Loss isn’t tragedy—it’s the key, the doorway, the only path to wisdom; those who embrace it understand love, desire, God’s loneliness, and life itself.
یہ سخت گرمیوں کے دنوں کی بات ہے کہ جب سانتاآنا گاؤں کے اکلوتے گرجے کے، اکلوتے پادری کا، انتقال تو گرمیاں اپنے پورے عروج پر تھیں؛ اور پورا گاؤں نئے پادری کے آنے کا بےصبری سے انتظار کر رہا تھا
بہت سے بچے پیدا ہوچکے تھے لیکن بپتسمہ نا دیئے جانے کی وجہ سے گمنامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے. بیشمار محبت کرنے والے جوڑے تھے، جو کہ شادی کے بندھن میں بندھنے کیلئے اتنے بیتاب تھے کہ ہر رات کا نیا چاند، نا چاہتے ہوئے بھی ان کے گناہوں کا گواہ بن جاتا تھا. لیکن گرجے میں پادری کی عدم موجودگی کے باعث ان کی شادی نہیں ہوسکتی تھی
پھر بہت سے ایسے گناہ گار تھے جو اعتراف کے لئے بے چین تھے تاکہ صاف دل کے ساتھ، ایک دفعہ پھر سے گناہوں کے راستے پر چلا جا سکے. اور بہت سے ایسے لوگ تھے جو مر چکے تھے اور دفنائے بھی جا چکے تھے لیکن ان کی روحیں، اپنی آخری رسومات کے انتظار میں، زمین اور آسمان کے درمیان معلق تھیں
پھر ایک دوپہر، جب سورج عین سوا نیزے پر بےرحمی سے دہک رہا تھا تو گاؤں کی کچی فصیل کے ٹوٹے دروازے سے، ایک گھڑسوار اندر داخل ہوا. گھوڑا لاغرسا تھا اور تیز سنہری دھوپ اور بہتے پسینے سے اس کا کالا سیاہ جسم، چمک رہا تھا. گھڑسوار بھی کالے لباس میں ملبوس تھا اور اس کے سر پر چوڑے چھتے والے سیاہ ہیٹ کے نیچے، اس کے خدوخال، واضح نہیں تھے
سانتا آنا، قریبی شہر سے قریباً دو سو کلومیٹر دور اور صحرا کے بیچوں بیچ واقع، ایک چھوٹا سا اور نامعلوم غریب گاؤں تھا. بہت کم ہی کوئی بھولا بھٹکا مسافر، گاؤں میں قدم رنجہ فرماتا تھا. بلکہ مسافروں کی تعداد اس قدر کم تھی کہ بڑھے بوڑھے اب تک، گاؤں میں آنے والے تمام مسافروں کو، دو ہاتھوں کی انگلیوں پرباآسانی گن سکتے تھے؛ اور گننے کے بعد بھی دو ایک انگلیاں بچ رہتی تھیں
وہ نیا آنے والا گھڑ سوار کوئی مسافر نہیں بلکہ فادر آندرے بارتولو تھا – سانتاآنا گاؤں کے اکلوتے گرجے کا نیا پادری. گاؤں میں داخل ہوتے ہی اس نے مرکزی چوک کے کنویں سے جی بھر کر پانی پیا اور کسی سے کوئی فالتو بات کئے بغیر، سیدھا گرجے گھر پر پہنچ کر، اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، گاؤں کے لوگوں کو احساس ہوتا چلا گیا کہ فادر آندرے کوئی معمولی پادری نہیں تھا بلکہ شاید انسان کے روپ میں کوئی فرشتہ یا پھر ولی تھا جو خداوند نے سانتا آنا گاؤں پر ترس کھا کر بھیجا تھا
پچھلا پادری کھانے پینے کا انتہائی شوقین تھا اور حد درجہ کا بلانوش بھی تھا. کئ دفعہ تو اتوار کے دن دعا کے موقعے پر، گرجے کی سستی وایئن کی بوتل بھی خالی ملتی تھی؛ اور پادری صاحب کے الفاظ اور قدم، دونوں ڈگمگا رہے ہوتے تھے
لوگ فادرآندرے کو فرشتہ یا ولی الله اسلئے سمجھتے تھے کیونکہ وہ پچھلے پادری کے برعکس صحیح معنوں میں ایک درویش صفت آدمی تھا. نا کھانے پینے کا شوق تھا اور نا ہی پینے پلانے کا. خواتین کی طرف تو دیکھنے سے بھی گریز کرتا تھا. تمام خواہشات سے پرہیز کرتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ جیسے خداوند نے اسے پیدا ہی پرہیزگاری کیلئے کیا تھا
حقیقت کیا تھی، وہ فادر آندرے سے زیادہ بہتر کوئی اور نہیں جانتا تھا. جب بھی لوگ اس کی پرہیزگاری سے متاثر ہو کر اس کے ہاتھ چومتے تھے تو وہ زیرلب ضرور مسکراتا تھا
دراصل بہت بچپن سے ہی فادرآندرے کو پادری بننے کا شوق تھا. اسلئے کہ یہ وہ واحد پیشہ تھا کہ جس میں لوگوں پر برتری پانے کیلئے، کسی دولت یا دنیاوی تعلقات کی ضرورت نہیں تھی. پھر اس کا یہ بھی دل چاہتا تھا کہ شاید اس کے مرنے کے بعد یا اس سے پہلے ہی لوگ اسے کوئی سینٹ سمجھیں اور فرط عقیدت سے اس کے ہاتھ چومتے رہیں اور آس پاس منڈلاتے رہیں
لیکن پادری بننے کے بعد اس کو احساس ہوا کہ پرہیزگاری کی راہ پر چلنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں تھا. ہر قدم پر دل کو مارنا پڑتا تھا؛ اور یہ اس کیلئے بیحد مشکل ثابت ہورہا تھا
چونکہ فادر آندرے کا تعلق ایک بہت غریب خاندان سے تھا اور بچپن بہت محرومی اور بھوک میں گزرا تھا تو جب بھی کسی دعوت میں شریک ہوتا، تو ہاتھ اور منہ روکنا مشکل ہوجاتا. اور پھر کون صحیح الدماغ انسان اچھی سرخ وایئن کو ٹھکرا سکتا تھا. جب پیٹ مرغن غذاؤں اور شراب سے بھرجاتا تو پھر نظر حسین چہروں اور صحت مند نسوانی جسموں پر بھٹکنا شروع کر دیتی
آہستہ آہستہ ان حرکات کی وجہ سے اس کا مزاق اڑنا شروع ہوگیا. یہاں تک کہ مَیکسکن چرچ کی طرف سے دو تین انتباہی مراسلے بھی موصول ہوگئے تو فادرآندرے کو اپنے مقدس خواب مٹی میں ملتے نظر آئے. لیکن باوجود بھرپور کوشش کے وہ اپنی خواہشات پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکا تھا
پھر ایک شام شیطان فادر آندرے بارتولو سے ملنے چلا آیا اور اسے ایک ایسی پیشکش کی کہ فادرآندرے اسے قبول کرنے پر مجبور ہوگیا
‘مرنے کے بعد اپنی روح مجھے سونپ دینے کا وعدہ کرو تو میں تمھاری سب خواہشات ایک پل میں پوری کر دوں گا.’ شیطان نے مسکراتے ہوئے کہا
یہ ہی تو سارا مسلہء ہے.’ فادر آندرے نے ہاتھ ملتے ہوئے جواب دیا. ‘میں اپنی تمام نفسانی خواہشات سے ہی تو جان چھڑانا چاہتا ہوں
‘ہیں؟’ شیطان چونک کر کھڑا ہوگیا. ‘یہ کیسی خواہش ہے؟’
بس یہ ہی میری خواہش ہے’، نوجوان پادری نے کہا. ‘میں چاہتا ہوں کہ میری ساری خواہشات ختم ہو جایئں، میرا نفس مر جائے اور میں اپنی زندگی میں ہی سینٹ کا رتبہ پا جاؤں
‘ٹھیک ہوگیا!’ شیطان نے جیب سے معاہدہ نکالتے ہوئے کہا. ‘اس پر اپنے خون سے دستخط کر دو’
فادرآندرے شیطان کے ساتھ معاہدہ کر کے بہت خوش تھا. اس کو پوری امید تھی کہ چونکہ وہ خواہشات سے جان چھڑا چکا ہے تو روزمحشر وہ کوئی گناہ نا ہونے کے بائث سیدھا جنت میں جائے گا اور شیطان کچھ بھی نہیں کر سکے گا
وقت گزرتا چلا گیا. سانتا آنا گاؤں میں دس سال بتانے کے بعد، فادرآندرے پہلے بشپ اور پھر کارڈینل بن گیا. تھوڑے عرصے میں ہی اس کی پرہیزگاری سے متاثر ہو کر لوگوں نے اسے سینٹ کا درجہ دے دیا اور دور دور سے اس کی زیارت کو آنے لگے
پھر ایک دن وہ مر گیا اور فرشتوں نے اس کی روح کو لے جا کر بارگاہ الہی میں پیش کر دیا
‘اس کو گھسیٹ کر لے جو اور سیدھا جہنم کی دہکتی آگ میں لے جا کر پھینک دو.’ خداوند نے حکم دیا
رحم خداوند! رحم! کیا مجھے اسلئے جہنم میں پھینکا جا رہا ہے کیونکہ میں نے شیطان سے معاہدہ کیا تھا؟’ فادرآندرے نے گڑگڑا کر پوچھا
‘نہیں!’ خداوند نے بے اعتنائی سے جواب دیا’
تمھیں اسلئے جہنم میں پھینکا جا رہا ہے کیونکہ تم نے خواہشات سے انکار کیا. کیونکہ تم یہ بھول گئے کہ خواہشات بھی میں نے کسی مقصد سے بنائی ہیں. انسان خواہش کرتا ہے؛ پھر گناہ کرتا ہے؛ پھر گناہ پر پچھتاتا ہے؛ اور پھر توبہ کر کہ پرہیزگاری کے رستے پر چلتا ہے. جب تم نے خواہش سے ہی انکار کر دیا تو پھر پرہیزگاری کیسی؟
The Witch offered him the gift of understanding all living things - but warned that it came with the darkest curse: the sadness that follows those who truly see and feel everything.
A haunting narrative about a thirteen-year-old boy’s encounter with the Mother, an ancient, beautiful witch living in the pine forests of Ghoragali in the Himalayas. Guided by a mysterious dog named Shaggy and the cryptic Keeper of Secrets, the protagonist discovers a primordial force who reveals herself as Gaia, Terra, the source of all life, who remembers when God was female and witches were healers, not evil.
‘Why is it…’, I asked the Turtle, ‘….that the more I understand life and the more I write, the more I grow sad? I don’t dislike being sad, but it overburdens me sometimes.’
‘Hmm!’ the Turtle closed his grey, clouded eyes for a moment. When he opened them again, they were, as usual, shining with the golden light of ancient wisdom. ‘Understanding is a gift, child. This gift comes to a few, but this gift always comes with a curse. And that’s what the Witch told you. That was the deal you made with her.’
‘The Witch?’ I was surprised. ‘What witch and what deal?’
‘The Witch whom you met when you were a little boy.’ The Turtle reminded me with a smile.
‘I don’t remember any such witch. And anyway, there are no real witches, and I am too old to believe in myth and magic, and make any deals with make-believe entities.’ I stood up suddenly. My own anger surprised me.
‘Tsk, tsk!’ The Turtle was unaffected by my annoyed reaction. He was always as cool as a cucumber, and his skin was as smooth as it was thick. My emotions and feelings slid over it like water slides over round, smooth stones.
‘There once was a witch, and you met her and she gave you a gift - the Witch of Ghoragali.’
I kept quiet. Of course, I remembered the Witch. I thought I had forgotten her musky presence, but no. She had always occupied a very spacious chamber in my memory palace.
It was the summer of 1986, and I was on a scouting trip to Ghoragali. It was a hill station in the Himalayas. I was about thirteen, and the trip was not an adventure, but an escape. People often believe that the lives of children are easy and trouble-free. But certain childhoods are complex and difficult, and come with their very own brands of trouble. To me, discipline has always been synonymous with torture. The trip was, therefore, my way out of the dungeon of discipline.
I discovered something wonderful during that particular trip by virtue of my love for nature. The discovery was that nature was there to listen to and to talk to, provided one had patience.
I looked at the grand majestic mountains surrounding the campsite. They first awed me and then talked to me as a friend, telling me stories of the days gone by and the people who lived in the caves, free of any complex or material desires.
