہوں گے. خیر شہناز کی شادی سلیم سے ہو گئ. رفیق کو پتہ تب چلا جب اس نے کچہری والے اسٹاپ پر شہناز کو سلیم کے ساتھ موٹر سائکل پر جاتے ہوئے دیکھا


عجیب آدمی تھا رفیق بھی. اس کی جگہ اور کوئی ہوتا تو حسد کی آگ میں جلتا لیکن وہ تو الٹا شہناز اور سلیم کی محبت دیکھ کر خوش ہوتا تھا. ہاں کبھی کبھی آنکھوں میں نمی سی ضرور اتر آتی تھی لیکن شاید وہاں کچہری کے سامنے سڑک پر، گاڑیوں کا کچا دھواں بہت اڑتا تھا جس کی وجہ سے آنکھیں جلتی تھیں

خیر، سلیم روز چھٹی کے وقت اسٹاپ پر شہناز کا ِانتظار کرتا اور پھر اس کو پیچھے بیٹھا کر گھر کی جانب روانہ ہو جاتا. پھر ایک دن جب سلیم اسٹاپ پر کھڑا تھا تو موٹر سائکل پر سوار دو لڑکے اس کے پاس رکے. پیچھے والا لڑکا اترا اور پستول دکھا کر سلیم کا موٹر سائکل چھین کر لے گیا. لمحوں میں ساری کاروائی پوری ہوگئ اور موٹر سائکل چھیننے والے یہ جا وہ جا

تھوڑی ہی دیر میں شہناز بھی وہاں پہنچ گئ. راہگیروں کی بھیڑ چھٹنے کے بعد دونوں میاں بیوی تھکے تھکے قدموں سے کچہری تھانہ کی طرف چلے گئے. تھوڑی منت سماجت اور شہناز والے وکیل صاحب کی مداخلت سے کیس تو درج ہوگیا لیکن موٹر سائکل کی برآمدگی کی امید کسی کو بھی نہیں تھی

زندگی پرانی ڈگر پر چل پڑی. شہناز نے دوبارہ سے ویگن پر یا پیدل گھر جانا شروع کر دیا. رفیق بھی پہلے ہی کی طرح شہناز کے پیچھے چلتا اور اس کو خیریت سے گھر پہنچا کر واپس آ جاتا. شہناز کا سسرال بھی بوستان کالونی میں ہی تھا لہٰذا رفیق کو زیادہ دور نہیں جانا پڑتا تھا

شہناز پہلے بھی نظریں جھکائے دفتر سے سیدھا گھر جایا کرتی تھی اور شادی کے بعد بھی اس کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آئ تھی. لیکن اب وہ بیچاری کبھی کبھی حسرت سے موٹر سائکلوں پر سوار جوڑوں کو ضرور تکا کرتی تھی اور کبھی کبھی تو بیچاری کی خوبصورت آنکھوں میں دو چار آنسو بھی آ جاتے تھے جو وہ خاموشی سے ہاتھ کی پشت سے پونچھ لیا کرتی تھی

رفیق سے بھلا شہناز کے آنسو کہاں چھپتے تھے. شہناز کی گیلی آنکھیں اس سے برداشت نہیں ہوتی تھیں. وہ ہمیشہ ان آنکھوں میں خوشیوں کے چراغ جلتا دیکھنا چاہتا تھا. لہٰذا بہت سوچنے کے بعد اس نے اپنا آبائی کوارٹر نما گھر فروخت کر دیا. خود کرائے کے ایک کمرے میں منتقل ہوگیا اور پہلے کی طرح رات کے اندھیرے میں شہناز کے گھر چپکے سے رقم پھینک دی. ساتھ ہی پھر سے ایک رقعہ ڈال دیا جس پر صرف اتنا لکھا تھا کہ

سلیم صاحب کے نئے موٹر سائکل کیلئے، ایک ہمدرد کی طرف سے

رقم اور رقعہ دیکھ کر سلیم تو بہت حیران ہوا مگر شہناز نے تحریر پہچان لی تھی. لیکن خیر اس ہمدرد کی شناخت تو وہ بھی نہیں کر سکتی تھی. قصہ مختصر، سلیم نے غیبی امداد سمجھ کر نئی موٹر سائکل خرید لی اور پہلے کی طرح شہناز کو دفتر سے گھر چھوڑنے لگا

