
.ابے ادھر آ!’ پرویز نے بیڑی سلگا کر ویٹر کو آواز لگائی’
آدھی رات گزرے کافی وقت بیت چکا تھا لیکن لگتا تھا کہ نیپیئرروڈ پرچلتے پھرتے لوگوں کو وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا
.ہاں کیا ہے؟’ میلے کچیلے اور مریل سے ویٹر نے، کندھے پر ڈالے رومال سے ناک صاف کرتے ہوئے پوچھا’
پرویز نے بیڑی کا کش لگا کر جیب سے بیس روپے نکالے اوراس کی طرف بڑھائے
ویٹر نے برا سا منہ بنا کر پیسے پکڑے اور گندی پلیٹیں اٹھا کر وہیں کھڑا رہا
.ٹپ؟’ اس نے بےشرمی سے دانت نکالتے ہوئے مطالبہ کیا’
.کوئی ٹپ شپ نہیں ہے. دفع ہوجا یہاں سے.’ پرویز نے آخری بیڑی سلگاتے ہوئے حقارت سے کہا’
‘ٹپ میرا حق ہے پرویزاستاد. لئے بغیر دفع نہیں ہوں گا’
حق کی بات پر پرویز کو اپنا باپ یاد آ گیا
Read more: شہوت، جبلت اور حق
.ابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟’ دس سالہ پرویز نے باپ کی انگلی پکڑے پوچھا’
.پیسے لینے جا رہے ہیں.’ اقبال پوڈری نے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کہا’
‘وہ حرامی اختر تین روز پہلے دس پڑیاں لے گیا تھا. مال تو کب کا بک گیا ہوگا لیکن پیسے نہیں دیئے’
پتہ نہیں کن کن گلیوں سے گزرتے باپ بیٹا ایک چھوٹے سے پل کی سائیڈ سے نیچے اتر کر، بدبودار تاریکی میں گھس گئے. سرانڈ کی وجہ سے پرویز نے ایک ہاتھ ناک پر رکھ کر دوسرے ہاتھ سے باپ کی انگلی مضبوطی سے دبوچ لی
.اختر؟’ اقبال پوڈری نے آواز لگائی مگر کوئی جواب نہیں آیا’
زیرلب گالیاں دیتے ہوئے پنسل ٹارچ روشن کی تو روشنی کا مختصر دائرہ زمین پر اوندھے منہ پڑے ایک جسم پر پڑا
اقبال نے جسم سیدھا کیا تو اختر کا بھیانک چہرہ سامنے آ گیا. گلے میں ایک رومال کسا تھا اور لاش کی دونوں آنکھیں ابل کر تقریباً باہر ہی آ گئ تھیں
.ابے میرے پیسے؟’ اقبال بےصبری سے اس کی جیبیں ٹٹول رہا تھا مگر سب خالی نکلیں’
‘تو یہیں کھڑا رہ دو منٹ.’ اقبال نے پرویز سے کہا. ‘میں آیا ابھی’
اس سے پہلے کہ پرویز کوئی احتجاج کر سکتا، اقبال اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھما کر تاریکی میں غائب ہو چکا تھا
پرویز کو تو لگا کہ شاید اقبال کو گئے گھنٹوں گزرچکے تھے لیکن وہ پانچ منٹ میں ہی واپس آ گیا
.ٹارچ کی روشنی اس کے منہ پر ڈالی رکھ.’ اقبال نے لاش کے سرہانے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا’
اس نے ایک ہاتھ سے لاش کا منہ پورا کھولا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے پلاس سے باری باری اختر کے دانت اکھاڑنے شروع کر دیئے
.یہ تو کیا کر رہا ہے ابا؟’ پرویز نے گھن کھاتے ہوئے پوچھا’
‘فٹ پاتھ پر بیٹھے کسی دندان ساز کو بیچوں گا تو چار پیسے مل جایئں گے’
‘لیکن کیوں؟’ پرویز نے حیرانگی سے پوچھا. ‘دفع کر اس کو’
.کیوں دفع کروں…ہیں؟’ اقبال نے گندے خون سے بھرا ہاتھ پرویز کے منہ کے سامنے نچایا تو وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا’
.ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا پرویز.’ اس کی آنکھیں اندھیرے میں کسی جانور کی سرخ آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں’
‘اپنا حق کبھی نہیں چھوڑنا….کبھی نہیں’
پرویز نے سر جھٹکا اور ویٹر کی طرف دیکھا جو ابھی تک وہیں کھڑا میلے دانت نکوس رہا تھا
