The Prophet and the Devil

Introduction

A haunting narrative poem exploring the eternal struggle between light and darkness within the human soul. This introspective piece delves into themes of moral duality, spiritual conflict, and the coexistence of prophet and devil in one person. Through vivid imagery of pain, redemption, and self-reflection, the poem examines how opposing forces of kindness and temptation shape our existence. Perfect for readers seeking deep philosophical poetry about human nature, internal battles, and the complex relationship between good and evil that defines the human experience.


Constantly walking down a dark alley of pain,

a cold path, leading to no loss and no real gain

He walks alone; he has always been walking alone,

each step is an agony, but he doesn’t groan or moan


He stops for a moment to take a tired breath;

thinking of his sad existence and a pitiful death

He sees a man sitting and leaning forward,

he doesn’t move, his posture so awkward


Brains blown out, there is silence in the hall,

no commotion, just blood splashed on the wall

His dead eyes, motionless, clouded and sallow,

that man is him, a life so deep and a death so shallow


Who were you really? He asks the dead man,

What did you really want? What was your clan?

Pulls onto his own hair matted with blood and brain,

he sees himself smile, though in actual he is slain


I was the product of imagination, the darkest of them all,

pain, sorrow, and suffering, an amalgamation of them all

Slowly cooked and roasted upon the fire of circumstances,

I took every risk and I availed all the chances


I hung myself all through my life, on the cross of desire,

my guilt and my regrets, lighting a damn big fire

My body laughed so hard, while my soul slowly bled,

the nails of remorse drawing blood, dark and red


I wore the crown of pleasure, dancing the dance of senses,

each conquest was glory, no qualms, no mending fences

But it was a crown of thorns, my soul writhed in pain,

and on the cross of desire, my character was finally slain


I was a prophet, I was the devil, the contrast burnt so bright,

the devil on the left always, and the prophet on the right

Kindness was the prophet’s domain; he ruled it so well,

sensuality was the devil’s game; he played it in hell


The prophet held hands and fanned the flames of life,

the devil played his flute and sharpened his sinful knife

The prophet bowed in humility, acknowledging his bounds,

the devil laughed in shadows and made his daily rounds


They were opposite in nature, but they shared a core,

crying over a broken heart, weeping for a whore

But when tired of crying, they both walked the earth,

in search of some joy, in search of some mirth


The devil broke some hearts, the prophet mended souls,

the devil stole some dreams, the prophet filled some holes

The devil caused some chaos, the prophet preached some order,

but the prophet stayed behind, while the devil crossed the border


Then they both sat together and wept and cried some more,

the prophet on his throne and the devil on the floor

The prophet told the devil that they had different fates,

the devil smiled and offered, ‘No, we are soul mates’


The dead fell silent and chose to speak no more,

he only thought in silence, shaken to the core

There was a dichotomy, though he always knew,

that it was no stark, he had no clue


He was two, not one, that was the only fact,

the prophet and the devil, it was a strange pact

He looked ahead and started to walk again,

the prophet and the devil, in the dark alley of pain

سانتا آنا کا پادری

d9ec0c8-046600aa-73e4-4bb0-9874-0021d1b46782

 

 

 

 

 

 

یہ سخت گرمیوں کے دنوں کی بات ہے کہ جب سانتاآنا گاؤں کے اکلوتے گرجے کے، اکلوتے پادری کا، انتقال تو گرمیاں اپنے پورے عروج پر تھیں؛ اور پورا گاؤں نئے پادری کے آنے کا بےصبری سے انتظار کر رہا تھا

Read more: سانتا آنا کا پادری

بہت سے بچے پیدا ہوچکے تھے لیکن بپتسمہ نا دیئے جانے کی وجہ سے گمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے. بیشمار محبت کرنے والے جوڑے تھے، جو کہ شادی کے بندھن میں بندھنے کیلئے اتنے بیتاب تھے کہ ہر رات کا نیا چاند، نا چاہتے ہوئے بھی ان کے گناہوں کا گواہ بن جاتا تھا. لیکن گرجے میں پادری کی عدم موجودگی کے باعث ان کی شادی نہیں ہوسکتی تھی

پھر بہت سے ایسے گناہ گار تھے جو اعتراف کے لئے بے چین تھے تاکہ صاف دل کے ساتھ، ایک دفعہ پھر سے گناہوں کے راستے پر چلا جا سکے. اور بہت سے ایسے لوگ تھے جو مر چکے تھے اور دفنائے بھی جا چکے تھے لیکن ان کی روحیں، اپنی آخری رسومات کے انتظار میں، زمین اور آسمان کے درمیان معلق تھیں