یوں ہی زندگی گزرتی رہی. شہناز دفتر آتی رہی. سلیم اس کو اسٹاپ سے لیتا رہا اور رفیق اپنی جگہ بیٹھا سب کچھ دیکھتا رہا اور چپ چاپ شہناز سے خاموش محبت کرتا رہا. عجیب محبت تھی وہ بھی. نا ملاپ تھا نا حصول کی امید. بس محبوب خوش تھا اور محبوب کی خوشی میں وہ خوش تھا


پھر ایک دن، جیسا کہ اکثر شادیوں کے بعد ہوتا ہے، شہناز امید سے ہوگئ. جب اس نے دفتر آنا چھوڑ دیا تو رفیق تو پریشان ہوگیا. پھر جس دفتر میں شہناز کام کرتی تھی. وہاں سے پتہ چلا کہ بچے کی پیدائش کے سبب شہناز نے کچھ مہینوں کیلئے چھٹی لے لی تھی

رفیق یہ خبر سن کر خوش بھی ہوا اور پریشان بھی ہوا. پریشان اسلئے کہ وہ جانتا تھا کہ شہناز اور سلیم کے گھر کے حالات اچھے ہسپتال کی اجازت نہیں دیتے تھے. گھر کی فروخت سے حاصل ہوئی کچھ رقم باقی تھی. پہلے کی طرح رقم تھیلے میں ایک رقعے کے ساتھ ڈال کر شہناز کے گھر پھینک دی

رفیق کی مالی مدد کی وجہ سے شہناز نے ایک اچھے پرائیویٹ ہسپتال میں ایک صحت مند بچے کو جنم دیا اور دل ہی دل میں اپنے غیبی ہمدرد کو ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا. لیکن اس کے ہمدرد کو کسی دعا کی ضرورت نہیں تھی. وہ تو بس شہناز کی خوشی میں خوش تھا

وقت گزرتا رہا. شہناز دفتر آتی رہی. سلیم اس کو اسٹاپ سے لیتا رہا. جب ان کا بچہ تھوڑا بڑا ہوگیا تو وہ بھی کبھی کبھی باپ کے ساتھ ماں کو لینے آ جاتا. رفیق حسب معمول اپنی جگہ بیٹھا سب کچھ دیکھتا رہا اور حسب عادت اور حسب تقدیر، چپ چاپ شہناز سے خاموش محبت کرتا رہا


مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ آپ سب کو تھوڑی جھنجھلاہٹ ضرور ہو رہی ہوگی. بات بھی تو ایسی ہی ہے. آخر دنیا میں ایسا کب ہوتا ہے؟ لوگ ہمیشہ کسی نا کسی ذاتی ضرورت کے باعث محبت کرتے ہیں. کچھ کو زندگی گزارنے کیلئے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے. کچھ کو سہارا بننے کی ضرورت ہوتی ہے. کچھ کو جسمانی خواھشات کی جائز تکمیل چاہئے ہوتی ہے. اور کچھ کو سر پر محفوظ چھت کی ضرورت ہوتی ہے

بغیر کسی وجہ کے کون کسی سے محبت کرتا ہے؟ لیکن رفیق ایسا ہی تھا. اس کو بس شہناز کی خوشی سے محبت تھی. میری ذاتی رائے میں رفیق ایک بہت تنہا انسان تھا اور اس کی ویران تنہا زندگی کو کسی محور کی ضرورت تھی. شہناز وہ محور تھی

خیر کہانی کی طرف واپس آتے ہیں. وقت گزرنے کے ساتھ شہناز کا بیٹا بڑا ہوتا چلا گیا اور پھر ایک دن وہ کچہری کے پاس ہی ایک پرائیویٹ اسکول میں داخل ہوگیا. میرے خیال میں یہ بتانا کچھ خاص ضروری نہیں کہ پرائیویٹ اسکول کی فیس کا انتظام بھی شہناز کے غیبی ہمدرد کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا تھا

