شہر کا آخری خواب فروش

‘چاچا جی؟’ میں نے کھنکار کر پوچھا. ‘آپ چپ کیوں ہوگئے؟’

.کہتے ہیں……….’ انہوں نے بدستور گردن جھکائے کہا’

‘جب دور کسی گھنے جنگل کے بیچوں بیچ، کوئی بوڑھا درخت ٹوٹ کر گرتا ہے تو کوئی آواز نہیں گونجتی’

‘کوئی آواز نہیں گونجتی؟’ میں نے حیرانگی سے پوچھا. ‘یہ کیسے ہوسکتا ہے؟’

.جب کوئی آواز سننے والا یا پرواہ کرنے والا نا ہو تو آوازیں نہیں گونجتی.’ انہوں نے میری آنکھوں میں جھانک کر جواب دیا’

.میں ہوں نا چاچا جی!’ میں نے محبت سے ان کے جھریوں بھرے کمزور ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’

‘میں ہوں نا سننے اور پرواہ کرنے والا’


Read more: شہر کا آخری خواب فروش

وہ سردیوں کی ایک دھندلکی سپہر تھی اور میں اپنا کیمرہ کندھے پر لٹکائے اندرون شہر کی گنجان آباد گلیوں میں چکر لگا رہا تھا. بہت سے خوبصورت چہرے بھی نظر آئے؛ بہت حسین نقش و نگار والے دروازوں پر بھی نظر پڑی؛ کچھ مسکراہٹوں نے دل موہ لینے کی کوشش بھی کی؛ اور کچھ آنسوؤں نے قدم بھی تھامے. لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی کہ میں اپنے کیمرے کا بٹن نہیں دبا سکا. دل پر عجیب اداسی چھائی ہوئی تھی

پھر موچی گیٹ کی بغل میں ایک نسبتاً تاریک اور تنگ سی گلی سے گزرتے ہوئے میری نظر اس بوڑھے کھلونا فروش پر پڑی. وہ ایک بند دروازے سے ٹیک لگائے نجانے کس گہری سوچ میں گم تھا

جس چیز نے مجھے زیادہ متوجوہ کیا وہ تھا اس بوڑھے کھلونا فروش کے پاس ہی دیوار سے ٹکا بانس سے بنا اسٹینڈ. ایک مرکزی عمودی بانس سے جڑے لکڑی کی کئ چھوٹی بڑی پھٹیاں تھیں جن سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے کھلونے لٹک رہے تھے

ایسے کھلونا فروش میں نے اپنے بچپن میں ہی دیکھے تھے. چھٹی والے دن اور خاص طور پر عید والے دنوں میں چکر لگاتے تھے. ان میں سے چاچا خیرو مجھے خوب یاد ہے جو مجھے پیار سے بیجو بابرا کہا کرتا تھا

.یہ تم ہر وقت کیا گنگناتے رہتے ہو کاکے؟’ ایک دن چاچا خیرو نے مجھ سے پوچھ ہی لیا’

مجھے دراصل بچپن ہی سے اپنے ہم عصروں سے مختلف نظر آنے کا شوق تھا. لہٰذا ان دنوں میں چھ سات سال کا ہونے کے باوجود کلاسیکی موسیقی میں دلچسپی لے رہا تھا

.جی راگ درگا چاچا جی.’ میں نے بے ساختہ جواب دیا تو وہ ایک دم ہنس پڑا’

‘راگ درگا؟ تم بچے ہو کہ بیجو بابرا؟’

اس دن سے میرا نام ہی چاچا خیرو نے بیجو بابرا رکھ دیا اور میں اس کا مستقل گاہک بن گیا. رنگ برنگی چیزیں ہوتی تھیں اس کے پاس. پلاسٹک کے باجے اور بانس کی پیپنیاں؛ ہلکی سی باریک باریک پہیوں والی چھوٹی چھوٹی گاڑیاں؛ سستی گڑیاں؛ پلاسٹک کے خوفناک ماسک؛ اور سفید سوتی ٹوپیاں جن کے ساتھ مصنوعی سفید داڑھی مونچھیں جڑی ہوتی تھیں. اب چاچا خیرو جیسے لوگ ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آتے