I loved the graceful and slender pine trees with their fragrant needles and cones. The wind through the trees gradually became secret whispers, narrating accounts of clandestine trysts and stolen kisses, as the dry leaves fell all around the obscured lovers.
The place was full of waterfalls and fresh water springs. They all sang songs of longing and desire, their sweet melodies reaching crescendos with the wild rains.
And when I looked up, I saw clouds - great silver and grey, billowing giants. They bowed down to murmur in my ears of their silent, majestic journeys over the parched lands, their murmurs gradually transforming into echoing thunder.
I cultivated a deep bond of friendship with nature that summer. This bond is still going strong, and our communication is becoming more meaningful with each passing day.
To me, scouting lessons were boring - mindless hours spent earning badges for apparently useless skills, like, for instance, knots. Then there were group activities, which I hated with a vengeance. I didn’t crave anyone’s company but my own and wanted to converse with nobody but myself.
I wanted to know what I thought, and I wanted to know what and how I felt. That required solitude. It is when all is silent around you that you learn to listen to your own heart and soul. The other boys bored me. I failed to understand their mindless and constant obsession with their video games and toys.
It became far easier to get rid of my age mates and miss the boring scouting classes once I learnt that feigning sickness could work magic. A short complaint of a stomachache and a grimace were enough to convince everyone around me that a day off from classes was the only solution.
When the other boys left, that was when I sat up and looked around for hours on end. In particular, I stared for long at a lonesome mountain track, disappearing amongst the swirling fog and tall pine trees.
I had noticed the path as soon as I had arrived at the camp. It looked like a part of an untold fairy story - a path to the mysteries. I never saw anyone treading that path, but I felt that it beckoned me in a very strange way. I was somehow drawn to it. I wanted to be the first one in my camp to explore that path and therefore, discussed it with no one. Well, no one but the old cleaner.
The old man was responsible for cleaning the camp. He was as silent as an old oak tree, but a subtle smile always kept dancing on his dry lips. It was like he knew the answer to some great riddle.
Sometimes, one could see him sitting high up on a ledge overlooking the camp. From a distance, I could hear his chanting and see his shaggy head moving to and fro like he was in a trance. The other boys pointed at him behind his back and made signs to show that something was seriously wrong with his head. But to me, despite his apparent craziness, he looked like someone who could know something about the path.
The old man knew I liked him and was curious about him. I knew this because his subtle smile acquired an added shade of warmth, and his eyes glowed when he looked at me. One day, armed with the confidence of this small piece of knowledge, I decided to approach him while he was busy cleaning the camp.
‘Hey!’ I greeted him, but he did not look back and kept on sweeping with his broom. So I cleared my throat and tried it again a bit loudly, ‘HEY!’
Unfortunately, my attempt to be louder turned out to be a half-scream, and the old man almost threw down his broom and jumped up with fright. He looked back as if expecting a ghost in the otherwise silent camp. But he smiled when he saw me.
‘Hey, little one!’ His voice was rough, as if he rubbed his throat with sandpaper each morning.
I looked at him closely. He was dressed in an old and tattered, grey, long shirt, and also what was definitely a pair of blue denim jeans, in their good old days. His deep, grey eyes peered at me from beneath bushy eyebrows, and they were as penetrating as icicles. He had great big silver whiskers and a long shaggy beard of the same color. The hair had turned yellow just around his mouth, probably due to smoking. And around his neck, he wore a most splendid necklace of pine cones.
‘What are you doing here alone in the camp? Don’t you have classes to attend, child?’ He smiled and asked me kindly.
‘Well yeah…’ I scratched my head and thought for a moment. ‘But I am sick.’
‘You don’t look sick to me at all.’ He observed with a chuckle.
‘I am not sick in the normal way. I am just sick of the other people around me.’ I don’t know what came over me, and I confided in him, somehow having a belief that he would keep my secret safe.
‘Hmm!’ He peered closely at my face, and his penetrating gaze made me feel slightly uncomfortable. But then he probably found what he was looking for because he suddenly looked away with a smile.
He picked up his broom and then, taking its support with one hand, started searching the pockets of his woolen shirt. My heart skipped a beat.
In the stories I used to read, whenever old men searched their pockets, they always took out the most marvelous gifts for their young disciples. But to my utter disappointment, what he took out was only a misshapen and filter-less cigarette.
‘What’s your name, old man?’ I asked him, while hiding my disappointment.
‘Hmm!’ he grunted and tried to light the cigarette with a burning match. He cupped his hands and the flame from the match and the red glow of the burning cigarette, reflected in his grey eyes for a brief moment. ‘I go by many names, but you can call me the Keeper.’
‘The Keeper?’ I was surprised. ‘The Keeper of what exactly?’
‘The Keeper of Secrets, of course - all the secrets of this world.’ He said and took a deep drag, and the bitter smoke floated up to join the clouds.
I shook my head. His answers were too cryptic for my young age.
‘And what about this necklace?’ I pointed at his neck. ‘Where did you get it?’
‘This…’ he caressed the cones lovingly. ‘The Mother gave it to me.’
‘Is she alive…your mother?’ I expected his answer to be ‘no’ and was ready to come out with the appropriate condolences.
‘Not my mother, little one…’ he laughed. ‘The Mother!’
‘The Mother?’ I almost chewed my question.
‘Yes, the Mother. The Mother of us all. The Mother of the mountains and the Mother of the springs that sprout from beneath the rocks. The Mother of the clouds and the Mother of the trees receiving the rain.’
‘And where does she live?’ I was beginning to have serious apprehensions about his sanity.
‘There…’ the old man pointed towards the path. ‘She lives at a special place somewhere along that path.’
‘Let’s go, let’s go meet her then.’ I tried taking a step in the direction of the path, but the old man firmly grabbed my shoulder.
‘No, we don’t just go and meet her. We only go when she calls for us. And you will know if and when she calls for you. Wait for that time.’
In my opinion, the meeting with the old man was almost fruitless. He was crazy and his head was full of strange dreams. But so was I and my own head. The path still beckoned me, and it was my firm decision to tread that path at least once during that trip.
The opportunity came knocking at my door, only a few days later. The instructors got bored with teaching us knots and ordered an unsupervised field trip. I heard the two phrases: ‘no supervision’ and ‘field trip,’ and I knew my prayers had been answered.
I waited patiently while the other boys formed small groups and went in search of secret spots and snacks. Then I filled my water bottle and started walking towards the path.
It was a beautiful day. The sun was playing a constant game of hide and seek with the black and silver clouds. But as soon as I started walking, the clouds thundered angrily, and it started raining. God swirled His big paintbrush, and the sky and the mountains merged and faded into each other.
Though my clothes were soon soaked, rain did not worry me. It blanketed every sound and hid me from the world. Rain was my friend, and I welcomed its arrival with open arms.
But while crossing the campsite, a commotion drew my attention.
‘It was the Dog, wasn’t it?’ I asked the Turtle. ‘It was the Dog who took me to the Witch.’
‘I don’t think so at all.’ He replied while shaking his mottled, grey head. ‘I think it was your kindness to the Dog, which took you to the Witch. Rather, I believe that the Dog was your test. You passed the test with flying colors, and the Witch called you.’
‘Oh yes, I agree.’ I smiled and thought of the Dog fondly.
Right at the fringes of our camp, a small group of boys from some other school was standing. They were screaming and shouting with delight and throwing rocks at something. I approached them, and the object of their delight turned out to be a poor dog.
He was a great big dog - all wet, shaggy, and soiled hair, and bleeding from one leg. He was desperately trying to escape the boys, but they were not letting him. Each time he tried to run away, he was met with a heavy rock. The poor creature was miserable, and the boys were cruel beyond words. Their cruelty filled my heart with dark anger.
‘Hey!’ I shouted at them, oblivious of all consequences. ‘What do you think you are doing? Leave the poor creature alone.’
‘Who do you think you are?’ The gang leader asked me with his fists firmly placed at his waist.
‘I am just someone who wants you to stop throwing rocks at the dog. He will die for God’s sake.’ I could feel tears welling up in my throat.
‘And how will you stop us?’ The boy asked with a very cruel smile dancing on his thin lips.
‘He will not stop you, I will.’ A rough voice snarled from my rear. I looked back and there stood the Keeper of Secrets, holding his broom as menacingly as if it were a sword. ‘Now run along, or I will complain to your teachers.’
The boys took one look at the Keeper and his formidable broom and ran away. The poor dog, finally free of his tormentors, sat down and started licking his wound.
‘Come, child, the poor old Shaggy needs us.’ The Keeper patted my shoulder, but I stood rooted to the spot.
‘What?’ His grey eyes silently questioned me.
‘I am…I am afraid of dogs.’ I confessed sheepishly.
‘What? You are afraid of the old Shaggy?’ He laughed aloud but then saw my red face, and his laughter transformed into a kind smile.
‘Let me tell you a great trick, child.’ He placed his hand on my shoulder. ‘Whenever you want to help someone but are afraid of their reaction, always let kindness take over. Kindness almost always conquers fear.’
I looked up at his reassuring smile and decided to try the trick. We approached the dog, who was watching me guardedly. I sat down on my haunches and hesitantly extended my hand. The dog gave it a quick lick. Soon, his bushy tail started wagging, and he let me caress his forehead.
With the help of the Keeper and water from my bottle, I washed its wound. It wasn’t deep, and the bleeding had already stopped. So I took out my handkerchief and tied it firmly over the wound.
After a while, the dog got up and again licked my hand. Then he turned and started walking towards the path. I watched him limp away silently. Right where the path started and beside a big rock, he stopped and looked back at me. He seemed to be waiting for some response from me. I waved at him, but he kept on looking back at me.
‘Go on, he wants you to follow him.’ The Keeper said while gently nudging me.
‘Follow him?’ I asked confusedly. ‘But you said I can’t go tread the path until the Mother calls me.’
‘Old Shaggy is one of the Mother’s many companions. If he wants you to follow him, it is at the Mother’s behest. Now go before the Mother changes her mind.’
Old Shaggy started walking on the path, and I started following him. After every few steps, he turned and looked at me as if to make sure I was following him. Each time, on seeing me close behind, he wagged his tail and started walking again.
It was a strange but peaceful walk. The path was as beautiful as I had imagined it to be. It wound along seven great mountains. The locals called them the Seven Sisters. Though they looked similar, each sister had her own unique beauty.
The air was filled with the smell of wet pine trees. I believe this is how curiosity smells - the smell of wet pine trees.
A thick carpet of pine needles muffled my footsteps. Due to rain, the path was occasionally crisscrossed by tiny rivulets and streams. But the dog knew where he was going. He always chose the safest of all routes.
But then, when I turned a corner, I could not see the dog anymore. He had vanished without any warning or sound.
‘It was indeed a strange day.’ I muttered to myself.
‘Let’s just say it was indeed a great day. Not many people have a chance to meet the Mother.’ The Turtle said and slowly stepped into the warm sunlight. ‘And even those few who ever happen to meet her, not all are given the gift.’
‘Why do you think she chose me?’ I sat beside the Turtle and started scratching his mottled back. He loved it.
‘Well, she is the Mother. Who knows how her liking or disliking works?’ The Turtle answered.
‘By the way…’ I suddenly stopped scratching him. ‘How do you know about the Witch? I don’t think I ever told you about her.’
The Turtle chose to remain quiet. His eyes were closed, but I could see a faint hint of a knowing smile.
There was no barking response. There was only silence. I decided to wait and sat on a stone ledge. The mountain forest was gently whispering around me. The moist smell of the pines was growing stronger by the minute.
Suddenly, great swirls of fog rolled down the gentle mountain slope and engulfed me. The fog was so thick I could not see the pine needles at my feet. It was like I was sitting alone in a pine forest, up above the clouds. But strangely, there was no fear. There was only peace.
‘Welcome, child!’ A lovely voice called, and I jumped to my feet and looked back.
There she stood - the Mother. She didn’t look like any mother I had ever seen. Rather, she looked more like an elder sister.
She was tall and young - very young and very beautiful. Beautiful, auburn hair filled her head, which was crowned by a lovely and simple tiara, made out of odd twigs and wild flowers. Beneath a fair brow and two lush eyebrows, a pair of dark brown eyes was looking at me with kindness and warmth.
She was wearing a forest-green woolen shirt with a long-sleeved jacket of the same color, while her long skirt was brown like the soil. And yes, she wore a necklace of pine cones around her lovely neck, just like the one worn by the Keeper. Beside her stood Shaggy, his tail wagging happily.
