کال گرل اور گڑیا (Revised)

زندگی کے پیچیدہ اور کانٹوں بھرے راستوں پر مسلسل سفر کرتے، عینی کے لہو لہان پیر کب کے تھک چکے تھے. کچی قبرکی تہہ میں رکھا، سفید کفن میں لپٹا اسکا نازک وجود، اس تکان کی گواہی دے رہا تھا. گورکن نے سیمنٹ کی پہلی سلیب اٹھائی ہی تھی کہ میں نے اسے روک دیا. بغل میں دبائی سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی گڑیا نکالی اور نیچے اتر کر عینی کے پہلو میں احتیاط کے ساتھ رکھ دی

خدا حافظ عینی!’ میں نے اس کے پھول سے وجود کو بھاری دل کے ساتھ الوداع کہا اور کفن کے اوپر سے ہی اس کی پیشانی چوم لی


Read more: کال گرل اور گڑیا (Revised)

میرا نام قباد ہے – قباد کامران. عمر تقریباً ساٹھ سال. کسی زمانے میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی میں پڑھاتا تھا. آباؤ اجداد کی چھوڑی ہوئی بےتحاشہ زمین تھی. کسی شےکی کمی نہیں تھی. اچھے لباس پہننے کا، اچھی موسیقی سننے کا، اچھی کتابیں پڑھنے کا اور اچھی گاڑیاں رکھنے کا شوق تھا

شادی بہت چھوٹی سی عمر میں ہی ہوگئ تھی. خوش قسمتی سے ہماری شادی ان چند شادیوں میں شامل تھی جو والدین کی جانب سے کیئے جانے کے باوجود کامیاب ہوجاتیں ہیں. مجھے اس سے بےتحاشہ محبت تھی اور وہ بھی میرے اوپر جان چھڑکتی تھی. لیکن شاید محبت میں کوئی کمی رہ گئ تھی، یا شاید میں بہت بدقسمت تھا، کیونکہ وہ شادی کے پانچویں ہی سال، کینسر کے ہاتھوں اللہ کو پیاری ہوگئ. شادی کی ایک نشانی نتاشہ کی شکل میں میرے پاس چھوڑ گئ. نتاشہ میری اکلوتی اولاد تھی اور میرے دل کا ٹکڑا. میں نے دوبارہ شادی نہیں کی. دراصل نتاشہ کی ماں نے معیار کا سانچہ ہی ایسا بنا دیا تھا کہ اس کے بعد اور کوئی عورت، اس میں فٹ نہیں بیٹھتی تھی

بیوی کے بے وقت انتقال کے بعد میری ساری زندگی نتاشہ کے گرد مدار میں چکّر لگانے لگی. میں اس کا باپ بھی تھا اور ماں بھی. وہ کیا پہننا پسند کرتی تھی، وہ کیا کھانا پسند کرتی تھی، وہ کس چیز سے الرجک تھی، سب کا خیال میں خود رکھتا تھا. ہم دونوں باپ بیٹی کی زندگی میں کسی تیسرے کی گنجائش نہیں تھی

مجھے پڑھانے کا بہت شوق تھا لہٰذا اچھی بھلی نوکری چل رہی تھی. پھر اچانک ایک دن میری اکلوتی جوان بیٹی مجھ سے ناراض ہوکر چلی گئ. وہ مجھے چھوڑ کر کیا گئ، سب ختم ہوگیا. میں نے نوکری چھوڑ دی اور گھر بیٹھ گیا. صرف اشد ضرورت کے تحت گھر سے باہر نکلتا. باقی کا سارا وقت کتابوں میں گزرتا. کبھی کبھی آس پڑوس سے ایک دو دوست ملنے آ جاتے لیکن وہ بھی کچھ دیر بیٹھنے کے بعد چلے جاتے تھے. اچھی طرح جانتے تھے کہ مجھے لوگوں سے اور لوگوں کی قربت سے وحشت ہوتی تھی

میں کراچی میں، کلفٹن میں واقع سمندر کے کنارے، ایک لگژری فلیٹ میں رہتا تھا. نتاشہ کے چلے جانے کے بعد بہت دفعہ سوچا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گاؤں چلا جاؤں لیکن فلیٹ کے ہر کمرے سے، میری بیٹی کی خوشبو آتی تھی. جب بھی جانے کا سوچتا، وہ خوشبو قدم جکڑلیتی تھی

فلیٹوں میں رہنے والے باقی لوگوں میں زیادہ تر عیش پسند امیرزادے تھے جو رہتے تو کہیں اور تھے، لیکن فلیٹوں کو عیاشی کے اڈوں کے طور پر استمعال کرتے تھے. خیر ان کی وجہ سے کبھی کوئی مسلہء نہیں ہوا. زمانہ ہی ایسا ہے کہ اپرکلاس میں کسی کے پاس دوسرے کی زندگی میں جھانکنے کا یا دلچسپی لینے کا وقت ہی نہیں ہوتا


وہ اگست کے اوائل کا ایک دن تھا. طوفان آنے کو تھا. ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر بار بار کراچی کے مکینوں کو سمندری طوفان کی ممکنہ تباہ کاریوں سے آگاہ کیا جا رہا تھا. لیکن مجھے طوفان بہت پسند ہیں. عجیب سی بات ہے لیکن طوفان جتنا شدید ہو، میرے اندر اتنا ہی زیادہ سکون موجیں مارتا ہے. میں نے کھڑکی سے باہر سمندر کی طرف جھانکا تو لہریں غیض و غضب ڈھارہی تھیں. سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا لیکن باہر تاریکی چھا چکی تھی. پورا آسمان سرمئی کالے بادلوں سے ڈھکا پڑا تھا اور ہوائیں پام کے نازک درختوں کو دوہرا کئے دے رہی تھیں

میں نے پائپ سلگانے کو تمباکو کی تھیلی نکالی تو صرف چٹکی بھر تمباکو دیکھ کر پریشان ہوگیا. تمباکو کے بغیر میرا گزارا نہیں ہوتا. اپنی یاداشت کو کوستے لباس تبدیل کیا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر، تمباکو خریدنے نکل کھڑا ہوا. میرا فلیٹ پانچویں منزل پر ہے. باہر لابی میں نکل کر لفٹ کا بٹن دبایا تو پتہ چلا کہ چاروں لفٹوں میں سے صرف ایک ہی کام کر رہی تھی. خیر خدا خدا کر کے لفٹکا دروازہ کھلا اور دروازہ کھلتے ہی ایک دلنشیں خوشبو نے مجھے اپنے حصار میں گھیرلیا

لفٹ خالی نہیں تھی. اس میں ایک اکیلی لڑکی کھڑی میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی. تقریباً اکیس یا بائیس کا سن اور اونچا لمبا قد. کھلتا ہوا گندمی بے داغ رنگ اور متانسب جسم. اس نے بال غالباً کسی بہت اچھی جگہ سے رنگوائے تھے. وہ بال تھے تو گہرے سرخی مائل بھورے رنگ کے مگر ان میں کہیں کہیں سنہرا رنگ جھلک رہا تھا. اونچی روشن پیشانی اور دو گھنی بھنووں تلے بادامی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک نمایاں تھی. کانوں سے جدید وضع کے لمبے بندے لٹک رہے تھے. لڑکی نے نیلی اڑی رنگت کی چست جینز پہنی ہوئی تھی اور اوپر اسی رنگت اور کپڑے کی جیکٹ. پاؤں میں ٹخنوں تک چڑھے چمڑے کے بھورے جوتے

.آپ اوپر جا رہی ہیں یا نیچے؟’ میں نے اس سے پوچھا تو وہ ہنس پڑی

‘آپ کو کہاں جانا ہے؟’

.جی مجھے تو نیچے بیسمنٹ میں واقع پارکنگ میں جانا ہے.’ میں نے کچھ شرمندہ سا ہوتے ہوئے جواب دیا

.آپ اندر آ جایئے. میں پہلے آپ کو بیسمنٹ میں اتار دوں گی.’ اس نے مہربانی سے کہا تو میں انکار نہیں کر سکا

اس نے دروازہ بند ہوتے ہی پندھرویں منزل کا بٹن دوبارہ دبا کر کینسل کیا تو میں مزید شرمندہ ہوگیا. خیر کیا ہوسکتا تھا. میں خاموش کھڑا اس کا جائزہ لیتا رہا اور وہ کھڑی مسکراتی رہی. آپ میرے اسے غور سے دیکھنے کا کوئی غلط مطلب نا تلاش کریں. اس لڑکی میں ایک عجیب سی کشش تھی. کوئی ایسی چیز ضرور تھی جو مجھے اپنی نتاشہ کی یاد دلا رہی تھی

بہت شکریہ بیٹے. میں معذرت خواہ ہوں کہ تمھیں میری وجہ سے دوبارہ نیچے تک آنا پڑا.’ بیسمنٹ میں پہنچ کر لفٹ کا دروازہ کھلا، تو میں نے شفقت سے اس کا شکریہ ادا کیا

.جی کوئی بات نہیں.’ اس نے نہایت شستہ لہجے میں جواب دیا

لفٹ کا دروازہ بند ہوا تو میں نے سر جھٹکا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا


آس پاس کی کسی دکان پر میرا پسندیدہ تمباکو نہیں ملتا تھا. لہٰذا مجھے صدر تک جانا ہی پڑا. تمباکو خرید کر دوکان سے باہر نکلا تو ہلکی ہلکی بارش شروع ہو چکی تھی. میں نے گاڑی میں بیٹھ کر پائپ سلگایا، ڈیک پر ترکی نثاد محموت اورحان کی ایک پسندیدہ دھن لگائی اور پھر بے مقصد کراچی کی سڑکوں پر چکّر لگانے لگا. یہ شہر مجھے بیحد پسند ہے. گنجان آباد ہونے کے باوجود اس شہر کی شاموں میں، ایک عجیب سی تنہائی رچی بسی ہوتی ہے. یہاں لوگوں کا ہجوم ہونے کے باوجود ہر شخص اکیلا دکھائی دیتا ہے. یا شاید لوگ اکیلے نہیں تھے، میرا اپنا دل اکیلا تھا. دھیمے غمناک سروں میں وائلن بجتا رہا اور میں دنیا دیکھتا رہا

شہر کی گیلی چمکتی سڑکوں پر پھرتے پھرتے کب شام گہری رات میں ڈھل گئ، احساس ہی نہیں ہوا. بارش کچھ زیادہ ہی تیز ہوگئ تو گھر واپس جانے کا سوچا. جب میں نے بلڈنگ کی بیسمنٹ میں لے جا کر گاڑی کھڑی کی تو تقریباً آدھی رات ہو چکی تھی. میں گاڑی لاک کر کے لفٹ کی جانب بڑھا ہی تھا کہ ایک نسوانی کراہ میرے کان میں پڑی. میں نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا. مجھے ایک سلیٹی رنگ کی کلٹس کے ساتھ وہ ہی لڑکی نظر آئ. لیکن غالباً کچھ گڑبڑ تھی. وہ گاڑی کے بونٹ کے اوپر ہاتھ ٹکائے جھکی کھڑی تھی. میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک زوردار ابکائی لی اور پھر کمزوری سے وہیں بونٹ کے اوپر گر گئ

میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھا اور اسے سنبھالنے کی کوشش کی

.ارے کیا ہوا آپ کو؟’ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھا

می….میں نے……شا….شاید کوئی زہ……زہریلی چیز کھ….کھا لی ہے.’ اس نے لڑکھڑاتے لہجے میں مجھے بتانے کی کوشش کی

.آپ کا فلیٹ کون سا ہے؟ گھر پر اور کون ہے؟’ میں نے گھبرا کر پوچھا

.میں…..یہاں نہ……نہیں رہتی……ڈاکٹر….ہس …..ہسپتال!’ اس کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکلے اور وہ بیہوش ہوگئ

میں اسے بمشکل گھسیٹ کر اپنی گاڑی تک لیکر گیا اور پھر کچھ سوچ کر اپنے ایک ڈاکٹر دوست کو کال کی، جو قریب ہی ایک پرائیویٹ کلینک چلاتا تھا. خدا کا شکر ہوا، وہ پہلے ہی کسی ایمرجنسی کے سلسلے میں کلینک پر موجود تھا

میرے دوست نے اس کے معدہ کی اچھی طرح صفائی کی اور پھر کچھ دوائیاں تجویز کر کے مجھے کمرے سے باہر لے گیا

.یہ کیا چکّر ہے؟’ اس نے مجھ سے پوچھا تو میں نے ساری کہانی سنا دی

لڑکی نے غالباً پہلی دفعہ میجک مشروم کا استمعال کیا ہے. شاید اس کو پتہ ہی نہیں تھا کہ یہ کیا چیز منہ میں ڈال رہی تھی. خیر میں نے صفائی کر دی ہے. خطرے کی کوئی بات نہیں. دوائیوں کے باعث صبح تک غنوندگی کا گہرا اثر رہے گا. تم اس کو لے جا سکتے ہو. لیکن خیال رہے کہ اگلے کچھ دن اس کو آرام کرنا چاہیے

میں بمشکل سہارا دے کر اسے گاڑی تک لے گیا اور اگلی سیٹ لمبی کر کے اسے آرام سے لٹادیا

کیا نام ہے تمہارا بیٹی؟ کہاں رہتی ہو؟’ گاڑی سٹارٹ کر کے میں نے اس سے پوچھا. کوئی جواب نا ملنے پر اس کی طرف دیکھا تو وہ دنیا و مافیا سے بے پرواہ بیہوش پڑی تھی


بڑی مشکل کی بات تھی. جوان لڑکی تھی. رات بھی بہت بھیگ چکی تھی. نجانے کہاں رہتی تھی؟ خیر کچھ دیر سوچ کر میں اسے، اپنے فلیٹ پر واپس لے گیا. وہ تو خدا کا شکر ہوا کہ لفٹ ابھی تک چل رہی تھی، ورنہ میں اس عمر میں کہاں اٹھا کر لے جاتا. پھر وہ کچھ کچھ ہوش میں بھی آ چکی تھی. بول تو نہیں پا رہی تھی مگر کم از کم اس کا پورا بوجھ مجھے اٹھانا نہیں پڑ رہا تھا

میں اسکو سیدھا ٹی وی لاؤنج میں لیکر چلا گیا. صوفے پر احتیاط سے بٹھایا، اور کچن سے ایک اورنج جوس کا گلاس لیکر آیا. وہ کچھ نہیں بولی، بس خالی خالی آنکھوں سے مجھے دیکھتی رہی اور چپ چاپ جو کہتا گیا، کرتی رہی. پھر جوس کا ایک گھونٹ بھر کر بولی

آئ ایم…… سوری! مے……..میری وجہ سے…آ…آ… آپ کو بہت تکلیف ہوئی.’ نقاہت کے سبب اسکی زبان ابھی تک لڑکھڑا رہی تھی

‘کوئی بات نہیں بیٹے. تم چپ چاپ جوس پیو’

.تمہارا نام کیا ہے بیٹے؟’ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد میں نے پوچھا

‘جی عینی……!’ اس نے دھیمے سے جواب دیا. پھر کچھ سوچ کر کہنے لگی. ‘پورا نام……..قرات العین’

بہت پیارا نام ہے. بالکل تمھاری طرح.’ میں نے مسکرا کر کہا. پتہ نہیں کیا بات تھی لیکن میرے دل میں اس بچی کیلئے یکایک محبت اور شفقت کا سمندر موجیں مارنے لگا تھا

اس نے جوس پی لیا اور دوبارہ گردن پیچھے ٹیک کر آنکھیں موندنا ہی چاہتی تھی کہ میں نے اس کا بازو پکڑ کر احتیاط سے اسے اٹھایا اور نتاشہ کے کمرے میں لے گیا


نتاشہ کے جانے کے بعد سے اس کا کمرہ ویسے کا ویسا ہی تھا. ہلکی گلابی اور کاسنی رنگ کی دیواریں، ایک کونے میں اس کا بچپن کے زمانے کا سفید کاٹ اور اس کے اندر اس کے پرانے کھلونے. الماری میں ڈھیر ساری کتابیں اور دیواروں پر لگے مغربی پاپ موسیقاروں اور گلوکاروں کے اونچے اونچے پوسٹر. ایک دیوار صرف نتاشہ کی اپنی اور میرے ساتھ کھینچی لاتعداد تصویروں کے لئے مخصوص تھی. کتنی حیرت کی بات تھی. میرا اور میری بیٹی کا ساتھ کہنے کو تو پچیس سالوں پر محیط تھا لیکن وہ پچیس سال صرف پچیس تیس رنگین کاغذ کے ٹکڑوں میں سمٹ آئے تھے

عینی حیرانگی سے کمرے کو دیکھتی رہی. میں نے اس کو بستر پر لٹایا، آرام سے اس کے جوتے اور موزے اتارے، جیکٹ اتاری. پھر واش روم سے گرم پانی میں تولیہ بھگو کر لایا اور اچھی طرح سے اس کا چہرہ اور گردن صاف کئے

‘تم آرام سے سو جاؤ. صبح تمھاری طبیعت سنبھل جائے گی تو جہاں کہو گی چھوڑ آؤں گا’

میں لائٹ آف کر کمرے سے نکلنے لگا تو اس نے کہا

‘مجھے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا ہے. اگر ممکن ہو تو لائٹ جلی چھوڑ جایئں’

میں نے مسکرا کر بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کے ساتھ لگا سوئچ آن کیا تو کمرے کی چھت پر ستارے چمکنے لگے اور پوشیدہ سپیکروں سے، بہتے پانی اور سرسراتی ہوا کی سکون آمیز سرگوشیاں پھیلنے لگیں. میں نے نتاشہ کی خاص فرمائش پر یہ سسٹم باہر سے منگوا کر لگایا تھا

اب ٹھیک ہے؟’ میں نے مسکراتے ہوئے عینی سے پوچھا اور اس کے معصومیت سے اثبات میں سر ہلانے پر، اس کے سر پر شفقت سے تھپکی دی

‘سو جاؤ شاباش. تمھیں یہاں کوئی تنگ نہیں کرے گا’


وہ رات میں نے ٹی وی لاؤنج میں آرام کرسی پر، پائپ اور کافی پیتے گزار دی. کھڑکی سے رہ رہ کر چمکتی بجلی طوفان کی شدّت کا احساس دلا رہی تھی. کبھی کبھی بجلی کڑک کر سمندر کے سیاہ پانیوں سے بغلگیر ہوتی، تو پورا منظر روشن ہوجاتا. باہر طوفان شدّت پر ضرور تھا مگر میرا فلیٹ ساونڈ پروف ہونے کی وجہ سے بالکل خاموش تھا. صبح ہونے کو تھی جب آرام کرسی پر بیٹھے بیٹھے، میری آنکھ لگ گئ

