ٹوٹے کھلونوں کا المیہ

میرا نام ڈاکٹرعبدل الرحمان ہے اور میں فلسطین کے علاقے غزہ کا رہنے والا ہوں. میں اپنی جوانی اور ادھیڑعمری میں ایک ماہر سرجن جانا اور مانا جاتا تھا. لوگ دور دور سے میرے ہسپتال میں آپریشن کروانے آتے تھے. ان کو لگتا تھا کہ جیسے خدا نے میرے ہاتھ میں شفاء رکھی ہو

خیر یہ سب تو گزرے دنوں کا قصّہ ہے. اب تو میں تقریباً اسی سال کا بوڑھا آدمی ہوں جس کے ہاتھوں پر ہر وقت رعشہ طاری رہتا ہے. اس لئے اب میں آپریشن نہیں کرتا؛ اب میں صرف اپنے پرانے گراموفون پر موسیقی سنتا ہوں اور کھلونے مرمت کرتا ہوں


Read more: ٹوٹے کھلونوں کا المیہ

مجھے کھلونے ہمیشہ سے اچھے لگتے ہیں. ان کے دلفریب رنگ اور مخصوص بناوٹ، مجھے بہت بھاتی ہے. جب میں چھوٹا تھا تو میرے باپ کے پاس اتنے پیسے نہیں ہوتے تھے کہ وہ مجھے اچھے اور مہنگے کھلونے خرید کر دے سکتا. چونکہ مجھے اس سے بہت محبت تھی اور میں کسی حد تک اس کی مشکلات کو سمجھ سکتا تھا تو ضد نہیں کرتا تھا. یوں میرا سارا بچپن حسرت اور تشنگی کے درمیان کا سفر تہہ کرتا گزر گیا

جب میں جوان ہوگیا اور ڈاکٹری کا امتحان پاس کر لیا تو جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، مجھے محبت ہو گئ. عبیر بہت خوبصورت تھی. اب جب کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں تو مجھے اچھی طرح سے یہ بات سمجھ میں آ چکی ہے کہ جن سے ہم محبت کرتے ہیں، وہ عموماً اتنے خوبصورت اور اتنے اچھے قطعی نہیں ہوتے، جتنا کہ ہم ان کو سمجھتے ہیں. لیکن جب ہماری محبت کی گرم ہوا ان کی شخصیت کے غبارے میں بھرتی ہے تو ان سے اچھا اور ان سے بلند اور کوئی نظر نہیں آتا

لیکن آپ میرا یقین کریں کہ عبیر واقعی بہت خوبصورت اور بہت اچھی تھی اور مجھ سے بےانتہاء محبت کرتی تھی. وہ میرے سب خوبصورت خوابوں اور حسرتوں کی تعبیر تھی. میں اس کو دیکھ دیکھ کرجیتا تھا اور وہ میرے بغیر سانس نہیں لیتی تھی. بہرحال زندگی کا ایک دستور ہے کہ کبھی بھی اور کوئی بھی چیز یا رشتہ مکمل نہیں ہوتا. تو ہمارے رشتے اور محبت میں جو ایک کسر رہتی تھی وہ اولاد کی کمی تھی

ہم دونوں نے بہت کوشش کی. علاج بھی کروایا لیکن اولاد نہیں ہوسکی. پھر میں نے عبیر کو بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم کوئی یتیم بچہ لے کر پال لیتے ہیں، لیکن وہ نہیں مانی. اسی طرح ہماری ادھوری سی مگر محبت بھری زندگی کو پچاس سال بیت گئے


ابھی کچھ سال پہلے ہی عبیر دنیا سے رخصت ہوگئ. اب میں بھی اس انتظار میں ہوں کہ کب موت کا فرشتہ آتا ہے اور میں اپنی عبیر کے پاس پہنچ جاتا ہوں. لیکن جب تک وہ نہیں آتا، میں ٹوٹے کھلونوں کی مرمت کرتا رہوں گا کیونکہ مجھے کھلونے اچھے لگتے ہیں

میں چونکہ خود کھلونوں سے بہت محبت کرتا ہوں تو مجھے اس بات کا احساس ہے کہ یہ کھلونے اپنے مالکوں کو کس قدر عزیز ہوتے ہیں. وہ اپنے کھلونوں کو سجا سنوار کر رکھتے ہیں؛ ان کا خیال رکھتے ہیں اور ان کو زمانے کی گرم ہوا اور ہر نقصان سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں. لیکن بہرحال کھلونے تو نازک ہوتے ہیں، معمولی سی ضرب سے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں

آپ سب کو ایک بات سمجھنے کی ضرورت ہے. وہ یہ کہ دنیا کے جس حصے میں، میں رہتا ہوں، وہ امن و سکون سے بہت دور ہے. ہم تقریباً پچھلے ساٹھ ستر سال سے اسرائیلی غاصبوں کے خلاف مسلسل حالت جنگ میں ہیں. جب جنگ ہو رہی ہو اور گولہ باری ہوتی رہے تو کھلونوں جیسی نازک چیزیں اتنی تباہی کی متحمل نہیں ہو سکتیں. دوسری طرف کھلونے جب ٹوٹ جایئں تو ان کو ایسے پھینکا بھی نہیں جا سکتا. کھلونے تو جنگ میں بھی کھلونے ہی رہتے ہیں. ان کی اہمیت اور خوبصورتی اپنی جگہ قائم رہتی ہے

تو جب میں نے اتنے بہت سارے کھلونوں کو گولہ باری کی وجہ سے ٹوٹتے ہوئے دیکھا اور ان کے مالکوں کو اپنے ٹوٹے کھلونوں پر روتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے برداشت نہیں ہوسکا. ڈاکٹر تو میں تھا ہی، میکینک بھی بن گیا. اب میرے پاس دور دور سے ٹوٹے ہوئے کھلونے مرمت کیلئے آتے ہیں


میرے لئے ہر کھلونا ایک جیسا خوبصورت ہوتا ہے. میں بڑے پیار سے اس کو صاف کرتا ہوں. ایک ایک ٹکڑے اور ایک ایک کرچی کی بڑی احتیاط اور باریک بینی سے جانچ پڑتال کرتا ہوں. اس کے اوپر لگی خراشوں کو صاف کرتا ہوں. اور پھر اس کو جوڑنے بیٹھ جاتا ہوں

اکثر اوقات میرے پاس بہت سے ٹوٹے کھلونے اکٹھے آ جاتے ہیں. بہت سوں کے حصے اور کرچیاں بھی مکمل نہیں ہوتیں. لیکن میں ہمت نہیں ہارتا. میں محنت اور لگن سے ہر کھلونے کے حصے تلاش کرتا ہوں. لیکن اکثر پوری طرح جڑنے کے بعد بھی بہت سے کھلونے نامکمل رہ جاتے ہیں. میں پھر بھی اپنی پوری کوشش کرتا ہوں کہ ان کے مالکوں کو ان کی خوبصورتی میں کمی کا احساس نا ہو

بیشک میں کھلونوں کو جوڑ سکتا ہوں اور بعض اوقات تو میرے مرمت کئے کھلونوں کو دیکھ کر پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کبھی ٹوٹے بھی تھے. لیکن پھر بھی ان کھلونوں میں وہ پہلی جیسی بات نہیں رہتی. وہ چل پھر نہیں سکتے، وہ گا نہیں سکتے اور وہ تالیاں بھی نہیں بجا سکتے. اسلئے میرے دل میں اکثر خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش میں خدا ہوتا اور اپنے مرمت کئے کھلونوں میں جان بھر سکتا

معاف کیجئے گا. غالباً دروازے پر کوئی ہے. میں دیکھ کر واپس آتا ہوں. ابھی کھلونوں کا بہت سا ذکر باقی ہے


.ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹر صاحب!’ وہ عورت کافی دیر سے دروازہ بجا رہی تھی’

.ہاں کہو کیا بات ہے؟’ بوڑھے ڈاکٹر نے دروازہ کھول کر پوچھا’

‘ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ظالم اسرئیلیوں نے اسکول کی عمارت پر راکٹ برسائے ہیں’

اس نے آنسوؤں بھری آواز میں بتایا

‘بے شمار بچے شہید ہوئے ہیں. آپ کی بہت ضرورت ہے. ان معصوموں کے جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ہیں’

ڈاکٹر عبدل رحمان نے کوئی جواب نہیں دیا. اپنا کالا بیگ اٹھایا اور تھکے تھکے قدموں سے اس عورت کے پیچھے چل پڑا. اس کو کھلونوں سے بہت محبت تھی اور وہ ان کو ٹوٹا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا

#Urdu #fiction #story #Palestine #Gaza #doctor #toys #Israel #war #violence #children #peace

2 thoughts on “ٹوٹے کھلونوں کا المیہ

Leave a comment