‘Who are you?’ I managed to blurt out.
Hearing my question, she laughed, and her laughter was as warm and kind as her eyes.
‘I am the Witch of the forest, for I know all the secrets, and how the magic works. I am the Mother for I made all the secrets, and I made all the magic.’
‘But witches are evil, and you look anything but evil.’ I was perplexed.
‘Oh, not at all, child. Witches were my first true descendants. They are the worshippers of nature, and not evil. Evil resided in the hearts of men who couldn’t respect a woman’s ability to reproduce and be one with nature.’ She corrected me in a sing-song voice.
‘And what is your name?’ I didn’t realize at the time, but I had already fallen in love for the first time in my life.
‘I carry many names, as everyone sees me in a different light.’ She replied while raising her lovely arms above her head, and the fog seemed to shift at her command. ‘The Greeks called me Gaia, for they saw me as the primordial life force and the ancestral source of all life. The Romans called me Terra, for I sprang from the earth, and I am a part of it. People weaved stories about me, and they enveloped me in myth. People wrote songs about me, and they shrouded me in magic.’
‘Myth and magic?’ I scratched my head and asked, ‘But what are you truly?’
‘Ah, truth, the most challenging of all perceptions.’ She sighed. ‘Come walk with me.’
She held my hand in her own and started walking. She was warm, as warm as the sun that comes out after a long and freezing winter night. Her warmth ran down my hand and touched my heart. I felt there was a light glowing in my heart. And she smelled wonderful. She smelt of all the wonderful things in the world.
She smelt of a mother’s lap, and warm milk and honey. She smelt of the rain and the clouds, and the black wet soil giving birth to life. She smelt of the wild flowers, green grass, and moss. She smelt of musk, and the desire that springs forth. And she smelt of the burning fire, and the glowing comfort that it provides.
We walked, and the shifting fog made me feel as if we were walking on the clouds. The rain had long stopped, but the drops falling from the trees played their own symphony of silence.
‘I was the first one on earth, and I will be the last. I gave birth to everything, and everything comes back to me.’ Her beautiful voice softly broke the silence. ‘I am the life force and I reside in everything. I even reside in you, child. I was the voice behind the Oracle at Delphi, and I am the end of all quests.’
‘You don’t look that old.’ It was hard for me to believe that she was as ancient as she claimed.
‘I am not part of the flow of time, child.’ She smiled and said, ‘Instead, time flows from the tips of my fingers.’
‘Are you…?’ I stopped and looked up at her kind face. ‘Are you God?’
‘Oh no, child. Not at all.’ She seemed surprised. ‘I am only a small part of God, as you are a small part of me. I am part of Her system.’
‘Her?’ I was flabbergasted. ‘I thought God was a Him.’
‘Is that so?’ Her eyes sparkled mockingly. ‘Anyway, let’s go inside before you catch a cold.’
‘She was as she told you herself. She was and she is the Mother. And She is a part of all of us - you, me, the trees and the mountains, and even the oceans and the rivers. But don’t listen to me. I am just an old turtle.’ My old friend was always ready with strange answers.
‘She was…’ I said while thinking of that strange summer afternoon far away in my past. ‘She was strange, that’s for sure. And a voice in my heart confirmed whatever she said. But was that the truth?’
‘Remember what she told you?’ The Turtle looked up at me and asked. ‘She told you that truth is the most challenging of all perceptions.’
‘Yes.’ I nodded. ‘And that was strange. Truth is not a perception, but a statement of facts.’
‘No, child!’ The Turtle corrected me. ‘Truth is our own individual perspective on life. It is when we treat truth as a statement of facts that we commit the gravest of all follies, for it makes us judge others. The only fact is that truth is never objective but only subjective.’
I looked up and there was a most marvelous wooden hut, right in the middle of the pine forest. It was just like the fairy stories, small with a high and sloping roof, and grey smoke rising from a small chimney. If any doubts remained in my mind about her being a witch, they vanished at that particular moment.
She took me inside, and the inside was as wonderful as the outside. There was a bright fire burning under a steaming cauldron, and the smell of broth made my stomach growl with hunger. She made me sit on a small wooden stool right next to the fire, and then inspected Shaggy’s leg very carefully.
‘Ah!’ She exhaled a satisfied sigh. ‘You did a wonderful job, child. With kindness in your heart, you are a born healer. Never forget that.’
I blushed and started looking around to hide my uneasy and shy happiness. But that compliment was magical. I believe that even if, at that moment, I was cruel, that compliment transformed my true nature, and I became kind. Words of those whom we love carry a strange power of transformation.
Overcoming my embarrassment, I looked around and was fascinated by what I saw.
The walls were covered with strange roots and aromatic herbs, while all sorts of strange-looking devices and instruments lay placed on small, wooden stools. I thought I could identify a few.
There was a silver, sand-filled hourglass, but the trickle of sand was frozen mid-air.
There was a golden globe with indigo oceans, slowly rotating on a small and delicate silver pivot.
There were gleaming sextants and a Mariner’s Compass, and there were crystals of all sizes and hues, each pulsating with hidden lights.
‘Have some.’ I looked up and there she was, standing close to me, holding a bowl of steaming broth with a small wooden spoon. ‘It will warm you up.’
‘You were telling me about God being not a Him, but a Her.’ I asked her amidst hungry gulps.
‘Oh yes.’ She turned, and at a subtle gesture of her hand, the flames sprang up and the fire started burning more brightly.
‘Tell me, child…’ She asked while facing me again. ‘What does God do that others cannot?’
‘He…’ I looked up at her and thought hard. ‘He can create life.’
‘Very good.’ She smiled. ‘And who creates life? A man or a woman?’
‘A woman.’ I had understood her point.
‘In the beginning of time, everyone acknowledged God as a female entity. God was a Goddess.’ She said with her eyes shining with happiness at my answer. ‘Women were not viewed as objects back then. Instead, they were revered and respected as life-creating entities. The ancient women were healers as they understood nature intimately.’ She closed her eyes for a moment and grew quiet.
‘Then what happened?’ I asked impatiently. ‘What changed?’
‘Then…’ She opened her eyes, and they were moist with tears. ‘Then man looked at himself and perceived his own physical superiority over women. He looked at his own muscles and anatomy and refused to revere and respect a physically inferior female. Patriarchy was the evil that corrupted the soul of man. He first tried to dominate her by sheer will and force. But when he failed, he looked for other ways. He devised religion and its complicated rituals and invented a cruel God, who only worked in his favor. Religion taught him to brand the healers as witches and burn them at the stake.’
‘Hmm!’ I was too young to understand how patriarchy worked. ‘You also told me that you are the life force and you reside in every living thing?’
‘No, I reside in everything - living or non-living, as you see things. But everything is alive, the mountains and the rivers and the trees and the stones. Everything sees and everything feels. But only those who truly understand life and nature can feel that.’ She said while placing her warm hand on my shoulder.
‘And how do you understand and feel all these things?’ I asked while inhaling her musky fragrance.
‘Kindness is the key to the door of understanding.’ She bent her head and peered deep into my eyes. ‘Kindness makes you sensitive and kindness makes you feel.’
‘I want to understand and I want to be kind.’ I whispered back with a dry throat. Her nearness was overwhelming my senses.
‘So be it.’ She said softly and bent her head as if she wanted to kiss my forehead. But then she suddenly stopped. ‘I can give you the gift of kindness, but remember, child, this gift comes with a dark curse.’
‘Curse?’ I was curious, but for that one kiss of hers, I was ready to accept a host of all the curses in the world.
‘Yes, a curse.’ She smiled sadly, and her dark brown eyes suddenly filled with tears. ‘Sadness is the darkest of all curses, and it always comes along with kindness and understanding. So think very carefully before you accept this gift of mine.’
‘I am ready to accept your gift and the curse that comes along with it.’ I bravely declared and almost got lost in her lovely, moist eyes.
‘So be it.’ She whispered again and kissed my forehead. Two warm tears slid down her cheeks and fell onto my lips.
She removed her own necklace of pine cones and put it around my neck. She kissed my eyes one by one and peered into them again. I saw a strange light burning in the depths of her eyes. I looked closely, and the light was alive with images. I tried to focus and found myself becoming a part of those strange images.
I saw myself running after butterflies, and I saw those butterflies embracing the rose thorns. Their delicate hearts were instantly pierced, and purple blood flowed out and stained the rose petals.
I saw myself standing on top of a hill, while death and chaos reigned all around me. Armed men were fighting each other in the name of land and religion. Gradually, their victorious cries changed into cries of pain and misery, and their blood stained the soil.
And I saw myself loving with innocence and purity, my eyes alight with feelings. But then I saw my innocence being conquered by desire, and I saw myself losing the ability to love purely.
I saw all and I wept hard, tears streaming down my cheeks. I wept until darkness took me over and I was lost in nothingness.
When I opened my eyes again, I saw the worried faces of all my friends surrounding me. I looked around. I was back at the camp and was lying on my own bed.
‘What happened?’ I asked while trying to sit up.
‘Please don’t get up.’ A friend of mine said in a kind voice. ‘You are running a high fever.’
‘But how did I reach back? How am I here?’ I asked him.
‘The old cleaner found you lying unconscious in the forest. He brought you here.’ He replied.
‘Oh!’ I couldn’t speak anymore. Fever made my whole body ache.
‘What is this around your neck?’ My friend asked.
I opened my eyes and saw that he was fiddling with a necklace of pine cones around my neck.
‘This…’ My eyes filled with tears at the memory of the Mother. ‘This is a gift.’
‘Maybe it was all a dream and my feverish imagination.’ I said to no one in particular, and the Turtle chuckled with amusement.
‘Yes, maybe the necklace was put around your neck by the Keeper. Maybe he wanted to gift it to you.’ He was scuttling back into the shade.
‘No.’ I said after thinking hard. ‘I saw the Keeper again the day we were leaving the camp. He was wearing his own necklace.’
‘Maybe he made another, eh?’ The Turtle was still smiling.
‘Maybe.’ I nodded and stood up to leave.
‘So what is the truth?’ He looked up at me. ‘Did you or did you not meet the Mother?’
‘The fact is that I did not. And the truth is that I did.’
We kept on looking into each other’s eyes for a second or two, and then we both laughed.
— So my friends, what is the truth? Did I or did I not meet the Witch of Ghoragali? That is not for you to decide or judge, for that is my truth and mine alone. But you are welcome to go to Ghoragali and try your own luck. Maybe you are fortunate enough to meet Her. But if you do, and by any chance She offers you a gift, think very hard before accepting it because dark curses are hard to carry.
What if everything we believe about right and wrong, love and hate, and heaven and hell, is just an elaborate lie we tell ourselves to feel significant?
A provocative philosophical poem structured as a series of “what if” questions that systematically dismantle fundamental human beliefs about existence, morality, choice, and emotion.
What if there is no eternity, there is no heaven or hell?
What if there are no consequences, good or bad, at all?
The guilt is just a loathsome burden, a rotten, stinking smell,
while life is just a dream, no ups or downs, big or small
What if there is no choice, there is no right or wrong?
What if there are no options, left or right, at all?
Life is just the time, singing a long, sad song,
while fate sits smiling, and quietly rules all
What if there is no color, there is no black or white?
What if there are no shades, dark or light, at all?
Life is just reflections, a kaleidoscope made right,
while our dreams are just dancing shadows on a wall
What if there is no feeling, there is no love or hatred?
What if there are no emotions, anger, or fear at all?
We are all just great actors, holding our roles sacred,
while each act promptly happens on the director’s call
What if there is no change, there is no sadness or joys?
What if there are no upheavals, high or low, at all?
