عشق پاء

گڑھی شاہو کے نہایت مصروف مرکزی بازار میں ایک مجمع اکٹھا تھا. ‘مارو!…اور مارو!’ کی صدایئں بلند ہورہی تھیں. مجمعے کے عین درمیان، سلیم کھڑا نہایت صبر اور معصومیت سے پٹ رہا تھا؛ اور قریب کھڑی کالے برقعوں میں ملبوس دو نوجوان لڑکیاں، لوگوں کو اور مارنے پر اکسا رہی تھیں

.آخر ہوا کیا؟ کیوں مار رہے ہو لڑکے کو؟’ ایک چسکے کی ماری موٹی تازی عورت نے آگے بڑھ کر لڑکیوں سے پوچھا’

کوئی بہت انتہاء کا بےشرم سیلزمین ہے. جوتیاں ٹرائی کراتے کراتے کہنے لگا……باجی! آپ کے پاؤں بیحد خوبصورت اور دلکش ہیں. اگر اپنے پاؤں کو ایک دفعہ چومنے کی اجازت دیں تو بیشک مفت میں جوتی کا جوڑا لے جایئں.’ ایک برقعہ پوش لڑکی نے ہاتھ لہرا کر بتایا


Read more: عشق پاء

اس دن سلیم کو پہلی دفعہ ایسی حرکتیں کرنے پر مار نہیں پڑی تھی. بیچارے نے جہاں جہاں بھی نوکری کی، نسوانی پیروں کے عشق میں کی تھی اور ہر جگہ اپنے فیٹش کے ہاتھوں ذلیل ہوا تھا

پہلے ایک دربار پر جوتیوں کی نگرانی کا کام کرتا تھا. زائرین میں سے کسی عورت کے پاؤں بہت پیار سے سہلانے پر مار پڑی تو اٹھ کر ہیرا منڈی میں گھنگرو بنانے بیٹھ گیا. وہاں پر ایک رنڈی کے پیروں سے لگ کر بیٹھنے پر ذلیل کر کے نکالا گیا تو عیدالفطر پر خواتین کو مہندی لگانے کا کام پکڑ لیا. پہلے بدصورت پیروں کو  مہندی لگانے سے انکار پر مسلسل ڈانٹ کھاتا رہا. پھر کسی تھانیدار کی رشتےدار عورت کے نازک پیروں پر عاشق ہوگیا. اتنی مار پڑی کہ ہسپتال داخل ہونا پڑا. وہاں سے نکلا تو گڑھی شاہو میں ایک گرگابیوں کی چھوٹی سی دوکان پر سیلزمین بھرتی ہوگیا


یہ دنیا بہت عجیب جگہ ہے. ہر انسان کا متضاد جںس کیلئے جنون یا فیٹش الگ ہے. کسی کو چہروں سے لگاؤ ہوتا ہے. کسی کو جسموں سے. کسی کو پتلے دبلے لوگ متوجوہ کرتے ہیں تو کسی کو موٹے اور صحت مند لوگوں میں کشش نظر آتی ہے.انسانی نفسیات میں جنون یا فیٹش کا موجود ہونا کوئی عجیب بات نہیں لیکن یہ امر واقعی غور طلب ہے کہ ہر انسان کو دوسرے کا فیٹش بیماری نظر آتا ہے

خیر میں کہ رہا تھا کہ اس دنیا میں ہر انسان کا فیٹش الگ ہوتا ہے. لیکن سلیم کا فیٹش بہت انوکھا تھا. اس کو بہت بچپن سے ہی صرف نسوانی پیروں سے لگاؤ تھا. گورے چٹے اور نازک گلابی پاؤں اسکی جان کھینچ لیتے تھے. ایسا کیوں تھا؟ خیر اس کا جواب تو سلیم کی تحلیل نفسی کے بعد ہی دیا جا سکتا تھا

محلے کی عورتیں اور بہنوں کی سہیلیاں، سب سلیم کو بہت ہی شریف لڑکا سمجھتیں تھیں. نظریں جو ہمیشہ جھکی رہتی تھیں اس کی. اب ان کو یہ کیسے پتہ چلتا کہ سلیم کی عاشق نظریں مسلسل ان کے پیروں کا طواف کر رہی ہوتی تھیں. پھر وہ احتیاط بھی بہت کرتا تھا. دونوں بہنوں کی شادی کی عمر ہو چکی تھی. اچھی طرح جانتا تھا کہ اس کے کسی بھی غلط عمل کا سیدھا اثر ان کے مستقبل پر ہوسکتا تھا