میں ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا

.چاچا جی؟’ میں نے ہلکے سے ان کو مخاطب کیا’

‘ہاں……کون؟’ انہوں نے آنکھیں کھول کر حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور پھر مسکرا دیئے. ‘کہو بیٹے کیا چاہئے؟’

‘چاہئے تو کچھ نہیں….’ میں نے سر کھجاتے جواب دیا. ‘بس آپ پر نظر پڑی تو آپ سے بات کرنے کا دل کیا’

‘ضرور کرو بات بیٹے’

‘آپ کون ہیں چاچا جی؟’

.میں؟’ انہوں نے اپنے سینے کی طرف مسکرا کر انگلی سے اشارہ کیا’

‘میں ہوں اس شہر کا آخری خواب فروش’

.خواب فروش؟ آخری خواب فروش؟’ میں نے چونک کر پوچھا’

ہاں کھلونے خواب ہی تو ہوتے ہیں…چھوٹے چھوٹے معصوم اور رنگین خواب. میں یہ خواب بڑی محنت سے بنتا تھا اور پھر انہیں چاہنے والوں کے حوالے کر دیتا تھا

ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سی یاسیت اتر آئ

.اب نا خواب دیکھنے والے رہے اور نا ان کھلونوں کو چاہنے والے.’ انہوں نے بےبسی سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا’

‘جب خواب دیکھنے والے خواب ہی نا دیکھنا چاہیں، خوابوں میں یقین ہی نا رکھنا چاہیں تو ان کے رنگ بے معںی ہو جاتے ہیں’

.لیکن خواب تو ہمیشہ اہم ہی رہتے ہیں.’ میں نے حیرت سے پوچھا’

.یقین خواب کی روح ہوتی ہے بیٹے.’ چاچا جی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا’

‘یقین چلا جائے تو خوابوں کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی’


ہم دونوں کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے. وہ گلی بڑی عجیب تھی. جب سے میں آ کر وہاں بیٹھا تھا ویران پڑی تھی. دھوپ کا گزر غالباً بالکل ہی نہیں ہوتا تھا وہاں. اسلئے عجیب سبزی مائل پیلا سا رنگ تھا ماحول کا جیسے میں کسی پرانی تصویر کے اندر زندہ تھا اور سانس لے رہا تھا. پھر گلی کے بیچوں بیچ ایک نالی ضرور بہ رہی تھی لیکن بدبو کا دور دور تک کوئی شائبہ تک نہیں تھا. بلکہ میرے نتھنوں میں تو لکڑی کے فرنیچر کی، پنسلوں کی اور مہنگے ربڑوں کی خوشبو مہک رہی تھی. یوں لگتا تھا کہ میں پھر سے اپنے بچھڑے بچپن کے کسی ایک ثانیے میں سانس لے رہا تھا. رنگ بھی وہ ہی تھے اور خوشبویئں بھی وہ ہی، بس ماحول مختلف تھا


.یہ جادو کی چھڑی یاد ہے تمھیں؟’ چاچا جی نے ایک پلاسٹک کی چھڑی میری طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا’

.نہیں.’ میں نے چھڑی دیکھ کر نفی میں سر ہلایا’

وہ سرخ رنگ کے پلاسٹک سے بنی تقریباً ایک فٹ لمبی چھڑی تھی جس کے ایک کونے پر چاندی رنگ کے پترے سے بنا پانچ کونوں والا ستارہ لگا ہوا تھا

.یاد کرو بیجو بابرا!’ چاچا جی نے مسکراتے ہوئے کہا’

‘جب تم چھوٹے تھے تو تمھیں یقین تھا کہ چھڑی کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہلانے سے تم کچھ بھی کر سکتے ہو’

.بیجو بابرا….؟’ میں بری طرح سے چونک گیا’