We are all just God’s property, His breakable toys,
.مولوی صاحب! کوئی دم درود تو تجویز کریں.’ نظر بٹو نے شرماتے ہوئے کہا’
‘دم درود؟ وہ کس لئے بھائی؟’
.وہ…..میرے قد کیلئے. کوئی ایسا وظیفہ بتایئں کہ میرا قد لمبا ہوجاۓ.’ اس نے بدستور شرماتے ہوئے اور سر جھکا کر کہا’
.لاحول ولا قواتہ! قران نا ہوا، جادو ٹونہ ہوگیا.’ مولوی مشتاق نے جلال میں آ کر کانوں کو ہاتھ لگایا’
آپ تو ناراض ہوگئے مولوی صاحب!’ بیچارے نظر بٹو کی آنکھوں سے دو موٹے موٹے آنسو نکل کر اس کے گالوں پر لڑھک گئے
‘آپ میری آخری امید تھے. میں بڑا مان لے کر آیا تھا’
ہوں….!’ مولوی صاحب نے نظر بٹو کو گھورتے ہوئے ایک لمبا ہنکارا بھرا. پھر ان کو اس کی آنکھوں میں تیرتے آنسو دیکھ کر ترس آگیا
‘……..دیکھو میاں جلال الدین’
.جلال الدین؟’ نظر بٹو نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا’
.بھائی تمہارا نام جلال الدین نہیں ہے؟’ مولوی صاحب نے جھنجلا کر پوچھا’
تھوڑی دیر تو نظر بٹو خالی خالی آنکھوں سے مولوی صاحب کو دیکھتا رہا. پھر اچانک اسکی کالی معصوم آنکھوں میں چراغ سے جل اٹھے
ہاں جی! ہاں جی! میرا نام جلال الدین ہے. لیکن وہ کیا ہے نا مولوی صاحب کہ کئ سالوں سے کسی نے اس نام سے پکارا ہی نہیں. سب نظر بٹو ہی کہ کر پکارتے ہیں
خیر جو بھی ہے…….. دیکھو میاں جلال الدین، یہ خدا کے کام ہیں. کسی کو چھوٹا قد دیتا ہے، کسی کو لمبا. لیکن جب بنا دیتا ہے تو اسکو تبدیل نہیں کیا جا سکتا
.مولوی صاحب….’ نظر بٹو نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا’
‘پچھلے جمعہ کے خطبے میں آپ نے کہا تھا کہ خدا اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے’
.ہاں بالکل ایسا ہی ہے.’ مولوی صاحب نے اثبات میں سر ہلایا’
لیکن مولوی صاحب، ماں جب اپنے بچے کو گھر سے نکالتی ہے، بنا سنوار کر نکالتی ہے تاکہ کوئی اس کے بچے کو گندا یا برا نا کہے. صاف ستھرے کپڑے پہناتی ہے، بالوں میں تیل لگا کر کنگھا کرتی ہے اور پھر آنکھوں میں سرمہ ڈالتی ہے
.ہاں……پھر؟’ مولوی صاحب کو نظر بٹو کی باتوں کی کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی’
پھر یہ مولوی صاحب کہ خدا نے مجھے میری ماں کے پیٹ سے بنا سنوار کر کیوں نہیں نکالا؟ یہ ساڑھے تین فٹ کا قد دے کر کیوں نکالا؟ یہ کیسی محبت ہے مولوی صاحب؟
بھائی خدا کے کام خدا ہی جانے. میں بھلا کیا کہ سکتا ہوں؟’ مولوی صاحب سے کوئی جواب نا بن پڑا تو سٹپٹا کر داڑھی کے بالوں میں انگلیوں سے خلال کرنے لگے
‘میں خدا سے پوچھنا چاہتا ہوں مولوی صاحب.’ نظر بٹو نے معصومیت سے کہا. ‘مگر کیسے پوچھوں بھلا؟’
‘کیسی فضول باتیں کرتے ہو میاں؟ جب ملاقات ہوگی، پوچھ لینا’
ملاقات کب ہوگی مولوی صاحب؟’ نظر بٹو کی معصومیت بدستور اپنی جگہ قائم تھی. مولوی صاحب اسکی نظر میں زمین پر خدا کے خلیفہ تھے، جن کے پاس انسانوں کی تمام مشکلات کا حل موجود ہونا چاہیے تھا
بھائی جب مرو گے، تب ہی ملاقات ممکن ہے. تب پوچھ لینا ساری باتیں.’ مولوی صاحب نے تھوڑی سنگ دلی سے کہا. ان کو ٹھیک ٹھاک غصّہ چڑھنا شروع ہوگیا تھا
جی ٹھیک ہوگیا!’ نظر بٹو نے سہم کر کہا اور بہتری اسی میں سمجھی کہ وہاں سے اٹھ کر چلا جائے’
کہنے کو جلال الدین ولد کمال الدین، چھبیس سال کا گورا چٹا لڑکا تھا. سر کالے گھنگریالے بالوں سے ڈھکا ہوا تھا اور موٹی موٹی کالی آنکیں تھیں. صاف ستھرا رہنے کی عادت تھی اور صاف ستھرے کپڑے پہنتا تھا. لیکن اس کے وجود کی ساری خوبصورتی بس انہی چند چیزوں تک محدود تھی. اسکا ساڑھے تین فٹ کا قد اس کے پورے وجود کی دلکشی کی نفی کر دیتا تھا
دل کا بھی بہت اچھا تھا. جانور ہو یا انسان، کسی کی بھی تکلیف دیکھ کر اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آتی تھیں؛ اور وہ پورے جی جان سے، اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش میں لگ جاتا تھا. لیکن انسانوں کی آنکھیں اس کے دل میں جھانک کر دیکھتیں تو اس کی خوبصورتی محسوس کرتیں. اور کر بھی لیتیں تو کیا ہوسکتا تھا. اسکا مختصر وجود لوگوں کے دلوں میں صرف تمسخر پیدا کر سکتا تھا، محبت نہیں
لیکن ایک بات یقیناً اس کی زندگی میں اچھی تھی. وہ یہ کہ پورے محلے کے آوارہ کتے اس کے گہرے دوست تھے. بچوں کو آوارہ کتوں کو پتھر مارنے سے منع کرتا تو کتے اور وہ خود، ان ہی شریر بچوں کا نشانہ بن جاتے. پھر تھوڑی دیر کے بعد وہ زخمی سر کے ساتھ روتے ہوئے گھر میں داخل ہوتا تو باپ کی جوتیاں تیار ہوتیں. کبھی کبھی ماں کو ترس آتا تو وہ بیچ بچاؤ کرا دیتی. ورنہ بیچارے کا باپ کے ہاتھوں پٹنا روز کا ہی معمول تھا
ویسے جب چار بہنوں کے بعد وہ پیدا ہوا تو ماں نے بڑے پیار سے اس کا نام جلال الدین رکھا تھا. بیشک پیدائش کے وقت سر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بڑا تھا مگر ماں ‘سر بڑا سرداروں کا’ کہ کر دل کو تسلی دے لیتی تھی. مگر جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا، ماں باپ کو احساس ہوگیا کہ جلال الدین کے روپ میں خدا نے رحمت نہیں زحمت بھیجی تھی. پھر جب تین سال کے بعد جمال الدین پیدا ہوا تو ماں اور باپ، دونوں کی محبت اور شفقت کا رخ چھوٹے بھائی کی طرف مبذول ہوگیا
اصل ظلم تو اسکی تائی خالدہ نے کیا. ایک دفعہ جب وہ بھائی کے گھر ٹھہری تھی تو جلال الدین مار کھا کر کہیں باہر سے روتے ہوئے آیا. سر بہت بری طرح زخمی تھا اور خون سے سارے بال چکتے ہورہے تھے. دیکھ کر ماں کا دل پگھل گیا. سر گیلے کپڑے اور ڈیٹول سے صاف کرتی جاتی اور ‘ماں صدقے! ماں صدقے!’ کہتے ہوئے روتی جاتی
.کیوں روتی ہو بھابی؟’ تائی نے مزہ لینے کو پوچھا’
‘اری دیکھتی نہیں ہو باجی؟ کمبختوں نے کس بےدردی سے مارا ہے’
.ہاں مگر بچہ ہے.چوٹ تو لگتی ہی رہتی ہے نا بچوں کو.’ تائی نے چائے پیالی سے پرچ میں انڈیلتے ہوئے کہا’
.بچہ کہاں ہے؟ پورے پندرہ سال کا ہوگیا ہے مگر قد وہ ہی تین فٹ.’ ماں نے تولئے سے خون روکتے ہوئے کہا’
‘ایک تو پتہ نہیں خدا نے ہمیں کن گناہوں کی سزا دی ہے اس کو ہمارے گھر پیدا کر کے’
.سزا نہیں دی. تیری اور تیرے خاندان کی بلایئں ٹالی ہیں.’ تائی نے چائے کے سڑکے لگاتے ہوئے کہا’
اس قدر خوبصورت بیٹا ہے تیرا جمال. بارہ سال کا ہے مگر دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ کس قدر گھبرو جوان نکلے گا. جلال نے تو نظر اتاری ہے چھوٹے بھائی کی. نظر بٹو ہے یہ تو
تائی نے جلال الدین کو نظر بٹو کیا کہا، یہ ہی اس بیچارے کا نام پڑ گیا. اس کو اپنا یہ نام بہت برا لگتا تھا مگر کر بھی کیا سکتا تھا. اس غریب کی ساری امیدیں ماں کے پیار سے وابستہ تھیں. وہ بھی ایک دن ڈھیر ہوگیئں
جمال میری جان! دیکھ میرے بیٹے، اسکول سے واپس آکرجلال کو بھی تھوڑا بہت پڑھا دیا کر.’ ماں نے اسکول جانے سے پہلے چھوٹے بھائی کے بال سنوارتے ہوئے اس کو سمجھایا
جلال الدین نے ابتدائی کچھ سالوں میں اسکول جانا ضرور شروع کیا تھا مگر آھستہ آہستہ جب ہم جماعتوں کا مزاق اور مار پیٹ حد سے گزارنے لگے تو ماں باپ نے بہتر یہی سمجھا کہ اس کو اسکول سے اٹھا لیا جائے
.تم بھی کمال کرتی ہو ماں. بھلا نظر بٹو پڑھ کر کیا کرے گا؟’ جمال نے مچل کر پوچھا’
.بری بات ہے بیٹے، بڑے بھائی کو ایسے نہیں کہتے.’ ماں نے تھوڑی سختی سے کہا تو لاڈلا جمال بگڑ گیا’
‘میں تو نظر بٹو ہی کہوں گا. اور اگر تم مجھ سے پیار کرتی ہو تو تم بھی اسکو نظر بٹو ہی کہا کرو’
.اچھا! اچھا! جو جی میں آئے، تو وہ کہ لینا.’ ماں نے گھبرا کر کہا. جمال میں تو اس کی جان تھی’
‘نہیں، میں بھی نظر بٹو کہوں گا اور تم بھی نظر بٹو ہی کہو گی اس کو. اگر نہیں کہو گی تو میں ناراض ہو کر کہیں چلا جاؤں گا. چھوٹی سی عمر میں بھی جمال کو اپنی طاقت کا خوب اچھی طرح اندازہ تھا
‘نا نا! میری جان! ایسے نہیں کہتے.’ ماں نے جھٹ جمال کو سینے سے لگا لیا. ‘جو تو کہے گا وہ ہی میں کہوں گی’
.پھر نظر بٹو کہ کر ابھی بلا اس کو.’ جمال نے شوخی سے فرمائش کی
‘اچھا بلاتی ہوں’
.نظر بٹو! وے نظر بٹو!’ ماں نے اونچے لہجے میں آواز دی’
جلال کہاں کوئی دور کھڑا تھا. وہیں پیچھے دروازے کے پٹ کی اوٹ سے ماں اور چھوٹے بھائی کو دیکھ رہا تھا. لیکن ماں کی آواز سنتے ہی اس کی آنکھوں میں پتہ نہیں کہاں سے ڈھیر ساری نمی اتر آئ اور وہ دبے پاؤں وہاں سے بھاگ کر، باہر دور میدان میں، ٹیوب ویل کے ساتھ، بوڑھے برگد کی جڑوں میں جا کر بیٹھ گیا. وہاں بوڑھے برگد کی ٹھنڈی چھاؤں میں اس کا پکا ٹھکانا تھا. جب کبھی دل بہت اداس ہوتا تو وہاں جا کر بیٹھ جاتا اور روتا جاتا جب تک کہ دل ہلکا نا ہوجاتا. پھر ٹیوب ویل کے پانی سے منہ دھوتا اور واپس گھر چلا جاتا. کسی کو کبھی پتا ہی نہیں چلا تھا کہ برگد کی وہ جڑیں جانے جلال کے کتنے نمکین آنسو جذب کر چکی تھیں