اب شہناز کا بیٹا، اسکول کی صاف ستھری یونیفارم پہن کر اور باپ کے ساتھ موٹر سائکل کی ٹینکی پر بیٹھ کر ماں کو لینے آتا. شہناز آتی، بیٹے کو باہوں میں لے کر پیار کرتی اور میاں کے پیچھے بیٹھ کر گھر چلی جاتی. ان تینوں کی خوشی دیکھ کر رفیق خوش ہوتا رہتا. مگر کمبخت گاڑیوں کا دھواں اب بھی اس کی آنکھوں میں اکثر لگتا رہتا تھا


اس دن بھی کچھ ایسا ہی منظر تھا. سلیم بیٹے کو اسکول سے لیکر کچہری کے سٹاپ پر بیوی کا انتظار کر رہا تھا. بیٹے نے باپ سے ضد کی تو اس نے غبارے لیکر دئے اور خود کسی دوست یار سے موبائل پر گپ شپ میں مصروف ہوگیا. بچہ غباروں سے کھیلتے کھیلتے اچانک سڑک پر آ گیا اور قریب تھا کہ ایک تیز رفتار ویگن کے نیچے آ جاتا. رفیق نے منظر دیکھتے ہی، اپنی میز ایک طرف الٹائ اور چھلانگ لگا کر بچے کو فٹ پاتھ کی طرف دھکیل دیا

شہناز کا بیٹا تو بچ گیا مگر رفیق ویگن کے پہیوں کے نیچے آ کر بری طرح سے کچلا گیا. ہر طرف شور مچ گیا اور لوگ اکٹھے ہو گئے. سلیم نے فوری طور پر ایک رکشہ روکا اور کچھ راہگیروں کی مدد سے رفیق کے ٹوٹے پھوٹے وجود کو اٹھا کر اتفاق ہسپتال لے گیا. شہناز کو بھی موبائل پر ساری صورت حال سے آگاہ کیا تو وہ بھی ہسپتال پہنچ گئ

میرا لعل!’ شہناز نے بیٹے کو دیکھتے ہی باہوں میں سمیٹ لیا اور بے اختیار چومنے لگی. پھر نظر اٹھا کر خاوند کی طرف دیکھا جو رفیق کی اکھڑتی سانسیں دیکھ کر بے چارگی سے ہاتھ مل رہا تھا

.آج اگر یہ نا ہوتا تو ہمارا بیٹا………!’ سلیم نے رفیق کی طرف اشارہ کر کے جملہ ادھورا چھوڑ دیا’

شہناز نے رفیق کی طرف دیکھا جو غالباً زندگی کی آخری سانسیں گن رہا تھا اور ادھ کھلی آنکھوں سے محبوبہ کا آخری دیدار کر رہا تھا

.پتہ نہیں کون ہے بیچارا!’ شہناز نے افسردہ سی سانس بھری’

‘پتہ نہیں کون ہے بیچارا’

‘پتہ نہیں کون ہے بیچارا’

‘پتہ نہیں کون ہے بیچارا’

کچھ لمحات تو شہناز کے یہ الفاظ ایک چابک کی طرح بار بار رفیق کی سماعت پر وار کرتے رہے. پھر اس کے بہت اندر کوئی نازک سی چیز ٹوٹ گئ اور وہ چپکے سے مر گیا

.یہ کیا ٹوٹا؟’ شہناز نے چونک کر سلیم سے پوچھا’

.کہاں؟ کیا؟’ سلیم نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا’

پتہ نہیں! مجھے کہیں کچھ ٹوٹنے کی آواز آئ تھی.’ شہناز نے کہا اور پھر جھک کر رفیق کے بےجان چہرے کی طرف دیکھا جہاں دو آنسو اس کی بےنور آنکھوں سے نکل کر اس کے گالوں پر لڑھک گئے تھے

#Urdu #story #fiction #love #selflessness #attraction #service #life #psychology #help #loneliness #Lahore #sacrifice