.گھبراؤ نہیں…’ بوڑھے خواب فروش نے میرا ہاتھ شفقت سے تھپتھپایا’

ہم خواب فروشوں کا اپنا قبیلہ ہے اور اس قبیلے کی یادیں اور خواب مشترک ہوتے ہیں. خیردین اور میں، ہم دونوں اسی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں

‘ہاں شاید …..’ میں نے سر جھٹکتے ہوئے کہا. ‘اس وقت مجھے یقین تھا کہ یہ جادو کی چھڑی ہے’

لیکن اب اس خواب میں تمھیں یقین نہیں ہے نا. لہٰذا اب نا خواب بننے کی ضرورت رہی نا بیچنے کی. اب مجھے چلے ہی جانا چاہئے

چاچا جی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا تو میں بےچین ہوگیا

.نہیں چاچا جی، میں اب بھی خواب دیکھتا ہوں.’ میں نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا’

مجھے اب بھی اپنے خوابوں میں یقین ہے. اور میرے خوابوں کی ابتداء انہی کھلونوں سے تو ہوئی تھی. اگر آپ نے خواب فروشی چھوڑ دی تو میری تو خوابوں کی اساس ہی ختم ہوجائے گی

مگر چاچا جی کا ہاتھ میری مٹھی سے ریت کی طرح بہ گیا. میں نے آنسو پونچھتے ہوئے ان کی طرف دیکھا مگر وہاں کوئی نہیں تھا

میں گھبرا کر اٹھ کھڑا ہوا. سامنے دو برقعہ پوش عورتیں کھڑی میری ہی طرف سہم کر دیکھ رہی تھیں. میں شرمندہ ہوا اور اپنے تخیّل کو کوستا کیمرہ اٹھانے کیلئے جھکا اور پھر ٹھٹھک کر رک گیا. وہاں جہاں تھوڑی دیر پہلے شہر کا آخری خواب فروش بیٹھا تھا، وہیں اسی جگہ، سرخ پلاسٹک کی جادو کی چھڑی پڑی میرا منہ چڑا رہی تھی

#Urdu #story #fiction #dream #imagination #toys #oldcity #Lahore #street #nostalgia #memories #past #magic

ٹوٹے کھلونوں کا المیہ

میرا نام ڈاکٹرعبدل الرحمان ہے اور میں فلسطین کے علاقے غزہ کا رہنے والا ہوں. میں اپنی جوانی اور ادھیڑعمری میں ایک ماہر سرجن جانا اور مانا جاتا تھا. لوگ دور دور سے میرے ہسپتال میں آپریشن کروانے آتے تھے. ان کو لگتا تھا کہ جیسے خدا نے میرے ہاتھ میں شفاء رکھی ہو

خیر یہ سب تو گزرے دنوں کا قصّہ ہے. اب تو میں تقریباً اسی سال کا بوڑھا آدمی ہوں جس کے ہاتھوں پر ہر وقت رعشہ طاری رہتا ہے. اس لئے اب میں آپریشن نہیں کرتا؛ اب میں صرف اپنے پرانے گراموفون پر موسیقی سنتا ہوں اور کھلونے مرمت کرتا ہوں


Read more: ٹوٹے کھلونوں کا المیہ

مجھے کھلونے ہمیشہ سے اچھے لگتے ہیں. ان کے دلفریب رنگ اور مخصوص بناوٹ، مجھے بہت بھاتی ہے. جب میں چھوٹا تھا تو میرے باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ مجھے اچھے اور مہنگے کھلونے خرید کر دے سکتا. چونکہ مجھے اس سے بہت محبت تھی اور میں کسی حد تک اس کی مشکلات کو سمجھ سکتا تھا تو ضد نہیں کرتا تھا. یوں میرا سارا بچپن حسرت اور تشنگی کے درمیان کا سفر تہہ کرتا گزر گیا