اسی طرح دن گزرتے چلے گئے. پتھر اور مار کھاتے کھاتے اور دل کے ٹوٹتے جڑتے، جلال کی عمر تو بڑھ گئ مگر قد اتنے کا اتنا ہی رہا. لیکن جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا کہ شاید لوگوں کا مزاق سہتے سہتے جلال کا دل بہت حساس ہوگیا تھا؛ اور اس کو سب کی تکلیف کا بہت جلد پتہ لگ جاتا تھا. انسانوں کی تکلیف دورکرنے کی کوشش کرتا تو وہ اپنا دکھ بھول کر اس پر ہنسنا شروع ہوجاتے اور اس قدر تنگ کرتے کہ وہ بیچارا بہتر یہی سمجھتا کہ وہاں سے بھاگ جائے
جانوروں کے ساتھ یہ مسلہء نہیں تھا. خاص کر کتوں کو جلال کے چھوٹے اور بونے قد سے کوئی واسطہ نہیں تھا. وہ تو بس اس کی ہتھیلیوں اور انگلیوں میں چھپی محبت کی گرم خوشبو کو سونگھتے اور محسوس کرتے تھے. جب اس محبت کی حرارت ان کو محسوس ہوتی تھی تو وہ جلال کے قدموں میں لوٹ جاتے تھے. اس کے چہرے کو چاٹنے کی کوشش کرتے تھے. اس کو دیکھ کر دم ہلاتے بھاگتے آتے تھے. جلال ان کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا اور ان کے ساتھ کھیلتے کھیلتے اپنے غم بھول جاتا تھا
ماں اور باپ دونوں کو جلال کی کتوں سے محبت سے بہت چڑ تھی. جتنا بھی روکتے، وہ آنکھ بچا کر باورچی خانے سے کھانے پینے کی چیزیں نکال کر لے جاتا. جب باقائدگی کے ساتھ دودھ اور روٹیاں غایب ہونے لگیں تو باپ نے مار مار کر چمڑی ادیھڑ دی. اس دن کے بعد سے جلال نے باورچی خانے سے چوری کرنا تو چھوڑ دیا مگر خود فاقے کر کے اپنے حصے کا کھانا کتوں کو کھلانے لگا. اسکی گرتی صحت دیکھ کر ماں باپ نے یہی مناسب سمجھا کہ اسکو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے. ویسے بھی کھاتے پیتے لوگ تھے. تھوڑے سے دودھ اور روٹیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا
ہاں تو میں آپ کو بتا رہا تھا کہ لوگوں کے مزاق سہتے سہتے اور برگد کے نیچے روتے روتے جلال جوان ہوگیا. اور پھر جیسا کہ جوان لوگوں کے ساتھ اکثر ہوتا ہے، ایک دن جلال کو محبت ہوگئ. خیر یہ کوئی ایسے اچھنبھے کی بات نہیں تھی. قد چھوٹا تھا تو کیا ہوا، دل تو جوان ہو چکا تھا اور خوبصورتی کی طرف مائل بھی ہوتا تھا. لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ جلال دماغی طور پر پسماندہ نہیں تھا. پڑھا لکھا نا ہونے کے باوجود اچھا خاصا ذہین تھا. خاص طور پر دنیا کی بہت سمجھ تھی اس کو. اچھی طرح جانتا تھا کہ دنیا والوں کی نظروں میں اور ان کے دلوں میں، اس کیلئے اور اس جیسوں کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی. لیکن پھر بھی اس کو محبت ہوگئ. محبت کا کیا ہے، یہ تو بس ہو جاتی ہے. اور جب محبت آتی ہے تو عقل رخصت ہوجاتی ہے
ایک بات جو میں آپ کو بتانا بھول گیا. وہ یہ کہ جلال کو خدا نے ایک بے حد خوبصورت آواز سے نوازا تھا. کوئی باقاعدہ تربیت تو لی نہیں تھی. بس جو کچھ ریڈیو پر سنتا، وہ گنگناتا رہتا. آھستہ آہستہ اسکی آواز کی شہرت پھیلتی گئ. کہیں بھی لوگ اکٹھے بیٹھتے تو جلال کو بلوا لیتے اور گانا سنتے. جلال بیچارے کیلئے وہ واحد وقت ہوتا جب لوگ اس پر ہنس نہیں رہے ہوتے تھے، بلکہ اس کے گانے کی طرف متوجوہ ہوتے تھے. خوب تعریف بھی کرتے تھے اور کبھی کبھی زیادہ خوش ہوتے تو تھوڑا بہت انعام بھی دے دیتے. لہٰذا جلال کیلئے گانا خوشی تھی
وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا. گاؤں کے بڑے چھوٹے سب چوپال میں اکٹھے تھے. موج مستی چل رہی تھی.ایسے میں کسی کو جلال کا خیال آ گیا تو ڈھنڈیا پڑ گئ. لڑکے بالے دوڑتے گئے تو دیکھا، جلال اپنے کتوں کے ساتھ، برگد کے بوڑھے پیڑ تلے کھیل رہا تھا. وہ اس غریب کو کھینچ کھانچ کر چوپال میں لے آئے
بھائی نظر بٹو، آج تو کشور کمار ہو جائے.’ گاؤں کے اسکول کے اکلوتے ماسٹر صاحب نے فرمائش کی. جلال پہلے تو حسب دستور کچھ شرمایا لیکن پھر ماسٹر صاحب کے مزید اصرار پر اس نے کھنکار کر گانا شروع کر دیا
زندگی کا سفر، ہے یہ کیسا سفر
کوئی سمجھا نہیں، کوئی جانا نہیں
ایک گانا غمگین، اوپر سے جلال کی چوٹ کھائی آواز. ایک سماں بندھ گیا
گاتے گاتے جلال کی نظر رضیہ پر پڑ گئ جو دوپٹے سے آنسو پونچھ رہی تھی. وہ رفیق کریانے والے کی بیٹی تھی اور پورے گاؤں کی سب سے حسین لڑکی تھی. جوانی ٹوٹ کر آئ تھی اور اس کو اپنے حسن کا احساس بھی بہت زیادہ تھا. شاید اپنی مری ماں یاد آ گئ یا پھر ویسے ہی دل بھر آیا تھا اس کا. بہرحال جب جلال نے اس کی طرف دیکھا تو وہ گیلی گیلی آنکھوں سے اور ہلکی سی افسردہ مسکان لئے اسی کی طرف دیکھ رہی تھی. بس غضب ہی ہوگیا. جلال کو یقین ہوگیا کہ رضیہ کا دل اس کیلئے ہی اداس تھا
جلال کو رضیہ سے محبت کیا ہوئی، اسکا دنیا کو دیکھنے کا انداز ہی بدل گیا. لوگ وہ ہی ظالم کے ظالم تھے اور دنیا اتنی ہی بےدرد کی بےدرد تھی مگر جلال کو سب کچھ خوبصورت نظر آنے لگا. ریڈیو پر چلتے ہر پرانے گانے کا ہر گھسا پٹا شعر، اک نیا معنی اختیار کر گیا. اپنا خیال بھی زیادہ رکھنا شروع ہوگیا. باپ کی الماری سے عطر کی شیشی چوری کر لی اور احتیاط سے جیب میں کنگھی کے ساتھ رکھ لی کہ کیا خبر زندگی کے کس موڑ پر رضیہ سے ملاقات ہوجائے
پھر ایک دن ملاقات ہو ہی گئ. جلال حسب عادت برگد کے نیچے، آوارہ کتوں کے درمیان بیٹھا تھا. دور سے رضیہ آ رہی تھی مگر جلال کی ساری توجوہ کتوں پر مرکوز تھی. اس نے دھیان ہی نہیں دیا. پتہ اس وقت چلا جب رضیہ سر پر پہنچ گئ. نا الجھے بالوں میں کنگھی کرنے کا وقت تھا اور نا کپڑوں پر عطر لگانے کا. بیچارے نے رضیہ کو کچھ فاصلے پر کھڑے اپنی طرف مسکراتے دیکھا تو سٹی گم ہوگئ
.کیا حال ہے نظر بٹو؟’ رضیہ نے شوخی سے پوچھا’
جلال کو رضیہ کا نظر بٹو کہنا بالکل بھی برا نہیں لگا
.مم…..میں ٹھیک ہوں.’ بیچارے نے سٹپٹا کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا’
.بیٹھنے کا نہیں کہو گے؟’ رضیہ نے پوچھا’
.ہاں! ہاں!…. آؤ بیٹھو.’ جلال نے بدحواس ہو کر ادھر ادھر رضیہ کے شایان شان جگہ تلاش شروع کر دی’
.کیسے آؤں؟ مجھے تمھارے دوستوں سے ڈر لگتا ہے.’ رضیہ نے کتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا’
وہ شاید جلال کی زندگی کا پہلا دن تھا جب اس کو کتے برے لگے. جب اس کے آواز دینے سے کتے نہیں ہٹے تو اس نے تنگ آ کر ہاتھوں میں پتھر اٹھا لئے. بیچارے کتوں نے حیرانی سے دو چار پتھر کھائے اور پھر ٹیاؤں ٹیاؤں کرتے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر جلال کو گیلی گیلی اور شکایت بھری آنکھوں سے دیکھنے لگے. جلال کو تھوڑی دیر کو تو بہت شرم آئ مگر پھر محبوبہ کا احترام غالب آ گیا
رضیہ آھستہ آھستہ قدم اٹھاتی قریب آئ اور پھر وہیں برگد کی جڑوں میں بیٹھ گئ
آؤ تم بھی بیٹھو.’ رضیہ نے اپنی بغل میں اشارہ کیا تو جلال کی تو عید ہی ہوگئ اور وہ لپک کر بیٹھ گیا کہ کہیں رضیہ اپنی دعوت واپس ہی نا لے لے
.کیسے ہو نظر بٹو؟’ رضیہ نے مسکرا کر پوچھا’
مم…میں ٹھیک ہوں.’ جلال پر ابھی بھی بدحواسی طاری تھی. دراصل اس غریب کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ رضیہ کا آنا اور اسکے ساتھ بیٹھنا حقیقت ہوسکتا تھا
اوپر سے رضیہ کے وجود سے بھینی بھینی خوشبو اٹھ رہی تھی جو جلال پر ایک بیخودی کا عالم طاری کر رہی تھی
‘میں آج تمہاری مہمان ہوں.’ رضیہ نے کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا. ‘اپنی مہمان کو گانا نہیں سناؤ گے؟’
.ہاں….ہاں ضرور سناؤں گا.’ جلال تو اس کیلئے آسمان سے تارے بھی توڑ کر لا سکتا تھا. گانا تو بہت معمولی شے تھی’
‘کونسا گانا سنو گی؟’
‘وہ ہی جو اس دن تم چوپال میں گا رہے تھے. زندگی کا سفر’
اسکا حکم دینا تھا کہ جلال نے دو ایک بار کھنکھارا اور گانا شروع کر دیا
لیکن اس دن کی طرح آج رضیہ کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے. وہ بس خاموش بیٹھی ایک تنکے سے زمین کرید رہی تھی. جلال کو لگا کہ شاید وہ اس سے کوئی بات کہنا چاہ رہی تھی مگر کہ نہیں پا رہی تھی
جلال نے گانا ختم کیا تو رضیہ نے منہ پھیر کر اس کی طرف دیکھا اور دھیرے سے مسکرا دی
.نظر بٹو! میرا ایک کام کرو گے؟’ تھوڑی دیر خاموشی کے بعد رضیہ نے پوچھا’
.ہاں ہاں کیوں نہیں.’ جلال کے دل میں محبوبہ کی خدمت کے خیال سے ہی لڈو پھوٹنا شروع ہوگئے’
.تم حکم تو کرو.’ جلال نے سینے پر ہاتھ رکھ کر سر جھکاتے ہوئے کہا تو رضیہ کی ہنسی نکل گئ’
.تم مجھے بڑے اچھے لگتے ہو نظر بٹو.’ رضیہ نے ایک ادا سے کہا’