.سر یہ کافی……..!’ کسی نے نرمی سے میرا کندھا دبایا تو میں چونک کر اٹھا

عینی میرے سامنے کافی کا بھاپ اڑاتا مگ لئے کھڑی تھی. وہ شاید نہا دھو کر آئ تھی، کیونکہ اس کے بالوں میں ابھی تک نمی موجود تھی اور چہرہ میک اپ سے عاری، صاف شفّاف تھا. بالکل ویسے ہی جیسے، بارش میں دھل کر پھول نکھر جاتے ہیں. میں نے گھڑی پر نظر ڈالی تو صبح کے نو بج چکے تھے. باہر ابھی تک شدید بارش ہورہی تھی

.ارے تم نے کیوں تکلیف کی؟’ میں نے مگ پکڑتے ہوئے کہا

.تکلیف کیسی سر؟ اور پھر آپ نے بھی تو میرے لئے پوری رات جاگتے گزار دی.’ اس نے مسکرا کر کہا

‘اچھا تم بیٹھ کر ٹی وی دیکھو. میں ذرا فریش ہو آؤں. پھر مل کر ناشتہ کرتے ہیں’

میں نہا دھو کر اور کپڑے تبدیل کر کے آیا تو عینی کھڑکی سے لگی کھڑی،باہر موسم کا نظارہ کر رہی تھی

مجھے بارشیں بہت پسند ہیں سر. اندر باہر موسم ایک ہوجاتا ہے.’ میرے قدموں کی چاپ سن کر اس نے مڑ کر میری طرف دیکھا

.ہاں…! صحیح کہتی ہو. مجھے بھی بارشیں بہت اچھی لگتی ہیں.’ میں نے کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے کہا

‘لیکن میری نتاشہ کو بارشیں بالکل پسند نہیں تھیں. وہ دھوپ میں کھیلتی تتلی تھی. اسے سورج کی حرارت اچھی لگتی تھی’

‘نتاشہ آپ کی بیٹی ہے؟ میں رات کو اس کے کمرے میں سوئ تھی؟’

.ہاں! وہ کمرہ نتاشہ کا ہی ہے.’ میں نے سر ہلاتے جواب دیا

.اب کہاں ہے وہ؟’ عینی نے میرے لہجے میں افسردگی محسوس کرتے ہوئے پوچھا

‘چلی گئ. مجھ سے ناراض ہوکر چلی گئ’

‘کہاں چلی گئ؟ آپ تو اتنے اچھے ہیں پھر وہ آپ سے ناراض کیوں ہوگئ؟ اور آپ نے اس کو جانے کیسے دیا؟’

عینی نے پے در پے سوال پوچھے تو میں اپنی یادوں کے چنگل سے باہر نکل آیا

چھوڑو اس بات کو. بہت لمبی کہانی ہے. جانا یا رکنا ہمارے اپنے ہاتھ میں کہاں ہے؟ اور پھر جو جانا چاہے، اسے روکا نہیں جا سکتا.’ میں نے ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف دیکھا

‘خیر یہ ہم کن باتوں میں پڑ گئے؟ میں نے تمہاری صحت کے بارے میں تو پوچھا ہی نہیں’

.میں بالکل ٹھیک ہوں سر. بس تھوڑی سی کمزوری باقی ہے.’ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا

خیر کمزوری کا تو کوئی مسلہء نہیں. ابھی ٹھیک کئے دیتے ہیں.’ میں ناشتہ بنانے کچن میں گیا تو وہ میرے ساتھ ساتھ ہی چلی آئ

.ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ابھی کچھ دن تمھیں آرام کی ضرورت ہے.’ میں نے برنر جلاتے ہوئے کہا

.میرے پیشے میں آرام ممکن نہیں ہے سر.’ اس نے کاونٹر سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا

‘کیوں؟’ میں نے چونک کر پوچھا. ‘تم ایسا کیا کرتی ہو کہ آرام ممکن نہیں؟’

اپنے جواب میں صرف خاموشی پا کر میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ چپ چاپ سر جھکائے کھڑی اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی. پھر اس نے اپنی معصوم آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور دھیمے سے بولی

‘میں ایک پروسٹیچوٹ ہوں سر……ایک ہائی کلاس کال گرل’

ہوں……!’ میں ایک لمبا ہنکارا بھر کر خاموش ہوگیا. پھر فرج کھول کر انڈے اور ٹماٹر نکالے اور چھری کی تلاش میں کاونٹر کی طرف دیکھا جہاں وہ کھڑی تھی

‘بیٹے ذرا اپنے پیچھے دراز سے مجھے چھری تو نکال کر دینا’

.جی……..؟’ وہ حیرت سے کچھ زیادہ نہیں بول سکی

.چھری……جس سے ٹماٹر کاٹتے ہیں.’ میں نے مسکراتے ہوئے کہا

.جی…!’ اس نے مڑ کر دراز سے چھری نکالی اور میرے بڑھے ہاتھ میں تھما دی

‘سر آپ کو برا نہیں لگا سن کر؟’

نہیں تو. برا کیوں لگے گا؟ لیکن میں تھوڑا اداس ضرور ہوگیا ہوں. یہ تمھارے کھیلنے اور پڑھنے کے دن ہیں. جسم بیچنے کے نہیں.’ میں نے ٹماٹر کاٹتے ہوئے جواب دیا

عجیب آدمی ہیں آپ سر. یہ جان کر کہ میں ایک کال گرل ہوں، مرد یا تو شوقین نگاہوں سے گھورتے ہیں، یا میرا ایک رات کا ریٹ پوچھتے ہیں اور یا پھر استغفراللہ کہ کر نفرت سے منہ پھیر لیتے ہیں.’ اس نے حیرانگی سے کہا

میں ذرا مختلف قسم کا انسان ہوں. میرے اپنے گناہ اس قدر زیادہ ہیں کہ میں کسی اور کو برا سمجھنے کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا. اور پھر مجھے مجبور لوگوں سے محبت ہے

‘یہ کس نے کہا کہ میں مجبور ہوں؟’

.کہا تو کسی نے نہیں لیکن بہت دنیا دیکھی ہے میں نے.’ میں نے بدستور ٹماٹر کاٹتے ہوئے کہا

.یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ میں مجبور نا ہوں بلکہ کال گرل بننا میری خواہش ہو؟’ اس نے مجھے کریدتے ہوئے پوچھا

ہاں! بالکل ہوسکتا ہے لیکن خواہشوں کی مجبوری بھی تو مجبوری ہی ہے. اور نیک اور گناہگار، ہم سب اپنی اپنی خواہشوں کی گٹھریاں کندھوں پر اٹھا کر چلتے ہیں

اور بھلا آپ کو مجبور لوگوں سے کیوں محبت ہے؟’ اس نے مجھ سے پوچھا

دیکھو بیٹی، اس دنیا میں ہر انسان محبت کا حقدار ہے. مجبور لوگوں سے محبت کرنا تھوڑا مشکل ضرور ہے لیکن بہت ضروری ہے. اسی لئے تو ہمیں پیدا کیا گیا ہے

.چھوڑو اس بات کو. تم یہ بتاؤ کہ تم کال گرل کیسے بنی؟’ میں نے پوچھا تو وہ ہنس کر بولی

‘یہ لمبی کہانی ہے سر’

میں بھی ہنس کر دوبارہ ناشتہ بنانے میں مگن ہوگیا


ناشتے سے فارغ ہوئے تو بارش ابھی بھی لگاتار جاری تھی. اس بیچاری کے پیٹ میں ابھی ناشتہ گئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ وہ ایک ابکائی لیکر واش روم کی طرف دوڑی. تھوڑی ہی دیر میں سب کھایا پیا نکل گیا اور وہ کمزوری سے نڈھال ہوگئ. میں نے ڈاکٹر کی دی ہوئی دوائیاں دیکر اسے پھر سے سلا دیا اور خود بھی اپنے بیڈروم میں جا کر لیٹ گیا. آنکھ ایسی لگی کہ مغرب کے وقت کھلی. میں نے عینی کو چیک کیا تو وہ بدستور سوئی ہوئی تھی. میں نے اسے جگانا مناسب نہیں سمجھا اور ایک کتاب اٹھا کر دوبارہ لاؤنج میں بیٹھ گیا

رات کے دس بجے تو میں نے پھر سے عینی پر ایک نظر ڈالنے کا سوچا. وہ کچھ کسمسا سی رہی تھی اور میرے دروازہ ہلکے سے کھٹکھٹانے پر ہی اٹھ کر بیٹھ گئ

‘بہت دیر ہوگئ ہے سر.’ اس نے پریشانی سے کہا. ‘پلیز مجھے میرے گھر چھوڑ آیئں

‘ہاں ضرور. کہاں رہتی ہو تم؟’

میں یہیں قریب ڈیفنس میں،ایک چھوٹے سے فلیٹ میں، اپنی دو سہیلیوں کے ساتھ رہتی ہوں.’ اس نے بستر سے اٹھتے ہوئے جواب دیا مگر پھر چکرا کر واپس گر گئ

تمھاری حالت ٹھیک نہیں ہے عینی. تمھیں ابھی آرام کی ضرورت ہے. تم ایسا کرو کہ فون کر کے اپنی سہیلیوں کو بتا دو کہ تم میرے ہاں ہو.’ میں نے اس کے اوپر کمبل درست کرتے ہوئے کہا

.آپ سمجھ نہیں رہے سر.’ اس کی آنکھوں میں وحشتوں کے سایے رقصاں تھے

‘سہیلیوں کا مسلہء نہیں ہے. مسلہء پیٹر کا ہے’

.پیٹر؟ پیٹر کون؟’ میں نے حیرانی سے پوچھا

.پیٹر میرا پمپ ہے سر…….میرا دلال!’ اس نے تھوڑا شرمندہ ہوتے ہوئے کہا

‘وہ مجھے ڈھونڈ رہا ہوگا. دیر سے جاؤں گی تو مار مار کر لہولہان کر دے گا’

.اوہ!’ میں پریشان ہوکر وہیں اس کے پاس بیٹھ گیا

‘مگر تمھاری حالت ایسی نہیں کہ تم جا سکو. کیا تم پیٹر کو بتا نہیں سکتی کہ تم دو تین دن کیلئے فارغ نہیں ہو؟’

پیٹر کے نزدیک میں صرف ایک بزنس پروڈکٹ ہوں سر. وہ مجھے نوچنے کے پیسے لیتا ہے. اسے میری صحت سے کوئی سروکار نہیں.’ اس کے چہرے پر ابھی بھی سراسیمگی تھی

‘تو تم اس کو بتا دو کہ کل جس کے پاس تھی، آج بھی وہیں ہو’

.یہ کام ایسے نہیں ہوتا سر. وہ میرے گاہک سے رات کے پیسے ایڈوانس میں لیتا ہے.’ اس نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا

.کتنے پیسے ……کتنے پیسے ہوتے ہیں ایک رات کے؟’ میں نے ہچکچاتے ہوئے پوچھا

.پچیس ہزار!’ اس نے سر جھکا کر جواب دیا

‘اگر میں اس کو جا کر ایک لاکھ دے دوں تو وہ اگلے چار روز تمھیں تنگ تو نہیں کرے گا؟’

‘آپ دیں گے پیسے؟’ عینی نے ششدر ہو کر پوچھا. ‘آپ کیوں دیں گے پیسے؟’

.دیکھو بیٹے، میرے پاس پیسے کی کمی نہیں. اور تمھیں آرام کی ضرورت ہے.’ میں نے شفقت سے مسکراتے ہوئے کہا

پہلے تو وہ نہیں مانی مگر پھر میرے بیحد اصرار کرنے پر پیٹر کو فون کرنے کیلئے تیار ہوگئ


پیٹر کون تھا؟ کیسا دکھتا تھا؟ کہانی کی طوالت کے پیش نظر میں ان سب باتوں کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا. قصّہ مختصر، عینی کے فون کرنے پر پیٹر میرے فلیٹ پر آیا، میرا اور فلیٹ کا جائزہ لیا، ایک خبیث مسکراہٹ سے مجھے نوازا اور نوٹوں کی گڈّی لیکر یہ جا وہ جا

اگلے دن میری آنکھ عینی کے جگانے پر کھلی

‘اٹھیں سر، جلدی سے فریش ہو کر آ جایئں. میں نے ناشتہ تقریباً بنا ہی لیا ہے’

نتاشہ کے چلے جانے کے بعد اس دن پہلی دفعہ مجھے ناشتے کا بہت مزہ آیا. ناشتہ کر کے فارغ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ عینی نے ابھی تک وہ ہی اپنی جینز کی پتلون اور ایک سیاہ ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی

عینی تم الماری سے نتاشہ کے کوئی کپڑے نکال کر پہن لو. بےتحاشہ کپڑے پڑے ہیں. تمھیں کوئی نا کوئی پورا ضرور آ جائے گا

.سچ میں سر؟ میں پہن لوں نتاشہ کے کپڑے؟ آپ کو برا تو نہیں لگے گا؟’  اس نے بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے پوچھا

‘ہاں ضرور پہن لو. مجھے بھلا کیوں برا لگے گا؟’

عینی نتاشہ کے کپڑوں میں سے، ایک گرے رنگ کی جینز اور کھلی سی آسمانی رنگ کی ٹی شرٹ پہن کے آئ، تو کچھ لمحے کیلئے مجھے یوں لگا کہ نتاشہ پھر سے میرے سامنے آ گئ ہو. میری آنکھوں میں نمی امڈتے دیکھ کر عینی تھوڑی پریشان ہوگئ

‘سوری سر’

کوئی بات نہیں. مجھے میری بیٹی یاد آ گئ. بالکل تمھارے جتنی تھی جب وہ مجھ سے ناراض ہو کر چلی گئ.’ میں نے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھتے ہوئے کہا

.کیا ہوا تھا سر؟ وہ آپ سے ناراض کیوں ہوئی؟’ عینی نے کارپٹ پر بیٹھ کر اور گھٹنوں پر تھوڑی رکھ کر پوچھا


نتاشہ میری اکلوتی بیٹی تھی اور بیوی کی وفات کے بعد میرا واحد اثاثہ.’ میں نے کھڑکی سے باہر سمندر کی مچلتی لہروں کو دیکھتے ہوئے کہا. ‘کم از کم، مجھے تو یہی لگتا تھا کہ ہم دونوں کے بیچ، کسی تیسرے کی گنجائش نہیں تھی لیکن زندگی بڑی ظالم چیز ہے. اس نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور اپنے ساتھ پڑھنے والے ایک لڑکے وجدان کی محبت میں گرفتار ہوگئ. اس کیلئے تو وجدان مشرق سے ابھرتا ہوا سورج تھا لیکن مجھے پہلی ہی ملاقات میں، لڑکے کی شخصیت اور کردار کا اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا. باقی کسر، معمولی سی پوچھ گچھ سے پوری ہوگئ. بہت شاطر لڑکا تھا. کئی لڑکیوں کو محبت کے جال میں الجھا کر برباد کر چکا تھا. نتاشہ میں اس کی دلچسپی، میری زمینوں کی وجہ سے تھی. وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ میرے بعد، نتاشہ ہی میری جائداد کی وارث تھی

میں نے نتاشہ کو سمجھانے کی بہت کوشش کی. لیکن وہ اپنی وقتی چاہت کو محبت سمجھ بیٹھی تھی. باپ کی کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا. ایک دن وجدان کے والدین اس کا رشتہ لیکر آ گئے. میں نے بےعزتی کرنا تو مناسب نہیں سمجھا لیکن صاف صاف انکار کر دیا. نتاشہ کو مجھ سے بیحد محبت تھی لیکن جوان تھی اور بہت جذباتی بھی. پہلے تو مجھے منانے کی کوشش کی مگر میرے صاف صاف انکار پر، اگلے ہی دن مجھے چھوڑ کر چلی گئ. اس نے ایک لمحے کو بھی، بوڑھے باپ کی محبت کا خیال نہیں کیا. لیکن خیر، اب میں سوچتا ہوں کہ کاش میں نے انکار نا کیا ہوتا تو آج میری بیٹی میرے پاس ہوتی

.آپ غم نا کریں سر. وہ ایک دن ضرور واپس آ جائے گی.’ عینی نے مجھے ایک پانی کا گلاس لا کر دیا

.کاش ایسا ہوسکتا!’ میں نے بےبسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا

‘خیر اب تمھاری باری. تم بتاؤ تم کال گرل کیسے بنی؟ تمھارے والدین کہاں ہیں؟’

میں لاہور کے رہنے والے ایک غریب رکشے والے کی بیٹی تھی سر.’ عینی نے کارپٹ پر اپنی جگہ سنبھالتے ہوئے اپنی کہانی کا آغاز کیا

میرا باپ ٹھیکے پر رکشا چلاتا تھا اور میری ماں محلے والوں کے کپڑے سیتی تھی. کچھ نا کچھ گزر بسر ہو ہی جاتی تھی. پھر میرا باپ بری صحبت میں پڑ گیا اور نشے کا عادی ہوگیا. ماں کے سیے کپڑوں سے اتنی آمدنی نہیں ہوتی تھی کہ گھر کا خرچہ چل سکے. غریبوں کا محلہ تھا. سلائی والے کپڑے بھی بہت کم ہوتے تھے. ہم تین بہنیں تھیں لہذا فاقوں پر فاقے ہونے لگے. کئ دفعہ تو میرا باپ نشہ ٹوٹنے پر میری ماں کو اتنا مارتا کہ بیچاری بستر پر پڑ جاتی

پھر ایک دن میرے باپ نے نشے کے پیسے نا ہونے پر میری ماں کو ایک ہیروئن فروش کے ہاتھوں بیچ ڈالا. پتا نہیں اس دن میری کمزور ماں کے ہاتھوں میں اتنی طاقت کہاں سے آ گئ. اس نے رات کو پھل کاٹنے والی چھری اس ہیروئن فروش کے سینے میں اتار دی اور ہم تین چھوٹی بہنوں کو لیکر گھر سے نکل آئ. چلتے چلتے ہم ایک نہر کے کنارے جا پہنچے. میری ماں نے ہم تینوں کے ہاتھ پیر ایک ہی رسی سے باندھے اور اسی رسی کا ایک سرا اپنی کمر سے باندھ لیا. میں عمر میں باقی دونوں بہنوں سے بڑی تھی. مجھے کچھ کچھ ماں کی نیّت کا اندازہ ہوگیا. میں نے رو رو کر ماں کی منت کی. اس کے پاؤں پکڑے لیکن اس کے ارادے میں بہت طاقت تھی. اس نے ہمیں نہر میں دھکّا دیا اور خود بھی کود پڑی. جب مجھے ہوش آیا تو صرف میں زندہ بچی تھی. ماں اور دونوں بہنیں ڈوب کر مرچکی تھیں