اس دن بازار میں مار تو بہت پڑی لیکن خوش قسمتی سے چہرہ بچ گیا. باقی درد برداشت کرنے کا مادہ بہت تھا لہٰذا ماں اور بہنیں، کسی کو بھی پتہ نہیں چلا

بدقسمتی یہ ہوئی کہ جس دوکان پر سیلزمین کی نوکری کرتا تھا، اس کا مالک سلیم کے ماموں کا جگری یار تھا. ایک دن دوستوں کی ملاقات ہوئی تو چسکہ لے لے کر اور مرچ مسالہ لگا کر سارا قصہ رپورٹ ہوگیا. اب ماموں ٹھہرے پرانی وضع کے آدمی. ان کو سلیم کے اصل مسلے کی تو سمجھ نہیں آ سکی. بس یہ نتیجہ نکالا کہ لڑکا جوان ہوچکا تھا

گھر میں غربت نہیں تھی. باپ کی چھوڑی دو چار جائیدادوں سے کرایہ باقائدگی کے ساتھ آتا تھا. نوکری تو سلیم اپنے فیٹش کے پیچھے کرتا تھا. ماموں نے ماں سے بات کی اور دیکھتے ہی دیکھتے ماں نے اپنی کسی سہیلی کی بیٹی سے رشتہ پکا کر کے شادی کی تاریخ مقرر کر دی

سلیم کو لڑکی دکھانے یا اس کی خواہش پوچھنے کا تکلف بھی نہیں کیا گیا. بازار میں پڑی مار پر شرمندگی کی وجہ سے سلیم بھی احتجاج نہیں کر سکا

پھر دونوں بہنوں نے مل کر لڑکی کے حسن کے اتنے قصیدے پڑھے کہ سلیم کا دل بھی مچلنے لگا. لڑکی کشمیری ذات کی تھی اور بہنوں کے مطابق، اتنی گوری چٹی تھی کہ انگلی لگانے سے میلی ہوتی تھی


خدا خدا کر کہ شادی کا دن بھی آ گیا. بارات لڑکی کو لیکر واپس پہنچی تو ہر دیکھنے اور ملنے والیوں نے دلہن کو دیکھ کر دانتوں میں انگلیاں داب لیں. سلیم کی ماں نے واقعی چن کر بہو کا انتخاب کیا تھا

سلیم نے بھی آئینے میں دلہن کی ایک جھلک ہی دیکھی تو دل تھام کر رہ گیا. اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے نصیب میں کبھی ایسی حور پری بھی آ سکتی تھی

ماں نے بھی سلیم کے چہرے پر شرمیلی سی مسکراہٹ ناچتے دیکھی تو سکھ کا سانس لیا. جلدی جلدی عورتوں کو رخصت کیا اور دونوں بہنوں کے ساتھ مل کر بہو کو تیسری منزل پر تیار کی گئ اور سجائی گئ خواب گاہ میں لے گئ

سلیم نے بھی دوستوں سے پیچھا چھڑوایا اور ماں کی دعایئں لے کر جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ گیا. بس وہ آخری دفعہ تھا کہ جب ماں نے بیٹے کو جیتا جاگتا دیکھا. اس کے ٹھیک دس منٹ کے بعد سلیم نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہرگلی میں کود کر خودکشی کر لی


ارے میں تو پری سمجھ کے لائ تھی مگر یہ تو چڑیل نکلی. کلیجہ چبا گئ میرے بیٹے کا. بلاؤ پولیس کو اور اس ڈائن کو حوالے کرو ان کے.’ سلیم کی ماں نے بیٹے کی میت پر بین کرتے ہوئے کہا

نئی نویلی دلھن ایک کونے میں سکتے میں سر جھکائے بیٹھی تھی. کاجل آنکھوں سے بہ کر گورے گال کالا کر رہا تھا اور دوپٹے کا کوئی ہوش نہیں تھا

مجھے لڑکی سے تو پوچھنے دو کہ آخر معاملہ کیا ہوا؟ اچھا بھلا خوش باش تھا. پھر یوں کھڑکی سے کیوں چھلانگ لگا دی؟’ سلیم کے مامؤں نے کہا اور پھر لڑکی کے پاس جا کر پوچھا

‘ہاں بیٹی! تم بتاؤ کیا ہوا تھا؟’

مگر دلھن کچھ نہیں بولی. بس چپ چاپ بیٹھی اپنے لمبے سرخ ناخنوں سے، سیاہی مائل پیروں سے خشکی کا کھرنڈ کھرچتی رہی

#Urdu #fiction #story #fetish #footfetish #psychology #personality #insult #suicide #man #woman #psychoanalysis  

2 thoughts on “عشق پاء

Leave a reply to Shehryar Khawar Cancel reply