جلال کو یوں لگا کہ جیسے میلوں صحرا میں پیدل چلنے کے بعد یکایک وہ کسی ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے کے کنارے آ کھڑا ہو. ساری عمر کے غم ایک طرف اور رضیہ کا اقرار محبت ایک طرف. جلال نے اپنے آپ کی طرف دیکھا تو اس کو اپنا مختصر وجود چھ فٹ کا دکھائی دیا
مجھے بھی تم…..مجھے بھی تم بہت اچھی لگتی ہو رضیہ.’ اس نے پتہ نہیں کہاں سے ہمت جمع کی اور رضیہ کے حضور اقرار محبت پیش کر دیا
.مجھے پتہ ہے.’ رضیہ نے شرما کر کہا’
.تمھیں کیسے پتہ ہے؟’ جلال نے حیرانی سے پوچھا’
.میں تو پورے گاؤں کو اچھی لگتی ہوں.’ رضیہ کھلکھلا کر ہنس پڑی’
.ہاں یہ تو ہے.’ جلال نے بیوقوفی سے سر ہلا کر اور ہنس کر کہا’
تمھیں پتہ ہے، میں پورے گاؤں کو اچھی لگتی ہوں لیکن مجھے صرف ایک ہی اچھا لگتا ہے؟’ رضیہ نے آہستگی سے سوال پوچھا
.مجھے سب پتہ ہے رضیہ.’ جلال نے دانش مندی سے گردن ہلا کر کہا’
.ہیں تمھیں پتہ ہے نظر بٹو؟ بھلا تمھیں کیسے پتہ ہے؟’ رضیہ نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا’
.بس مجھے پتہ ہوتا ہے باتوں کا.’ جلال نے اسکی آنکھوں میں جھانکتے اور تقریباً ڈوبتے ہوئے کہا’
‘اچھا!’ رضیہ نے کچھ سوچتے ہوئے کہا. ‘پتہ ہے تو یہ اس کو دے دینا’
رضیہ نے اپنے گریبان سے خوشبودار پسینے میں بھیگا ایک گلابی لفافہ نکالا اور جلال کی مٹھی میں تھما دیا. پھر اس کو ایک دلنواز مسکراہٹ سے نوازا اور مزید کچھ کہے بغیر اٹھ کر چلی گئ
رضیہ کے جانے کے بعد کچھ دیر جلال وہیں اس کی قربت کے نشے میں سرشار بیٹھا رہا. پھر لفافے کو غور سے دیکھا. کچھ کچھ پڑھنے کی کوشش کی تو دیکھا کہ لفافے پر اسی کا نام لکھا تھا. اندر سے خط نکال کر دیکھا. الفاظ تو زیادہ سمجھ نہیں آئے مگر جگہ جگہ بنی دل کی تصویروں اور تیر کے نشانوں کو ضرور پہچان گیا. اس کو اپنی خوش قسمتی پر یقین نہیں آ رہا تھا
.واہ میرے مولا!’ اس نے آسمان کی طرف گردن اٹھا کر دیکھا’
دیا بھی تو چھپڑ پھاڑ کر. موجیں ہی کرا دیں. مولوی صاحب ٹھیک ہی کہتے تھے. تو واقعی بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے
اب جلال دین کیلئے سب سے بڑا مسلہء خط کو ٹھیک طرح سے پڑھنے کا تھا. لے دے کر اس کے پاس اس کا چھوٹا بھائی ہی تھا جو اس کی مدد کر سکتا تھا. امید تو کم تھی مگر اور کوئی چارہ بھی نہیں تھا
شام کو جمال الدین کھیتوں پر کام کر کے واپس آیا اور کھانا وغیرہ کھا کر چھت پر چلا گیا. مغرب کی طرف سے کبھی کبھی ٹھنڈی ہوا چلتی تھی تو چھت پر زیادہ محسوس ہوتی تھی. جلال بھی ڈرتے ڈرتے اس کے پیچھے چھت پر چڑھ گیا اور بھائی کے پاس ہی منڈیر پر بیٹھ گیا
.کیا بات ہے نظر بٹو؟ بڑا لال سرخ ہورہا ہے.’ جمال کا موڈ اچھا تھا’
.وہ ایک کام تھا تم سے.’ جلال نے شرماتے ہوئے کہا اور جیب سے رضیہ کا خط نکال کر بھائی کی طرف بڑھا دیا’
اب یہ کیا ہے؟’ جمال نے خط پکڑا اور غور سے دیکھنے کے بعد کھول لیا. اس نے خاموشی سے خط پڑھا اور پھر مونچھوں کو تاؤ دے کر زیر لب مسکرانے لگا
.کیا لکھا ہے؟’ جلال نے شوق سے پوچھا’
.تجھے کیا تکلیف ہے؟ جا دفعہ ہوجا یہاں سے.’ جمال نے دھتکار کر کہا’
‘مجھے کیوں نہیں تکلیف ہوگی؟ میرا خط ہے آخر’
.یہ شک تجھے کیسے ہوا کہ یہ تیرا خط ہے؟’ جمال نے اس کو گھور کر پوچھا’
.میرا نام لکھا ہے اس پر. غور سے دیکھ.’ جلال نے انگلی سے اشارہ کر کے دکھایا’
جمال نے ایک فلک شگاف قہقہہ لگایا
‘یہ؟ یہ جلال نہیں جمال لکھا ہے، عقل کے اندھے. ان پڑھ جاہل، بونا ہے تو’
‘نہیں تم جھوٹ بول رہے ہو. یہ میرا خط ہے.’ جلال کی آواز روہانسی سی ہوگئ. ‘میں جا کر ماں کو بتاتا ہوں’
دماغ تو نہیں خراب ہوگیا نظر بٹو؟ میرا پتہ ہیں نا؟ ماں کو بتایا تو الٹا لٹکا دوں گا.’ جمال نے ایک تھپڑ جلال کے گال پر جڑ کر کہا تو وہ بیچارہ روتا ہوا بھاگ گیا
اگلے دن رضیہ کو سہیلیوں کے ساتھ ٹیوب ویل پر دیکھا تو جلال دوڑتا پہنچ گیا
.رضیہ؟’ اس نے ڈرتے ڈرتے آواز دی’
‘کیا ہے نظر بٹو؟’
‘یہاں ایک سائیڈ پر آ، میں نے ایک ضروری بات کرنی ہے’
رضیہ نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور پھر معنی خیز انداز میں مسکرا کر اس کے ساتھ جا کر برگد کے نیچے بیٹھ گئ. سہیلیوں نے مزاق اڑانے کی کوشش کی مگر رضیہ نے ایک گھوری ماری تو سب چپ کر گیئں
‘ہاں بول نظر بٹو کیا ہے؟ میرے لئے کسی نے کچھ بھیجا ہے کیا؟’
‘نہیں، کسی نے کچھ نہیں بھیجا.’ جلال نے ڈرتے ڈرتے کہا. ‘وہ تیرا خط مجھ سے جمال نے چھین لیا’
.پھر؟’ رضیہ نے اشتیاق سے پوچھا’
‘پھر اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا کہ تم نے اس میں کیا لکھا تھا’
.تو نے جان کر کیا کرنا تھا نظر بٹو؟’ رضیہ نے مسکرا کر پوچھا’
.کیوں مزاق کرتی ہو رضیہ؟’ جلال نے افسردگی سے جواب دیا’
‘تمہارا محبت نامہ تھا میرے نام. میرے لئے تو ہر لفظ ہیرا موتی تھا تیرا’
‘کیا کہا؟’ رضیہ تنتنا کر کھڑی ہوگئ. ‘دماغ تو نہیں چل گیا تیرا؟’
سہیلیوں نے رضیہ کی اونچی آواز سنی تو وہ بھی دوڑتی پہنچ گیئں
.میں نے ایسا کیا کہ دیا رضیہ؟’ جلال بیچارا تو ہکا بکا کھڑا رہ گیا’
میں کیوں لکھوں گی تجھے محبت نامہ؟ بونے مردود، شکل اور قد دیکھا ہے اپنا؟ بڑا آیا ساڑھے تین فٹ کا مرد.’ رضیہ نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اور چیخ کر کہا
.مگر اس خط پر……اس پر تو میرا نام لکھا تھا.’ جلال نے رندھی ہوئی آواز میں کہا’
.جاہل! گنوار!’ رضیہ نے جلال کا گریبان پکڑ کر اس بیچارے کو جھنجوڑا’
‘اس پر تیرے بھائی کا نام لکھا تھا….جمال کا’
اس کے بعد تو حد ہوگئ. رضیہ اور اس کی سہیلیوں نے ناخن اور چپلیں مار مار کر جلال بیچارے کا حلیہ بگاڑ دیا. وہ بیچارا روتا جاتا اور اپنے مختصر سے بازوؤں سے اپنے آپ کو بچانے کی ناکام کوشش کرتا رہا. مار مار کر لڑکیاں تھک کر گھر چلی گیئں تو جلال وہیں برگد کی چھاؤں تلے بیٹھ کر روتا رہا. جسم کی چوٹوں کی درد تو پتہ نہیں تھی کہ نہیں لیکن دل بہت درد کر رہا تھا. اس کو روتا دیکھ کر کتے بھی اس کے اردگرد اکٹھے ہوگئے اور اس کے زخم چاٹنے کی کوشش کرنے لگے
اس دن کے بعد جلال کو بہت عرصے کسی نے گاؤں میں نہیں دیکھا. باپ نے کافی ڈھونڈا. تھوڑی بہت کوشش گاؤں والوں نے بھی کی. مگر نجانے زمین کھا گئ یا آسمان نگل گیا، جلال کا کوئی پتہ نہیں چلا. ماں بھی تھوڑا بہت روئی دھوئی لیکن پھر صبر کر کے بیٹھ گئ. سوچتی تھی اچھا ہی ہوا کہ کہیں چلا گیا. یوں بھی گاؤں میں اسکی زندگی اجیرن تھی
میں ایک مصنف ضرور ہوں مگر یقین مانئے کہ کہانی کے پلاٹ پر میرا کم ہی قابو ہوتا ہے. کردار خود ہی کہانی کو کہیں کا کہیں لے جاتے ہیں. لیکن مصنف ہونے کا ایک فائدہ ضرور ہے. وہ یہ کہ میں بہت سی ایسی باتیں جانتا ہوں جو کہانی کے باقی کردار نہیں جانتے. جیسا کہ مجھے یہ معلوم ہے کہ جلال کہاں تھا
اس دن، رضیہ اور اس کی ظالم ہمجولیوں کے ہاتھوں پٹائی کے بعد جلال کو یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اس کی زندگی میں صرف محرومیاں ہی لکھی تھیں. گاؤں سے اس کا دل اٹھ چکا تھا مگر رضیہ سے محبت ابھی بھی باقی تھی. اس کو یقین تھا کہ رضیہ کے دل میں کہیں نا کہیں اس کیلئے، تھوڑی بہت پسندیدگی ضرور موجود تھی
تھوڑی دیر رونے دھونے کے بعد اٹھا. منہ ہاتھ دھویا. چپکے سے اپنے گھر میں داخل ہوا. ابا اماں سے نظر بچا کر کہاں پیسے چھپا کر رکھتا تھا، اس کو اچھی طرح معلوم تھا. پیسے نکالے، نیفے میں اڑسے اور نکل پڑا
گاؤں سے شہر کیلئے آخری گاڑی نکلنے ہی والی تھی. وہ اس میں بیٹھ گیا اور شہر پہنچ گیا. اڈے کے سامنے ہی سرکس لگا ہوا تھا. جلال کی تو باچھیں کھل گیئں. سرکس کا بچپن سے بہت شوقین تھا. آؤ دیکھا نا تاؤ، ٹکٹ خریدا اور گھس گیا تمبو میں. جانوروں کے کرتبوں میں، جوکروں کی مستیوں میں اور بھانت بھانت کے لوگوں میں وہ بہت جلد اپنا غم بھول گیا
کیا نام ہے تمہارا بیٹے؟’ کسی نے اچانک بہت پیار سے جلال کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا تو اس نے چونک کر پوچھنے والے کی طرف دیکھا
ایک سفید بالوں اور برف سی سفید داڑھی مونچھوں والے بابا جی کھڑے شفقت سے مسکرا رہے تھے. اجلا سفید کرتا پاجامہ پہنے تھے اور دلچسپ بات یہ تھی کہ ان کا قد جلال سے بس کچھ ہی انچ لمبا تھا
.جی میں نظر بٹو ہوں.’ جلال نے جھینپتے ہوئے جواب دیا’
.ناں! ناں! بیٹے. ایسے نہیں کہتے. تمھیں کس نے کہا کہ تم نظر بٹو ہو؟ بابا جی نے کندھا تھپکتے ہوئے پوچھا’
وہ تو جی، جب سب کہتے تھے تو میں نہیں مانتا تھا لیکن جب ماں نے بھی یہی کہنا شروع کر دیا تو ماننا پڑا. اب ماں تو جھوٹ نہیں بولتی نا جی؟’ جلال نے معصومیت سے جواب میں پوچھا
.ہاں! یہ تو ہے. مائیں جھوٹ نہیں بولتیں.’ بابا جی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا’