جب میں جوان ہوگیا اور ڈاکٹری کا امتحان پاس کر لیا تو جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، مجھے محبت ہو گئ. عبیر بہت خوبصورت تھی. اب جب کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں تو مجھے اچھی طرح سے یہ بات سمجھ میں آ چکی ہے کہ جن سے ہم محبت کرتے ہیں، وہ عموماً اتنے خوبصورت اور اتنے اچھے قطعی نہیں ہوتے، جتنا کہ ہم ان کو سمجھتے ہیں. لیکن جب ہماری محبت کی گرم ہوا ان کی شخصیت کے غبارے میں بھرتی ہے تو ان سے اچھا اور ان سے بلند اور کوئی نظر نہیں آتا

لیکن آپ میرا یقین کریں کہ عبیر واقعی بہت خوبصورت اور بہت اچھی تھی اور مجھ سے بےانتہاء محبت کرتی تھی. وہ میرے سب خوبصورت خوابوں اور حسرتوں کی تعبیر تھی. میں اس کو دیکھ دیکھ کرجیتا تھا اور وہ میرے بغیر سانس نہیں لیتی تھی. بہرحال زندگی کا ایک دستور ہے کہ کبھی بھی اور کوئی بھی چیز یا رشتہ مکمل نہیں ہوتا. تو ہمارے رشتے اور محبت میں جو ایک کسر رہتی تھی وہ اولاد کی کمی تھی

ہم دونوں نے بہت کوشش کی. علاج بھی کروایا لیکن اولاد نہیں ہوسکی. پھر میں نے عبیر کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم کوئی یتیم بچہ لے کر پال لیتے ہیں، لیکن وہ نہیں مانی. اسی طرح ہماری ادھوری سی مگر محبت بھری زندگی کو پچاس سال بیت گئے


ابھی کچھ سال پہلے ہی عبیر دنیا سے رخصت ہوگئ. اب میں بھی اس انتظار میں ہوں کہ کب موت کا فرشتہ آتا ہے اور میں اپنی عبیر کے پاس پہنچ جاتا ہوں. لیکن جب تک وہ نہیں آتا، میں ٹوٹے کھلونوں کی مرمت کرتا رہوں گا کیونکہ مجھے کھلونے اچھے لگتے ہیں

میں چونکہ خود کھلونوں سے بہت محبت کرتا ہوں تو مجھے اس بات کا احساس ہے کہ یہ کھلونے اپنے مالکوں کو کس قدر عزیز ہوتے ہیں. وہ اپنے کھلونوں کو سجا سنوار کر رکھتے ہیں؛ ان کا خیال رکھتے ہیں اور ان کو زمانے کی گرم ہوا اور ہر نقصان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں. لیکن بہرحال کھلونے تو نازک ہوتے ہیں، معمولی سی ضرب سے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں

آپ سب کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے. وہ یہ کہ دنیا کے جس حصے میں، میں رہتا ہوں، وہ امن و سکون سے بہت دور ہے. ہم تقریباً پچھلے ساٹھ ستر سال سے اسرائیلی غاصبوں کے خلاف مسلسل حالت جنگ میں ہیں. جب جنگ ہو رہی ہو اور گولہ باری ہوتی رہے تو کھلونوں جیسی نازک چیزیں اتنی تباہی کی متحمل نہیں ہو سکتیں. دوسری طرف کھلونے جب ٹوٹ جایئں تو ان کو ایسے پھینکا بھی نہیں جا سکتا. کھلونے تو جنگ میں بھی کھلونے ہی رہتے ہیں. ان کی اہمیت اور خوبصورتی اپنی جگہ قائم رہتی ہے

تو جب میں نے اتنے بہت سارے کھلونوں کو گولہ باری کی وجہ سے ٹوٹتے ہوئے دیکھا اور ان کے مالکوں کو اپنے ٹوٹے کھلونوں پر روتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا. ڈاکٹر تو میں تھا ہی، میکینک بھی بن گیا. اب میرے پاس دور دور سے ٹوٹے ہوئے کھلونے مرمت کیلئے آتے ہیں