‘ماں کے مرنے کے بعد میں دوبارہ باپ کے ہتھے چڑھ گئ اور جلد ہی اس نے میرا بھی سودا تہ کر دیا’

‘آپ کو پتا ہے سر……؟’ اس نے ڈبڈبائ نظروں سے میری طرف دیکھا. ‘ایک نو سال کی بچی کی عزت کی کیا قیمت لگائ گئ؟’

صرف دو ہزار روپے. پھر میں لڑکی نہیں رہی. تجارت کا مال بن گئ. ایک گاہک سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا. بکتی رہی. پھر ایک دن میں پیٹر کے ہاتھ لگ گئ. اس کو اچھی طرح پتہ تھا کہ میں چونکہ شکل و صورت کی اچھی تھی، میرا بہتر استمعال ہوسکتا تھا. اس نے میرے اوپر بہت پیسہ خرچ کیا. انگریزی بولنا سکھایا، بڑے لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا سکھایا. میں نے بھی دل لگا کر سب کچھ سیکھا اور ایک ہائی کلاس کال گرل بن گئ

تھوڑی دیر کمرے میں بالکل خاموشی چھائی رہی

.میرے ساتھ ایک ڈیل کریں گے سر؟’ عینی نے پوچھا تو میں نے چونک کر سر اٹھایا

‘ڈیل؟ کیسی ڈیل؟’

ہمارے پاس چار دن ہیں. ان چار دنوں میں آپ میرے لئے ایک محبت کرنے والے باپ کی کمی پوری کریں اور میں آپ کی بیٹی کی کمی پوری کرنے کی کوشش کروں گی

‘گمشدہ رشتوں اور رشتوں کی محبت کی کمی، ایسے پوری نہیں ہوتی عینی……لیکن خیر، میں تیار ہوں’


وہ چار دن میرے لئے واقعی یادگار بن گئے. اس نے واقعی مجھ سے بیٹیوں کی طرح محبت کی. میرا بالکل ایسے خیال رکھا کہ جیسے صرف نتاشہ ہی رکھ سکتی تھی. میرے کپڑے نکال کر غور سے جائزہ لیا. پرانے کپڑے پھینک دئے. کچھ کے بٹن دوبارہ لگائے. میرے لئے کھانا باقائدگی سے پکاتی رہی. میری کتابوں پر گرد پوش چڑھائے. یہاں تک کہ میرے پاؤں بھی دبائے. میں منع ہی کرتا رہ گیا لیکن اس نے میری ایک نہیں سنی

میں نے بھی پوری کوشش کی کہ اسے بتا سکوں کہ ایک شفیق باپ کی محبت کیسی ہوسکتی تھی. میں نے اسے بہت سیر کروائی. پورا کراچی لیکر گھوما. جو کہا کھلایا، جو کہا پلایا. یہاں تک کہ اس کی خاطر میں اس بڑھاپے میں، کلفٹن کے فن لینڈ میں جھولوں پر بھی بیٹھا


مجھے ابھی تک یاد ہے کہ وہ چار دنوں میں سے آخری دن تھا. ہم ڈیفنس کے ایک نئے تعمیر شدہ شاپنگ پلازہ میں پھر رہے تھے

.میں چاہتا ہوں کہ تمھیں کچھ کپڑے اور جوتے لے دوں. میری مرضی کے نہیں، تمھاری مرضی کے.’ میں نے اس سے کہا

نہیں سر. مجھے کپڑے یا جوتے نہیں چائییں. آپ نے کچھ لیکر دینا ہے، تو ایک گڑیا لے دیں.’ اس نے تقریباً ضد کرتے ہوئے کہا

‘گڑیا؟’ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا. ‘گڑیا کا کیا کرو گی تم؟’

جب میں چھوٹی سی تھی نا سر، تو مجھے سنہرے بالوں والی گڑیا لینے کا بہت شوق تھا.’ عینی کی آنکھوں میں ناآسودہ خواہشات کے چراغ جل پڑے

لیکن میرے ماں باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ میری ضد پوری کر سکیں. بس میری ماں کبھی کبھی پرانے کپڑوں کی کترنوں سے ایک گڑیا سی دیتی تھی. وہ اصل گڑیا جیسی تو نہیں ہوتی تھی لیکن کچھ دیر کو میرا شوق دھیما ضرور پڑ جاتا تھا. بس آپ مجھے ایک اچھی سی گڑیا لے دیں.’ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر بالکل بچوں کی طرح ضد کی

میں انکار نہیں کر سکا. ہم نے بہت ڈھونڈ ڈھانڈ کر، ایک کھلونوں کی دوکان سے خوبصورت نیلی آنکھوں اور سنہرے بالوں والی گڑیا خریدی. عینی نے گاڑی میں بیٹھتے ہی بچوں کی طرح اس گڑیا کو سینے سے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی. میں کچھ نہیں بولا. بس پیار سے اس کے گھنے بالوں سے ڈھکی گردن سہلاتا رہا. پھر مجھے بھی اپنی نتاشہ کی یاد آ گئ. اور نا چاہتے ہوئے بھی میری آنکھوں میں ڈھیروں آنسو امڈ آے

سر….!’ عینی نے مجھے روتے دیکھا تو پوچھنے لگی. ‘نتاشہ کہاں ہے؟ مجھے اس کا پتہ بتایئں. میں وعدہ کرتی ہوں، میں اسے منا کر ضرورآپ کے پاس واپس لے آؤں گی

‘تم سمجھتی نہیں ہو عینی. نتاشہ کبھی واپس نہیں آ سکتی’

.کیوں سر؟ کیوں واپس نہیں آ سکتی؟’ اس نے بیقرار ہو کر پوچھا

میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور گاڑی سٹارٹ کر کے پلازے کی پارکنگ سے باہر نکالی. وہ چپ چاپ مجھے گاڑی ڈرائیو کرتے دیکھتی رہی

میرے ساتھ آؤ.’ میں نے ڈیفنس کے قبرستان کے باہر گاڑی روکی اور عینی کا ہاتھ پکڑ کر، اندر داخل ہوگیا. وہ بیچاری خاموشی سے میرے ساتھ ساتھ چلتی رہی

چلتے چلتے ہم کالے ماربل سے ڈھکی مگر کتبوں کے بغیر دو سادہ سی قبروں تک پہنچ گئے

.یہ کن کی قبریں ہیں سر؟’ عینی نے پریشان ہوکر پوچھا

‘یہ میری بیوی اور نتاشہ کی قبریں ہیں’

‘کیا کہ رہے ہیں آپ؟’ عینی نے بے چینی سے پوچھا. ‘نتاشہ مر گئ؟ مگر کیسے؟’

میں نے تمھیں بتایا تھا نا کہ وجدان کے گھر والوں کو انکار کرنے پر، نتاشہ مجھ سے ناراض ہوگئ تھی.’ میں نے قبر کے پاس زمین پر بیٹھتے ہوئے کہا

‘بس جب اگلے دن میں یونیورسٹی سے واپس آیا تو ٹی وی لاونج میں نتاشہ پنکھے سے لٹکی جھول رہی تھی’

.سر……..!’ عینی اس سے آگے کچھ نہیں بول سکی اور وہیں زمین پر میرے ساتھ بیٹھ گئ

میرے جسم میں جیسے صدیوں کی تھکن اتر آئ تھی. ہم دونوں بہت دیر وہیں، ان دو اکیلی قبروں کے پاس لٹے پٹے مسافروں کی طرح، بیٹھے روتے رہے


جب ہم گھر واپس آئے تو بہت رات ہو چکی تھی. لیکن ہم دونوں کا سونے کا دل نہیں تھا. میں نے وہیں ٹی وی لاؤنج میں آرام کرسی پر بیٹھ کر پائپ سلگا لیا اور عینی میرے قدموں میں بیٹھ گئ

.عینی……ایک بات کہوں، مانو گی؟’ میں نے اپنے زانو پر دھرا اس کا سر پیار سے سہلاتے ہوئے کہا

‘جی سر…..ضرور مانوں گی’

عینی، تم یہیں میرے پاس رک جاؤ. میری نتاشہ بن جاؤ. میں وعدہ کرتا ہوں تمھیں کوئی تکلیف نہیں ہونے دوں گا.’ میں نے گلوگیر لہجے میں اس سے درخواست کی

‘نہیں سر. ایسے نا کہیں پلیز. میں نتاشہ بننے کے قابل نہیں ہوں’

میں نے بار بار اپنی درخواست دہرائ. اس نے بار بار انکار کیا. پھر ہم دونوں خاموش ہوگئے. پتہ نہیں وہیں بیٹھے بیٹھے، کب نیند نے آن گھیرا


صبح میری آنکھ کھلی تو گھر میں سناٹا چھایا ہوا تھا. میں نے ڈرتے دل کے ساتھ اٹھ کر نتاشہ کے کمرے میں جھانکا. بسترپر کوئی سلوٹ نہیں تھی. بس سرہانے پر عینی کی گڑیا پڑی ہوئی تھی اور پائنتی کی طرف، نتاشہ کے وہ تمام کپڑے سلیقے سے تہ کئے پڑے تھے، جو عینی کے زیر استمعال رہے تھے

پھر ایک دن مجھے ایک پارسل ملا. میں نے کھولا تو اس میں ایک لاکھ روپئے تھے اور ساتھ ایک پرچی تھی جس پر لکھا تھا

‘ایک محبت کرنے والی بیٹی کی طرف سے ایک شفیق باپ کیلئے. بہت شکریہ کے ساتھ’

میں نے عینی کو بہت ڈھونڈا. لیکن جو ملنا نا چاہ رہے ہوں وہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے.مگر عینی کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی. ایک دن میں نے صبح اخبار کھولا تو آخری صفحے پر عینی کی تصویر تھی. اس کی تشدد زدہ لاش، ڈیفنس کے ایک چوراہے کے پاس سے ملی تھی. پولیس نے معمول کی کاروائی مکمّل کر کے لاش ایدھی والوں کے سپرد کر دی تھی

میں نے بوجھل دل کے ساتھ عینی کی لاش ایدھی والوں سے وصول کی. اس کے مردہ چہرے پر ویسی ہی معصومیت روشن تھی

قبر میں مٹی ڈالنے سے پہلے، میں نے بغل میں دبائی سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی گڑیا نکالی اور نیچے اتر کر، عینی کے پہلو میں احتیاط کے ساتھ رکھ دی

خدا حافظ عینی!’ میں نے اس کے پھول سے وجود کو، بھاری دل کے ساتھ الوداع کہا اور کفن کے اوپر سے ہی، اس کی پیشانی چوم لی

وہاں ڈیفنس کے اس قبرستان میں اب بغیر کتبے کے تین اکیلی قبریں تھیں

#Urdu #fiction #story #hooker #prostitute #judgement #loneliness #love #kindness #father #daughter #Karachi #graves #graveyard #doll

عشق پاء

گڑھی شاہو کے نہایت مصروف مرکزی بازار میں ایک مجمع اکٹھا تھا. ‘مارو!…اور مارو!’ کی صدایئں بلند ہورہی تھیں. مجمعے کے عین درمیان، سلیم کھڑا نہایت صبر اور معصومیت سے پٹ رہا تھا؛ اور قریب کھڑی کالے برقعوں میں ملبوس دو نوجوان لڑکیاں، لوگوں کو اور مارنے پر اکسا رہی تھیں

.آخر ہوا کیا؟ کیوں مار رہے ہو لڑکے کو؟’ ایک چسکے کی ماری موٹی تازی عورت نے آگے بڑھ کر لڑکیوں سے پوچھا’

کوئی بہت انتہاء کا بےشرم سیلزمین ہے. جوتیاں ٹرائی کراتے کراتے کہنے لگا……باجی! آپ کے پاؤں بیحد خوبصورت اور دلکش ہیں. اگر اپنے پاؤں کو ایک دفعہ چومنے کی اجازت دیں تو بیشک مفت میں جوتی کا جوڑا لے جایئں.’ ایک برقعہ پوش لڑکی نے ہاتھ لہرا کر بتایا


Read more: عشق پاء

اس دن سلیم کو پہلی دفعہ ایسی حرکتیں کرنے پر مار نہیں پڑی تھی. بیچارے نے جہاں جہاں بھی نوکری کی، نسوانی پیروں کے عشق میں کی تھی اور ہر جگہ اپنے فیٹش کے ہاتھوں ذلیل ہوا تھا

پہلے ایک دربار پر جوتیوں کی نگرانی کا کام کرتا تھا. زائرین میں سے کسی عورت کے پاؤں بہت پیار سے سہلانے پر مار پڑی تو اٹھ کر ہیرا منڈی میں گھنگرو بنانے بیٹھ گیا. وہاں پر ایک رنڈی کے پیروں سے لگ کر بیٹھنے پر ذلیل کر کے نکالا گیا تو عیدالفطر پر خواتین کو مہندی لگانے کا کام پکڑ لیا. پہلے بدصورت پیروں کو  مہندی لگانے سے انکار پر مسلسل ڈانٹ کھاتا رہا. پھر کسی تھانیدار کی رشتےدار عورت کے نازک پیروں پر عاشق ہوگیا. اتنی مار پڑی کہ ہسپتال داخل ہونا پڑا. وہاں سے نکلا تو گڑھی شاہو میں ایک گرگابیوں کی چھوٹی سی دوکان پر سیلزمین بھرتی ہوگیا


یہ دنیا بہت عجیب جگہ ہے. ہر انسان کا متضاد جںس کیلئے جنون یا فیٹش الگ ہے. کسی کو چہروں سے لگاؤ ہوتا ہے. کسی کو جسموں سے. کسی کو پتلے دبلے لوگ متوجوہ کرتے ہیں تو کسی کو موٹے اور صحت مند لوگوں میں کشش نظر آتی ہے.انسانی نفسیات میں جنون یا فیٹش کا موجود ہونا کوئی عجیب بات نہیں لیکن یہ امر واقعی غور طلب ہے کہ ہر انسان کو دوسرے کا فیٹش بیماری نظر آتا ہے

خیر میں کہ رہا تھا کہ اس دنیا میں ہر انسان کا فیٹش الگ ہوتا ہے. لیکن سلیم کا فیٹش بہت انوکھا تھا. اس کو بہت بچپن سے ہی صرف نسوانی پیروں سے لگاؤ تھا. گورے چٹے اور نازک گلابی پاؤں اسکی جان کھینچ لیتے تھے. ایسا کیوں تھا؟ خیر اس کا جواب تو سلیم کی تحلیل نفسی کے بعد ہی دیا جا سکتا تھا

محلے کی عورتیں اور بہنوں کی سہیلیاں، سب سلیم کو بہت ہی شریف لڑکا سمجھتیں تھیں. نظریں جو ہمیشہ جھکی رہتی تھیں اس کی. اب ان کو یہ کیسے پتہ چلتا کہ سلیم کی عاشق نظریں مسلسل ان کے پیروں کا طواف کر رہی ہوتی تھیں. پھر وہ احتیاط بھی بہت کرتا تھا. دونوں بہنوں کی شادی کی عمر ہو چکی تھی. اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے کسی بھی غلط عمل کا سیدھا اثر ان کے مستقبل پر ہوسکتا تھا


اس دن بازار میں مار تو بہت پڑی لیکن خوش قسمتی سے چہرہ بچ گیا. باقی درد برداشت کرنے کا مادہ بہت تھا لہٰذا ماں اور بہنیں، کسی کو بھی پتہ نہیں چلا

بدقسمتی یہ ہوئی کہ جس دوکان پر سیلزمین کی نوکری کرتا تھا، اس کا مالک سلیم کے ماموں کا جگری یار تھا. ایک دن دوستوں کی ملاقات ہوئی تو چسکہ لے لے کر اور مرچ مسالہ لگا کر سارا قصہ رپورٹ ہوگیا. اب ماموں ٹھہرے پرانی وضع کے آدمی. ان کو سلیم کے اصل مسلے کی تو سمجھ نہیں آ سکی. بس یہ نتیجہ نکالا کہ لڑکا جوان ہوچکا تھا

گھر میں غربت نہیں تھی. باپ کی چھوڑی دو چار جائیدادوں سے کرایہ باقائدگی کے ساتھ آتا تھا. نوکری تو سلیم اپنے فیٹش کے پیچھے کرتا تھا. ماموں نے ماں سے بات کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ماں نے اپنی کسی سہیلی کی بیٹی سے رشتہ پکا کر کے شادی کی تاریخ مقرر کر دی

سلیم کو لڑکی دکھانے یا اس کی خواہش پوچھنے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا. بازار میں پڑی مار پر شرمندگی کی وجہ سے سلیم بھی احتجاج نہیں کر سکا

پھر دونوں بہنوں نے مل کر لڑکی کے حسن کے اتنے قصیدے پڑھے کہ سلیم کا دل بھی مچلنے لگا. لڑکی کشمیری ذات کی تھی اور بہنوں کے مطابق، اتنی گوری چٹی تھی کہ انگلی لگانے سے میلی ہوتی تھی


خدا خدا کر کہ شادی کا دن بھی آ گیا. بارات لڑکی کو لیکر واپس پہنچی تو ہر دیکھنے اور ملنے والیوں نے دلہن کو دیکھ کر دانتوں میں انگلیاں داب لیں. سلیم کی ماں نے واقعی چن کر بہو کا انتخاب کیا تھا

سلیم نے بھی آئینے میں دلہن کی ایک جھلک ہی دیکھی تو دل تھام کر رہ گیا. اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے نصیب میں کبھی ایسی حور پری بھی آ سکتی تھی

ماں نے بھی سلیم کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ ناچتے دیکھی تو سکھ کا سانس لیا. جلدی جلدی عورتوں کو رخصت کیا اور دونوں بہنوں کے ساتھ مل کر بہو کو تیسری منزل پر تیار کی گئ اور سجائی گئ خواب گاہ میں لے گئ

سلیم نے بھی دوستوں سے پیچھا چھڑوایا اور ماں کی دعایئں لے کر جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ گیا. بس وہ آخری دفعہ تھا کہ جب ماں نے بیٹے کو جیتا جاگتا دیکھا. اس کے ٹھیک دس منٹ کے بعد سلیم نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہرگلی میں کود کر خودکشی کر لی


ارے میں تو پری سمجھ کے لائ تھی مگر یہ تو چڑیل نکلی. کلیجہ چبا گئ میرے بیٹے کا. بلاؤ پولیس کو اور اس ڈائن کو حوالے کرو ان کے.’ سلیم کی ماں نے بیٹے کی میت پر بین کرتے ہوئے کہا

نئی نویلی دلھن ایک کونے میں سکتے میں سر جھکائے بیٹھی تھی. کاجل آنکھوں سے بہ کر گورے گال کالا کر رہا تھا اور دوپٹے کا کوئی ہوش نہیں تھا

