زندگی کے پیچیدہ اور کانٹوں بھرے راستوں پر مسلسل سفر کرتے، عینی کے لہو لہان پیر کب کے تھک چکے تھے. کچی قبرکی تہہ میں رکھا، سفید کفن میں لپٹا اسکا نازک وجود، اس تکان کی گواہی دے رہا تھا. گورکن نے سیمنٹ کی پہلی سلیب اٹھائی ہی تھی، کے میں نے اسے روک دیا. بغل میں دبائی سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والی گڑیا نکالی اور نیچے اتر کر عینی کے پہلو میں احتیاط کے ساتھ، رکھ دی
خدا حافظ عینی!’ میں نے اس کے پھول سے وجود کو بھاری دل کے ساتھ الوداع کہا اور کفن کے اوپر سے ہی، اس کی پیشانی چوم لی

Brought tears … Its worthy of making into a drama.
LikeLiked by 1 person
Thank you. It’s strange but I really don’t know what made me write this particular story. Was never really satisfied with what I had written too.
LikeLike
اچھی کاوش، کہانی سے زیادہ “کراچی کی شاموں اور باپ کی محبت ” کی یاد نے رُلایا- کیا ہی اچھا ہوتا اگر کہانی کاانجام مثبت
ہوتا۔ کم از کم ایک باپ کو بیٹی کی جدائی کا غم دوبارہ تو نہ سہنا پڑتا۔ زندگی میں کییا اچھے اتفاقات نہیں ہوتے ؟
LikeLiked by 1 person
G bilkul hote hain
LikeLike
I simply love your stories. Almighty Allah has blessed you with some power that brings tears in eyes while reading your stories….relationships best expressed in your writings
LikeLiked by 1 person
I am so grateful for your kindness
LikeLike