میرے لئے ہر کھلونا ایک جیسا خوبصورت ہوتا ہے. میں بڑے پیار سے اس کو صاف کرتا ہوں. ایک ایک ٹکڑے اور ایک ایک کرچی کی بڑی احتیاط اور باریک بینی سے جانچ پڑتال کرتا ہوں. اس کے اوپر لگی خراشوں کو صاف کرتا ہوں. اور پھر اس کو جوڑنے بیٹھ جاتا ہوں

اکثر اوقات میرے پاس بہت سے ٹوٹے کھلونے اکٹھے آ جاتے ہیں. بہت سوں کے حصے اور کرچیاں بھی مکمل نہیں ہوتیں. لیکن میں ہمت نہیں ہارتا. میں محنت اور لگن سے ہر کھلونے کے حصے تلاش کرتا ہوں. لیکن اکثر پوری طرح جڑنے کے بعد بھی بہت سے کھلونے نامکمل رہ جاتے ہیں. میں پھر بھی اپنی پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان کے مالکوں کو ان کی خوبصورتی میں کمی کا احساس نا ہو

بیشک میں کھلونوں کو جوڑ سکتا ہوں اور بعض اوقات تو میرے مرمت کئے کھلونوں کو دیکھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کبھی ٹوٹے بھی تھے. لیکن پھر بھی ان کھلونوں میں وہ پہلی جیسی بات نہیں رہتی. وہ چل پھر نہیں سکتے، وہ گا نہیں سکتے اور وہ تالیاں بھی نہیں بجا سکتے. اسلئے میرے دل میں اکثر خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش میں خدا ہوتا اور اپنے مرمت کئے کھلونوں میں جان بھر سکتا

معاف کیجئے گا. غالباً دروازے پر کوئی ہے. میں دیکھ کر واپس آتا ہوں. ابھی کھلونوں کا بہت سا ذکر باقی ہے


.ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹر صاحب!’ وہ عورت کافی دیر سے دروازہ بجا رہی تھی’

.ہاں کہو کیا بات ہے؟’ بوڑھے ڈاکٹر نے دروازہ کھول کر پوچھا’

‘ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ظالم اسرئیلیوں نے اسکول کی عمارت پر راکٹ برسائے ہیں’

اس نے آنسوؤں بھری آواز میں بتایا

‘بے شمار بچے شہید ہوئے ہیں. آپ کی بہت ضرورت ہے. ان معصوموں کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں’

ڈاکٹر عبدل رحمان نے کوئی جواب نہیں دیا. اپنا کالا بیگ اٹھایا اور تھکے تھکے قدموں سے اس عورت کے پیچھے چل پڑا. اس کو کھلونوں سے بہت محبت تھی اور وہ ان کو ٹوٹا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا

#Urdu #fiction #story #Palestine #Gaza #doctor #toys #Israel #war #violence #children #peace

God’s Breakable Toys

a broken doll

What if everything we believe about right and wrong, love and hate, and heaven and hell, is just an elaborate lie we tell ourselves to feel significant?

A provocative philosophical poem structured as a series of “what if” questions that systematically dismantle fundamental human beliefs about existence, morality, choice, and emotion.


What if there is no eternity, there is no heaven or hell?

What if there are no consequences, good or bad, at all?

The guilt is just a loathsome burden, a rotten, stinking smell,

while life is just a dream, no ups or downs, big or small


What if there is no choice, there is no right or wrong?

What if there are no options, left or right, at all?

Life is just the time, singing a long, sad song,

while fate sits smiling, and quietly rules all


What if there is no color, there is no black or white?

What if there are no shades, dark or light, at all?

Life is just reflections, a kaleidoscope made right,

while our dreams are just dancing shadows on a wall


What if there is no feeling, there is no love or hatred?

What if there are no emotions, anger, or fear at all?

We are all just great actors, holding our roles sacred,

while each act promptly happens on the director’s call


What if there is no change, there is no sadness or joys?

What if there are no upheavals, high or low, at all?

We are all just God’s property, His breakable toys,

played with, and tossed aside, in His great hall