مجھے لڑکی سے تو پوچھنے دو کہ آخر معاملہ کیا ہوا؟ اچھا بھلا خوش باش تھا. پھر یوں کھڑکی سے کیوں چھلانگ لگا دی؟’ سلیم کے مامؤں نے کہا اور پھر لڑکی کے پاس جا کر پوچھا

‘ہاں بیٹی! تم بتاؤ کیا ہوا تھا؟’

مگر دلھن کچھ نہیں بولی. بس چپ چاپ بیٹھی اپنے لمبے سرخ ناخنوں سے، سیاہی مائل پیروں سے خشکی کا کھرنڈ کھرچتی رہی

#Urdu #fiction #story #fetish #footfetish #psychology #personality #insult #suicide #man #woman #psychoanalysis  

شہوت، جبلت اور حق

.ابے ادھر آ!’ پرویز نے بیڑی سلگا کر ویٹر کو آواز لگائی’

آدھی رات گزرے کافی وقت بیت چکا تھا لیکن لگتا تھا کہ نیپیئرروڈ پرچلتے پھرتے لوگوں کو وقت کا کوئی اندازہ نہیں تھا

.ہاں کیا ہے؟’ میلے کچیلے اور مریل سے ویٹر نے، کندھے پر ڈالے رومال سے ناک صاف کرتے ہوئے پوچھا’

پرویز نے بیڑی کا کش لگا کر جیب سے بیس روپے نکالے اوراس کی طرف بڑھائے

ویٹر نے برا سا منہ بنا کر پیسے پکڑے اور گندی پلیٹیں اٹھا کر وہیں کھڑا رہا

.ٹپ؟’ اس نے بےشرمی سے دانت نکالتے ہوئے مطالبہ کیا’

.کوئی ٹپ شپ نہیں ہے. دفع ہوجا یہاں سے.’ پرویز نے آخری بیڑی سلگاتے ہوئے حقارت سے کہا’

‘ٹپ میرا حق ہے پرویزاستاد. لئے بغیر دفع نہیں ہوں گا’

حق کی بات پر پرویز کو اپنا باپ یاد آ گیا


Read more: شہوت، جبلت اور حق

.ابا ہم کہاں جا رہے ہیں؟’ دس سالہ پرویز نے باپ کی انگلی پکڑے پوچھا’

.پیسے لینے جا رہے ہیں.’ اقبال پوڈری نے لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے کہا’

‘وہ حرامی اختر تین روز پہلے دس پڑیاں لے گیا تھا. مال تو کب کا بک گیا ہوگا لیکن پیسے نہیں دیئے’

پتہ نہیں کن کن گلیوں سے گزرتے باپ بیٹا ایک چھوٹے سے پل کی سائیڈ سے نیچے اتر کر، بدبودار تاریکی میں گھس گئے. سرانڈ کی وجہ سے پرویز نے ایک ہاتھ ناک پر رکھ کر دوسرے ہاتھ سے باپ کی انگلی مضبوطی سے دبوچ لی

.اختر؟’ اقبال پوڈری نے آواز لگائی مگر کوئی جواب نہیں آیا’

زیرلب گالیاں دیتے ہوئے پنسل ٹارچ روشن کی تو روشنی کا مختصر دائرہ زمین پر اوندھے منہ پڑے ایک جسم پر پڑا

اقبال نے جسم سیدھا کیا تو اختر کا بھیانک چہرہ سامنے آ گیا. گلے میں ایک رومال کسا تھا اور لاش کی دونوں آنکھیں ابل کر تقریباً باہر ہی آ گئ تھیں

.ابے میرے پیسے؟’ اقبال بےصبری سے اس کی جیبیں ٹٹول رہا تھا مگر سب خالی نکلیں’

‘تو یہیں کھڑا رہ دو منٹ.’ اقبال نے پرویز سے کہا. ‘میں آیا ابھی’

اس سے پہلے کہ پرویز کوئی احتجاج کر سکتا، اقبال اس کے ہاتھ میں ٹارچ تھما کر تاریکی میں غائب ہو چکا تھا

پرویز کو تو لگا کہ شاید اقبال کو گئے گھنٹوں گزرچکے تھے لیکن وہ پانچ منٹ میں ہی واپس آ گیا

.ٹارچ کی روشنی اس کے منہ پر ڈالی رکھ.’ اقبال نے لاش کے سرہانے اکڑوں بیٹھتے ہوئے کہا’

اس نے ایک ہاتھ سے لاش کا منہ پورا کھولا اور دوسرے ہاتھ میں پکڑے پلاس سے باری باری اختر کے دانت اکھاڑنے شروع کر دیئے

.یہ تو کیا کر رہا ہے ابا؟’ پرویز نے گھن کھاتے ہوئے پوچھا’

‘فٹ پاتھ پر بیٹھے کسی دندان ساز کو بیچوں گا تو چار پیسے مل جایئں گے’

‘لیکن کیوں؟’ پرویز نے حیرانگی سے پوچھا. ‘دفع کر اس کو’

.کیوں دفع کروں…ہیں؟’ اقبال نے گندے خون سے بھرا ہاتھ پرویز کے منہ کے سامنے نچایا تو وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گیا’

.ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا پرویز.’ اس کی آنکھیں اندھیرے میں کسی جانور کی سرخ آنکھوں کی طرح چمک رہی تھیں’

‘اپنا حق کبھی نہیں چھوڑنا….کبھی نہیں’


پرویز نے سر جھٹکا اور ویٹر کی طرف دیکھا جو ابھی تک وہیں کھڑا میلے دانت نکوس رہا تھا

.پیسے کوئی نہیں میرے پاس. بس یہ پکڑ اور عیاشی کر.’ پرویز نے اپنی جیب سے واحد بیڑی نکال کر ویٹر کی طرف بڑھائی’

ویٹر چار پانچ گالیاں بڑبڑا کر چلا گیا تو پرویز اٹھ کر کھمبے کے نیچے کھڑی، میک اپ سے لدی لڑکی کے پاس چلا گیا

.کیا پروگرام ہے ہیرو؟’ لڑکی نے نچلا ہونٹ دانتوں میں دبا کر بڑی ادا سے پوچھا’

پرویز نے لڑکی کا ایک خواہش بھری نظر سے ایکس رے کیا. عام سی شکل و صورت تھی لیکن بھرپور جوان تھی

‘پروگرام تو نیک ہے. تو اپنا بتا؟’

.ایک شاٹ کا پانچ سو لوں گی. نا ایک روپیہ زیادہ نا ایک روپیہ کم.’ لڑکی نے لچک کر کہا’

‘پانچ سو؟’ پرویز نے سر کھجایا. ‘میری جیب میں تو ایک روپیہ بھی نہیں……. ادھار کرتی ہے؟’

.ادھار؟’ لڑکی نے ایک کڑوہ سا قہقہہ لگا کر پرویز کے پاؤں میں تھوکا’

‘چل پھٹ یہاں سے کنگلے. گلشن نے کبھی ادھار نہیں کیا’

.حرامزادی!’ پرویز نے زیر لب گالی دی اور اپنی خالی جیبوں کو کوستا آگے چل پڑا’

‘سن!’ لڑکی نے پیچھے سے آواز دی. ‘پیسے کمانے کا موڈ ہے؟’

پرویز نے بیوقوفوں کی طرح اقرار میں سر ہلا دیا

‘چل پھر میری دلالی شروع کر دے. پیٹر تھا میرا دلال مگر کل کسی نے پٹیل پاڑے میں گولی جھونک دی اس کے بھیجے میں.’ لڑکی نے ناک میں انگلی گھما کر کیچڑ نکالا اور انگلیوں کی پوروں میں مڑور کر ایک طرف چٹکی سے اچھال دیا

.دلالی؟’ پرویز نے منہ لٹکا کر پوچھا’

‘ہاں تو اور کیا صدر میں دوکان ڈال دوں زیور کی؟’

‘کرنا کیا ہوگا؟’

لڑکی نے پہلے تو ایک بھیانک سی ماں کی گالی بکی لیکن پھر کچھ سوچ کر تھوڑی دور کھڑی پرانے ماڈل کی سفید فیئٹ کی طرف اشارہ کیا

‘جا بات کر جا کر اس سے. پانچ سو میں سے سو تیرے’


کافی دیر گزر چکی تھی اور لڑکی کی واپسی نہیں ہوئی تھی. لیکن سو روپئے کے پیچھے پرویز ابھی تک وہیں کھمبے کے نیچے کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا

فجر کی اذان میں ابھی کچھ منٹ باقی تھے جب چوک سے اسی سفید فیئٹ نے پرویز کی طرف کا رخ کیا. وہ کچھ سوچ کر کھمبے کے پیچھے ایک تاریک سی گلی میں اندر ہو کر کھڑا ہوگیا

کھمبے کے پاس پہنچ کر فیئٹ کی رفتار کچھ مزید آہستہ ہوئی اور کسی نے دروازہ کھول کر ایک بڑی سی گٹھڑی سڑک پر لڑھکا دی

پرویز نے قریب جا کر گٹھڑی کا معائینہ کیا. گلشن کب کی مر چکی تھی. کپڑوں کے نام پر ایک دھجی بھی نہیں تھی تن پر. چہرے اور جسم پرجگہ جگہ دانتوں کے کاٹنے کے نشانوں سے خون جھلک رہا تھا

پرویز نے ادھر ادھر دیکھا اور پھر کچھ سوچ کر لاش کو گھسیٹ کر تاریک گلی میں لے گیا. کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے. پھر باپ کی آواز کانوں میں گونجی

‘اپنا حق کبھی نہیں چھوڑنا….کبھی نہیں’

پرویز نے مڑ کر گلشن کی لاش کی طرف دیکھا. لاش کی ننگی سفید ٹانگیں، جیسے کسی گاہک کے انتظار میں نہایت بےشرمی سے کھلی پڑی تھیں اور اندھیرے میں چمک رہی تھیں

پرویز تھوڑی دیر تو کھڑا لاش کی طرف دیکھتا رہا. پھر اس نے کانپتے ہاتھوں سے بیلٹ کھول کر پتلون نیچے سرکائی اور گلشن کے برہنہ جسم پر جھک گیا

#Urdu #fiction #story #right #life #survival #lawofthejungle #animal #greed #sin #baseness #ugliness #prostitute #pimp #streets #Karachi #instinct

شہر کا آخری خواب فروش

‘چاچا جی؟’ میں نے کھنکار کر پوچھا. ‘آپ چپ کیوں ہوگئے؟’

.کہتے ہیں……….’ انہوں نے بدستور گردن جھکائے کہا’

‘جب دور کسی گھنے جنگل کے بیچوں بیچ، کوئی بوڑھا درخت ٹوٹ کر گرتا ہے تو کوئی آواز نہیں گونجتی’

‘کوئی آواز نہیں گونجتی؟’ میں نے حیرانگی سے پوچھا. ‘یہ کیسے ہوسکتا ہے؟’

.جب کوئی آواز سننے والا یا پرواہ کرنے والا نا ہو تو آوازیں نہیں گونجتی.’ انہوں نے میری آنکھوں میں جھانک کر جواب دیا’

.میں ہوں نا چاچا جی!’ میں نے محبت سے ان کے جھریوں بھرے کمزور ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’

‘میں ہوں نا سننے اور پرواہ کرنے والا’


Read more: شہر کا آخری خواب فروش

وہ سردیوں کی ایک دھندلکی سپہر تھی اور میں اپنا کیمرہ کندھے پر لٹکائے اندرون شہر کی گنجان آباد گلیوں میں چکر لگا رہا تھا. بہت سے خوبصورت چہرے بھی نظر آئے؛ بہت حسین نقش و نگار والے دروازوں پر بھی نظر پڑی؛ کچھ مسکراہٹوں نے دل موہ لینے کی کوشش بھی کی؛ اور کچھ آنسوؤں نے قدم بھی تھامے. لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی کہ میں اپنے کیمرے کا بٹن نہیں دبا سکا. دل پر عجیب اداسی چھائی ہوئی تھی

پھر موچی گیٹ کی بغل میں ایک نسبتاً تاریک اور تنگ سی گلی سے گزرتے ہوئے میری نظر اس بوڑھے کھلونا فروش پر پڑی. وہ ایک بند دروازے سے ٹیک لگائے نجانے کس گہری سوچ میں گم تھا

جس چیز نے مجھے زیادہ متوجوہ کیا وہ تھا اس بوڑھے کھلونا فروش کے پاس ہی دیوار سے ٹکا بانس سے بنا اسٹینڈ. ایک مرکزی عمودی بانس سے جڑے لکڑی کی کئ چھوٹی بڑی پھٹیاں تھیں جن سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے کھلونے لٹک رہے تھے

ایسے کھلونا فروش میں نے اپنے بچپن میں ہی دیکھے تھے. چھٹی والے دن اور خاص طور پر عید والے دنوں میں چکر لگاتے تھے. ان میں سے چاچا خیرو مجھے خوب یاد ہے جو مجھے پیار سے بیجو بابرا کہا کرتا تھا

.یہ تم ہر وقت کیا گنگناتے رہتے ہو کاکے؟’ ایک دن چاچا خیرو نے مجھ سے پوچھ ہی لیا’

مجھے دراصل بچپن ہی سے اپنے ہم عصروں سے مختلف نظر آنے کا شوق تھا. لہٰذا ان دنوں میں چھ سات سال کا ہونے کے باوجود کلاسیکی موسیقی میں دلچسپی لے رہا تھا

.جی راگ درگا چاچا جی.’ میں نے بے ساختہ جواب دیا تو وہ ایک دم ہنس پڑا’

‘راگ درگا؟ تم بچے ہو کہ بیجو بابرا؟’

اس دن سے میرا نام ہی چاچا خیرو نے بیجو بابرا رکھ دیا اور میں اس کا مستقل گاہک بن گیا. رنگ برنگی چیزیں ہوتی تھیں اس کے پاس. پلاسٹک کے باجے اور بانس کی پیپنیاں؛ ہلکی سی باریک باریک پہیوں والی چھوٹی چھوٹی گاڑیاں؛ سستی گڑیاں؛ پلاسٹک کے خوفناک ماسک؛ اور سفید سوتی ٹوپیاں جن کے ساتھ مصنوعی سفید داڑھی مونچھیں جڑی ہوتی تھیں. اب چاچا خیرو جیسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتے


میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا

.چاچا جی؟’ میں نے ہلکے سے ان کو مخاطب کیا’

‘ہاں……کون؟’ انہوں نے آنکھیں کھول کر حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور پھر مسکرا دیئے. ‘کہو بیٹے کیا چاہئے؟’

‘چاہئے تو کچھ نہیں….’ میں نے سر کھجاتے جواب دیا. ‘بس آپ پر نظر پڑی تو آپ سے بات کرنے کا دل کیا’

‘ضرور کرو بات بیٹے’

‘آپ کون ہیں چاچا جی؟’

.میں؟’ انہوں نے اپنے سینے کی طرف مسکرا کر انگلی سے اشارہ کیا’

‘میں ہوں اس شہر کا آخری خواب فروش’

.خواب فروش؟ آخری خواب فروش؟’ میں نے چونک کر پوچھا’

ہاں کھلونے خواب ہی تو ہوتے ہیں…چھوٹے چھوٹے معصوم اور رنگین خواب. میں یہ خواب بڑی محنت سے بنتا تھا اور پھر انہیں چاہنے والوں کے حوالے کر دیتا تھا

ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی یاسیت اتر آئ

.اب نا خواب دیکھنے والے رہے اور نا ان کھلونوں کو چاہنے والے.’ انہوں نے بےبسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا’

‘جب خواب دیکھنے والے خواب ہی نا دیکھنا چاہیں، خوابوں میں یقین ہی نا رکھنا چاہیں تو ان کے رنگ بے معںی ہو جاتے ہیں’

.لیکن خواب تو ہمیشہ اہم ہی رہتے ہیں.’ میں نے حیرت سے پوچھا’

.یقین خواب کی روح ہوتی ہے بیٹے.’ چاچا جی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا’

‘یقین چلا جائے تو خوابوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی’


ہم دونوں کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے. وہ گلی بڑی عجیب تھی. جب سے میں آ کر وہاں بیٹھا تھا ویران پڑی تھی. دھوپ کا گزر غالباً بالکل ہی نہیں ہوتا تھا وہاں. اسلئے عجیب سبزی مائل پیلا سا رنگ تھا ماحول کا جیسے میں کسی پرانی تصویر کے اندر زندہ تھا اور سانس لے رہا تھا. پھر گلی کے بیچوں بیچ ایک نالی ضرور بہ رہی تھی لیکن بدبو کا دور دور تک کوئی شائبہ تک نہیں تھا. بلکہ میرے نتھنوں میں تو لکڑی کے فرنیچر کی، پنسلوں کی اور مہنگے ربڑوں کی خوشبو مہک رہی تھی. یوں لگتا تھا کہ میں پھر سے اپنے بچھڑے بچپن کے کسی ایک ثانیے میں سانس لے رہا تھا. رنگ بھی وہ ہی تھے اور خوشبویئں بھی وہ ہی، بس ماحول مختلف تھا


.یہ جادو کی چھڑی یاد ہے تمھیں؟’ چاچا جی نے ایک پلاسٹک کی چھڑی میری طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا’

.نہیں.’ میں نے چھڑی دیکھ کر نفی میں سر ہلایا’

وہ سرخ رنگ کے پلاسٹک سے بنی تقریباً ایک فٹ لمبی چھڑی تھی جس کے ایک کونے پر چاندی رنگ کے پترے سے بنا پانچ کونوں والا ستارہ لگا ہوا تھا

.یاد کرو بیجو بابرا!’ چاچا جی نے مسکراتے ہوئے کہا’

‘جب تم چھوٹے تھے تو تمھیں یقین تھا کہ چھڑی کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہلانے سے تم کچھ بھی کر سکتے ہو’

.بیجو بابرا….؟’ میں بری طرح سے چونک گیا’

.گھبراؤ نہیں…’ بوڑھے خواب فروش نے میرا ہاتھ شفقت سے تھپتھپایا’

ہم خواب فروشوں کا اپنا قبیلہ ہے اور اس قبیلے کی یادیں اور خواب مشترک ہوتے ہیں. خیردین اور میں، ہم دونوں اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں

‘ہاں شاید …..’ میں نے سر جھٹکتے ہوئے کہا. ‘اس وقت مجھے یقین تھا کہ یہ جادو کی چھڑی ہے’

لیکن اب اس خواب میں تمھیں یقین نہیں ہے نا. لہٰذا اب نا خواب بننے کی ضرورت رہی نا بیچنے کی. اب مجھے چلے ہی جانا چاہئے

چاچا جی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا تو میں بےچین ہوگیا

.نہیں چاچا جی، میں اب بھی خواب دیکھتا ہوں.’ میں نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا’