لیکن ایسا ہے نا برخودار کہ مائیں بھی انسان ہوتی ہیں. لہٰذا کبھی کبھی مجبور ہو کر وہ سب کچھ کہ جاتی ہیں جو کہ نہیں کہنا چاہئے
‘اچھا جی!’ جلال نے سعادت مندی سے سر ہلایا. ‘ویسے جی میرا نام جلال الدین ہے’
‘واہ! بہت اچھا نام ہے.’ بابا جی مسکرائے. ‘کوئی کام شام بھی کرتے ہو یا صرف سرکس ہی دیکھتے ہو؟’
وہ جی آج ہی گاؤں سے شہر آیا تھا. گاڑی سے اترا تو سرکس نظر آ گیا. بس یہاں آ گیا.’ جلال نے جواب دیا اور پھر کہنے لگا: مزدوری کے ارادے سے ہی شہر آیا تھا جی’
.مزدوری؟ ہاہاہاہا!’ بابا جی نے ایک قہقہہ لگایا تو جلال بیچارا شرمندہ سا ہوگیا’
‘ہم جیسے لوگ مزدوری نہیں کرتے بیٹے. ہم جیسے لوگ صرف دوسرے لوگوں کی تفریح و طبع کیلئے پیدا کئے گئے ہیں’
جلال کو یوں محسوس ہوا کہ یہ کہتے کہتے بابا جی کا لہجہ کچھ کڑوا سا ہوگیا تھا
.میں ہر کام کرنے کو تیّار ہوں جی. لوگوں کو ہنسانا بھی آتا ہے اور رلانا بھی.’ جلال نے پرجوش انداز میں کہا’
.ہنسانا تو سمجھ میں آتا ہے. یہ رلاتے کیسے ہو تم؟’ بابا جی نے حیرت سے پوچھا’
وہ جی گانا گاتا ہوں نا میں. غمگین گیت گاتا ہوں تو لوگ دکھی ہوجاتے ہیں.’ جلال کو یہ کہتے ہی رضیہ کی آنکھوں سے گرتے آنسو یاد آ گئے جو ساری غلط فہمی کی جڑ تھے اور وہ خود بھی دکھی سا ہوگیا
‘زبردست! تم تو بہت کام کے آدمی ہو. آؤ میرے ساتھ آ جاؤ’
بابا جی کا نام گگلو استاد تھا اور وہ اور ان کا پورا خاندان سرکس میں کام کرتا تھا. وہ خود بونے تھے مگر انکی بیوی نارمل قد کاٹھ کی تھی. پتہ نہیں وہ بے جوڑ شادی کیسے ہوئی تھی مگر ان کی اکلوتی لڑکی بھی بونے قد کی ہی تھی. گگلو استاد کی بیوی بھی جلال سے مل کر بہت خوش ہوئی اور اس کے ساتھ ایسے گھل مل گئ کہ جیسے وہ میلے میں بچھڑا بیٹا ہو
گگلو استاد نے سرکس کے مینیجر سے بات کر کے جلال کو بھی نوکری دلوا دی. نوکری کیا تھی، بس اسے سرکس کے مختلف کرتبوں کے درمیان تماشائیوں کا دل بہلانے کوگانے گانا تھا. جلد ہی جلال کی اچھی آواز سن کر اور اس کی پرفارمنس سے متاثر ہو کر مینیجر نے اس کی نوکری پکّی کر دی
جلال کو نوکری بھی مل گئ اور سرکس کے ماحول میں رونق میلہ بھی بہت تھا. پھر سیر و تفریح الگ. آج ایک شہر تو کل دوسرا. ایک ہفتے ایک قصبہ تو اگلے ہفتے دوسرا. لیکن گاؤں کے واقعات جلال کے دماغ سے نکلنے کا نام نہیں لیتے تھے. وہ کام کے بعد بس ایک طرف اداس بیٹھا دنیا دیکھتا رہتا تھا
.کیوں بھائی، یہ تم ہر وقت اداس اور غمگین کیوں بیٹھے رہتے ہو؟’ ایک دن گگلو استاد اس سے پوچھ ہی بیٹھا.’
سننے کو ہمدرد کان ملے تو جلال بلک پڑا. ساری کہانی تفصیل سے استاد کو سنا ڈالی
‘ہوں!’ کہانی سننے کے بعد استاد نے ایک گہرا سانس بھرا. ‘بہت ظلم ہوا ہے تم پر بیٹے. لیکن غلطی تمہاری بھی تھی’
‘جی میری غلطی؟’ جلال نے چونک کر پوچھا. ‘میری غلطی کیسے؟’
.دیکھو بیٹے!’ استاد نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر سمجھانے کی کوشش کی’
یہ عورتوں کو قد وغیرہ سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی. یہ صرف یہ دیکھتی ہیں کہ مرد ان کو کما کر کتنا کھلا سکتا ہے. اب مجھے ہی دیکھ لو. اپنے قد کو بیٹھا روتا رہتا تو نا شادی ہوتی نا نوکری کر سکتا. لیکن دیکھ لو، شادی بھی ہو گئ اور اچھے پیسے بھی کماتا ہوں
.تو کیا آپ کی بیوی نے کبھی آپ کے قد کی وجہ سے آپ کا مزاق نہیں اڑایا؟’ جلال نے حیرت سے پوچھا’
.لو بھلا، مزاق کیوں اڑاتی وہ؟’ گگلو استاد نے ہنستے ہوئے کہا’
اپنا بھلا برا اچھی طرح جانتی تھی. بہت کچھ سوچ سمجھ کر اس نے مجھ سے شادی کا فیصلہ کیا تھا. اور اب تک وہ کبھی اپنے فیصلے پر نہیں پچھتائ
تو پھر آپ کے کہنے کا یہ مطلب ہوا کہ اگر میں بہت سا پیسا کما لوں تو رضیہ مجھ سے شادی پر راضی ہوجائے گی؟ مجھ سے محبت کرنا شروع ہو جائے گی؟’ جلال نے سوچتے ہوئے پوچھا
.ہاں کیوں نہیں.’ استاد نے اٹھ کر کھڑے ہوتے ہوئے کہا’
‘اگر تم اس کو ایک روشن مستقبل کی ضمانت دے دو گے تو وہ ضرور تمہاری ہوجائے گی’
گگلو استاد تو یہ کہ کر چلا گیا لیکن جلال کے دل میں امید کی شمع روشن کر گیا. جلال کو یقین ہو چلا تھا کہ پیسہ کمانا ہی اس کے دل کے درد کا واحد حل تھا
گگلو استاد کی اکلوتی بیٹی کا نام عطیہ تھا. جلال سے کوئی پانچ یا چھ برس چھوٹی ہوگی. خوبصورت اتنی تھی کہ اس کے بے انتہاء چھوٹے قد کے باوجود، بے شمار قدر دان تھے. مگر لڑکی تھی بہت مختلف. اس کو عام لوگوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا. پھر وہ یہ بھی اچھی طرح جانتی تھی کہ نارمل مردوں کے نزدیک اس کی حیثیت، ایک خوبصورت کھلونے سے زیادہ نہیں تھی. وہ ان مردوں کے بھوکے ہاتھوں میں مٹی کا کھلونا بن کر، ٹوٹنا نہیں چاہتی تھی
عطیہ سرکس میں بازیگروں کے ساتھ کرتب دکھاتی تھی. ابھی جواں تھی تو جسم میں لوچ تھا. پھر چھوٹا قد ہونے کی وجہ سے وزن بھی تھوڑا تھا. اپنے کام میں بہت ماہر تھی. زمین سے بیسیوں فٹ اونچے تنے رسے پر چلتی ہوئی جب اچانک جھولے پر چھلانگ لگاتی تو کمزور دل لوگوں کی چیخیں ہی نکل جاتیں
عطیہ کا دل پہلے دن ہی سے جلال پر آ گیا تھا. اس کو جلال کی متورم اور خواب ناک آنکھیں اور اس کے بات کرنے کا انداز دیکھ کر ہی اس کی حساسیت کا اندازہ ہو گیا تھا. پتہ نہیں جلال کی شخصیت میں اس کے علاوہ اور کیا تھا کہ اس کو دیکھ کر رضیہ کا دل چاہتا تھا کہ وہ اپنی نرم انگلیوں سے، اس کے سیاہ گھنگریالے بالوں کو سلجھائے؛ اور کسی بھی طرح سے اس کے ٹوٹے دل کو جوڑ دے
جلال بچہ نہیں تھا کہ اس کو عطیہ کی آنکھوں میں جگمگاتے خواب نظر نا آتے. لیکن اس کی آنکھوں پر رضیہ کے عشق کی پٹی بندھی تھی. وہ اب بھی یہ سمجھتا تھا کہ رضیہ کے دل میں اس کے لئے کوئی نا کوئی نرم گوشہ ضرور تھا. اور یہ بھی کہ سہیلیوں کی موجودگی کی وجہ سے شاید رضیہ کا رویہ ٹھیک نہیں تھا. اتنی مار اور اتنی بے عزتی کسی اور کی ہوئی ہوتی تو وہ کب کا سبق سیکھ چکا ہوتا. لیکن جلال کا معاملہ کچھ الگ ہی تھا. دراصل رضیہ جلال کی کشتی کا پہلا کنارہ تھی. پہلے کنارے کو چھوڑنا ہمیشہ بہت مشکل ہوتا ہے. اور پھر استاد کی باتوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا
ان سب باتوں سے بےخبر عطیہ بیچاری بدستور جلال کی توجوہ مبذول کرنے کی کوشش کرتی رہتی تھی. اپنے آپ کو بناتی سنوارتی، اچھے کپڑے پہنتی. لیکن جلال تو گویا پتھر کا انسان تھا. اس کے چہرے پر ہر وقت ایک تلخی سی دوڑتی رہتی تھی. پھر اس کو دنیا کی ہر خوبصورت لڑکی کا رضیہ سے مقابلہ کرنے کی عادت تھی
رضیہ گاؤں کی تھی اور شکل و صورت کی بہت اچھی تھی مگر سادہ کپڑوں اور میک اپ سے عاری چہرے کی مالک تھی. اس کے مقابلے میں عطیہ ہر وقت بنی ٹھنی رہتی تھی اور سرکس کے مخصوص ماحول میں پلی بڑھی تھی. لہٰذا ساتھ کام کرنے والے بازی گروں کے ساتھ ہنسی ٹھٹھے کو برا نہیں سمجھتی تھی. مگر یہ سب جلال کو دیکھ کر بہت برا لگتا تھا. وہ عطیہ کو اچھے کردار کا مالک نہیں سمجھتا تھا
بہت دن تو عطیہ بہت صبر کے ساتھ جلال کو لبھانے کی کوشش کرتی رہی. اس کو یقین تھا کہ جس طرح گرتے پانی کی نرم بوندیں سخت سے سخت پتھر میں بھی سوراخ کر دیتی ہیں، ایک دن اس کی محبت بھی جلال کے دل کو نرم کر دے گی. لیکن پھر ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا
جلال کا شناختی کارڈ دیکھ کر عطیہ کو یہ پتہ چل چکا تھا کہ اس کی سالگرہ یکم دسمبر کو ہوتی تھی. اس محبت کی ماری نے ایک مہینے پہلے سے ہی پیسے بچانے شروع کر دئے تھے تاکہ جلال کو کوئی اچھا سا تحفہ دے سکے. حالانکہ اس کو بالکل بھی ایسے تماشائی اچھے نہیں لگتے تھے جن کی نظر تماشے سے زیادہ، اس کے جسم کی گولاءیوں پر ہوتی تھی. مگر مرتی کیا نا کرتی. مسکراتی رہی. ان جانوروں کے سامنے داد کیلئے جھکتی رہی اور پیسے اکٹھے کرتی رہتی. اس کوشش میں کوئی زیادہ ہی رنگین مزاج ہاتھ بھی لگا جاتا تو برداشت کر لیتی. آخر محبت قربانی مانگتی ہے
تماشائیوں سے داد میں ملا ایک ایک پیسہ جوڑ کر بیچاری نے، ایک ولایتی خوشبو کی خوبصورت سی بوتل خریدی، نرم ریشمی رومال میں رنگین ربن سے باندھی اور رات کو چپ کر کے ایک محبت بھرے خط کے ساتھ، جلال کے سرہانے رکھ دی
.عطیہ!’ جلال کی سرد آواز عطیہ کے کانوں سے ٹکرائی. وہ اپنے تمبو میں شام کے شو کیلئے میک اپ کر رہی تھی’
کیا ہے جلال؟’ اس نے بظاھر بے اعتنائی سے زلفیں سنوارتے ہوئے کہا لیکن اندر سے اس کا چھوٹا سا دل بلیوں کی طرح اچھل رہا تھا
یہ کیا بکواس ہے؟’ جلال نے غصے سے خوشبو کی شیشی عطیہ کے سامنے ڈریسنگ ٹیبل پر پھینکی تو وہ ٹوٹ گئ اور پورے تمبو میں تیز خوشبو پھیل گئ