پھر ایک دوپہر، جب سورج عین سوا نیزے پر بےرحمی سے دہک رہا تھا تو گاؤں کی کچی فصیل کے ٹوٹے دروازے سے، ایک گھڑسوار اندر داخل ہوا. گھوڑا لاغرسا تھا اور تیز سنہری دھوپ اور بہتے پسینے سے اس کا کالا سیاہ جسم، چمک رہا تھا. گھڑسوار بھی کالے لباس میں ملبوس تھا اور اس کے سر پر چوڑے چھتے والے سیاہ ہیٹ کے نیچے، اس کے خدوخال، واضح نہیں تھے


سانتا آنا، قریبی شہر سے قریباً دو سو کلومیٹر دور اور صحرا کے بیچوں بیچ واقع، ایک چھوٹا سا اور نامعلوم غریب گاؤں تھا. بہت کم ہی کوئی بھولا بھٹکا مسافر، گاؤں میں قدم رنجہ فرماتا تھا. بلکہ مسافروں کی تعداد اس قدر کم تھی کہ بڑھے بوڑھے اب تک، گاؤں میں آنے والے تمام مسافروں کو، دو ہاتھوں کی انگلیوں پرباآسانی گن سکتے تھے؛ اور گننے کے بعد بھی دو ایک انگلیاں بچ رہتی تھیں


وہ نیا آنے والا گھڑ سوار کوئی مسافر نہیں بلکہ فادر آندرے بارتولو تھا – سانتاآنا گاؤں کے اکلوتے گرجے کا نیا پادری. گاؤں میں داخل ہوتے  ہی اس نے مرکزی چوک کے کنویں سے جی بھر کر پانی پیا اور کسی سے کوئی فالتو بات کئے بغیر، سیدھا گرجے گھر پر پہنچ کر، اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، گاؤں کے لوگوں کو احساس ہوتا چلا گیا کہ فادر آندرے کوئی معمولی پادری نہیں تھا بلکہ شاید انسان کے روپ میں کوئی فرشتہ یا پھر ولی تھا جو خداوند نے سانتا آنا گاؤں پر ترس کھا کر بھیجا تھا

پچھلا پادری کھانے پینے کا انتہائی شوقین تھا اور حد درجہ کا بلانوش بھی تھا. کئ دفعہ تو اتوار کے دن دعا کے موقعے پر، گرجے کی سستی وایئن کی بوتل بھی خالی ملتی تھی؛ اور پادری صاحب کے الفاظ اور قدم، دونوں ڈگمگا رہے ہوتے تھے

لوگ فادرآندرے کو فرشتہ یا ولی الله اسلئے سمجھتے تھے کیونکہ وہ پچھلے پادری کے برعکس صحیح معنوں میں ایک درویش صفت آدمی تھا. نا کھانے پینے کا شوق تھا اور نا ہی پینے پلانے کا. خواتین کی طرف تو دیکھنے سے بھی گریز کرتا تھا. تمام خواہشات سے پرہیز کرتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ جیسے خداوند نے اسے پیدا ہی پرہیزگاری کیلئے کیا تھا


حقیقت کیا تھی، وہ فادر آندرے سے زیادہ بہتر کوئی اور نہیں جانتا تھا. جب بھی لوگ اس کی پرہیزگاری سے متاثر ہو کر اس کے ہاتھ چومتے تھے تو وہ زیرلب ضرور مسکراتا تھا

دراصل بہت بچپن سے ہی فادرآندرے کو پادری بننے کا شوق تھا. اسلئے کہ یہ وہ واحد پیشہ تھا کہ جس میں لوگوں پر برتری پانے کیلئے، کسی دولت یا دنیاوی تعلقات کی ضرورت نہیں تھی. پھر اس کا یہ بھی دل چاہتا تھا کہ شاید اس کے مرنے کے بعد یا اس سے پہلے ہی لوگ اسے کوئی سینٹ سمجھیں اور فرط عقیدت سے اس کے ہاتھ چومتے رہیں اور آس پاس منڈلاتے رہیں

لیکن پادری بننے کے بعد اس کو احساس ہوا کہ پرہیزگاری کی راہ پر چلنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا. ہر قدم پر دل کو مارنا پڑتا تھا؛ اور یہ اس کیلئے بیحد مشکل ثابت ہورہا تھا

چونکہ فادر آندرے کا تعلق ایک بہت غریب خاندان سے تھا اور بچپن بہت محرومی اور بھوک میں گزرا تھا تو جب بھی کسی دعوت میں شریک ہوتا، تو ہاتھ اور منہ روکنا مشکل ہوجاتا. اور پھر کون صحیح الدماغ انسان اچھی سرخ وایئن کو ٹھکرا سکتا تھا. جب پیٹ مرغن غذاؤں اور شراب سے بھرجاتا تو پھر نظر حسین چہروں اور صحت مند نسوانی جسموں پر بھٹکنا شروع کر دیتی