.پیسے کوئی نہیں میرے پاس. بس یہ پکڑ اور عیاشی کر.’ پرویز نے اپنی جیب سے واحد بیڑی نکال کر ویٹر کی طرف بڑھائی’
ویٹر چار پانچ گالیاں بڑبڑا کر چلا گیا تو پرویز اٹھ کر کھمبے کے نیچے کھڑی، میک اپ سے لدی لڑکی کے پاس چلا گیا
.کیا پروگرام ہے ہیرو؟’ لڑکی نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر بڑی ادا سے پوچھا’
پرویز نے لڑکی کا ایک خواہش بھری نظر سے ایکس رے کیا. عام سی شکل و صورت تھی لیکن بھرپور جوان تھی
‘پروگرام تو نیک ہے. تو اپنا بتا؟’
.ایک شاٹ کا پانچ سو لوں گی. نا ایک روپیہ زیادہ نا ایک روپیہ کم.’ لڑکی نے لچک کر کہا’
‘پانچ سو؟’ پرویز نے سر کھجایا. ‘میری جیب میں تو ایک روپیہ بھی نہیں……. ادھار کرتی ہے؟’
.ادھار؟’ لڑکی نے ایک کڑوہ سا قہقہہ لگا کر پرویز کے پاؤں میں تھوکا’
‘چل پھٹ یہاں سے کنگلے. گلشن نے کبھی ادھار نہیں کیا’
.حرامزادی!’ پرویز نے زیر لب گالی دی اور اپنی خالی جیبوں کو کوستا آگے چل پڑا’
‘سن!’ لڑکی نے پیچھے سے آواز دی. ‘پیسے کمانے کا موڈ ہے؟’
پرویز نے بیوقوفوں کی طرح اقرار میں سر ہلا دیا
‘چل پھر میری دلالی شروع کر دے. پیٹر تھا میرا دلال مگر کل کسی نے پٹیل پاڑے میں گولی جھونک دی اس کے بھیجے میں.’ لڑکی نے ناک میں انگلی گھما کر کیچڑ نکالا اور انگلیوں کی پوروں میں مڑور کر ایک طرف چٹکی سے اچھال دیا
.دلالی؟’ پرویز نے منہ لٹکا کر پوچھا’
‘ہاں تو اور کیا صدر میں دوکان ڈال دوں زیور کی؟’
‘کرنا کیا ہوگا؟’
لڑکی نے پہلے تو ایک بھیانک سی ماں کی گالی بکی لیکن پھر کچھ سوچ کر تھوڑی دور کھڑی پرانے ماڈل کی سفید فیئٹ کی طرف اشارہ کیا
‘جا بات کر جا کر اس سے. پانچ سو میں سے سو تیرے’
کافی دیر گزر چکی تھی اور لڑکی کی واپسی نہیں ہوئی تھی. لیکن سو روپئے کے پیچھے پرویز ابھی تک وہیں کھمبے کے نیچے کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا
فجر کی اذان میں ابھی کچھ منٹ باقی تھے جب چوک سے اسی سفید فیئٹ نے پرویز کی طرف کا رخ کیا. وہ کچھ سوچ کر کھمبے کے پیچھے ایک تاریک سی گلی میں اندر ہو کر کھڑا ہوگیا
کھمبے کے پاس پہنچ کر فیئٹ کی رفتار کچھ مزید آہستہ ہوئی اور کسی نے دروازہ کھول کر ایک بڑی سی گٹھڑی سڑک پر لڑھکا دی
پرویز نے قریب جا کر گٹھڑی کا معائینہ کیا. گلشن کب کی مر چکی تھی. کپڑوں کے نام پر ایک دھجی بھی نہیں تھی تن پر. چہرے اور جسم پرجگہ جگہ دانتوں کے کاٹنے کے نشانوں سے خون جھلک رہا تھا
پرویز نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر لاش کو گھسیٹ کر تاریک گلی میں لے گیا. کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے. پھر باپ کی آواز کانوں میں گونجی
‘اپنا حق کبھی نہیں چھوڑنا….کبھی نہیں’
پرویز نے مڑ کر گلشن کی لاش کی طرف دیکھا. لاش کی ننگی سفید ٹانگیں، جیسے کسی گاہک کے انتظار میں نہایت بےشرمی سے کھلی پڑی تھیں اور اندھیرے میں چمک رہی تھیں
پرویز تھوڑی دیر تو کھڑا لاش کی طرف دیکھتا رہا. پھر اس نے کانپتے ہاتھوں سے بیلٹ کھول کر پتلون نیچے سرکائی اور گلشن کے برہنہ جسم پر جھک گیا
#Urdu #fiction #story #right #life #survival #lawofthejungle #animal #greed #sin #baseness #ugliness #prostitute #pimp #streets #Karachi #instinct