.یہ کیا کیا جلال تو نے؟’ عطیہ نے زخمی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا’
کتنا بے درد ہے تو. میں نے کتنی محنت سے اپنی حق حلال کی کمائی جوڑ کر یہ تحفہ خریدنے کیلئے پیسے جمع کئے اور تو نے ظالم، اسے ایسے بے قدری سے پھینک کر توڑ دیا؟
.حق حلال کی کمائی؟’ جلال نے بے رحمی سے کہا’
تو بے شرم ہے عطیہ. اپنے جلوے بیچتی ہے تو. حسن فروخت کرتی ہے تو اپنا. اور میرے لئے تحفہ کیوں؟ میں تیرا کونسا خصم ہوں؟
تو کیسی باتیں کرتا ہے جلال؟ آخر تیرے دل میں میرے لئے تھوڑی سی بھی جگہ نہیں؟’ عطیہ نے بے قرار ہو کر پوچھا. اس کی خوبصورت آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو بھر آئے تھے
‘میرا دل؟’ جلال نے تمسخرانہ انداز میں کہا. ‘میرا دل تو رضیہ کا ہے’
.رضیہ کون؟’ عطیہ تو دل پکڑ کر بیٹھ گئ’
‘ہے ایک. تجھے اس سے کیا؟’
‘میرے تیرے جیسی ہے؟’ عطیہ نے کچھ سوچ کر پوچھا. ‘یا پھر نارمل ہے؟’
.اونچی لمبی اور گوری چٹی ہے وہ. بونی نہیں ہے.’ جلال نے فخر سے کہا
.تو پھر وہ تجھے بھلا کیوں کر ملے گی؟’ عطیہ نے حیرت سے پوچھا’
.کیوں نہیں ملے گی؟’ جلال نے غصے سے جواب دیا’
‘ملے گی اورضرور ملے گی. بس چار پیسے میرے ہاتھ میں آجایئں گے تو وہ انکار نہیں کر سکے گی’
.میری بات غور سے سن جلال.’ عطیہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی’
رضیہ جیسی لڑکیوں کے نزدیک، ہم جیسے لوگ انسان نہیں ہوتے. وہ کبھی تجھ سے شادی نہیں کرے گی. تو مجھ سے شادی کر لے. میں تجھے بہت پیار دوں گی
تو اس کے پاؤں کی مٹی بھی نہیں. وہ شرم و حیاء کی پیکر ہے اور تو فاحشہ اور بے حیاء. بہتر یہی ہے کہ تو اپنی ناپاک زبان سے اس کا نام نا لے
سخت الفاظ کی بے رحم بارش برسا کر، جلال تو عطیہ کے تمبو سے نکل گیا لیکن اس غریب کی آرزویئں، تاش کے پتوں سے بنے محل کی طرح، ایک ہی لمحے میں ڈھیر ہوگیئں. اس کا دل کتنا حساس تھا، خود اس کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا
شام کے شو میں عطیہ کا آئٹم شروع ہونے سے کچھ لمحے پہلے ہی، جلال سرکس کے تمبو سے باہر نکل آیا. وہ عطیہ کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا تھا. وہ چلتا ہوا اپنے تمبو میں داخل ہوا تو بستر کے سرہانے ایک چھوٹی سی کپڑے کی پوٹلی نظر آئ. اس نے حیرت سے پوٹلی کھولی تو وہ زیورات سے بھری ہوئی تھی. اوپر ہی ایک پرچی لکھی پڑی تھی. اس پر لکھا تھا
‘تمھارے لئے، بہت پیار اور خلوص کے ساتھ. جاؤ رضیہ کو اپنا لو. فقط عطیہ’
ابھی جلال زیورات اور پرچی پکڑے کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک سرکس کے تمبو کی طرف سے غیر معمولی شورو غل کی آواز بلند ہوئی. وہ گھبرا کر باہر نکلا تو دیکھا لوگوں کا غول تمبو سے باہر نکل رہا تھا. ہر آدمی کی زبان پر مختلف باتیں تھی
‘لڑکی رسے سے گر کر مر گئ’
‘لڑکی بیچاری پھسل گئ’
‘لڑکی نے خود کشی کر لی’
جلال تیزی سے لوگوں کو دھکیلتا تمبو کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ بہت سے لوگ پنڈال کے بیچ میں اکٹھے ہوئے تھے. بہت کوشش کرنے کے بعد وہ بھی ان کے درمیان سے ہوتا ہوا بیچ میں پہنچ گیا. دیکھا تو زمین پر عطیہ کی تڑی مڑی لاش پڑی تھی اور باچھوں سے خون نکل کر سینے پر پھیل رہا تھا
صبح فجر کے فوری بعد عطیہ کا جنازہ پڑھا کر دفنا دیا گیا. عطیہ پھسل کر گری یا اس نے خود کشی کر لی، کوئی نہیں جانتا تھا. مگر جلال کو حقیقت اچھی طرح معلوم تھی. عطیہ کی ماں بین کر رہی تھی اور گگلو استاد بھی ایک طرف، سرکس کے باقی لوگوں کے درمیان بیٹھا آنسو بہا رہا تھا. جلال کچھ دیر خاموشی سے کھڑا ان کو دیکھتا رہا. پھر وہ اپنے خیمے میں گیا، زیورات کی پوٹلی اٹھائی اور جا کر گگلو استاد کے قدموں میں رکھ دی. اس سے پہلے کے استاد اس سے کچھ پوچھتا، جلال تیز تیز قدم اٹھاتا سرکس کے میدان سے نکل گیا
وہ بہت پریشان تھا. اس کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر عطیہ نے خود کشی کیوں کی. بیوقوف کو یہ نہیں پتہ تھا کہ عطیہ نے بالکل اسی وجہ سے خود کشی کی تھی، جس وجہ سے جلال نے گاؤں چھوڑا تھا. فرق صرف اتنا تھا کہ دل ٹوٹنے پر جلال نے صرف گاؤں چھوڑا تھا لیکن عطیہ نے تو دنیا ہی چھوڑ دی. دل دل کی بات ہوتی ہے. کچھ دل ٹوٹنے کا صدمہ برداشت کر لیتے ہیں، کچھ نہیں کرتے
جب اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو جلا ل نے واپس گاؤں جانے کا فیصلہ کیا. کچھ تو ماں کی یاد ستا رہی تھی اور کچھ رضیہ کو ملنے کی خواہش تھی. تھوڑے بہت پیسے تو جمع ہو ہی چکے تھے. سوچتا تھا کہ وہ پیسے رضیہ کو دے گا اور مزید کا وعدہ کر کے پھر شہر آ جائے گا
ویگن گاؤں کے باہر رکی تو ظہر کی اذان ختم ہو رہی تھی. جلال ویگن سے اترا اور تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا گھر کی جانب چل پڑا. گلی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ گھر کے باہر خوب رونق تھی. قناتیں لگی ہوئی تھیں اور دریاں بچھی پڑی تھیں. پورا گاؤں زرق برق کپڑے پہنے اکٹھا ہوا تھا اور ایک طرف سفید وردیاں پہنے بینڈ والے بھی کھڑے دھوپ تاپ رہے تھے
جلال کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ سب کیا ہو رہا تھا. اس کو دیکھ کر کچھ لوگ چونکے اور اس کو آواز دے کر بلایا مگر وہ سنی ان سنی کر کے گھر میں داخل ہوگیا
.ماں صدقے! آ گیا میرا نظر بٹو.’ ماں نے دیکھتے ہی بازو پھیلا دئے’
.اماں!’ جلال اور کچھ نہیں بول سکا اور متورم آنکھوں کے ساتھ دوڑ کر ماں کی گود میں ننھے بچے کی طرح سمٹ گیا’
.مجھے پتہ تھا تو ضرور آئے گا مگر تیرا باپ نہیں مانتا تھا.’ ماں نے اس کے بال سہلاتے ہوئے کہا’
‘اسی لئے میں نے تیرے لئے سنہری اطلس کی شیروانی سلوا کر رکھ لی تھی’
‘شیروانی؟’ جلال نے حیرت سے سر اٹھا کر ماں کی طرف دیکھا. ‘شیروانی کس لئے اماں؟’
.شہ بالا ہیں نا تو جمال کا.’ ماں نے مسکرا کر جواب دیا
‘جمال کی شادی ہو رہی ہے؟’ جلال کا دل کسی ان دیکھے اندیشے سے دہل سا گیا. ‘کس سے ہورہی ہے شادی اس کی؟’
.رفیق کریانے والے کی بیٹی رضیہ سے. تجھے تو پتہ ہی ہوگا نا بھائی کی محبت کا.’ ماں نے ہنستے ہوئے جواب دیا’
جلال کے کانوں میں تو سیٹیاں سی بجنا شروع ہوگیئں اور وہ لمحوں میں زندہ لاش بن کر رہ گیا. کب، کس نے اور کس طرح اس کو شیروانی پہنائی؟ کب اس کو جمال کے آگے بچوں کی طرح گھوڑی پر بٹھایا گیا؟ ہوش آیا تو تب جب بارات رضیہ کے گھر کے دروازے پر پہنچ کر رک چکی تھی. دولہا اور شے بالے کو گھوڑی سے اتارا گیا تو کب اور کیسے لوگوں کے درمیان سے جلال غائب ہوگیا، کسی کو خبر نہیں ہوئی
بارات کے پہنچنے کی گہما گہمی، نکاح کے چھوہاروں کی تقسیم میں لڑائی اور کھانے کے شورو غل میں کسی کو جلال کا خیال ہی نہیں آیا. کھانے کے بعد سب مل کر بیٹھے تو ماسٹر صاحب کو جلال کا خیال آیا. بہت ڈھونڈا پر نہیں ملا. تنگ آ کر بھولے مراثی نے ہی گانا گانا شروع کر دیا
اچانک ماسٹر صاحب کے کان میں کوئی عجیب سی آواز پڑی. انہوں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو چہرے کا رنگ اڑ گیا
.چپ ہو جاؤ سارے. میں نے کہا چپ ہو جاؤ.’ ماسٹر نے پہلے آرام سے اور پھر چیخ کر کہا
شادی کے پنڈال میں سناٹا طاری ہوگیا. سب کان لگا کر سننے لگے. بہت ہی عجیب سی بات تھی. ابھی عصر کا وقت نہیں ہوا تھا لیکن کتوں کے رونے کی آواز آ رہی تھی
.توبہ! توبہ!’ ماسٹر جی نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا’
‘ایسا کبھی دیکھا نا سنا. کیسی نحوست بھری آواز ہے. بھلا بھری دوپہر میں کتے کہاں روتے ہیں’
واقعہ کچھ ایسا عجیب تھا کہ سب لوگ شادی کی مصروفیت بھول کر باہر نکل گئے کہ کتوں کے رونے کی وجہ تلاش کر سکیں. کتوں کی آواز گاؤں کے باہر سے ٹیوب ویل کی طرف سے آ رہی تھی لہٰذا مجمع اسی طرف چل پڑا. گاؤں سے باہر نکلے تو دیکھا کہ دور میدان میں، ٹیوب ویل کے ساتھ، بوڑھے برگد کے نیچے کتوں کا ایک غول بیٹھا تھا اور سر اوپر اٹھا کر با جماعت رو رہا تھا
لوگ کچھ اور قریب پہنچے تو دیکھا برگد کی ایک شاخ سے جلال کا بےجان لاشہ جھول رہا تھا
‘چک! چک!’ ماسٹر صاحب نے تاسف سے سر ہلایا. ‘لگتا ہے بیچارے نظر بٹو نے خود کشی کر لی’
.نہیں!’ مجمع میں سے مولوی صاحب کی آواز بلند ہوئی’
‘خود کشی نہیں کی ہے. جلال الدین کو بس خدا سے ملاقات کی اور اس سے کچھ پوچھنے کی جلدی تھی’
.خدا سے ملاقات؟’ ماسٹر صاحب نے حیرت سے مولوی صاحب کی طرف دیکھا’
‘کیا پوچھنا چاہتا تھا جلال خدا سے؟’
‘یہی کہ اگر خدا جلال سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا تھا تو اس کو نظر بٹو بنا کر کیوں پیدا کیا؟’