مجھے اب بھی اپنے خوابوں میں یقین ہے. اور میرے خوابوں کی ابتداء انہی کھلونوں سے تو ہوئی تھی. اگر آپ نے خواب فروشی چھوڑ دی تو میری تو خوابوں کی اساس ہی ختم ہوجائے گی

مگر چاچا جی کا ہاتھ میری مٹھی سے ریت کی طرح بہ گیا. میں نے آنسو پونچھتے ہوئے ان کی طرف دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا

میں گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا. سامنے دو برقعہ پوش عورتیں کھڑی میری ہی طرف سہم کر دیکھ رہی تھیں. میں شرمندہ ہوا اور اپنے تخیّل کو کوستا کیمرہ اٹھانے کیلئے جھکا اور پھر ٹھٹھک کر رک گیا. وہاں جہاں تھوڑی دیر پہلے شہر کا آخری خواب فروش بیٹھا تھا، وہیں اسی جگہ، سرخ پلاسٹک کی جادو کی چھڑی پڑی میرا منہ چڑا رہی تھی

#Urdu #story #fiction #dream #imagination #toys #oldcity #Lahore #street #nostalgia #memories #past #magic

پنوں مراثی

تھکی ہوئی چیل نے اپنے پر سمیٹے اور گھونسلے کا رخ کرنے سے  پہلے ڈوبتے سورج کی جانب آخری نظر ڈالی.  اس کے پروں تلے پھیلتی تاریکی کی  چادر بہت تیزی سے شہر ملتان کے سنہرے گنبد اور مٹیالے مینار نگل رہی تھی. سردیوں کی وہ گہری شام بہت اداس تھی اور اک اک کرتے ابھرتے اور ٹمٹماتے ستارے، اس شام کے حزن کی مانگ میں افشاں بھرتے نظر آرہے تھے

دن اور رات کا اختلاط بس تمام ہی ہوا چاہتا تھا. چیل نے زمین پر چمکتی روشنیوں کے ایک جھرمٹ پر نظر ڈالی جہاں سے دھواں بھی اٹھ رہا تھا اور بھنےگوشت کی سوندھ بھی. ایک لمحے کو ڈبکی لگانے کا خیالدل میں آیا ضرور مگر پھر دور گھونسلے میں بلکتے بچوں کا سوچ کر اڑتی چلی گئ

روشنیاں رشیدخان کونسلر کی حویلی پر برقی قمقموں کی لٹکتی جھالروں کی تھیں. جشن نا صرف حالیہ الیکشن کی جیت بلکہ کونسلر کی تیسری شادی کا بھی تھا. کونسلر ساٹھ سال کا بڈھا اور تیسری دلہن کسی مشکوک خاندان کی چشم وچراغ تھی مگر تھی اٹھارہ برس کی نوخیز کلی. لہٰذا جشن کا جواز توبنتا ہی تھا. پوری حویلی جگمگ جگمگ کرتی کہکشاں بنی ہوئی تھی

دھواں حویلی کے صحن میں ایک طرف سلیقے سے لگی دیگوں تلے دہکتے انگاروں سے اٹھ رہا تھا. کھانا ختم ہوئے کچھ دیر ہوچکی تھی لیکن فضإ میں اب بھی ہرطرف بریانی اور قورمے کی اشتہاانگیز مہک رچی بسی تھی اور حویلی کی اونچی دیوار سے ٹیک لگائے فقیروں کی لمبی قطار کے صبروضبط کا امتحان لے رہی تھی

ایک جواں سال منشی جو غالباً دیگوں پر نگران مقرّر کیا گیا تھا، ایک جانب بوسکی کے سوٹ اور ریشمی واسکٹ میں ملبوس کھڑا اپنی نوکیلی مونچھوں کو تاؤ پر تاؤ دئے جا رہا تھا. اسکی توجوہ کا مرکز دیگیں کم اور کونسلر کی گاڑی سے اترتی حرم گیٹ کی طوائفوں پر زیادہ تھی جو زرق برق کپڑوں اور سونے کے بوجھ تلے دبی پریاں دکھ رہی تھیں. ان کو منشی کی آنکھ سے جھلکتی ہوس کا اچھی طرح سے اندازہ تھا مگر آج کا راجہ اندر، اکڑا کھڑا منشی نہیں بلکہ کونسلر رشید خان تھا

حویلی کے صحن میں ایک برگد کا بوڑھا درخت ٹوٹی اینٹوں کے چبوترے پر ایستادہ تھا. اس درخت کا بیج رشید خان کونسلر کے پردادے نے ڈیڑھ صدی قبل لگایا تھا. اس وقت نا حویلی تھی نا ہی خان کا سابقہ. پردادا ایک غریب موچی تھا اور حویلی کی جگہ ٹوٹا پھوٹا ایک کوٹھری کا مکان تھا جس میں جلتے چراغ سرے شام ہی بھجا دئے جاتے تھے کیونکہ تیل بہت مہنگا تھا

وقت گزرتا رہا، رشید موچی پیدا ہوا اور برگد کے درخت تلے ننگا کھیلتا بڑا ہوگیا. باپ دادا کی نسبت لڑکا بہت تیز تھا، لہٰذا اس نے جوتے سینے پر ہیروئن فروشی کو ترجیح دی. سفید پاؤڈر کے کاروبار میں کچھ ایسی برکت تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ٹوٹی کوٹھری، حویلی بن گئ اور رشید موچی، رشید خان بن گیا

آج برگد کے چبوترے پر علاقے کے اکلوتے بینڈ کے ممبران براجمان تھے اور سردی سے کانپتی انگلیوں کو ایک چھوٹی سی سلگتی انگھیٹی پر تاپنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھے. پیلی پڑتی سفید وردیاں جن پر پیلے ہی رنگ کے بٹن جو شاید کسی زمانے میں چمکتے پیتل کے رہے ہوں گے، کندھوں پر ٹکے پرانے باجے اور ان سے لٹکتی میلی پرانی جھالریں. غریبی اور بھوک کے منڈلاتے سایوں تلے تمام کے تمام ممبران، ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ دکھائی دے رہے تھے

ان سب سے الگ، سفید کھچڑی بال لئے اورپان کے داغ لگے گلے سڑے دانتوں میں بیڑی دبائے مدقوق بینڈ ماسٹر ایک جانب یوں اکیلا کھڑا تھا کہ جیسے کسی اجڑے مزار کا مغرور مجاور کھڑا ہو. طوائفوں کے جھرمٹ کو دیکھتے ہی ماسٹر صاحب نے ناک کے نتھنے میں گھومتی انگلی نکالی اور بوڑھی ہوس کے زور پر، آنکھوں سے پورے جھرمٹ ہی کو سموچہ نگلنے کی کوشش کی. طوائفوں نے ماسٹر صاحب کی بے وقعت ہوس پر ایک بےرحم ٹھٹا لگایا اور اندر کی جانب بڑھ گیئں.

وہاں حویلی کے صحن میں موجود ایک ایسا شخص بھی تھا جس نے جوان اور پرکشش ہونے کے باوجود طوائفوں کی طرف آنکھ اٹھانے کی زحمت بھی نہیں کی تھی. وہ تھا پنوں مراثی

پچیس چھبیس کا سن، اونچا لمبا قد، آنکھوں میں مناسب سرمہ، تیل لگے مگر سلیقے سے جمے ہوئے بال، صاف ستھرا کرتا، سادہ لنگی اور سنہری واسکٹ، کمبخت مراثی کم اور کسی پرانی پنجابی فلم کا ہیرو زیادہ لگ رہا تھا

فضا میں تیزی سے بڑھتی خنکی کو محسوس کرتے ہوئے اس نے بغل میں گٹھری بنی اونی چادر نکالی اور کندھوں پر لپیٹ لی. جسم میں کچھ گرمائش محسوس کی تو وہ وہیں چبوترے پر بیٹھ گیا اور بڑی محبّت سے مخمل کے غلاف میں لپٹے ہارمونیم کو سہلانے لگا. پھر قرینے سے غلاف اتار کر ایک طرف رکھا اور ہاتھی دانت کی ملائم چابیوں کو چھیڑ کر سر کی آزمائش کی.

مہاگنی کی کالی لکڑی سے بنے ہارمونیم پر جڑی چمکتی دھات کی ایک چھوٹی سی تختی پر لکھا تھا

‘حمید مراثی اورہمنوا

حمید مراثی پنوں کا باپ تھا جس کا کچھ مہینوں قبل ہی انتقال ہوا تھا. ہارمونیم کی پرانی چابیوں میں باپ کا پر شفقت لمس تلاش کرتے پنوں نے اپنے ساتھیوں کے منتظر چہروں کی جانب دیکھا اور انکو تسلی دینے کے لئے مسکرا دیا

خوبصورت طوائفوں کو اندر داخل ہوئے کافی وقت گزر چکا تھا مگر انکی شادی میں موجودگی کے باوجود اس مراثیوں کے ٹولے کو خاطرخواہ کمائی کی امید تھی. دراصل کونسلر کا منشی پنوں کے پرائمری اسکول کا ہم جماعت تھا اور پرانی دوستی کے ناتے اس نے پنوں سے مناسب دیہاڑی کا وعدہ کیا تھا. ہاں یہ اور بات تھی کہ پرانی دوستی کے باوجود یہ وعدہ پنوں کو پچیس فیصد کمیشن کی ادائیگی کے عیوض ملا تھا

پنوں نے منشی کی جانب نگاہ کی اور اسکی جوابی معنی خیز مسکراہٹ سے تقویت پکڑتے ہوئے آج کی محفل کے لئے بالخصوص تیار کئے گئے گیتوں کی فہرست کو دل ہی دل میں تازہ کیا

چلوبھائی مراثی پارٹی، اندر بلا رہے ہیں تم لوگوں کو’. منشی کی کرخت آواز نے پنوں کو چونکا سا دیا. اس نے نظر اٹھا کر اپنے ہمنواؤں کی جانب دیکھا جن کی سوالیہ نگاہیں اسی کی جانب لگی کھڑی تھیں

ہاں بھائی جلدی کرو. دیری ہوگئ تو کہیں مہمان ناراض نا ہوجایئں’. پنوں اپنی پارٹی کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے منشی کے ساتھ حویلی کے صحن میں لگی چھولداری میں داخل ہوگیا

اندر تو ماحول ہی کچھ اور تھا. دیسی اور ولایتی شراب کی بوتلیں گردش میں تھیں. معمولی مہمان تو کب کے جبری رخصت کردئے گئے تھے. اب وہاں صرف رشید خان کونسلر اور اس کے چیدہ چیدہ چالیس پچاس مہمان باقی رہ گئے تھے. کچھ نچلے درجے کے سیاستدان تھے، کچھ سرکاری افسر، کچھ رشتےدار اور کچھ رشیدخان کی طرح چرس اور پاؤڈر کے معزز تاجر

سب نیم دائرے میں لگے صوفوں پر براجمان تھے اور گاڑھی چھن رہی تھی. ایک طرف ڈی ایس پی صاحب ممتاز پوڈری کو اپنے مکمّل تعاون کا یقین دلا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ممتاز کی بغل میں انگڑأیاں لیتی میڈم خوشبو پر، پرشوق نگاہوں سے صدقے واری ہو رہے تھے. دوسری طرف جیرا چرسی، شراب کے نشے میں ڈوبے ڈپٹی کمشنر کے منشی کا گال یوں تھپتھپا رہا تھا کہ جیسے وہ پچپن سال کا بڈھا نہ ہو بلکہ دو تین سال کا چھوٹا سا بچہ ہو. گناہوں کی تجارت اور پیسے کی چاہت نے عزت بےعزتی کا فرق مٹا دیا تھا

سامنے ایک وسیع وعریض چاندنیوں سے ڈھکا اسٹیج تھا. طوائفیں تو مہمانوں کی حیثیت کے مطابق انکی بغل گرما رہیں تھیں لہذا اسٹیج پر ایک طرف صرف بوڑھی نایکایئں بیٹھی پان چبا رہی تھیں اور ویلوں میں دیئے گئے نوٹ گن رہیں تھیں

پُنوں مراثی اور پارٹی کو اندر آتا دیکھ کر تقریباً سب ہی مہمانوں نے بدمزگی سے منہ بنایا. رشید خان کونسلر نے بھی حیرانگی سے پارٹی کی طرف دیکھا اور کچھ کہنے کے لئے کھڑا ہونے ہی لگا تھا کہ پیچھے ایستادہ منشی نے کندھا دبا کرکان میں کچھ سرگوشی کی. رشید خان نے مسکرا کر سر ہلایا اور واپس بیٹھ گیا. کیسے اپنے منشی کی بات نا مانتا؟ آخر کو وہ صرف منشی نہیں بلکہ اس کا نیا نویلا سالا بھی تھا

پنوں نے دور سے یہ ساری کاروائی دیکھی اور مشکور نظروں سے منشی کیطرف دیکھ کر سر ہلایا. منشی کے حوصلہ افزاء اشاروں سے اس نے ہمّت پکڑی اور اپنے ہمنواؤں اور موسیقاروں کو اسٹیج پر جگہ سنبھالنے کا اشارہ کیا

سازوں کی تاریں کھینچی گیئں، سر سیدھا کیا گیا اور پنوں نے تان لگائی. کچھ ایسا سر اور درد تھا اس کی آواز میں کہ مہمانوں نے بےاختیار ہوکر اسٹیج کی جانب دیکھنا شروع کردیا. کچھ نے تو تعریفی نگاہوں اور مسکراہٹوں سے رشید خان کی پسند کو بھی ہدیہ پیش کیا. مگر پنوں ان سب باتوں اور اشاروں سے بےخبر کسی اور ہی دنیا میں جا چکا تھا

جس یار دے یار ہزاراں ہون

اوس یار نوں یار نا سمجھیں

جیڑا حد توں ودھ کے پیار کرے

اوس پیار نوں پیار نا سمجھیں

ہووے یار تے دیوے ہار تینوں

اوس ہار نوں ہار نا سمجھیں

بلھےشاہ

پانوھیں یار جنا وی غریب ہووے

اودی سنگت نوں بیکار نا سمجھیں

تالیاں تو بہت بجیں مگر ان میں وہ دم نہیں تھا جو پنوں چاہتا تھا. اس نے کچھ لمحے سوچا اور پھر حاضرین سے مخاطب ہو کر کہنے لگا

‘شادی کا موقع ہے. پتہ نہیں جو گانے جا رہا ہوں وہ ٹھیک ہے بھی یا نہیں’

پھر اس نے دھیمی سی مسکراہٹ سے اپنے موسیقاروں کی طرف دیکھا اور دبے الفاظ میں کچھ سمجھایا. تھوڑی دیر کے لئے تو موسیقاروں کو اپنے کانوں پر یقینن ہی نہیں آیا مگر پھر پنوں کو بضد پا کر انہوں نے اپنے ساز سیدھےکئے

فضاء میں سارنگی کا نوحہ گونجا تو حاضرین نے چونک کر اسٹیج کی طرف دیکھا

ماۓنی میں کنوں آکھاں

درد وچھوڑے دا حال نی

دھواں دھکھے میرے مرشد والا

جاں پھولاں تاں لال نی

جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی

اجے نا پایو لال نی

دکھاں دی روٹی، سولاں دا سالن

آہاں دا بالن بال نی

کہے حسین فقیر نماناں

شوہ ملے تاں تھیوان حال نی

پنوں کی پردرد آواز، شاہ حسین کا پرسوز کلام، نشے اور گناہوں سے چورچور دل. پتہ نہیں کس چیز نے کس چیز پر اثر ڈالا مگر جب پنوں نے آخری تان لگا کر آنکھیں کھولیں تو حاضرین میں ہرآنکھ کو اشکبار پایا. حتکہ طوائفیں بھی اپنے زرق برق پلوؤں سے آنکھیں پونچھ رہیں تھیں

.اوئے ادھر آ مرجانیاں!’ رشیدخان کونسلر نے کھڑے ہو کر آواز لگائی تو پنوں دوڑتا چلا آیا

‘اوئےیہ کیا گا دیا تو نے کمبخت؟’

پنوں نے رشید خان کی آنکھوں میں جھانک کر ناراضگی یا تعریف کا تعین کرنے کی کوشش کی.  ‘رلا رلا کر برا حال کردیا سب کا’ رشید خان نے ہزار ہزار کے دس نوٹ پنوں کی طرف بڑھائے تو اس بیچارے کی جان میں جان آگئ. جھک جھک کر محفل کو آداب کیا اور اسٹیج پر چڑھ کر دوسری کافی شروع کی. وہ رات پنوں میراثی اورہمنواؤں کےحق میں بہت بابرکت ثابت ہوئ

محفل کے اختتام پر پنوں نے اللہ کا شکر ادا کیا. دل ہی دل میں شاہ حسین کے لئے دعائے مغفرت کی اور اپنے ساتھیوں کی جانب دیکھا. انکی جیبیں بھریں تھیں اور چہروں پر مسکراہٹیں رقصاں تھیں. اس نے اپنے حصّے کے پیسے نیفے میں اڑسے اور ساتھیوں سے اجازت لے کر گھر کی جانب چل پڑا

ملتان کی ملگجی، اداس اور دھند بھری گلیاں خاموش پڑی تھیں. بس اینٹوں پر پڑتی پنوں مراثی کے قدموں کی چاپ ہر سو گونج رہی تھی. سب لوگ اپنے گرم بستروں میں سوئے پڑے تھے. بس پنوں تھا، سردی سے کانپتے کچھ آوارہ کتے تھے اور کبھی کبھار کوئی اکیلا دکیلا چوکیدار دکھائی دے جاتا تھا. سردیوں کی رات بس بھیگ ہی چکی تھی اور دور افق پر میلا میلا اجالا ایک نۓ دن کی نوید سنا رہا تھا

ایک دودھ دہی کی کھلی دوکان کے سامنےسے گزرا تو ریڈیو پر گونجتی آواز پنوں کے کان میں پڑی. استاد امانت علی خانصاحب کی گائی غزل تھی: ‘انشاءجی اٹھو اب کوچ کرو؛ اس شہر میں جی کا لگانا کیا’

سنتےسنتے سردی پتہ نہیں کہاں غایب ہوگئی اور پنوں کے قدموں کی چاپ، تال پر گونجنا شروع ہو گئی. یہ اس کے باپ حمید میراثی کی محبوب غزل تھی. رات کی تنہائی میں سنائی دی توپنوں کے اٹھتے ہر قدم کے ساتھ ماضی کے ورق پلٹتے چلے گئے

‘پنوں پتّر! وےپنوں! ماں صدقے روٹی کھا کے جانا. یوںہی پکھے پیٹ نا جانا کھیلنے باہر.’