آہستہ آہستہ ان حرکات کی وجہ سے اس کا مزاق اڑنا شروع ہوگیا. یہاں تک کہ مَیکسکن چرچ کی طرف سے دو تین انتباہی مراسلے بھی موصول ہوگئے تو فادرآندرے کو اپنے مقدس خواب مٹی میں ملتے نظر آئے. لیکن باوجود بھرپور کوشش کے وہ اپنی خواہشات پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا


پھر ایک شام شیطان فادر آندرے بارتولو سے ملنے چلا آیا اور اسے ایک ایسی پیشکش کی کہ فادرآندرے اسے قبول کرنے پر مجبور ہوگیا

‘مرنے کے بعد اپنی روح مجھے سونپ دینے کا وعدہ کرو تو میں تمھاری سب خواہشات ایک پل میں پوری کر دوں گا.’ شیطان نے مسکراتے ہوئے کہا

یہ ہی تو سارا مسلہء ہے.’ فادر آندرے نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا. ‘میں اپنی تمام نفسانی خواہشات سے ہی تو جان چھڑانا چاہتا ہوں

‘ہیں؟’ شیطان چونک کر کھڑا ہوگیا. ‘یہ کیسی خواہش ہے؟’

بس یہ ہی میری خواہش ہے’، نوجوان پادری نے کہا. ‘میں چاہتا ہوں کہ میری ساری خواہشات ختم ہو جایئں، میرا نفس مر جائے اور میں اپنی زندگی میں ہی سینٹ کا رتبہ پا جاؤں

‘ٹھیک ہوگیا!’ شیطان نے جیب سے معاہدہ نکالتے ہوئے کہا. ‘اس پر اپنے خون سے دستخط کر دو’

فادرآندرے شیطان کے ساتھ معاہدہ کر کے بہت خوش تھا. اس کو پوری امید تھی کہ چونکہ وہ خواہشات سے جان چھڑا چکا ہے تو روزمحشر وہ کوئی گناہ نا ہونے کے بائث سیدھا جنت میں جائے گا اور شیطان کچھ بھی نہیں کر سکے گا


وقت گزرتا چلا گیا. سانتا آنا گاؤں میں دس سال بتانے کے بعد، فادرآندرے پہلے بشپ اور پھر کارڈینل بن گیا. تھوڑے عرصے میں ہی اس کی پرہیزگاری سے متاثر ہو کر لوگوں نے اسے سینٹ کا درجہ دے دیا اور دور دور سے اس کی زیارت کو آنے لگے

پھر ایک دن وہ مر گیا اور فرشتوں نے اس کی روح کو لے جا کر بارگاہ الہی میں پیش کر دیا

‘اس کو گھسیٹ کر لے جو اور سیدھا جہنم کی دہکتی آگ میں لے جا کر پھینک دو.’ خداوند نے حکم دیا

رحم خداوند! رحم! کیا مجھے اسلئے جہنم میں پھینکا جا رہا ہے کیونکہ میں نے شیطان سے معاہدہ کیا تھا؟’ فادرآندرے نے گڑگڑا کر پوچھا

‘نہیں!’ خداوند نے بے اعتنائی سے جواب دیا’

تمھیں اسلئے جہنم میں پھینکا جا رہا ہے کیونکہ تم نے خواہشات سے انکار کیا. کیونکہ تم یہ بھول گئے کہ خواہشات بھی میں نے کسی مقصد سے بنائی ہیں. انسان خواہش کرتا ہے؛ پھر گناہ کرتا ہے؛ پھر گناہ پر پچھتاتا ہے؛ اور پھر توبہ کر کہ پرہیزگاری کے رستے پر چلتا ہے. جب تم نے خواہش سے ہی انکار کر دیا تو پھر پرہیزگاری کیسی؟

#Urdu #story #fiction #God #devil #church #saint #desires #denial #contract #sensuality #selfcontrol

When you kiss Your Woman

splash_kiss_-_2013_-_11_x_14_-_lindsay_rapp

When you love your woman and trace her delicate soul within, it’s your own soul you discover—and when you break her heart, it’s your soul that’s forever lost.

A tender four-stanza poem exploring the sacred dimensions of intimate love through escalating stages: kissing reveals love requiring patience, touching reveals submission demanding service to her desire, loving reveals your own soul discovered within hers, and losing her reveals the ultimate cost—your soul forever lost when you break her fragile heart.

____________________________________________

When you kiss your woman,

and find her mouth so sweet;

it is love that you taste,

it must be patience and never haste

____________________________________________

When you touch your woman,

and find her throbbing surrender;

it is submission that you observe,

it is her desire that you must serve

____________________________________________

When you love your woman,

and trace her delicate soul within;

it is your own soul that you discover,

it is being loved, and you are the lover

____________________________________________

And when you lose your woman,

and break her fragile heart;

it is you who must pay the cost,

it is your own soul, which is forever lost