ماں کی آواز کانوں میں گونجی. پنوں چھےسال کا تھا اور چڑیا کے بچوں کی طرح گھر کے گھونسلے میں محفوظ تھا. یہ گھونسلہ اس کے ماں باپ کی محبت سے بنا ہوا تھا جس میں کسی غم، کسی مشکل کا دخل نہیں تھا

گھونسلےکی موجودگی سے بےخبر اور ماں کی التجائیں سنی ان سنی کرتا پنوں، کنچے جیب میں سنبھالتا باہر بھاگ گیا جہاں اس کے بہت سارے ہم عمر دوست اس کے منتظر تھے. جلد ہی اندرون بوہڑ گیٹ کی وہ گلی، زندگی بھرے شور اور قہقہوں سے گونجنے لگی

‘اوئے بالیو کنچے چھوڑو. پڑھو اندر بیٹھ کر.’ شیخ صاحب جو کہ اپنے گھر کے سامنے چبوترے پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، اتنا شور نہیں برداشت کرسکے

‘رہنے دیں شیخ صاحب. بچوں کوکھیلنے دیں. اب نہیں کھیلیں گے تو کب کھیلیں گے’

گلی سے گزرتے محلے کی مسجد کے بوڑھے امام مولوی عبدالصمد نے، مسکرا کر شیخ صاحب کو ٹوکا

آپ کی وجہ سے بچے بگڑ گئے ہیں مولانا. میری مانیں تو ان کو پکڑ کر مسجد لے جایئں اور قران پڑھایئں.’ شیخ صاحب نے نظر کی عینک اتار کر اس کے موٹے موٹے عدسے صاف کرتے ہوئے کہا

شیخ صاحب، اللہ تعلیٰ کو بچے کھیلتے ہوئے زیادہ اچھے لگتے ہیں. یہ ہنستے ہیں تو آواز عرش تک جاتی ہے. ذرا باری تعالیٰ کا موڈ اچھا رہتا ہے.’ مولوی صاحب نے ہنستے ہوئے کہا اور پنوں کا سر شفقت سے تھپتھپاتے ہوئے آگے بڑھ گئے

استغفراللہ! استغفراللہ! کیسا عجیب مولوی ہے؟’ شیخ صاحب زیرلب بڑبڑائے اور پھر سے اخبار کی سنسنی انگیز خبروں میں مگن ہوگئے

پنوں حمید مراثی اور زینت کا اکلوتا لڑکا تھا. اس لحاظ سے اسکی حیثیت کسی انمول خزانے سے کم نا تھی. حمید ذات اور پیشے، دونوں کا مراثی تھا. اس کو زندگی میں صرف تین چیزوں سے محبت تھی: پنوں، زینت اور اس کا ہارمونیم

تین افراد پر مشتمل، چھوٹی چھوٹی خوشیوں والا یہ چھوٹا سا خاندان ملتان کے قدیمی علاقے اندرون بوہڑ گیٹ کی ایک تنگ گلی میں واقع، اپنے چھوٹے سے اور ٹوٹے پھوٹے موروثی مکان میں رہتا تھا. غریب لوگ تھے. کبھی کمائی ہوجاتی، کبھی نا ہوتی. لیکن خدا سے گلہ شکوہ کئے بغیر جو روکھی سوکھی نصیب ہوتی تھی، صبروشکر کے ساتھ کھا لیتے تھے

حالات بہت گھمبیر ہو جاتے تو زینت کو بھوک لگنا ختم ہوجاتی تھی. حالات اور خراب ہوتے تو حمید کا دل بھی کھانے کو نا چاہتا. لیکن پنوں ان سب باتوں سے بےخبر کبھی کسی رات کو بھوکا نا سویا تھا

صبح سویرے جب چڑیوں کے چہچہانے اور کبوتروں کی غٹرغوں سے پنوں کی آنکھ کھلتی تو دیکھتا کہ اسکی ماں صحن میں لگے لکڑی کے سالخوردہ تخت پر بیٹھی قران کی تلاوت کررہی ہے. اس وقت ماں کو دیکھنا پنوں کو بہت اچھا لگتا. اس کے دوپٹے میں لپٹے چہرے پر نور ہی نور ہوتا. کبھی کبھی تو پنوں کو لگتا کہ وہیں کہیں صحن میں خدا بھی بیٹھا اسکی ماں کی باتوں کا جواب دے رہا ہے. لیکن جب بھی مڑ کر دیکھتا تو صحن میں صرف سفید اور سرمئی کبوتر دانا دنکا چگتے پھر رہے ہوتے تھے

تلاوت ختم کر کے زینت قران پاک کو چوم کر ریشم کے غلاف میں ڈالتی اور برآمدے کے طاق پر احتیاط کے ساتھ سنبھال دیتی. پھر پنوں کے بستر کی طرف آکر اس کے چہرے پر پھونک مارتی اور ماتھا چوم کر اٹھنے کا اشارہ کرتی. ماں کی گرم پھونک کا حصار سارا دن پنوں کو اپنے وجود کے اردگرد گھومتا محسوس ہوتا

تھوڑی دیر میں جب ماں پھونکیں مار مار کر چولھا جلا رہی ہوتی تو حمید بھی اٹھ کر تخت پر آ بیٹھتا اور گرم نمکین پانی سے غرارے کر کے ریاض شروع کردیتا. باپ کو دیکھتے ہی پنوں فٹافٹ بستر سے اٹھتا اور بھاگ کر منہ ہاتھ دھو کر باپ کے ساتھ ریاض میں شامل ہو جاتا. حمید اسکی طرف فخر سے دیکھتا اور کبھی کبھی شفقت سے اس کا سر سہلا دیتا. کڑوے دھویئں کی اوٹ سے سرخ آنکھیں مسلتی زینت باپ بیٹے کا پیار دیکھ کر مسکراتی جاتی اور دل ہی دل میں دونوں کی سلامتی کی دعایں مانگتی رہتی

رات کے سالن کے ساتھ پراٹھا اور الائچی کی خوشبو سے مہکتا چاۓ کا پیالہ پی کر پنوں اسکول کا یونیفارم پہنتا اور ماں باپ سے پیار کروا کر اسکول کے لئے رخصت ہوجاتا

کبھی کبھی پنوں کے دل میں کوئی خیال آتا تو باپ سے پوچھتا

ابّا! یہ روز صبح اماں قران پڑھتی ہے. تو کیوں نہیں پڑھتا؟

‘دیکھ بیٹے! کبھی تو نے کبوتروں کو تلاوت کرتے دیکھا ہے؟ ہر مخلوق کا اپنا اپنا عبادت کرنے کا، شکر ادا کرنے کا الگ انداز ہوتا ہے. تیری ماں تلاوت کر کے اس ذات پاک کا شکر ادا کرتی ہے اور میں گا کر’. حمید پنوں کے بالوں میں انگلیاں پھیرتا جواب دیتا

‘بس تو رہنے دے اپنے فلسفے.’ زینت مسکراتے ہوئے دخل اندازی کرتی. ‘پنوں پتر! تیرا باپ بس سست ہے. اس سستی نے نماز روزہ سب چھڑا دیا’

‘سست نہیں ہوں،بس اس پاک ذات کی رحمت پر یقین ہے. ایک غریب مراثی کو دوزخ میں ڈال کر بھلا کیا کرے گا؟ اور پھر تو ہے نا نیک بخت میری بخشش کروانے کے لئے.’ حمید شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر جواب دیتا تو زینت بس مسکرا کر خاموش ہوجاتی.

سکول میں پنوں بس درمیانے درجے کا طالبعلم گردانا جاتا تھا. نا بہت اچھا اور نا ہی نالائق.  ‘تومراثی کا بچہ ہے. مراثی ہی رہےگا.’ کبھی کبھی ماسٹرعلم دین تنگ آکر پنوں پر برس پڑتا

یہ بات ہرگز نہیں تھی کہ پنوں کند ذھن تھا. وہ بےحد زہین تھا مگر اس کی ذہانت حساب کتاب کی بجائے سر اور تان میں پوشیدہ تھی. لمبےلمبے پہاڑے اس کو تب ہی یاد ہوتے جب وہ انہیں گا کر پڑھتا

‘اک دونی دونی، دو دونی چار’

حد تو یہ تھی کہ تھوڑی دیر درد سہنے کے بعد ماسٹر علم دین کے موٹے تیل پلائے سرخ بینت کی ضربیں بھی پنوں کو طبلے کی تھاپ کی مانند سنائی دیتی تھیں

پنوں کو مراثی کہلوانا بھی کبھی برا نہیں لگا. جب پہلی دفعہ اس کے کسی دوست نے لڑائی کےدوران اس کو مراثی که کر چھیڑا تو وہ دوڑ کر باپ کے پاس پہنچ گیا

ابّا! یہ مراثی کیا ہوتا ہے؟

‘مراثی؟’ حمید نے ہارمونیم کی چابیاں صاف کرتے چونک کر بیٹے کے سنجیدہ اور دکھی چہرے کی طرف دیکھا: ‘مراثی وہ ہوتا ہے جس کو سر اور تال سے محبت ہوتی ہے. وہ بس گاتا ہے. خود بھی خوش رہتا ہے، خدا کی مخلوق کو بھی خوش کرتا رہتا ہے اور خدا کو بھی خوش کرتا ہے’

‘لیکن ابّا! مراثی اگر اتنا اچھا ہوتا ہے تو لوگ اسے گالی کیوں سمجھتے ہیں؟’ باپ کی بات پنوں کی سمجھ میں نا آی

‘یہ دنیا بڑی اداس جگہ ہے پتّر.’ حمید نے سر ہلاتے جواب دیا. ‘اس دنیا میں خوش رہنا بہت مشکل ہے. بہت کم ایسے لوگ ہیں جو خوش رہتےہیں. اور جو خوش رہتےہیں، دنیا ان سے جلتی ہے’

‘ابّا! یہ جو ریڈیو پر بڑے بڑے استاد گاتے ہیں، یہ بھی مراثی ہیں کیا؟’ پنوں کا بڑا دل کرتا تھا کہ ایک دن وہ اور اس کا باپ مل کر ریڈیو پر سنگت کریں

‘بس پتّر یہ سب مولا کے کھیل ہیں. کسی کوعزت دے کر امتحان لیتا ہے، کسی کو عزت نا دے کر امتحان لیتا ہے. کسی پرکرم کر کے استاد بنا دیتا ہے اور کسی پر کرم کر کےمراثی. مگر کرتا سب پر کرم ہے.’ حمید نے مسکرا کر جواب دیا مگر بیٹے کے چہرے پر ناچتی کشمکش دیکھ کر سمجھ گیا کہ بات اس کے ننھے سے ذھن کے پلّے نہیں پڑی

‘دیکھ پتّر! یہ دنیا کے لوگ چھوٹے دل والے ہیں. تو پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بھی بن گیا تو ہمیشہ تجھے مراثی ہی کہیں گے. بس تو پھرمراثی ہونے کو اپنا فخر بنا لے’. حمید نےسمجھانےکی کوشش کی

.فخر کیسے بنا لوں ابّا؟’ پنوں نے معصومیت سے پوچھا

‘دیکھ بیٹے، مولا سر کی نعمت صرف اپنے خاص خاص بندوں کو انعام میں دیتا ہے. یہ نعمت اتنی خاص ہے کہ سارے نبیوں میں سے صرف داؤد علیہ سلام کو سر کی نعمت ملی تھی. تو پھر فخر کی بات تو ہے نا؟’ حمید نے مسکرا کر پوچھا تو پنوں نے سمجھ کر سر ہلا دیا اور باپ کی نصیحت ساری عمر کے لئے پلّے باندھ لی

‘کون ہےبھائی؟’ اچانک ملگجے اجالے اور دھند سے اٹھتی آواز، پنوں کو ماضی سے حال میں کھینچ لائ

پنوں نے غور سے دیکھا تو آواز کسی غیر کی نہیں بلکہ اس کے اپنے محلے کے بوڑھے چوکیدار رحمت کی تھی

.میں ہوں چاچا رحمت……پنوں!’ اس نے آگے بڑھ کر شناخت کروائی

‘اچھا اچھا. اسوقت یقیناً کوئی پروگرام کر کے آرہا ہوگا تو. خیرسےآ. لیکن فجر کا وقت ہوچلا ہے، اب نماز پڑھ کر ہی سونا.’ رحمت نے شفقت سے اپنا جھریوں بھرا ہاتھ پنوں کے کندھے پر رکھتے نصیحت کی

‘ہاں جی چاچا. اب نماز پڑھ کر ہی گھر جاؤں گا’

پنوں نے محلے کی مسجد کی طرف قدم بڑھاتے جواب دیا جہاں لاؤڈ اسپیکر پر مولوی صاحب گلا کھنکھار کر اذان دینے کی تیاری کر رہے تھے. مسجد کی داخلی محراب پر نظر پڑی تو پھر یاد ماضی نے آ جکڑا

پنوں بارہ سال کا تھا اور ایک شام حمید کے ساتھ کسی پروگرام سے واپس آرہا تھا

‘چل پتر، مغرب کی اذان ہورہی ہے. تیری ماں بھی کیا یاد کرے گی، آج نماز پڑھ کر گھر چلتے ہیں. پھر سنا ہے کوئی نۓ مولوی صاحب بھی آ گئے ہیں مولوی عبدالصمد کی جگہ پر. لگے ہاتھوں ان کو بھی سلام کر لیںگے.’ حمید نے پنوں کی انگلی پکڑے مسجد کی طرف جاتے ہوئے کہا

اسوقت حال ہی میں مولوی عبدالصمد کا انتقال ہوا تھا. مرحوم بہت ہی نیک انسان تھے. نا صرف اپنی تھوڑی سی تنخواہ میں محلے کے غریب خاندانوں کی مدد کرتے بلکہ رمضان میں حمید کو نعت پڑھنے کے لئے بھی مسجد میں باقائدگی سے بلایا کرتے تھے. بڑے احسانات تھے حمید مراثی پر ان کے.

باپ بیٹا ہاتھ پکڑے مسجد کی داخلی محراب سے اندر داخل ہوئے تو حمید نے ہارمونیم کندھے سے اتار کر ایک کونے میں حفاظت سے رکھ دیا اور دونوں جوتے اتارنے لگے

‘کیا کرنے آئے ہو یہاں؟ مسجد کو پلید نا کرو.’ ایک چنگھاڑ نے دونوں باپ بیٹوں کے پاؤں زمین سے جکڑ دئے. پنوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو غالباً نعۓ آنے والے مولوی صاحب تھے

گٹھا ہوا قد، سر پر عمامہ، شانوں تک ڈھلکے لمبے چنبیلی کا تیل لگے سیاہ خضاب آلود بال، مہندی لگی نارنجی مائل سیاہ شرعی داڑھی، دانتوں میں دبی نیم کی مسواک، ایک ہاتھ میں زمرد کے مصنوعی دانوں کی چمکتی تسبیح، لمبا سبز ریشمی چغہ اور سرمہ لگی آنکھوں میں خشونت کے سرخ ڈورے

‘اٹھاؤ اس شیطانی چرخے کو اور یہاں سے دفعہ ہو جاؤ. کنجرکےبچے. مراثی.’ مولوی صاحب نے انگلی سے ہارمونیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نفرت سے کہا تو پنوں کو اللہ کے پاک گھر میں بادل گرجتے سنائی دئے

‘مولوی صاحب، یہ آپ کیا کہ رہے ہیں؟’ حمید بیچارے نے ہمّت مجتمع کرتے ہوئے احتجاج کی کوشش کی. ‘ہم تو عرصے سے اللہ کے اس گھر میں آتے ہیں. پہلے مولوی عبدالصمد مرحوم مسجد کے امام تھے. انہوں نے تو کبھی نہیں روکا ہمیں

‘دماغ خراب تھا عبدالصمد کا.’ مولوی صاحب نے نفرت سے ہونٹ سکیڑتے ہوئے جواب دیا: ‘اب میں اس مسجد کا امام ہوں. اللہ کے پاک گھر کو تم جیسے کنجروں کی وجہ سے گندا نہیں ہونے دوں گا’. مولوی صاحب نے اپنے حکم میں مزید اثر پیدا کرنے کے لئے ہارمونیم کو ایک لات رسید کی

‘چل بیٹا یہاں سے نکلیں. اب یہ اللہ کا گھر نہیں رہا، اللہ کے بندوں کا گھر بن گیا ہے. بندوں کے دلوں میں مراثیوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی’. حمید نے دکھی دل سے ٹوٹا ہارمونیم اٹھایا، پنوں کی انگلی پکڑی اور ہمیشہ کے لئے مسجد سے نکل گیا

حال میں واپس آتے ہوئے پنوں نے اپنی آنکھوں میں امڈتی نمی پونچھی اور حسرت بھری نگاہوں سے اپنے پڑوسیوں کو مسجد میں داخل ہوتے دیکھتا رہا. جب سب باری باری اندر چلے گئے تو اس نے ہارمونیم مسجد کے دروازے کے باہری طرف رکھا، نمازیوں کی جوتیاں ایک طرف کر کے اپنی چادر بچھائی اور نماز پڑھنے لگا

پنوں جب بھی پروگرام کر کے گھر پھنچتا تو اس کے دروازہ کھٹکھٹانے سے پہلے ہی سسی دروازہ کھولتی اور ایک خوبصورت مسکراہٹ کے ساتھ ایسے اس کا استقبال کرتی کہ پنوں کی ساری تھکن پلک جھپکتے غائب ہوجاتی. مگراس دن ایسا نہیں ہوا

پنوں نے کافی دفعہ لکڑی کے پرانے دروازے پر دستک دی مگر کوئی کھولنے نہیں آیا.  لٹکتی کنڈی پر تالا بھی نہیں لگا تھا. بیچارہ پریشان ہو کر مڑا ہی تھا کہ پڑوسیوں سے پوچھے کہ اندر سے آتی قدموں کی مخصوص چاپ نے اس کے قدم روک لئے. سسی نے دروازہ کھولا تو اس کی سانس اکھڑی ہوئی تھی اور پیشانی پر پسینے کے بیشمار قطرے موتیوں کیطرح چمک رہے تھے

پنوں نے غور سے سسی کی طرف دیکھا تو ہمیشہ کی طرح اس کی کالی گہری آنکھوں میں ڈوبتا چلا گیا

پنوں اور سسی کی شادی ہوئے ابھی صرف ایک سال ہی گزرا تھا. سسی، حمید مراثی کے لنگوٹیے یار افتخار مراثی کی اکلوتی بیٹی تھی اور پنوں سے عمر میں پانچ سال چھوٹی تھی. بچپن ہی سے پنوں کے عشق میں گرفتار تھی. پھر تھی بھی لاکھوں میں ایک

اونچا لمبا قد، لمبے گھنے کالے بال، بڑی بڑی کاجل کی سیاہ حدود میں قید آنکھیں جن میں زیادہ وقت شرارت ڈیرے ڈالے رکھتی تھی، سانولا سلونا رنگ اور متناسب جسم

صحیح معنوں میں گدڑی میں لعل تھی. پھر زینت کو بھی بہت پسند تھی اور وہ دل وجان سے اسے اپنی بہو بنانا چاہتی تھی. مگرحساس دل والا پنوں نجانے کیوں سسی کے معاملے میں بہت کٹھور دل تھا. یا شاید وہ ہمیشہ سے سسی کو صرف ایک شوخ بچی سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا تھا

زینت سسی کے دل کے حال سے بخوبی واقف تھی مگر کیا کرتی؟ جب بھی بیٹے سے بات کرنے کی کوشش کرتی، وہ ہنس کر ٹال دیتا تھا. خاوند کو کہتی تو وہ بس ہنس کرکہتا

‘نا پریشان ہوا کر زینت، جب بچوں کے دل ملنے ہوں گے، مل جایئں گے. تیرے میرے کھینچنے سے کچھ نہیں ہوگا.’ زینت بیچاری یہ سن کر چپ کرجاتی مگر دل ہی دل میں دعا ضرور کرتی

‘رب سوہنے، جیسے تو نے میرا اور حمید کا دل ملایا تھا، ویسے ہی پنوں اور سسی کا دل بھی ملا دے. میں بہاالدین ذکریا کے مزار پر دس دیئےجلاؤں گی. بلکہ اگر تو نے کچھ جلدی میرا کام کر دیا تو میں سو دیئے جلاؤں گی’

شاید قبولیت کی گھڑی تھی یا حضرت بہاؤالدین ذکریا نےزینت کی سفارش کردی ہوگی. پنوں اور سسی کے دل اس دن ملے جس دن پڑوس کے شیخ صاحب کے قل تھے

پنوں کا دل نہیں لگ رہا تھا تو وہ ماں باپ کو قلوں پر بیٹھا چھوڑ کر گھر کی طرف چل پڑا. لیکن گھر کے دروازے پر لٹکتا موٹا تازہ تانبے کا تالہ دیکھ کر یاد آیا کہ چابی تو وہیں ماں کے پاس رہ گئی. اب کون واپس جاتا اور ماں کو عورتوں میں سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر چابی لیتا

اچانک اس کو یاد آیا کہ سسی کی ماں کسی کام کی وجہ سے قلوں پرنہیں گئ تھی. لہذا پنوں نے یہ ہی فیصلہ کیا کہ جب تک حمید اور زینت گھر نہیں آجاتے، وہ قریب ہی سسی کے گھر میں آرام کرے گا. تکلّف اور شرم کی کوئی بات توتھی نہیں. دونوں گھر والوں کا آپس میں بہت آنا جانا تھا اور پھر سسی کی ماں پنوں سے اپنے بیٹوں والا سلوک کرتی تھی

‘ارے پنوں پتّر، تو یہاں کیا کر رہا ہے؟ قلوں پرنہیں گیا؟’ پنوں افتخار مراثی کے گھر میں بےتکلّفی سے داخل ہوا تو سسی کی ماں صحن میں کپڑے دھو رہی تھی.

‘گیا تو تھا اماں. پر دل نہیں لگا. پھر نیند بھی پوری کرنی ہے. رات کو ایک پروگرام میں جاناہے.’ پنوں نے سر کھجاتے جواب دیا

‘لے تو جھلّا ہے بالکل. قل بھی کوئی دل لگانے کا موقع ہوتا ہے؟’ سسی کی ماں بےاختیار ہنس پڑی لیکن پھر پنوں کو شرمندہ دیکھ کر اسے ترس آگیا. ‘جااندرجاکرسوجا. گھنٹے دو گھنٹے تک میں جگا دوںگی’

پنوں اندر گیا تو چارپائی پر ایک ریشمی بڑے بڑے پھولوں والا گہرا نیلا سوٹ بکھرا پڑا تھا. وہ اٹھا کر ایک طرف لاپرواہی سے پھینکا اور چارپائی پر لمبا لیٹ گیا. لیٹتےہی آنکھ لگ گئ. لیکن تھوڑی ہی دیر میں کھٹکا سا ہوا تو ہڑبڑا کر آنکھیں کھولیں

سسی نہا کر غسل خانے سے باہر نکل رہی تھی. سر پر تولیہ ڈالے بال خشک کر رہی تھی لہذا اسے پنوں کی موجودگی کا احساس نہیں ہوا. تھوڑی دیر کے لئے تو پنوں پر جیسے سکتہ ہی طاری ہو گیا. جسم پر ایک عجیب کیفیت طاری تھی. سارا بدن سنسنا رہا تھا اور گلا خشک ہو رہا تھا

‘اوئے سسی!’ بہت کوشسش کرنے پر پنوں کے حلق سے ایک عجیب سی آواز نکلی تو بیچاری سسی نے بوکھلا کر تولیہ چہرے پر سے ہٹا کر دیکھا اورپھر ‘ہائے میں مر گئ’ کہ کر واپس غسل خانے میں گھس گئ

پنوں سٹپٹاتا چارپائی سے اٹھا اور دوڑ کر گھر سے نکل گیا. سسی کی ماں آوازیں دیتی ہی رہ گئ. اس رات کھانے کے بعد پنوں نے ماں کو ایک طرف لے جا کراور شرماتے شرماتے سسی کے لئے ہاں کر دی

‘کیوں اب ایسا کیا ہوگیا کہ توسسی کے لئے اچانک مان گیا؟ اب چھوٹی بچی نہیں لگتی کیا؟’ زینت نے مسکراتے ہوئے پوچھا. سسی کی ماں نے اس کو دن کا واقعہ تو بتایا تھا لیکن سسی کی خاموشی کی وجہ سے یہ پتہ نہیں چل سکا تھا کہ پنوں اچانک سسی کے گھر سے بھاگ کیوں گیا تھا

.نہیں اماں، سسی اب بڑی ہوگئ ہے.’ پنوں نے ماں سے نظریں چراتے ہوئے جواب دیا

‘اچھا؟ بڑی ہوگئ ہے؟ بھلا یہ کیسے پتا چلا میرے پتر کو؟’ زینت نے بدستور مسکراتے ہوئے پوچھا تو پنوں نے یہ ہی بہتر سمجھا کہ وہاں سے غائب ہو جائے

زینت نے بھی بیٹے کو زیادہ تنگ کرنا مناسب نہیں سمجھا اور چادر سنبھالتی چل پڑی سسی کی ماں کو خوشخبری سنانے

وہ جوڑا واقعی آسمان پر بنا تھا. سسی اور پنوں کیا ملے، دونوں کے ماں باپ کو لگتا تھا کہ چاند اور سورج مل گئے. ‘میری پتہ نہیں کیا نیکی کام آگئ کہ سوہنے رب نے تجھے میرے نصیب میں لکھ دیا’، سہاگ رات کو پنوں نے سسی کا گھونگٹ اٹھا کر اور دو کانپتی انگلیوں میں اسکی تھوڑی پکڑتے ہوئے کہا

سسی کچھ نا بولی. صرف شرما کرسر جھکا لیا اور دل ہی دل میں مسکرانے لگی. وہ غسل خانے سے باہر نکلتے ہوئے اچھی طرح جانتی تھی کہ پنوں کمرے میں موجود ہے. لیکن کیا کرتی بیچاری؟ یہ بھی نا کرتی تو پنوں شاید ساری زندگی اس کو چھوٹی سی بچی ہی سمجھتا رہتا. عشق اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے

ایک اچھی بیوی کی طرح سسی نے اپنے ساس اور سسر کے دل کی خواھش پوری کی اور شادی کے پورے تین مہینوں کے بعد حاملہ ہو گئ . پنوں کی خوشی کو تو گویا ایک دوسرا رخ مل گیا

.دیکھ لینا، لڑکی ہوگی اور بالکل تیرے جیسی سوہنی ہوگی.’ وہ سسی کو چھیڑتے ہوئے کہتا

.نا جی نا. لڑکا ہوگا اور تیرے جیسا جوان اور بڑا گایک بنے گا.’ سسی اٹھلا کر جواب دیتی

‘نہیں سسی. میں اپنے بیٹے کو مراثی نہیں بناؤں گا. میں اسے پڑھاؤں گا، لکھاؤں گا اور بڑا آدمی بناؤں گا.’ پنوں ایک عزم کے ساتھ کہتا

‘پنوں جھلے! بڑےآدمی پڑھائی لکھائی سےنہیں، نصیب سے بنتے ہیں.’ سسی دل ہی دل میں کہتی اور اپنے خاوند کی آنکھوں میں جگمگاتے خوابوں کی روشن تعبیر کے لئے اللہ سے دعا مانگتی

‘کیا دیکھ رہا ہے ایسے بٹر بٹر؟ اندر آنا ہے یا پھر دروازے پر ہی کھڑا رہنا ہے؟’ سسی کی آواز پنوں کو حال میں کھینچ لائ

‘مجھے تو کچھ نہیں ہوا پر تجھے کیا ہوا ہے؟ پھرسے بخار تو نہیں چڑھ گیا؟’ پنوں نے فکرمندی سے سسی کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

‘ہاں بخار بھی چڑھا ہے اور کھنگ بھی لگی پڑی ہے شام سے. لیکن دوا لےلی تھی. ٹھیک ہوجاؤں گی جلدی. تو فکر نا کر’. سسی خاوند کی محبت بھری نظروں سے کچھ نا چھپا سکی

‘اب تو ٹیسٹ کی رپورٹ بھی آگئی ہوگی. چل آج ڈاکٹرصاحب کے پاس ہو ہی آیئں.’ پنوں نے سسی کے پیچھے پیچھے اندر داخل ہوتے ہوئےکہا

اندر جا کر پنوں نے ہارمونیم کو اس کی مخصوص جگہ پر رکھا اور پھر تخت پر بیٹھی اور قران کی تلاوت کرتی ماں کے دوپٹتے سے ڈھکے سر کوچوم لیا. ماں نے محبت سے مسکرا کر بیٹے کی طرف دیکھا، قران پاک بند کیا اور پنوں کی پیشانی پر آیت الکرسی پڑھ کر پھونک ماری

‘کیا بات ہے پتّر؟ ماں صدقے پریشان سا لگ رہا ہے. کمائی نہیں ہوئی آج؟’ زینت نے بیٹے کے چہرے پر پھیلی پریشانی پل بھر میں بھانپ لی

‘کمائی تو بہت ہوئی اماں. بس سسی کی بیماری کا سوچ کر پریشان ہوں. بخار اور کھنگ ختم ہی نہیں ہوتے. سوچ رہا ہوں آج ڈاکٹرصاحب کے کلینک لےجاؤں.’  پنوں نے باورچی خانے میں داخل ہوتی سسی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا

‘میں نے تو بہت منع کیا تھا کہ سسی اتنا اچار نا کھا، گلا پکڑا جائے گا. مگر کہاں سنتے ہو تم دونوں میری.’ ماں نے بیٹے کو بدستور فکرمند دیکھا تو اس کادھیان بٹانے کو بولی: ‘تو پریشان نا ہو. ڈاکٹراچھی دوائی دے گا تو فوراً ٹھیک ہوجائے گی’

‘اچھا…….یہ بتا بھلا، تجھے یاد ہے کہ الله بخشے تیرا ابّا کیا کہا کرتا تھا جب تجھے اداس یا پریشان دیکھتا تھا؟’

حمید مراثی مرحوم کا ذکر آیا تو پنوں نے بےاختیار آنگن میں ایک طرف کھڑے آم کے بوڑھے درخت کی طرف دیکھا جس کے نیچے بیٹھ کر اس کا باپ ریاض کرتا تھا اور جب ریاض کرتے کرتے تھک جاتا تو بیٹے کو پاس بٹھا کر سادہ سادہ فلسفےبولتا تھا

‘پنوں پتّر! یہ جو پریشانیاں اداسیاں ہوتی ہیں نا یہ زہریلی جڑی بوٹیوں کی طرح ہوتی ہیں جن کو زمین سے سر نکالتے ہی اکھاڑ دینا چاہیے.’ حمید ہارمونیم کی چابیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرتا ہوا کہتا: ‘لیکن ہم ان کو اکھاڑ پھینکنے کی بجائے پانی دیتےہیں. اپنی ناآسودگی کا پانی، اداسی کا پانی، غصّے کا پانی اور لاچاری کا پانی. یہ پانی پی پی کر یہ جڑی بوٹیاں ایک دن تناور درخت بن جاتی ہیں اور ہمیں ان درختوں کی چھاؤں تلے بیٹھنا اچھا لگنا شروع ہو جاتا ہے. لیکن یہ چھاؤں بڑی زہریلی ہوتی ہے پتّر. ہمارا سارا حوصلہ اور ہمّت چوس جاتی ہے’

سسی ناشتہ لے کر آئ تو پنوں اٹھنے لگا مگر پھر ماں کے چہرے کی طرف دیکھ کر رک گیا. حمید کی وفات کے بعد تین مہینوں کے اندر اندر زینت بیس سال بوڑھی ہوچکی تھی

تو اپنا خیال نہیں رکھتی اماں.’ پنوں نے پیار سے ماں کے کمزور ہاتھ سہلاتے ہوئے کہا’

‘لے رکھتی تو ہوں. پھرسسی بھی تو ہر وقت کچھ نا کچھ کھانے کو لاتی رہتی ہے’. زینت نے بہو اور بیٹے دونوں کی طرف محبت سے دیکھتے ہوئے کہا

.تجھے ابّا بہت یاد آتا ہے نا اماں؟’ پنوں نے ماں کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر پوچھا

‘ہاں. بہت یاد آتا ہے پتّر.  جب دو بندے ساتھ ساتھ اتنا عرصہ رہتے رہیں، ساتھ ہنستے ہیں، ساتھ روتے ہیں، تو ان کی جان دو سے ایک ہوجاتی ہے. ایک جان بن جاتے ہیں دونوں. اور جب آدھی جان نکل جائے تو باقی آدھی جان اکیلی رہ کر کیا کرے گی بھلا؟’  ماں نے پنوں کے بالوں میں انگلیاں چلاتے ہوئے کہا

‘ایسی باتیں نا کیا کر اماں. ابھی تو تجھے پوتے پوتیوں سے کھیلنا ہے.’ پنوں نے دکھی ہوتے ہوئے کہا.

‘اچھا نہیں کرتی ایسی باتیں. تو جلدی سے ناشتہ کر لے اور پھر تھوڑی دیر سو جا. اٹھ کر سسی کو ڈاکٹرصاحب کے پاس لےجانا.’ زینت نے ناشتے کے لئے تخت پر جگہ خالی کرتے ہوئے کہا تو پنوں کی توجوہ بھی بٹ گئ

شام کے وقت پنوں کی آنکھ کھلی تو سسی کی حالت بہت خراب ہوچکی تھی. نا صرف بخار بہت تیز تھا بلکہ کھانسی کے ساتھ خون بھی آنا شروع ہو چکا تھا. پنوں کے تو پاؤں تلے زمین نکل گئ. فٹا فٹ تانگے میں بٹھایا اور قریب ہی چوک میں واقع ڈاکٹرچوہان کے کلینک میں لے گیا

ڈاکٹر چوہان سفید بالوں میں گھرے گنجےسر، سنہرے چشمے اور سفید گاؤن میں اپنے غریب مریضوں کو کسی فرشتے سے کم نا دکھائی دیتا تھا. لوگ بتاتے تھے کہ بہت لائق فائق ڈاکٹر تھا اور لندن سے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے ملتان کے ایک پرائیویٹ مگر بڑے ہسپتال میں اس نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا. لیکن کچھ ہی عرصے میں اپنے اردگرد جاری پیسے کی دوڑ سے تنگ آ گیا اورآخرکار نوکری چھوڑ کر اندرون بوہڑ گیٹ میں ایک چھوٹا سا کلینک کھول کر بیٹھ گیا. ساری جوانی یہ کلینک چلانے میں گزاردی

مریض کے پاس پیسے ہوتے تو لے لیتا اور نا ہوتے تو نا لیتا مگر اپنے کلینک سے علاج کے بغیر کسی غریب کو نا جانے دیتا. نیّت صاف تھی شاید اسی لئے اللہ نے اس کے ہاتھ میں شفاء بھی بہت رکھی تھی. کچھ لوگ تو اتنے معتقد تھے کہ صرف ڈاکٹر چوہان کے سٹیتھوسکوپ لگانے کو ہی کافی سمجھتے تھے

ڈاکٹرچوہان ساری جوانی اور ادھیڑعمری ان غریبوں کے درمیان گزارنے سے موت اور بیماری کے ہر بدصورت چہرے سے اچھی طرح واقف تھا. کبھی کبھی اس کو لگتا تھا کہ اس کا چھوٹا سا کلینک غربت اور بیماری کے درمیان واقع سرحد پر ایک اکیلی چوکی ہے اور وہ خود اس اکیلی چوکی کا اکلوتا سنتری

لیکن سسی کے معاملے میں یہ اکلوتا سنتری بےبس تھا کیونکہ ٹیسٹوں کی رپورٹ صاف بتا رہی تھی کہ سسی کو آخری اسٹیج کی ٹی بی ہے. اس بیچارے نے پوری کوشش کی کہ اپنی مایوسی کو ظاہر نا ہونے دے. پنوں کی غربت دیکھتے ہوئے نا فیس لی اور بلکہ دوائیاں بھی اپنے پاس موجود محدود سٹاک سےدے دیں

دونوں میاں بیوی کو اٹھ کر جاتا دیکھ کر ڈاکٹر چوہان نے مایوسی اور اداسی سے سر جھکا لیا. وہ ہزاروں دفعہ زہریلے خاموش سانپ جیسی اس بیماری کو غریبوں کی اس بستی میں سرسراتا دیکھ چکا تھا. وہ جانتا تھا کہ مہذب دنیا میں چاہے لاکھ یہ بیماری ختم ہوگئ ہو مگر غربت میں اس بیماری کا ڈسا پانی بھی نہیں مانگتا تھا

‘میں کس دل کے ساتھ اس کے خاوند کو بتاتا کہ اس کی بیوی اور ہونے والا بچہ دونوں کے بچنے کی کوئی امید نہیں ہے.’ ڈاکٹر چوہان نے دکھ کے ساتھ سوچا اور پھر ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے اگلے مریض کو بلانے کے لئے گھنٹی بجائی

گھر واپس پھنچنے تک سسی کا بخار بہت حد تک اتر چکا تھا. پنوں بیچارہ خوش ہوگیا کہ شاید ڈاکٹر چوہان کی مسیحائی اثر کر گئ مگر کیا جانتا تھا کہ گھر پر ایک اور قیامت اس کی منتظر ہوگی

تانگہ گھر کے سامنے رکتے ہی پنوں کو کسی گڑبڑ کا احساس ہوگیا. گھر کا دروازہ کھلا تھا اور اندر صحن میں عورتیں چلتی پھرتی نظر آرہی تھیں. بیچارہ دوڑ کر اندر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ماں بےسدھ چارپائی پر پڑی تھی اور سسی کی ماں اس کے پاؤں کے تلووں کی مالش کررہی تھی

محلے کی کچھ اور عورتیں چارپائی کے دائیں بائیں بیٹھی اپنے اپنے مشوروں سے نواز رہی تھیں. پتہ چلا کہ پنوں اور سسی کے گھر سے نکلنے کے تھوڑی دیر بعد ہی زینت کسی کام سے گلی میں نکلی تو چکرا کر گرگئ. غالباً فالج کا دورہ تھا کیونکہ بیچاری ہاتھ پاؤں نہیں ہلا پا رہی تھی

پنوں بیچارا بری طرح سے بوکھلا گیا. پہلے سسی اور اب زینت. شاید پریشانیوں اور مصیبتوں نے گھر کا دروازہ تاڑ لیا تھا. اس نے جلدی جلدی سسی کو اس کی ماں کے سپرد کیا اور اسی تانگے پر ماں کو گود میں لے کر نشتر ہسپتال لے گیا. تین دن زینت ہسپتال میں رہی اور پنوں نے اولاد ہونے کا حق ادا کر دیا. خدمت میں کوئی کمی نا آنے دی. دوائیاں، شربت ہرچیزپوری کی. سارا جمع جتھا ماں پر لگا دیا. مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا. ہسپتال میں تیسری رات زینت خاموشی سے دم توڑ گئ. شاید حمید کے جانے کے بعد واقعی اس دنیا میں اس کا جی نہیں لگ رہا تھا

زینت کے مرنے سے نا زمین پھٹی نا آسمان شک ہوا لیکن پنوں کو لگا کہ جیسے اس کے سر سے چھاؤں چلی گئ ہو. ماں کے مرنے کے بعد تو دھوپ بھی تیز لگتی ہے

ماں کو باپ کی قبر کے برابر دفنا کر واپس آیا تو پنوں ماں کے تخت اور اس پر رکھی رحل سے لپٹا ساری رات بلک بلک کر روتا رہا.  سسی بیچاری پہلے تو پنوں کو چپ کرانے کی کوشش کرتی رہی لیکن جب ناکام ہوگئ تو وہیں تخت پر بیٹھ کر خود بھی رونے لگی. اس کو شاید اندازہ ہو چلا تھا کہ پنوں نا صرف اپنی یتیمی پررو رہا تھا بلکہ سسی کی آنے والی موت کے سامنے بھی بے بسی کے آنسو بہاء رہا تھا. لیکن سسی بھی کیا کرتی. وہ مرنا نہیں چاہتی تھی. وہ جینا چاہتی تھی، پنوں کے لئے اور اپنی آنے والی اولاد کے لئے

زینت کی ناگہانی موت کے بعد پنوں کے لئے زندگی ایک کڑا امتحان بن کر رہ گئ. کبھی کبھی اس کو لگتا کہ جیسے سسی کسی جھولے کی سواری کررہی ہے. کبھی اوپر جاتی اور کچھ عرصہ اچھی صحت اور خیریت کےساتھ گزرجاتا لیکن پھر یکایک نیچے آتی اور کئی کئی دن بیماری اور کھانسی کی نظر ہوجاتے. یوں اس کی اچھی صحت والےدن بھی پنوں کو برے دنوں کے پیامبر لگتے

پنوں کیلئے سسی کا خیال رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا. خاص طور پر بیماری والے دنوں میں تو پنوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ کس طرح دیہاڑی کمانے گھر سے باہر نکلے.  سسی کی اپنی ماں بیمار رہتی تھی لیکن پھر بھی بیچاری پنوں کے پیچھے بیٹی کا خیال رکھتی

پروگرام کرنے کے بعد پنوں تھکا ہارا واپس آتا اور اپنی ساس کو فارغ کر کے خود سسی کی نگہداشت کا ذمہ اٹھاتا. اس کو بچوں کی طرح نہلاتا دھلاتا، صاف کپڑے پہناتا، کھلاتا پلاتا اور پھر گرم تیل سے رگڑ رگڑ کے سسی کے بیمار جوڑوں سے درد کھینچ نکالنے کی کوشش کرتا

سسی بیچاری ٹک ٹک دیکھتی رہتی کہ کیسے اس کا خاوند ماں بن کر اس کا خیال رکھ رہا ہے. اور اس وقت تو واقعی پنوں بلکل ماں بن جاتا جب سسی بہت بیمار ہوتی اور وہ اس کو گود میں لے کر لوریاں سناتا. سسی اس کی درد بھری آواز سنتی اور سنتے سنتے نجانے کب نیند، درد اور بےچینی کی جگہ لےلیتی

کبھی کبھی جب شدید بخار کی حالت میں اسے موت کے فرشتے کے تاریک پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی تو بیچاری خوف سے پنوں کو آواز دیتی اور اسے گانے کے لئے کہتی

‘پنوں تو گاتا کیوں نہیں؟ دیکھ یہ مجھے تجھ سے چھین کر لے جائے گا

پنوں اس وقت تک گاتا رہتا جب تک  موت کے فرشتے کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ ہارمونیم کے سروں میں گم نا ہو جا تی. جب تھک جاتا تو وہیں سسی کے پہلو میں گر کر اور اس کو اپنی آغوش میں سمیٹےسو جاتا. لیکن ان تمامتر محبتوں اور کوششوں سے کوئی فائدہ نہیں ہورہا تھا. اب جب پنوں سسی کی طرف دیکھتا تو اس کو اپنی حسین وجمیل بیوی کی بجائے ایک سایہ دکھائی دیتا جو ڈھلتی دھوپ کے ساتھ بقاء کی آخری جنگ لڑ رہا تھا

ڈاکٹروں اور حکیموں سے مایوس ہونے کے بعد تمام لاچار انسانوں کی طرح پنوں کے پاس بھی فقط خدا کا سہارا بچا تھا. بیچارا پانچوں وقت کی نماز پڑھتا اور دن رات خدا سے رو رو کر سسی کی زندگی اور صحت کی دعایں مانگتا. ملتان کے ہر بزرگ کے سالانہ عرس پر حاضری دیتا، رات رات بھر کافیاں گاتا رہتا اور صبح سوجے ہوئے گلے کے ساتھ پھر سسی کی خدمت میں جت جاتا

کبھی درویشوں اور ملنگوں کے  ساتھ پاؤں میں گھنگرو باندھ کر ناچتا اور تب تک ناچتا رہتا جب تک کہ زمین اس کے پیروں سے رستے خون سے سرخ نا ہو جاتی. لیکن تمام دعاؤں کا، مزاروں پر حاضریوں کا، گانے کا، ناچنے کا کوئی اثر نہیں ہوا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ سسی گھلتی چلی گئ. پنوں کو لگتا تھا کہ جیسے سسی سمندر کی ریت ہے جس کو وہ جتنی مضبوطی سے بھی اپنی مٹھی میں تھامنے کی کوشش کرتا، وہ مٹھی سے پھسل کر گرتی چلی جاتی

سسی، پنوں کی زندگی کی سڑک کا پہلا اور آخری سنگ میل تھا جس کے پتھر بہت تیزی سے بھربھرا رہے تھے. اس کو یقین ہوچلا تھا کہ بہت جلد سسی اس کو چھوڑ کر چلی جائے گی لیکن اس کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ اس تلخ حقیقت کا کیسے سامنا کرے

سسی کی حثیت پنوں کی زندگی میں رنگوں اور سروں کی طرح تھی کہ جن کے بغیر زندگی بےرنگ اور خاموش ہوجاتی. اس کو اپنی ماں کی بات یادآتی اور لگتا کہ وہ اور سسی یکجان ہو چکے ہیں

پھرایک دن غریبوں کی اس بستی میں رمضان شریف آگیا، مذہبی جوش وخروش اور نیک کاموں سے بھرپور تمام مسلمانوں کے لئے خوشی کا مہینہ. لیکن بیچارے مراثیوں کے لئے رمضان اور محرم میں کوئی فرق نہیں تھا. دونوں کمائی سے مکمّل محرومی کے مہینے تھے.  اور غریبوں کے لئے تو ویسے بھی نا صرف رمضان بلکہ عیدالفطر بھی پریشانیوں اور محرومیوں کا پیغام لاتے ہیں. یہ وہ مہینہ ہے جس کے ہر دن غریبوں کے بچوں کےدل ٹوٹتے ہیں

لہٰذا باقی مسلمان بھائیوں کے برعکس مراثی برادری کے دل رمضان کی آمد پر ڈوبنا شروع ہو جاتےتھے. رمضان کا چاند دیکھتے ہی اپنے اپنے طبلوں اور سازوں کو تالا لگا کر رکھ دیتے اور پیٹ کس کر روزے رکھنے کی تیاری شروع کردیتے. پورے ایک مہینے کا مسلسل روزہ

پنوں بیچارا توسسی کے خیال میں لگا تھا. اس کو بالکل رمضان کی آمد کا پتہ نہیں چلا. پتہ چلا تو تب جب محلے کی مسجد سے بھونپو بجنا شروع ہوئے اور باہر گلی سے مبارک مبارک کی آوازیں آنا شروع ہوگیئں. اس بیچارے کیلئے آمدنی کے سب ذریعے یکدم ختم ہوگئے. اس نے دوستوں سے، سسی کے ماں باپ سے، سب سے ادھار مانگا اور تب تک ادھار لیتا رہا جب تک وہ دینے کے قابل رہے. پھر ایک دن نوبت یہاں تک آن پھنچی کہ اس کو اپنے مرحوم باپ کا ہارمونیم بھی بیچنا پڑا

نا صرف وہ ہارمونیم حمید میراثی کی آخری نشانی تھی بلکہ کبھی کبھی تو پنوں کو لگتا کہ اس کے باپ کی روح کا ایک حصّہ اس ہارمونیم کے کسی گوشے میں مقیم ہے. لیکن مرتا کیا نا کرتا.  ہارمونیم اس کو سسی سے زیادہ تو عزیز نہیں تھا. لہٰذا دو ہزار روپے کے عیوض بیچنا پڑا.  اس بیچارے نے دو ہزار روپے جیب میں ڈالے، باپ کی روح سے دل ہی دل میں معافی مانگی اور ہارمونیم پر لگی سلور کی پلیٹ پر پیار سے آخری دفعہ ہاتھ پھیر کر چلا آیا. لیکن وہ دو ہزار روپے بھی مشکل سے صرف ایک  ہی ہفتہ نکال پائے

پھر ایک دن جب پنوں سوتی سسی کی پیشانی پر تیل سے مالش کر رہا تھا تو اس کو محلے کی مسجد کے لاؤڈسپیکر پر نعت گانے کی آواز آئ

‘یا نبی! یا نبی! یثرب کے والی! غریبوں کے والی! یتیموں کے والی!’ نعتیہ محفل اپنے عروج پر تھی

پنوں کو یاد آیا کہ باپ کسی زمانے میں مسجد میں رمضان میں نعتیں پڑھتا تھا تو محلے کے متخیر حضرات کچھ نا کچھ مدد کر ہی دیا کرتے تھے

پہلے تو مولوی صاحب کے مزاج کے بارے میں سوچ کر کچھ ڈرا لیکن پھر سوئی سسی کی طرف دیکھ کر ہمت پکڑی، وضو کیا اور مسجد کی طرف چل پڑا.

ابھی بیچارہ جوتے اتار کر داخلی محراب سے اندر داخل ہوا ہی تھا کہ مولوی صاحب کی کرخت آواز نے پاؤں پکڑ لئے

‘کہاں گھسے چلے آ رہے ہو؟ کیا کرنے آئے ہو؟’ ایک تو مولوی صاحب کی آواز میں کرختگی کوٹ کوٹ کر بھری تھی اور دوسرا منبر پرسبز ریشمی چغے میں ملبوس بیٹھے وہ مولوی کم اور خلیفہ وقت زیادہ لگ رہے تھے

رعب و دبدبے کا یہ عالم تھا کہ نعت خواں اور منہ سے دف بجاتے ان کے ہمنوا مولوی صاحب کی آواز سنتے ہی یوں خاموش ہوگئے کہ جیسے کسی نے ان کا سوئچ آف کردیا ہو

.جی وہ میں نعت گانے آیا ہوں.’ پنوں بیچارے نے ہمت کی اور ڈرتے ڈرتے کہا

‘برخوردار! نعت گائی نہیں جاتی، پڑھی جاتی ہے. اور کیا وقت قیامت سر پر آ کھڑا ہوا ہے کہ اب کنجر اور میراثی مسجدوں میں نعتیں پڑھا کریں گے؟’

یہ که کر مولوی صاحب نے حاضرین محفل کی طرف داد طلب نظروں سے دیکھا تو پوراہال ‘توبہ! توبہ! استغفراللہ! استغفراللہ!’ کےنعروں سےگونج اٹھا اور پنوں الله کے بندوں کے جذبہ ایمانی کے ڈر سے الله کے گھر سے نکل گیا. پھر محراب کے باہر فقیروں کو قطار میں بیٹھے دیکھا تو خود بھی چادر آگے پھیلا کر وہیں بیٹھ گیا.

آدھے ایک گھنٹے کے بعد محفل اختتام پذیر ہوئی تو باہر نکلتے حاضرین میں سے کچھ نے پنوں کی چادر پر بھی پانچ دس کے کچھ نوٹ پھینکے

‘کیا کرتے ہو مؤمنو؟ کنجروں کو خیرات یا صدقہ دینا جائزنہیں’

یہ سن کر پنوں نے آنسوؤں بھری آنکھوں سے سر پر کھڑے مولوی صاحب کی طرف دیکھا، چادر پر بکھرے نوٹ سمیٹ کر مسجد کے باہر لگے چندے کے ڈبے میں ڈالے اور گھر کی طرف دکھی قدموں سے چل پڑا

ابھی پنوں گھر کے دروازے پر لگی کنڈی کھول ہی رہا تھا کہ اسے اندر سے سسی کے بری طرح کھانسنے کی آواز آئ. وہ دوڑ کر اندر پھنچا تو دیکھا کہ سسی زمین پر گٹھری بنی پڑی کھانس رہی تھی اور اس کےہونٹ، تھوڑی اورقمیض کا اگلا حصّہ سیاہی مائل خون سے داغدار ہو چکا تھا

پنوں نے جلدی سے اسے بازوؤں میں اٹھایا اور اتنی احتیاط سے بستر پر لٹایا کہ جیسےوہ کانچ کی گڑیا ہو. زبردستی تھوڑا پانی پلایا تو سسی کی کھانسی کو کچھ آرام آیا اور اس نے آنکھیں بند کر لیں. پنوں نے آرام اور احتیاط سے سسی کا منہ صاف کیا، کپڑے تبدیل کئے اور سسی کی ماں کے گھر سےکچھ کھانے پینے کا پتا کرنے نکلنے لگا

‘پنوں! وےپنوں! کہاں جارہا ہےمجھے چھوڑ کر؟’ سسی کی کمزور اور سہمی ہوئی آواز نے پنوں کے پاؤں پکڑ لئے

‘کہیں نہیں میری جان. میں نے کہاں جانا ہے بھلا؟ میں یہیں ہوں نا، تیرے پاس.’ پنوں نے جھک کر سسی کی جلتی پیشانی چوم کر کہا

‘آج گانا نہیں سنائے گا اپنی سسی کو؟ دیکھ آج آخری بارسنا دے. پھرکبھی تنگ نہیں کروں گی.’ سسی نے اپنے کمزور ہاتھ پنوں کے چہرے پر پھیرے تو اسکی آنکھیں ڈبڈبا گیئں

اس نے آہستگی سے اپنے آپ کو سسی سے الگ کیا اور ایک خالی گھڑا لے کر وہیں سسی کے بستر کے پاس زمیں پر بیٹھ کر گانے لگا

‘ماۓنی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال نی

دھواں دھکھے میرے مرشد والا، جاں پھولاں تاں لال نی

جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی، اجے نا پایو لال نی

دکھاں دی روٹی، سولاں دا سالن، آہیں دا بالن بال نی

کہے حسین فقیر نماناں، شوہ ملے تاں تھیوان حال نی’

پتہ نہیں پنوں کب تک روتا رہا اور گاتا رہا. فجر کی اذان کان میں پڑی تو گھڑا ایک طرف رکھ کر اٹھا اور سسی کو دیکھا. اس کی کھانسی کو آرام تھا، اس کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا.  بلکہ تڑخے ہوئے لبوں پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ کا شائبہ ہورہا تھا. پنوں کو اس پر بہت پیار آیا

جھک کر پیشانی چومی تو وہ برف کی طرح ٹھنڈی پڑی تھی. اس نے چھاتی پر ہاتھ لگایا تو وہاں بھی خاموشی اور سکوت کا راج تھا. پنوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے دو نمکین قطرے پھسلے اور سسی کی بند آنکھوں میں جذب ہوگئے

پنوں نے سسی کے بےجان سر کے نیچے تکیہ درست کیا، اس کے بکھرے بال کانپتی انگلیوں سے سنوارے اور اس کے برفیلے جسم کو اپنی چادر سے ڈھک دیا. پھر اپنے آنسو صاف کئے، وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر خدا کے حضور کھڑا ہوگیا

اللہ واکبر

صبح عید کا دن تھا. سورج ہنستا ہوا باہر نکلا. نیلے آسمان پر چکر لگاتی چیل نے نیچے دیکھا تو رنگ ہی رنگ نظر آئے. بچے کھلکھلاتے ہوئے ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے. کچھ اپنے باپوں کی انگلیاں تھامے مسجد نماز پڑھنے جارہے تھے. ہر گھر سے میٹھا اور خوشبودار دھواں اٹھ رہا تھا اور شہر ملتان کے برج اور مینار سونے کی طرح چمک رہے تھے

افتخارمراثی نماز کے لئے گھر سے نکلا تو سسی کی ماں نے بھی بیٹی کی خبر لینے کو سوچا. دروازہ اندر سے بند تھا. بہت دیر کھٹکھٹاتی رہی لیکن اندر سے کوئی آواز نہیں آئ. بیچاری نے گھبرا کر مدد کے لئے آواز بلند کی تو مسجد سے نکلتے نمازی اکٹھے ہوگئے اور افتخارکی سربراہی میں مل کر دروازہ توڑا گیا

اندربالکل خاموشی تھی. سسی بستر پر مری پڑی تھی اور پنوں سجدے میں بےجان. جب زندہ تھے تو دو جسم اور ایک جان تھے. اب مردہ تھے تو صرف دو جسم تھے اور جان اس کے حوالے ہو چکی تھی جو محبت کا سب سے بڑا اور سب سے سچا قدردان ہے

#urdu #story #love #life #death #God #compnaionship #soul #music #musician #merasi #religion #tolerence #kindness #understanding #rigidity #discrimination